سقوط کوئٹہ ناقابل برداشت
یہ ایک تاریخی مسئلہ تھا اور ہمارے ملک کا یہ حصہ مدتوں سے پسماندہ چلا آ رہا تھا
جب پاکستان دو ٹکڑے ہوا اوریہ سانحہ کسی جنگ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ سب ہماری نالائقی اور قومی مسائل کو حل نہ کر سکنے کی وجہ سے تھا تو تھوڑی بہت سمجھ رکھنے والے پاکستانیوں کے دلوں اور ذہنوں میں یہ خوف بیٹھ گیا کہ ہم شاید اپنے ملک میں دشمن کی تخریب کاری کا جواب نہیں دے سکتے۔
مشرقی پاکستان یعنی نصف پاکستان ہم نے گنوا دیا اور تھوڑی بہت بحث و تمحیص کے بعد اپنے ملک کے غم میں کھانا کھا کر سو گئے اور اب تک سوئے چلے جا رہے ہیں جب کہ ہمارا دشمن بھارت ہمیں اپنے سرگرم جاسوسوں کی مدد سے بار بار جگا رہا ہے لیکن ہم کروٹ بدل کر سو جاتے ہیں۔ بھارت جو ہمارا صحیح اور تاریخی دشمن ہے ہمیں اپنی کسی نہ کسی حماقت کی وجہ سے خبردار کرتا رہتا ہے مگر ہم خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوتے۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ ہماری غفلت کی کھلی مثال ہے۔
دشمن نے پہلے ہمارے ملک کا مشرقی کونا تلاش کیا اور دیکھا کہ ہم پاکستانی اپنے ملک کے اس حصے پر توجہ نہیں دے رہے۔ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کے مقابلے میں معاشی لحاظ سے کمزور اور پسماندہ تھا۔ چنانچہ ہمارے دشمنوں نے ہمارے ملک کے اس حصے میں پاکستان کے لیے بددلی پھیلانی شروع کر دی، میں مشرقی پاکستان بارہا گیا اور یہاں کئی دوست پیدا کیے جو پوچھتے تھے کہ وہ مغربی پاکستان کے مقابلے میں پسماندہ کیوں ہیں۔
یہ ایک تاریخی مسئلہ تھا اور ہمارے ملک کا یہ حصہ مدتوں سے پسماندہ چلا آ رہا تھا، ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ہندوستان جو ایک طویل و عریض ملک تھا اس میں معاشی اونچ نیچ بہت تھی اور مشرقی پاکستان ان علاقوں میں تھا جو شروع دن سے ہی پسماندہ تھے۔ اگرچہ مغربی پاکستان کے کئی حصے خوشحال تھے لیکن اتنے بھی نہیں کہ پورے ملک کو خوشحالی سے بہرہ مند کر سکیں چنانچہ مشرقی پاکستان شروع دن سے ہی پسماندہ تھا اس کی ترقی کی کوشش جاری تھی لیکن وقت درکار تھا۔
اور ہمارا دشمن ہمیں یہ وقت دینے پر تیار نہیں تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان پسماندگی سے نکل نہ سکا اور اس کا الزام پورے پاکستان خصوصاً مغربی پاکستان پر آ گیا۔ اس معاشی اونچ نیچ میں کئی بڑے تلخ واقعات رونما ہوئے تھے مثلاً میں نے کئی بار مشرقی پاکستان کے لیڈروں کو جو مغربی پاکستان کے دورے سے فارغ ہو گئے تھے واپسی کے کرائے کی تلاش میں دیکھا۔ مثلاً ایک بار نوابزادہ نصراللہ خان نے اپنی رہائش گاہ کے دروازے بند کر دیے انھیں معلوم نہیں تھا کہ میں بھی وہاں کہیں موجود ہوں اتنے میں مشرقی پاکستان کا ایک لیڈر آیا نواب صاحب نے بڑے ہی خفیہ انداز میں ان کو نقد رقم دی اور جب انھوں نے دیکھا کہ میں بھی موجود ہوں تو وہ سخت پریشان ہو گئے اور میری منت کی کہ میں یہ راز رکھوں کیونکہ یہ ایک سیاستدان کی عزت اور وقار کا معاملہ تھا اور نواب صاحب اس سلسلے میں بہت حساس تھے۔
