دوستوں کو پہچانو دشمنوں کو پہچانو
ہندوستان میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ ہوا، ہندوستان نے پاکستان کو ملوث قرار دیا
بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کا جاسوس ''کل بھوشن یادیو'' (پاکستان میں داخلے اور خفیہ کام کرنے والا نام ''حسین مبارک پٹیل'') کا بیان دنیا بھر میں سنا گیا، اس کی ویڈیو فلم دکھائی گئی، جس میں بھوشن صاحب بڑے اطمینان سے بھاشن دیتے نظر آرہے ہیں۔ اس کا چہرہ پرسکون ہے اور وہ پاکستان میں قتل و غارت گری، تباہی و بربادی کے ان واقعات کا ذکر کررہا ہے کہ جو ہوچکے اور اپنے آئندہ منصوبوں کے بارے میں بھی بتارہا ہے کہ ''اب راہداری نشانہ تھی'' بھوشن بولے چلا جارہا تھا ''را بلوچستان میں بڑی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کررہی ہے، بندرگاہوں کو بھی نشانہ بنانا تھا۔ بلوچ لبریشن سے ''را'' پوری طرح جڑی ہوئی ہے، میں جوائنٹ سیکریٹری انیل گپتا کے ماتحت حاضر سروس ملازم ہوں''۔
ہندوستان میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ ہوا، ہندوستان نے پاکستان کو ملوث قرار دیا۔ ہندوستان نے ٹیلی فون، موبائل فون نمبر دیے جن پر کالز کی گئی، پاکستان نے فراہم کردہ معلومات کے مطابق کارروائی کی اور متعدد گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ پاکستانی وفد ہندوستان گیا، پٹھان کوٹ ایئربیس کا دورہ کیا، حکومت ہند نے جتنا ایئر بیس دکھانا تھا دکھا دیا، پاکستانی وفد کو گھما دیا۔
ادھر اور بھی خبریں آرہی ہیں کہ بھوشن یادیو کے دو ساتھی ایران میں انڈین سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ہندوستان کسی طرح انھیں ایران سے کسی تیسرے ملک میں پہنچانا چاہتا ہے، ایران اس صورت حال سے کیسے نمٹے گا، یہ سوال بظاہر تو صاف نظر آرہا ہے، پاکستان کے پڑوسیوں سے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ ایران کی زمین بھوشن یادیو استعمال کررہا تھا، افغانستان نے بھی اپنی زمین ہندوستان کے سپرد کی ہوئی ہے، وہاں موجود ہندوستانی سفارت خانہ خفیہ ایجنسی ''را'' کا ٹھکانہ بنا ہوا ہے، ہندوستان سے ہمارے تنازعات چل رہے ہیں۔
روس سے بھی ہمارے تعلقات رسمی ہیں۔ اب ایک سمندر ہی رہ جاتا ہے جو ہمارا دوست ہے اور طوفانوں کا رخ موڑ کر پاکستان کو بچالیتا ہے مگر ہم اپنے اس واحد پڑوسی دوست کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہوئے ہیں، ہم اس پر بھی ''چائنا کٹنگ'' کرنے کے ارادے بلکہ پکے ارادے کیے بیٹھے ہیں، ہم نے سمندر کے اندر رہائشی بلڈنگیں بنانا ہیں،وہاں انسان دنیا بھر کی عیاشیاں کریںگے اور سمندر دیکھ دیکھ کر روئے گا، ہمارے پڑوسی سمندر میں جو جنگل ہے جس کی وجہ سے کراچی طوفان سے محروم رہتا ہے۔ اس جنگل کا بھی صفایا کرنے کا منصوبہ ہے۔
ہمارا واحد پڑوسی دوست ''سمندر'' اس کے ساتھ ہمارا یہ سلوک ہے۔ ''ہمارا کیا بنے گا'' لاہور ایک بار پھر لہو میں نہا گیا، اتوار کا دن، درمیانے اور غریب طبقے کے لوگ اقبال پارک میں تفریح کے لیے آئے ہوئے تھے، عیسائی بھائیوں کی عید ''ایسٹر'' بھی تھی، انسانیت کے دشمن آئے اور ہنستے مسکراتے ''مناظر'' یکسر بدل گئے، باغ میں پھول اور پتے خون میں لت پت تھے، لاشیں تھیں، تڑپتے زخمی تھے اور چیخیں تھیں، اجڑے چہرے تھے، ایمبولینسوں کی چنگھاڑیں تھیں، اسپتال تھے۔ نوٹس بورڈ پر مرنے والوں کے نام تھے۔ زخمیوں کے نام تھے، گھر گھر ماتم تھے، جنازے تھے، قبرستان تھے۔
یہ تو ایک بھوشن ہے جو فرفر سب کچھ بولے جارہا ہے، پتا نہیں کتنے بھوشن ہمارے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں اور حکمران اس وقت جاگتے ہیں جب سانحہ ہوچکتا ہے، ورنہ یہ تو اپنا ہی رونا روتے نظر آتے ہیں، پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد پھر منظور ہوگئی ہے، ممبران اسمبلی کا رونا دھونا ہے کہ ''گزارا نہیں ہوتا، ہماری تنخواہیں ڈبل کرو'' خیر سے تمام کے تمام ممبران اس ''حمام'' میں موجود ہیں، ذرا غور کرتا جا اور بس غور ہی کرتا جا، یہ غور کرنے کا میں عوام سے کہہ رہا ہوں کہ:
دوستوں کو پہچانو
دشمنوں کو پہچانو
بیس کروڑ انسانو!
