پانامہ لیکس سے ویسٹ انڈیز تک

ان دنوں کافی سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ ایک آف شور کمپنی بناؤں۔

ayazkhan@express.com.pk

ان دنوں کافی سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ ایک آف شور کمپنی بناؤں۔ آف شور کمپنی بنانے کا خیال گذشتہ ماہ اس وقت آیا جب ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''کل تک'' میں وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کا انٹرویو دیکھا۔ اس دوران کچھ دوستوں سے سرسری ذکر کیا مگر کسی نے مجھے سیریس نہیں لیا۔

کل رات پانامہ پیپرز کی لیکس کے بعد میرا شوق اور بڑھ گیا۔ تین،چار اور دوست آزمائے مگر کسی نے بھی گھاس نہیں ڈالی۔ حسین نواز کے انٹرویو سے مجھے لگا تھا کہ آف شور کمپنی یاکمپنیاںبنانابہت آسان ہے۔وزیراعظم کے صاحبزادے نے بتایا تھا کہ انھوں نے غیر معروف دوستوں سے قرض لے کر اپنے کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ اللہ کا فضل ہے کہ ہمارے بھی زیادہ تر دوست غیر معروف ہی ہیں لیکن وہ ایک دمڑی تک دینے کو تیار نہیں۔ لگتا ہے یہ کام کرنے کیلیے کسی بڑے آدمی سے مشورہ کرنا پڑے گا۔ جب تک کوئی مفید مشورہ نہیں ملتا بہتر ہے کہ اس خیال سے جان چھڑالی جائے۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔۔

پانامہ لیکس پر شورشرابہ کچھ دن جاری رہے گا، استعفوں کے مطالبات بھی ہوں گے لیکن یقین رکھیںکچھ نہیں ہو گا۔ کاروبار حیات اسی طرح چلتا رہے گا۔ عمران خان کی میڈیا ٹاک پر کان دھرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں تو موقع چاہیے نواز شریف پر تنقیدکرنے کا۔ پانامہ لیکس کے بعد کچھ ملکوں میں اگر تحقیقات شروع ہو گئی ہے تو یہ ضروری نہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا کیا جائے۔

وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کی اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ پانامہ لیکس نے نواز شریف کے سچ پر مہر لگا دی ہے۔پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے تو ویسے ہی انھیں پاجاما لیکس قرار دے دیا۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کے سربراہان اور ان کے خاندان کے افراد ان لیکس میں شامل ہیں۔ یہ اطمینان کیا کم ہے کہ بھارت کے معروف افراد کے نام بھی اس فہرست میں موجود ہیں۔ان میں امیتابھ بچن اور ایشوریہ بچن ہی کافی ہیں۔

رحمان ملک کا دعویٰ بھی غور طلب ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' نے ان کے خلاف سازش کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ باقی جو فہرست میری نظر سے گزری ہے اس میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جس کے خلاف ''را'' نے سازش کی ہو۔ پاکستان میں کسی کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تحریک انصاف چیئرمین نے کہا ہے کہ ان کی باری آئے گی تو وہ ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔

یعنی نہ تو نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ الیکشن جیتنے کی اہلیت رکھنے والے اس طرح کی چھوٹی موٹی باتوں سے پریشان نہیں ہوتے۔ حسین نوازکو البتہ داد دینا پڑے گی کہ انھوں نے پانامہ لیکس کے کافی دن پہلے ہی اپنی تین آف شور کمپنیوں کا اعتراف کر لیا تھا۔ ان کے اس اعتراف کو محض اتفاق ہی سمجھا جائے تو بہتر ہے۔ ان کے انٹرویوز کی ایک سیریز چلی تھی لیکن اصل انٹرویو ''کل تک'' والا ہی تھا۔

