ذوالفقار علی بھٹو جمہوریت کا استعارہ

کچھ تو ان کی شخصیت میں کوئی مقناطیسی سحر، کوئی کشش تھی جو بھی ان سے ملتا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا

کچھ تو ان کی شخصیت میں کوئی مقناطیسی سحر، کوئی کشش تھی جو بھی ان سے ملتا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، بھول نہیں پاتا۔ دنیا کی نامی گرامی عالمی شخصیات ان کی گرویدہ تھیں، وہ اپنی بے مثال ذہانت سے سب کو لاجواب کرنے کے ہنر سے واقف تھے، ہزاروں کے مجمع میں اپنی بات کہنے اور منوانے کا فن جانتے تھے، کسی اور کی لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کی انھیں کبھی ضرورت نہیں ہوئی۔ دنیا میں ایسے گنتی کے لیڈروں میں اس کا شمار تھا جو دلوں میں بستے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں جس جمہوری سیاسی لیڈر کو سب سے زیادہ شہرت و عزت اور پذیرائی حاصل ہوئی وہ بلاشبہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے، جو ہمیشہ پاکستان کی سیاست میں جمہوری استعارے کی حیثیت میں یاد رکھے جائیں گے۔

5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں انھوں نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں غربت و آلام کا پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔ دنیا کے بہترین کالجوں و یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، کتابوں کے شوقین تھے، بہترین کتابیں ان کے زیر مطالعہ رہیں۔ ذاتی زندگی میں نظم وضبط کے پابند تھے، جس بات کی ٹھان لیتے وہ کر گزرتے۔ اوائل زندگی میں وکالت کا پیشہ اپنایا، خاندان کے کئی لوگوں کی مخالفت کے باوجود نصرت صبونچی سے 8 ستمبر 1951 میں شادی کرلی تھی۔

یہ ان کی دوسری شادی تھی، ان کے چار بچے ہوئے، دو بیٹے اور دو بیٹیاں، جن میں ان کی واحد نشانی صنم بھٹو کی صورت میں زندہ ہیں۔ دولت کی ریل پیل، اعلیٰ تعلیم وتربیت اور بہترین معیار زندگی و روشن مستقبل کے ساتھ زندگی بسر کرتے تو ایک لمبی عمر پاتے، لیکن انھوں نے اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اپنے آس پاس پھیلی غربت، ناانصافی، جہالت، دکھ اور بیماری کی دیواریں دیکھیں، تو وہ ان دو انتہائوں کے فرق کو برداشت نہ کرپائے، انھوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سیاست کے خار زار پر قدم رکھا۔

وہ سرحد، بلوچستان، پنجاب اور سندھ کے دور افتادہ علاقوں تک گئے، جہاں کوئی سیاست داں آج بھی نہ پہنچ سکا ہے، عوام کی وارفتگی اور ان کی محبوبیت نے ذوالفقار علی بھٹو کو خواص کے دل فریب حصار کے بجائے عوام کی محبتوں کے حصار میں محفوظ کردیا۔ انھوں نے غریب عوام کو خواب دکھایا کہ ان کے بچے بھی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، ان کا بھی حق ہے کہ علاج کے لیے بہتر سہولتیں انھیں دستیاب ہوں، ان کے تن پر اچھے کپڑے ہوں، اردگرد پھیلی بے بسی خوشحالی بن کر ابھرے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مشہور زمانہ نعرہ 'روٹی، کپڑا اور مکان' نے انھیں اقتدار کی مسند پر بٹھایا۔ پاکستان کے غریب عوام نے انھیں اپنا نجات دہندہ جانا۔ بھٹو نے جس طرح اپنی تقریروں میں عوام کو سنہرے مستقبل کی نوید سنائی تھی، اس کا عملی مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔

ابھی برسر اقتدار ہوئے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا کہ 5 جولائی 1977 کو ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے عوام کی حکومت پر شب خون مارا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پابند سلاسل کردیا۔ ان پر جھوٹا مقدمہ چلایا گیا۔ بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور حکومتی خواہشات کے عین مطابق فیصلہ دے دیا گیا۔ پنجاب کے راولپنڈی جیل میں 4 اپریل 1989 کی درمیانی شب جس کی نحوست سے پاکستانی سیاست آج تک نہیں نکل پائی، نمود سحر سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ اس وقت ان کی عمر محض 51 برس تھی۔


