شاکر انور ایک واقعی اچھا افسانہ نگار

شاکر انور کے افسانے ایسے ہیں جن کی خوبیاں تلاش کی جانی چاہئیں اور یہ بلاشبہ پڑھے جانے سے تعلق رکھتے ہیں۔


Rafi Allah Mian April 04, 2016
شاکر انور اپنے افسانوں کے ذریعے یہ اہم پیغام دینا چاہ رہے ہوں کہ جو دکھائی دیتا ہے وہ ویسا ہوتا نہیں ہے، یعنی ہم عموماً جو سوچتے ہیں، واقعہ اس کے برخلاف نکل آتا ہے۔

شاکر انور کے افسانوں کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ پہچانے جاتے ہیں۔ یعنی اگر آج کے بہت سارے افسانہ نگاروں کا کام سامنے رکھا ہو تو شاکر انور کا افسانہ اپنے اسلوب کے باعث پہچانا جائے گا۔ صرف وہی نہیں، ایسے کئی افسانہ نگار ہیں جن کے افسانے زبان کے مختلف برتاؤ کے باعث الگ رنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔

پہلی سطح پر اس کی بہترین مثال مرزا اطہر بیگ کے افسانے ہیں اور دوسری سطح پر آکر اپنا اسلوب تشکیل دینے والے نوجوان اقبال خورشید کے افسانے ہیں۔ لیکن شاکر انور کے ہاں زبان کی یہ سطح موجود نہیں ہے بلکہ زبان کی کار گزاری کے بجائے ایک خاص ڈھنگ میں واقعہ بیان کرنے کی عجلت دکھائی دیتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے راوی ماجرے کے کلائمکس تک پہنچنے کی بے چینی میں مبتلا ہے اور اس عمل میں اس کی سانسیں چڑھی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔

افسانوں میں واقعہ نگاری بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا تعلق ایک سطح پر آکر صارفی کلچر سے بھی جڑجاتا ہے۔ اردو کے عام قاری کی نفسیاتی تربیت ایسی ہوئی ہے کہ وہ کہانی میں واقعات کی سیڑھی کے ذریعے چوٹی یعنی کلائمکس تک پہنچتا ہے۔ مغرب میں قاری کی ذہنی سطح کو نہ صرف جانچا گیا ہے بلکہ مختلف ذرائع سے اس کے رجحانات کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سرکاری و نجی اداروں نے مل کر نہ صرف ادبی کلچر کو پروان چڑھایا بلکہ قارئین کو نئے رجحانات کو سمجھنے اور انہیں قبول کرنے کے قابل بھی بنایا۔ صارفی کلچر میں ادب اور ادیبوں کی کم مائیگی کا احساس کم ہی ہوا ہے۔ اردو ادب کا قاری بھی صارف بننے کے مرحلے تک آئے تو ادب کی ترقی و ترویج کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔

شاکر انور کے افسانے واقعہ نگاری کے حوالے سے ایک مخصوص رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ ان واقعات کے درمیان جو وقفے ہوتے ہیں وہ بالکل خالی ہوتے ہیں۔ وہ ان وقفوں میں دانشورانہ بیانات سے کہانی کے ابعاد کو پھیلانے پر یقین نہیں رکھتا کیوںکہ ان کے پاس ایک ٹھوس کہانی ہوتی ہے اور وہ اس کہانی کو بیان کرنے کے لیے اپنی ساری توجہ اس کے اختتامی لمحے پر مرکوز رکھتا ہے۔ کہانی کے ساتھ یہ طرزِ عمل ان کے افسانوں کی سادگی اور قابل ابلاغ ہونے کا بڑا سبب ہے۔ افسانوں کی زبان بھی سادہ ہے لیکن یہ سادہ زبان بھی ایک تکنیک میں ڈھلی ہوئی ہے جس سے افسانے فرسودہ نہیں لگتے۔ اگرچہ چند افسانے پڑھتے ہوئے ان کا مرکزی خیال اور کہیں کہیں پلاٹ بھی مجھے پرانا لگا جیسا کہ افسانے ''سونامی کے بعد'' کا مرکزی خیال ایک حکایت پر مبنی ہے اور ''بھائی لوگ'' کا مرکزی خیال بہت استعمال کیا گیا ہے، لیکن چند افسانوں کے آئیڈیا دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے اور نئے خیال سے ملنے والی سرشاری اس مجموعے کو قابل قبول بناتی ہے۔