کرکٹ کا رخ کریں تو یہ ماننا پڑے گا کہ ڈیرن سیمی کی ٹیم نے کولکتہ میں جو کیا وہ محض اتفاق نہیں تھا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں میزبان انڈین ٹیم کے 192 رنز کا ہدف عبور کر کے جس طرح فائنل کیلیے کوالیفائی کیا تھا،اس نے کالی آندھی کے ورلڈ چیمپئن بننے کی امید دلادی تھی۔ بھارت میں شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو گا جس نے یہ تصور بھی کیا ہو کہ اس کی ٹیم ہار جائے گی۔

بھارتی میڈیا نے اپنی ٹیم کو ایسا جن بنا کر پیش کیا تھا جسے کوئی نہیں ہرا سکتا۔ ایک اشتہار چلایا جاتا تھا جس میں یہ پیغام ہوتا کہ معجزے رونما نہیں ہوتے،انھیں برپا کیا جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا کا شاید یہ خیال ہو گا کہ انڈین ٹیم کے سارے میچز پاکستانی ٹیم سے ہی ہونے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کی حالیہ پرفارمنس سے لگتا ہے کہ یہ اپنے ماضی کی طرف لوٹ رہی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں یہ نہیں ہوا کہ ٹیم نے کسی ایک پلیئر پر انحصار کیا ہو۔

کرس گیل نے انگلینڈ کے خلاف گروپ میچ میں 182 رنز کا مشکل ہدف دلانے میں مدد کی تو انڈیا کے خلاف سیمی فائنل میں ٹیم میں بطور متبادل کھلاڑی آنے والے لینڈل سمنز نے شاندار اننگز سے فتح دلائی۔ فائنل میں پھر انگلینڈ سے ٹاکرا ہوا تو مارلن سمیوئلز نے 85رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل دی۔ سمیوئلزکی اننگز کے باوجود 19ویں اوور تک میچ انگلینڈ کے ہاتھ میں لگ رہا تھا۔ آخری اوور میں 19رنز کا پہاڑ عبور کرنا تھا۔ وہ پہلا موقع تھا جب مجھے لگا کہ اب انگلینڈ جیت جائے گا مگر کارلوس بریتھ ویٹ نے گوروں کے سارے خواب چکنا چور کر دیے۔


پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی بال پلک جھپکتے ہی باؤنڈری لائن سے باہر جا گری۔ ضرورت 19کی تھی لیکن رنز 24 بن چکے تھے۔ چار گیندوں پر مسلسل چار چھکے مارنا آسان نہیں ہوتا۔ ہم شارجہ میں انڈیا کے خلاف آخری گیند پر جاوید میانداد کا لگایا گیا چھکا آج تک نہیں بھولے۔ ویسٹ انڈیز کے ہیرو بریتھ ویٹ کے چھکے دنیا کہاں بھلا پائے گی۔ گوروں کو یہ چھکے جب بھی یاد آئیں گے ان کے دل چھلنی ہو جائیں گے۔

جس دن یہ کارنامہ انجام دیا گیا اس دن ویسٹ انڈیز کی ویمن کرکٹ ٹیم بھی ٹی ٹوئنٹی کی عالمی چیمپئن بنی، انڈر 19 ورلڈ کپ کی چیمپئن بھی اس وقت ویسٹ انڈیز ہی ہے۔ ڈیرن سیمی کمال کپتان ہیں انھوں نے دوسری بار اپنی ٹیم کو ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ چیمپئن بنا دیا ہے۔

فائنل جیتنے کے بعد سیمی کی گفتگو نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ انھوں نے اپنی ٹیم کی کسمپرسی کا جو تذکرہ کیا ہے اس کے بعد ان کی جیت کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ لگتا ہے ویسٹ انڈیز کا کرکٹ بورڈ بھی کرکٹ تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ سیمی کے مطابق ان کی ٹیم کے منیجررال لیوس نے اپنی جیب سے 15کھلاڑیوں کے لیے جرسیوں کا انتظام کیا۔ کرکٹ بورڈ کے حکام نے فائنل سے پہلے کپتان سے رابطہ تک نہیں کیا۔