جالب نے جب یہ کہا تھا تب پاکستان کی آبادی دس کروڑ تھی اور بنگلہ دیش ہم میں شامل تھا، دوستوں اور دشمنوں کی یہ داستان بہت پرانی ہے، دو چار دنوں کی بات نہیں، پنجاب میں فوج نے ضرب عضب زور و شور سے شروع کردیا ہے، تین چار دن میں ہی ہزار سے زیادہ مشتبہ افراد پکڑ لیے ہیں، کئی جگہ سے اسلحہ بھی پکڑا ہے، کراچی میں دہشت گرد ختم نہیں ہورہے، یہاں بھی روز گرفتاریاں اور اسلحہ برآمد ہورہا ہے، بھوشن نے سب کچھ بتادیا ہے۔
اعلان کردیا ہے کہ کچھ کرنا ہے تو کرلو۔ اور ہم کیا کررہے ہیں؟ دیکھ لیں چار دن کا دھرنا اور اسلام آباد مفلوج، ممتاز قادری کی سزائے موت کے فیصلے پر جو دھرنا ہونا چاہیے تھا وہ چہلم کے دن ہوا۔ اگر یہی دھرنا پہلے ہوجاتا تو مرحوم عمرقید کی سزا کاٹ رہا ہوتا، خیر جو خدا کو منظور تھا سو ہوگیا، یہ جو چار دن اسلام آباد اور کراچی میں ہوا، خطرات میں بری طرح گھرے پاکستان کے لیے اچھا نہیں تھا، اس وقت ضرورت ہے کہ پاکستان کو دشمنوں سے بچایا جائے، اس وقت وطن کی گلیاں، محلے تک محفوظ نہیں ہیں۔ دشمن ہر جگہ موجود ہیں۔ چار مصرعے جالب کے سن لیں۔
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب
اور ہم نے تو بات بھی کی ہے
یہ ہمارے ''دوست'' سیاسی جماعتوں کے لیڈر، یہ تو سب کچھ جانتے ہیں، سمجھتے ہیں، پھر بھی جانتے بوجھتے بھی یہ حالات کے ستائے اپنے پارٹی کارکنوں کو جمع کرکے بے قابو کردیتے ہیں، توڑ پھوڑ ہوتی ہے، جلاؤ گھیراؤ ہوتا ہے، دوستو، ذرا بتاؤ! حکمرانوں کا کیا بگڑا، دشمنوں کا کیا نقصان ہوا۔
علامہ اقبال تصویر بن کر رہ گئے ہیں یا پھر انھیں قوال حضرات اور گائیک حضرات کے حوالے کردیا گیا ہے، ان کی نصیحتوں اور مشوروں پر کوئی توجہ نہیں، جیسے کسی جابر نے کہہ دیا ہو ''اس طرف نہ جاؤ''۔ حضرت علامہ نے نہایت سادہ الفاظ میں کہا ہے۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں پہ ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
آج ہمارا حال دیکھ لیں، مذہب، فرقوں میں اور زیادہ بٹ چکا ہے، ہر فرقہ اپنے علاوہ سب کو کافر کہہ رہا ہے، یارو! کچھ اﷲ تعالیٰ پر بھی چھوڑدو، اور تقسیم چھوڑ کر اتحاد کو اپنالو اور جو لوگ خلق خدا کو بھوکوں ترسارہے ہیں ان کے خلاف متحد ہوکر کھڑے ہوجاؤ۔ حضرت علامہ نے ذاتوں کا بھی ذکر کیا ہے ان سے بھی بچو، یہ زبان اور نسل، یہ اٹل حقیقتیں ہیں، ان پر فخر ضرور روا رکھو مگر ان پیار بھرے جذبوں کو بنیاد بناکر پیار کو نفرت میں بدل کر فساد پھیلانا، انسانیت نہیں، یہ حضرت محمدؐ کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔
آخری خطبے میں نبی پاکؐ نے اپنی عظیم تحریک کے اختتامیہ میں فرمایا ''آج میں تمام قبائلی عظمتوں کو اپنے پیروں تلے روندتا ہوں، یہ محض (لفظ محض کہہ کر نبی پاکؐ نے قبائلی عظمتوں کی اوقات دو ٹکے کی کردی) پہچان کے لیے ہیں اور عربی عجمی، کالا، گورا سب کچھ ختم اور تقویٰ بلند ہے''۔ نبی پاکؐ کی تعلیمات کو چھوڑ کر ہم نے رنگ برنگے مذہبی فرقہ واری جھنڈے اٹھا لیے ہیں۔ ''کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں''۔
نبی پاکؐ کا دنیا سے جاتے ہوئے یہی آخری پیغام تھا جس میں ان کی جدوجہد کا نچوڑ موجود ہے، حضورؐ آئے تو حبشی غلام بلال کو سیدنا بلال بنا دیا، آپ نے اپنے خلفائے راشدین حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ کرم اﷲ وجہ سے کہا ''اویس قرنی مدینہ آئیں تو ان سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرنا'' یہ اویس قرنی وہ تھے جو حقیقتاً بہت بڑے عاشق رسول تھے، حضورؐ سے اجازت مانگی کہ ملاقات کو آجاؤں، حضورؐ نے جواب دیا ''اپنی بیمار ماں کی خدمت کرو'' یہ وہ اویس قرنی تھے جنھیں پتا چلا کہ جنگ احد میں حضورؐ کا ایک دانت ٹوٹ گیا ہے تو اپنے سارے دانت توڑ ڈالے کہ پتا نہیں حضورؐ کا کون سا دانت ٹوٹا ہے۔ ہمارے نبیؐ نے محبت سے دنیا فتح کی ہے، وہ بھی حضرت علامہ نے کہا ہے۔
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
مگر افسوس آج ہم نے شمشیریں بدل ڈالی ہیں۔
ہندوستان میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ ہوا، ہندوستان نے پاکستان کو ملوث قرار دیا۔ ہندوستان نے ٹیلی فون، موبائل فون نمبر دیے جن پر کالز کی گئی، پاکستان نے فراہم کردہ معلومات کے مطابق کارروائی کی اور متعدد گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ پاکستانی وفد ہندوستان گیا، پٹھان کوٹ ایئربیس کا دورہ کیا، حکومت ہند نے جتنا ایئر بیس دکھانا تھا دکھا دیا، پاکستانی وفد کو گھما دیا۔
ادھر اور بھی خبریں آرہی ہیں کہ بھوشن یادیو کے دو ساتھی ایران میں انڈین سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ہندوستان کسی طرح انھیں ایران سے کسی تیسرے ملک میں پہنچانا چاہتا ہے، ایران اس صورت حال سے کیسے نمٹے گا، یہ سوال بظاہر تو صاف نظر آرہا ہے، پاکستان کے پڑوسیوں سے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ ایران کی زمین بھوشن یادیو استعمال کررہا تھا، افغانستان نے بھی اپنی زمین ہندوستان کے سپرد کی ہوئی ہے، وہاں موجود ہندوستانی سفارت خانہ خفیہ ایجنسی ''را'' کا ٹھکانہ بنا ہوا ہے، ہندوستان سے ہمارے تنازعات چل رہے ہیں۔
روس سے بھی ہمارے تعلقات رسمی ہیں۔ اب ایک سمندر ہی رہ جاتا ہے جو ہمارا دوست ہے اور طوفانوں کا رخ موڑ کر پاکستان کو بچالیتا ہے مگر ہم اپنے اس واحد پڑوسی دوست کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہوئے ہیں، ہم اس پر بھی ''چائنا کٹنگ'' کرنے کے ارادے بلکہ پکے ارادے کیے بیٹھے ہیں، ہم نے سمندر کے اندر رہائشی بلڈنگیں بنانا ہیں،وہاں انسان دنیا بھر کی عیاشیاں کریںگے اور سمندر دیکھ دیکھ کر روئے گا، ہمارے پڑوسی سمندر میں جو جنگل ہے جس کی وجہ سے کراچی طوفان سے محروم رہتا ہے۔ اس جنگل کا بھی صفایا کرنے کا منصوبہ ہے۔