یہ افسانے جس ڈھنگ سے لکھے گئے ہیں، قارئین کے لیے بلاشبہ پرکشش ہے اور ہمارے ہاں ادبی کلچر پروان چڑھانے کے ضمن میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، بہ شرط یہ کہ ادب کے قاری کو ادب کا صارف بنایا جائے اور اس سلسلے میں سرکاری اور سول سوسائٹی کے ادارے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کرلیں۔ میں نے اوپر واقعہ نگاری کے حوالے سے مغرب کی جو بات کی ہے، اس کا تعلق اس نکتہ کے ساتھ ہے کہ وہاں کہانی آج بھی کہانی ہی ہے۔

بے تحاشا تجربات کے بعد بھی کہانی کا عنصر ختم نہیں ہوا۔ ان دنوں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے اردو میں فلیش فکشن کی ترویج کی کوششیں کی جارہی ہیں، یہ بھی کہانی کے ساتھ قاری کو جوڑنے کی ایک ابتدائی مشق ہے۔ اس طرح کی مشقیں مغرب میں ہوتی رہی ہیں۔ شاکر انور کے افسانوں میں بھی کہانی کا عنصر بہت طاقتور ہے۔ یہ طویل افسانے نہیں ہیں، جنہیں قاری طوالت کے خوف سے نظر انداز کردے۔ پھر اس کی زبان ایسی ہے کہ قاری کو سست نہیں ہونے دیتی۔ وہ واقعات کے درمیان موجود خلاؤں کو غیر ضروری طور پر پُر نہیں کرتے اور کہانی ایک صورتحال سے دوسری صورتحال پر چھلانگ لگاتی رہتی ہے۔

میں نے بڑی شدت سے محسوس کیا ہے جیسے شاکر انور اپنے افسانوں کے ذریعے یہ اہم پیغام دینا چاہ رہے ہوں کہ جو دکھائی دیتا ہے وہ ویسا ہوتا نہیں ہے، یعنی ہم عموماً جو سوچتے ہیں، واقعہ اس کے برخلاف نکل آتا ہے۔ شکوک اور تعصبات کے سہارے زندگی گزارنا سخت مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے انسان کو ایک دوسرے پر اعتماد کرکے زندگی گزارنی چاہیے۔ ''تحفہ'' اس مجموعے کا سب سے برا افسانہ ہے، لیکن ہوسکتا ہے بہت سوں کو پسند آئے کیوںکہ اس کے مرکزی خیال کو کسی حد تک نیا ٹریٹمنٹ دیا گیا ہے، اس کے باوجود یہ افسانے اچھے قاری کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

اسی طرح آخری دو افسانے ''بالکونی'' اور ''برف میں آگ'' کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ ان افسانوں سے صرفِ نظر کرکے یہ مجموعہ بہت اچھے افسانوں کا مرقع ہے اور انہیں پڑھا جانا چاہیے۔ شاکر انور کی زبان اتنی تخلیقی نہیں ہے، جتنی عموماً بہترین افسانوں میں ہوتی ہے یا ہونی چاہیئے، لیکن یہ زبان اپنے اندر اتنی قوت ضرور رکھتی ہے کہ افسانہ شروع کرنے والا اسے ختم ہوئے بغیر چھوڑ دینا نہیں چاہے گا۔ وہ جب فطرت کو بیان کرتا ہے تو یہ محض چند جملے ہی ہوتے ہیں لیکن ان میں بیان کا ڈھیر سارا رس اکٹھا کرلیتا ہے۔ اس لیے یہ کسی طور نہیں کہا جاسکتا کہ وہ زبان کے تخلیقی اظہار پر دسترس نہیں رکھتا، معاملہ ان کی ترجیح کا ہے، وہ اپنے افسانوں کو ماورائی خیالات کا مرقع نہیں بنانا چاہتا۔ اس زیرک رویے سے ان کا ایک مخصوص اسلوب سامنے آیا ہے۔