ہمارا کرکٹ بورڈ کھلاڑیوں کو سہولیات دینے میں تو کمی نہیں کررہامگر موجودہ حکام کی موجودگی میں کرکٹ تباہ ضرور ہو رہی ہے۔ موجودہ ٹیم کی حالت کا اس سے ہی اندازہ لگا لیںکہ ورلڈ کپ کے بعد جس ورلڈ الیون کا اعلان کیا گیا ہے اس میں ایک بھی پاکستانی کھلاڑی شامل نہیں۔ ہمارے قومی کھیل ہاکی کی تباہی بھی اچانک نہیں ہوئی تھی۔ دنیا کی مضبوط ترین ٹیم کمزور سے کمزور ترین ہوگئی اورکسی نے پروا نہیں کی۔ آپ کو یقیناً یاد ہو گا کہ قومی ہاکی ٹیم چین جیسی ٹیموں کو 18، 20 گول سے ہرایا کرتی تھی۔

آج یہ وقت ہے کہ چین کی ٹیم سے میچ جیت کر ہم خوش ہو جاتے ہیں۔ کرکٹ میں بھی ہماری حالت زیادہ مختلف نہیں رہی۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، زمبابوے اور کینیا جیسی ٹیموں سے جیت کر بھی ہم خوش ہو جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش اب بہت بہتر ٹیم ہے اور افغانستان کو یقیناً اس بات پر فخر ہو گا کہ اس نے آخری گروپ میچ میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی چمپیئن ویسٹ انڈیز کو شکست دی تھی۔

شاہد آفریدی کی کپتانی پر میرے بھی تحفظات تھے لیکن جس طرح لالے کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی گئی ہے اس نے آفریدی کی قدر میرے دل میں بڑھا دی ہے۔ ساری رپورٹس میں انھیں ولن بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ انتخاب عالم نے تو خیر کمال ہی کر دیا۔ انتخاب کی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی دلچسپ تھا کہ عمران خان کو ماڈرن کرکٹ کا علم نہیں ہے۔ 71 سالہ انتخاب یقیناً عمران سے زیادہ ماڈرن کرکٹ کو سمجھتے ہوں گے۔

شہریارخان اور نجم سیٹھی میں بھی یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ شاہد آفریدی سے لاکھ اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شکست کے بعد موجودہ سیٹ اپ کا وہ واحد کردار ہے جس نے کپتانی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ وقاریونس کو بھی داد دینا پڑے گی کہ انھوں نے نہ صرف مستعفی ہونے کا اعلان کیا بلکہ کرکٹ بورڈ کی طرف جو ان کے پچاس ساٹھ لاکھ روپے بنتے ہیں وہ بھی چھوڑ دیے۔

اور کرکٹ بورڈ سے مطالبہ کیا کہ اس رقم کو ڈومیسٹک کرکٹ کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے۔کیا کریں کہ پیٹرن ان چیف ساری صورتحال سے لا تعلق ہیں۔ ان سے یہی امید ہے کہ وہ اپنے ''چہیتے'' نجم سیٹھی کی حمایت جاری رکھیں گے۔ کرکٹ کی اس سے بہتر ''خدمت'' اور کیا ہو سکتی ہے؟ ہمارے حکمرانوں کا یہی تو فائدہ ہے کہ آپ جتنی مرضی چیخ و پکار کر لیں انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔اور اس کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہے۔وہ ''اپنے'' لوگوں پر پورا اعتماد کرتے ہیں اور ان کے حوالے سے ہونے والی تنقید کی کبھی پروا نہیں کرتے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہی تو ہے۔

جس ملک میں پانامہ لیکس سے کوئی فرق نہ پڑے وہاں کرکٹ جیسا معمولی کھیل تباہ و برباد ہو جائے، تو کیا ہوگا؟۔ یقین جانیں کچھ نہیں ہو گا!!!!!!!
Load Next Story