ہمارا واحد پڑوسی دوست ''سمندر'' اس کے ساتھ ہمارا یہ سلوک ہے۔ ''ہمارا کیا بنے گا'' لاہور ایک بار پھر لہو میں نہا گیا، اتوار کا دن، درمیانے اور غریب طبقے کے لوگ اقبال پارک میں تفریح کے لیے آئے ہوئے تھے، عیسائی بھائیوں کی عید ''ایسٹر'' بھی تھی، انسانیت کے دشمن آئے اور ہنستے مسکراتے ''مناظر'' یکسر بدل گئے، باغ میں پھول اور پتے خون میں لت پت تھے، لاشیں تھیں، تڑپتے زخمی تھے اور چیخیں تھیں، اجڑے چہرے تھے، ایمبولینسوں کی چنگھاڑیں تھیں، اسپتال تھے۔ نوٹس بورڈ پر مرنے والوں کے نام تھے۔ زخمیوں کے نام تھے، گھر گھر ماتم تھے، جنازے تھے، قبرستان تھے۔
یہ تو ایک بھوشن ہے جو فرفر سب کچھ بولے جارہا ہے، پتا نہیں کتنے بھوشن ہمارے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں اور حکمران اس وقت جاگتے ہیں جب سانحہ ہوچکتا ہے، ورنہ یہ تو اپنا ہی رونا روتے نظر آتے ہیں، پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد پھر منظور ہوگئی ہے، ممبران اسمبلی کا رونا دھونا ہے کہ ''گزارا نہیں ہوتا، ہماری تنخواہیں ڈبل کرو'' خیر سے تمام کے تمام ممبران اس ''حمام'' میں موجود ہیں، ذرا غور کرتا جا اور بس غور ہی کرتا جا، یہ غور کرنے کا میں عوام سے کہہ رہا ہوں کہ:
دوستوں کو پہچانو
دشمنوں کو پہچانو
بیس کروڑ انسانو!
جالب نے جب یہ کہا تھا تب پاکستان کی آبادی دس کروڑ تھی اور بنگلہ دیش ہم میں شامل تھا، دوستوں اور دشمنوں کی یہ داستان بہت پرانی ہے، دو چار دنوں کی بات نہیں، پنجاب میں فوج نے ضرب عضب زور و شور سے شروع کردیا ہے، تین چار دن میں ہی ہزار سے زیادہ مشتبہ افراد پکڑ لیے ہیں، کئی جگہ سے اسلحہ بھی پکڑا ہے، کراچی میں دہشت گرد ختم نہیں ہورہے، یہاں بھی روز گرفتاریاں اور اسلحہ برآمد ہورہا ہے، بھوشن نے سب کچھ بتادیا ہے۔
اعلان کردیا ہے کہ کچھ کرنا ہے تو کرلو۔ اور ہم کیا کررہے ہیں؟ دیکھ لیں چار دن کا دھرنا اور اسلام آباد مفلوج، ممتاز قادری کی سزائے موت کے فیصلے پر جو دھرنا ہونا چاہیے تھا وہ چہلم کے دن ہوا۔ اگر یہی دھرنا پہلے ہوجاتا تو مرحوم عمرقید کی سزا کاٹ رہا ہوتا، خیر جو خدا کو منظور تھا سو ہوگیا، یہ جو چار دن اسلام آباد اور کراچی میں ہوا، خطرات میں بری طرح گھرے پاکستان کے لیے اچھا نہیں تھا، اس وقت ضرورت ہے کہ پاکستان کو دشمنوں سے بچایا جائے، اس وقت وطن کی گلیاں، محلے تک محفوظ نہیں ہیں۔ دشمن ہر جگہ موجود ہیں۔ چار مصرعے جالب کے سن لیں۔
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب
اور ہم نے تو بات بھی کی ہے