ان کہانیوں کے بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کا مقصد کہانی کہنا ہے، اس لیے وہ اپنی کہانی کو کسی بھی سرزمین پر لے جا کر بیان کردے گا۔ کوئی کہانی اگر ہماری سرزمین کی معاشرت سے جڑت نہیں رکھتی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کہانی یہاں بیان کے قابل بھی نہیں ہے۔ بلاشبہ خیال محض ایک ماورائی وجود ہی نہیں بلکہ ایک ٹھوس پس منظر بھی رکھتا ہے۔ چناںچہ کوئی خیال اگر یہاں غیر متعلقہ ہے تو وہ کہیں اور متعلقہ ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثالیں اس کتاب میں ''بے پیٹ کے لوگ'' اور ''طوفان'' جیسے افسانے ہیں جنہیں پڑھ کر افسانہ نگار کی افسانے کے ساتھ کمٹمنٹ کی داد دینی پڑتی ہے۔ یہ افسانے ان کے اسلوب میں نفسیاتی پہلو کے ساتھ ساتھ محیر العقل یا بعید از قیاس پہلو کو بھی سامنے لاتے ہیں، جنہیں نظر انداز کرنا ان کے افسانوں کی خوبی سے صرف نظر کرنا ہے۔

افسانے کی تھیم کیا ہے اور پلاٹ کیا، اس پر بات کرنا بے کار ہوتا ہے، یہ تو پڑھے جانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسانے کے وہ عناصر کیا ہیں جو اس کو پر کشش اور قابل قبول بنارہے ہیں، یہ دیکھنا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ شاکر انور کے افسانے ایسے افسانے ہیں جن کی خوبیاں تلاش کی جانی چاہئیں اور یہ بلاشبہ پڑھے جانے سے تعلق رکھتے ہیں۔

شاکر انور کو بخوبی احساس ہے کہ کمیونی کیشن ٹیکنالوجیز نے فاصلوں کو قربتوں میں بدل دیا ہے، اس لیے وہ اردو افسانے کے محل وقوع کے بارے میں کسی تعصب کا شکار نہیں ہوتے اور اپنے کرداروں اور پلاٹ کو دنیا کے کسی بھی شہر میں لے جا کر سہولت سے اپنی کہانی بیان کردیتے ہیں۔ افسانوں میں مقامیت کی تکرار سے جو بوریت یا یکسانیت جنم لیتی ہے، یہ افسانے اس سے خالی ہیں اور ان میں تازگی کا ایک احساس ملتا ہے۔ یہ افسانے اتنے تازہ کیوں محسوس ہوتے ہیں؟ مطالعے کے دوران یہ سوال بار بار اٹھتا رہا ہے۔ اس کی ایک وضاحت یہ بھی ملی کہ افسانہ نگار کسی آئیڈیا کے آگے خود کو بے بس نہیں ہونے دیتا یعنی ممنوعہ سمجھے جانے والے موضوع پر بھی وہ بڑی روانی کے ساتھ کہانی بیان کردیتا ہے جیسے یہ روزمرہ کا معاملہ ہو۔

اس طرح کہانی کی فضا میں کسی بھی قسم کی گھٹن جنم نہیں لیتی۔ قاری بھی کھلے دماغ کے ساتھ ہر قسم کے موضوع اور مسئلے سے آسانی سے گزر جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اضافی اور بے سمت لفاظی سے کہانی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اگر اس کا کردار یہ کہتا ہے، ''مام'' تم نے کسی انسان کو کتا بنتے دیکھا ہے؟ تو یہ محض لفاظی یا ڈھینگ نہیں ہوگی۔ وہ مرحلہ بھی آئے گا جب کردار کی ماں انسان کو کتا بنتا دیکھے گی۔ ''طوفان'' کے عنوان سے یہ مختصر اور سلیس افسانہ اپنے بیانیے میں اتنے ابعاد رکھتا ہے کہ سوچنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ شروع میں ماں کے کردار کے ساتھ جو خرق عادت واقعہ ہوتا ہے، آگے جاکر اس کے بیٹے کے کردار کے ساتھ نفسیاتی اور حیوانی سطح پر اس طرح جڑتا ہے کہ خالی جگہیں پُر ہوجاتی ہیں۔ اس درجہ ذہین طرز اظہار یقیناً افسانے کے ساتھ کمٹمنٹ ہی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔

ان کے زیادہ تر افسانوں کے عنوان ایسے ہیں جو بہت سارے افسانہ نگاروں کے ہاں مل جائیں گے۔ یہ ان افسانوں کا وہ پہلو ہے جو غفلت کا شکار رہا ہے۔ لیکن ایسے ہی ایک بہت عام عنوان (مٹی) والے افسانے کو پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہونے لگا کہ شاید اس افسانے کے اندر افسانہ نگار موضوع اور پلاٹ دونوں حوالے سے بری طرح عامیت کا شکار ہوگیا ہے۔ ایک شخص برسوں بعد گاؤں لوٹتا ہے، اب اس موضوع کو قاری کتنی بار پڑھے؟ لیکن جتنا اس کا موضوع اور پلاٹ عام ہے اتنا ہی اس کا اختتام مختلف ہے۔ مجھے اس کے اختتام پر کوئی گفتگو نہیں کرنی، بلکہ اس افسانے میں ایک اور پہلو قابل غور ہے جس کا تعلق شاکر انور کے طرز نگارش سے بھی ہے۔ وہ اپنے بیانیے کی فضا کھلی رکھتے ہیں اور کرداروں کے آگے مذہب یا رواج کی دیواروں کی گھٹن کھڑی نہیں ہونے دیتے جیسا کہ عموماً افسانہ نگار اپنے کرداروں کے حوالے سے افسانے میں زیادہ سے زیادہ گھٹن جمع کرلیتا ہے۔ ایک گھٹن زدہ ماحول میں ایسے افسانوں کی گنجائش کتنی ہوسکتی ہے جو قاری کو پڑھوانے کی زبردست قوت رکھتے ہوں اور ساتھ ساتھ اسے گھٹن سے بھی نجات دیتے ہوں؟

اس سوال کے باوجود ان پر ماحول سے فرار کا الزام نہیں دھرا جا سکتا کیوںکہ بھوک، جنسی نا آسودگی، محبت کی تشنہ کامی، نفسیاتی الجھنیں اور خوف و دہشت جیسے موضوعات کو چھیڑنے والے افسانے غیر متعلقہ کیسے کہلائے جا سکتے ہیں؟ جب آپ عنوان کے لحاظ سے میرے ناپسندیدہ افسانے ''دھند میں لپٹے ارمان'' پڑھیں گے تو اس کے اختتام پر جذبات کا شدید جھٹکا آپ کا منتظر ہوگا۔ یہ افسانہ شاکر انور کے افسانہ نگار ہونے کا اعلان بھی ہے اور افسانہ ''بارش'' پڑھا جائے تو اس خیال کو اور تقویت مل جاتی ہے کہ شاکر انور کے افسانوں کا آغاز تو ایسے افسانوں کے طور پر ہوتا ہے جو ہم بہت بار پڑھ چکے ہوں لیکن اختتام پر آکر صورت حال یک لخت بدل جاتی ہے اور یہی پہلو ان کے مخصوص اسلوب کے ساتھ مل کر ان افسانوں کی قبولیت کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ تین چار افسانوں کے علاوہ یہ افسانے مرد و زن کے درمیان تعلق کی مختلف جہات نئے خیال کے ساتھ منکشف کرتے ہیں۔

یہ قابل تعریف ہے لیکن اب افسانہ نگار کو پاکستانی معاشرے کے اندر پنپتے دیگر بہت سارے تصورات کو بھی اسی دل کش انداز میں موضوع افسانہ بنانا چاہیے تاکہ ان کے فنی سفر کے مزید پہلو سامنے آسکیں اور دُکھتے معاشرے کے تازہ زخموں سے رستے خون کی بو بھی اچھے افسانوں کی زمینوں سے اجنبی نہ رہ جائے۔

کتاب ملنے کا پتہ: ویلکم بک ڈپوکراچی' اردوبازار' 02132633151' قیمت ڈھائی سوروپے' افسانوں کی تعداد، بائیس۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