اب اگر مشرقی پاکستان کے یہ لیڈر اپنی ناداری کا ذکر کرتے تھے تو ان کا کیا قصور تھا جن کے پاس ملک کے دونوں حصوں میں آنے جانے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ مغربی پاکستان کے کئی کاروباری لوگوں نے وہاں کاروبار شروع کیا لیکن ماحول ایسا تھا کہ مغربی پاکستان کے یہ کاروبار کرنے والے اپنے مشرقی پاکستانی بھائیوں کو مطمئن نہ کر سکے جن کی توقعات بہت زیادہ تھیں البتہ کراچی کے کچھ کاروباری لوگ وہاں بڑے پیمانے پر کام کرتے گئے۔ اصفہانی چائے والے کچھ انشورنس والے لیکن یہ عام لوگوں تک نہیں پہنچتے تھے۔
اب بلوچستان کی بات ہوئی ہے جو ذرا مختلف ہے۔ بلوچستان میں سوال سرداری نظام کا ہے۔ ایک بار بھٹو صاحب نے یہ نظام ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اور چند خطرناک لوگ ان کے سامنے آ گئے جن کا ذکر مناسب نہیں لیکن سرداری نظام جو کسی جماعت کا نہیں حکومت کا تھا اسے کوئی حکومت ہی ختم کر سکتی تھی لیکن کسی حکومت نے بھی اسے ختم نہ کیا۔ اور یہ اب تک چل رہا ہے۔
بھارت ہو یا کوئی ہمارا دشمن اس کے لیے اس وقت پاکستان کا نازک ترین حصہ بلوچستان ہے۔ یہ صوبہ شروع دن سے ہی توجہ طلب ہے اور اب تک اس پر توجہ نہ کرنا ملک کے لیے مناسب اور مفید نہیں ہے۔ یہاں کے قبائلی لوگ بے حد پسماندہ ہیں اور ان کی معاشی ترقی لازم ہے لیکن اس کے لیے ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے جو درد دل کے ساتھ ملک کے اس حصے کو نئی زندگی دے اور یہ کام کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔
مشرقی پاکستان یعنی نصف پاکستان ہم نے گنوا دیا اور تھوڑی بہت بحث و تمحیص کے بعد اپنے ملک کے غم میں کھانا کھا کر سو گئے اور اب تک سوئے چلے جا رہے ہیں جب کہ ہمارا دشمن بھارت ہمیں اپنے سرگرم جاسوسوں کی مدد سے بار بار جگا رہا ہے لیکن ہم کروٹ بدل کر سو جاتے ہیں۔ بھارت جو ہمارا صحیح اور تاریخی دشمن ہے ہمیں اپنی کسی نہ کسی حماقت کی وجہ سے خبردار کرتا رہتا ہے مگر ہم خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوتے۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ ہماری غفلت کی کھلی مثال ہے۔
دشمن نے پہلے ہمارے ملک کا مشرقی کونا تلاش کیا اور دیکھا کہ ہم پاکستانی اپنے ملک کے اس حصے پر توجہ نہیں دے رہے۔ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کے مقابلے میں معاشی لحاظ سے کمزور اور پسماندہ تھا۔ چنانچہ ہمارے دشمنوں نے ہمارے ملک کے اس حصے میں پاکستان کے لیے بددلی پھیلانی شروع کر دی، میں مشرقی پاکستان بارہا گیا اور یہاں کئی دوست پیدا کیے جو پوچھتے تھے کہ وہ مغربی پاکستان کے مقابلے میں پسماندہ کیوں ہیں۔