یہ ہمارے ''دوست'' سیاسی جماعتوں کے لیڈر، یہ تو سب کچھ جانتے ہیں، سمجھتے ہیں، پھر بھی جانتے بوجھتے بھی یہ حالات کے ستائے اپنے پارٹی کارکنوں کو جمع کرکے بے قابو کردیتے ہیں، توڑ پھوڑ ہوتی ہے، جلاؤ گھیراؤ ہوتا ہے، دوستو، ذرا بتاؤ! حکمرانوں کا کیا بگڑا، دشمنوں کا کیا نقصان ہوا۔
علامہ اقبال تصویر بن کر رہ گئے ہیں یا پھر انھیں قوال حضرات اور گائیک حضرات کے حوالے کردیا گیا ہے، ان کی نصیحتوں اور مشوروں پر کوئی توجہ نہیں، جیسے کسی جابر نے کہہ دیا ہو ''اس طرف نہ جاؤ''۔ حضرت علامہ نے نہایت سادہ الفاظ میں کہا ہے۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں پہ ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
آج ہمارا حال دیکھ لیں، مذہب، فرقوں میں اور زیادہ بٹ چکا ہے، ہر فرقہ اپنے علاوہ سب کو کافر کہہ رہا ہے، یارو! کچھ اﷲ تعالیٰ پر بھی چھوڑدو، اور تقسیم چھوڑ کر اتحاد کو اپنالو اور جو لوگ خلق خدا کو بھوکوں ترسارہے ہیں ان کے خلاف متحد ہوکر کھڑے ہوجاؤ۔ حضرت علامہ نے ذاتوں کا بھی ذکر کیا ہے ان سے بھی بچو، یہ زبان اور نسل، یہ اٹل حقیقتیں ہیں، ان پر فخر ضرور روا رکھو مگر ان پیار بھرے جذبوں کو بنیاد بناکر پیار کو نفرت میں بدل کر فساد پھیلانا، انسانیت نہیں، یہ حضرت محمدؐ کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔
آخری خطبے میں نبی پاکؐ نے اپنی عظیم تحریک کے اختتامیہ میں فرمایا ''آج میں تمام قبائلی عظمتوں کو اپنے پیروں تلے روندتا ہوں، یہ محض (لفظ محض کہہ کر نبی پاکؐ نے قبائلی عظمتوں کی اوقات دو ٹکے کی کردی) پہچان کے لیے ہیں اور عربی عجمی، کالا، گورا سب کچھ ختم اور تقویٰ بلند ہے''۔ نبی پاکؐ کی تعلیمات کو چھوڑ کر ہم نے رنگ برنگے مذہبی فرقہ واری جھنڈے اٹھا لیے ہیں۔ ''کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں''۔
نبی پاکؐ کا دنیا سے جاتے ہوئے یہی آخری پیغام تھا جس میں ان کی جدوجہد کا نچوڑ موجود ہے، حضورؐ آئے تو حبشی غلام بلال کو سیدنا بلال بنا دیا، آپ نے اپنے خلفائے راشدین حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ کرم اﷲ وجہ سے کہا ''اویس قرنی مدینہ آئیں تو ان سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرنا'' یہ اویس قرنی وہ تھے جو حقیقتاً بہت بڑے عاشق رسول تھے، حضورؐ سے اجازت مانگی کہ ملاقات کو آجاؤں، حضورؐ نے جواب دیا ''اپنی بیمار ماں کی خدمت کرو'' یہ وہ اویس قرنی تھے جنھیں پتا چلا کہ جنگ احد میں حضورؐ کا ایک دانت ٹوٹ گیا ہے تو اپنے سارے دانت توڑ ڈالے کہ پتا نہیں حضورؐ کا کون سا دانت ٹوٹا ہے۔ ہمارے نبیؐ نے محبت سے دنیا فتح کی ہے، وہ بھی حضرت علامہ نے کہا ہے۔
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
مگر افسوس آج ہم نے شمشیریں بدل ڈالی ہیں۔