راویان بتاتے ہیں کہ بھٹو نے اپنی کال کوٹھری سے پھانسی گھاٹ تک کا سفر انتہائی سکون اور برداشت سے طے کیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ مضروب تھے، انھیں ضربات اور جسمانی اذیتیں دی گئی تھیں۔ کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ سچ اور سولی کے درمیاں گہرا رشتہ صدیوں سے چلا آرہا ہے، اس کے اجزائے ترکیبی میں زہر کا پیالہ، لکڑی کی صلیب اور پھانسی گھاٹ وہ حقیقتیں ہیں جو تاریخ کے ہر دور میں ان لوگوں کا مقدر بنتی ہیں جنھوں نے حق کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا، بنا کسی لالچ و خودغرضی اور ذاتی مفاد کے دنیا کو خوبصورت اور امن کا گہوارہ بنانے کے خواب دیکھے، تو ایسے لوگو ں کو غدار، جنونی اور پاگل قرار دیا گیا۔

ان کا قصور تھا کہ انھوں نے حق کا دامن نہ چھوڑا۔ پاکستان کی 68 سالہ سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو واحد سیاسی لیڈر ہیں جنھوں نے بنا کوئی ڈیل کیے سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پینا پسند کیا اور عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ عوام آج بھی اپنے لیڈر کی شخصیت میں سچائی کی خوشبو محسوس کرتے ہیں، ان کا لیڈر مر تو سکتا ہے مگر اپنے عوام سے غداری نہیں کرسکتا۔

ذوالفقار علی بھٹو اس دور حکومت میں ہم سب کو اس لیے بھی زیادہ یاد آتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں جس پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی وہ آج سندھ میں برسر اقتدار ہے۔ بھٹو سے زندگی نے وفا نہ کی، مگر ان کے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری کرنے والی موجودہ پارٹی نے ان کے نعرے 'روٹی، کپڑا اور مکان' کو الیکشن میں خوب استعمال کیا۔ برسر اقتدار ہونے کے بعد یہ نعرہ ہی رہا، غریب عوام، غریب ہی رہے، جو کھلے آسمان تلے رہتا تھا اس کا سر اسی طرح بے سایہ ہی رہا، جس کو تن پر کپڑا میسر نہ تھا، وہ بدستور ننگا ہی رہا، جو بھوکے پیٹ سونے پر مجبور تھا، وہ اسی طرح سونے پر مجبور ہے۔

ہاں! البتہ بھٹو کے جانے کے بعد ان کے نعرے نے ان کی پارٹی کے سیاست دانوں پر کامیابی کے دروازے کھول دیے، انھیں عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کا فن آگیا، سو بھٹو کے بعد جو بھی سیاست داں آیا، اس نے عوام کو 'ووٹ دو، خواب لو' کے مصداق خوب استعمال کیا، مگر 'روٹی،کپڑا اور مکان' ہر دور کی طرح آج بھی عوام کی پہنچ سے دور ہے۔ آج بھی عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔

تھرپارکر کے قحط زدہ لوگوں کی مفلوک الحالی کے واقعات ہم سب کے سامنے ہیں۔ پیپلز پارٹی ہر وہ کام کر گزرنا چاہتی ہے، جس سے عوام میں اس کے خلاف نفرت اور اشتعال بڑھتا جائے، اس کی درجنوں مثالیں اس کے دور حکومت میں منظرعام پر آتی رہی ہیں، پیپلزپارٹی کی حکومت برسر اقتدار آنے سے ہمیں کوئی آئیڈیل حکومت کی توقع نہ تھی لیکن اتنی امید ضرور تھی کہ ایک جمہوری پارٹی ہونے کے ناتے اسے عوام کے دکھ درد کا اندازہ ہوگا کہ ان کا لیڈر جو جمہوریت کے لیے ایک استعارہ ہے، کچھ تو اس کے نقش قدم کو اپنائیں گے، اس کو یاد رکھیں گے۔

لگتا ہے جس رات جمہوریت کا تختہ الٹا گیا، عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار حکومت پر شب خون مارا گیا، بھٹو کو زیرحراست زندان میں ڈال دیا گیا، اس رات تیز ہوائوں کے ساتھ بارش بھی نوحہ کناں رہی۔ دور کہیں لیاری میں نسیم بلوچ کے وسیع و عریض ہال نما ڈرائنگ روم میں لگی بھٹو کی قد آدم پینٹنگ گرگئی تھی، اس کے شیشے پورے فرش پر بکھر گئے، ان بکھرے شیشوں کے ساتھ بھٹو کا وہ خواب، جو انھوں نے 'روٹی، کپڑا اور مکان' کی صورت عوام کو دکھایا تھا، خواب بن کر ہمیشہ کے لیے بکھرگیا۔
Load Next Story