یہ ایک تاریخی مسئلہ تھا اور ہمارے ملک کا یہ حصہ مدتوں سے پسماندہ چلا آ رہا تھا، ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ہندوستان جو ایک طویل و عریض ملک تھا اس میں معاشی اونچ نیچ بہت تھی اور مشرقی پاکستان ان علاقوں میں تھا جو شروع دن سے ہی پسماندہ تھے۔ اگرچہ مغربی پاکستان کے کئی حصے خوشحال تھے لیکن اتنے بھی نہیں کہ پورے ملک کو خوشحالی سے بہرہ مند کر سکیں چنانچہ مشرقی پاکستان شروع دن سے ہی پسماندہ تھا اس کی ترقی کی کوشش جاری تھی لیکن وقت درکار تھا۔
اور ہمارا دشمن ہمیں یہ وقت دینے پر تیار نہیں تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان پسماندگی سے نکل نہ سکا اور اس کا الزام پورے پاکستان خصوصاً مغربی پاکستان پر آ گیا۔ اس معاشی اونچ نیچ میں کئی بڑے تلخ واقعات رونما ہوئے تھے مثلاً میں نے کئی بار مشرقی پاکستان کے لیڈروں کو جو مغربی پاکستان کے دورے سے فارغ ہو گئے تھے واپسی کے کرائے کی تلاش میں دیکھا۔ مثلاً ایک بار نوابزادہ نصراللہ خان نے اپنی رہائش گاہ کے دروازے بند کر دیے انھیں معلوم نہیں تھا کہ میں بھی وہاں کہیں موجود ہوں اتنے میں مشرقی پاکستان کا ایک لیڈر آیا نواب صاحب نے بڑے ہی خفیہ انداز میں ان کو نقد رقم دی اور جب انھوں نے دیکھا کہ میں بھی موجود ہوں تو وہ سخت پریشان ہو گئے اور میری منت کی کہ میں یہ راز رکھوں کیونکہ یہ ایک سیاستدان کی عزت اور وقار کا معاملہ تھا اور نواب صاحب اس سلسلے میں بہت حساس تھے۔
اب اگر مشرقی پاکستان کے یہ لیڈر اپنی ناداری کا ذکر کرتے تھے تو ان کا کیا قصور تھا جن کے پاس ملک کے دونوں حصوں میں آنے جانے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ مغربی پاکستان کے کئی کاروباری لوگوں نے وہاں کاروبار شروع کیا لیکن ماحول ایسا تھا کہ مغربی پاکستان کے یہ کاروبار کرنے والے اپنے مشرقی پاکستانی بھائیوں کو مطمئن نہ کر سکے جن کی توقعات بہت زیادہ تھیں البتہ کراچی کے کچھ کاروباری لوگ وہاں بڑے پیمانے پر کام کرتے گئے۔ اصفہانی چائے والے کچھ انشورنس والے لیکن یہ عام لوگوں تک نہیں پہنچتے تھے۔
اب بلوچستان کی بات ہوئی ہے جو ذرا مختلف ہے۔ بلوچستان میں سوال سرداری نظام کا ہے۔ ایک بار بھٹو صاحب نے یہ نظام ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اور چند خطرناک لوگ ان کے سامنے آ گئے جن کا ذکر مناسب نہیں لیکن سرداری نظام جو کسی جماعت کا نہیں حکومت کا تھا اسے کوئی حکومت ہی ختم کر سکتی تھی لیکن کسی حکومت نے بھی اسے ختم نہ کیا۔ اور یہ اب تک چل رہا ہے۔
بھارت ہو یا کوئی ہمارا دشمن اس کے لیے اس وقت پاکستان کا نازک ترین حصہ بلوچستان ہے۔ یہ صوبہ شروع دن سے ہی توجہ طلب ہے اور اب تک اس پر توجہ نہ کرنا ملک کے لیے مناسب اور مفید نہیں ہے۔ یہاں کے قبائلی لوگ بے حد پسماندہ ہیں اور ان کی معاشی ترقی لازم ہے لیکن اس کے لیے ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے جو درد دل کے ساتھ ملک کے اس حصے کو نئی زندگی دے اور یہ کام کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