’’اب کیا خیال ہے اے اقبال کے شاہینو‘‘
جو کھانا ہم کبھی چکھتے بھی نہیں اسے پیدا کرنے میں کل عالمی زرعی رقبے کا اٹھائیس فیصد استعمال ہوتا ہے
SIALKOT:
جو قحطِ رزق میں گذرے تھے جاں سے
اب ان کی خاک پے فصلیں کھڑی ہیں
( محشر بدایونی)
میری تربیت اس ماحول میں ہوئی جہاں روٹی کا ٹکڑا زمین پر گرجاتا تو اسے چوم کر واپس چنگیر میں رکھ دیا جاتا۔ بوٹی یا آلو نیچے گر جاتا تو اسے دھو کے کھا لیا جاتا۔مگر وہ ماحول، وہ دنیا، وہ تربیت کچھ اور تھی۔
پاکستان کے شہروں میں ایسا کون شخص ہے جس نے ایک بار بھی یہ منظر نہ دیکھا ہو کہ کوئی بوڑھا، جوان، بچہ، عورت، لڑکی کچرے کے ڈھیر سے گلی سڑی سبزی یا پھل کو الٹ پلٹ کر قابلِ خورد ٹکڑا تلاش کر رہے ہوں اور پاس ہی ایک کتا یا بلی بھی اسی کام میں مصروف ہو۔
ہم میں سے لاکھوں لوگ روزانہ یا تو کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہیں، یا کسی تقریب میں جبلی ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر بریانی اور قورمے کے پہاڑ اپنی پلیٹ میں بناتے ہیں اور آدھا پہاڑ اسی پلیٹ میں چھوڑ کے میٹھے پر لپک پڑتے ہیں۔کبھی سوچا کہ جو کھانا ضایع ہوتا ہے یا استعمال نہیں ہو پاتا وہ کہاں جاتا ہے ؟
عالمی ادارہِ خوراک نے تین برس پہلے غیر استعمال شدہ کھانے کے بارے میں جامع رپورٹ شایع کی۔اس کے مطابق دنیا میں ہر رات لگ بھگ ستاسی کروڑ افراد بھوکے سوتے ہیں (ممکن ہے پچھلے تین برس میں یہ تعداد بڑھ کے ایک ارب تک جا پہنچی ہو)۔رپورٹ کے مطابق دنیا میں جتنی خوراک تیار ہوتی ہے اس میں سے تینتیس فیصد استعمال ہوئے بغیر ضایع ہو جاتی ہے۔ یعنی ہم ہر سال ساڑھے سات سو ارب ڈالر مالیت کا ایک اعشاریہ تین ارب ٹن کھانا ضایع کر دیتے ہیں۔ اس مسترد کھانے کے گلنے سڑنے سے سالانہ تین اعشاریہ تین بلین ٹن گرین ہاؤس گیسز پیدا ہو کر خلا میں پہنچتی ہیں اور عالمی درجہ حرارت کے اضافے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔یعنی یہ ضایع کھانا اس کرہِ ارض کو چار سو تیس ارب ڈالر سالانہ کا ماحولیاتی نقصان پہنچاتا ہے۔
جو ایک تہائی کھانا ہم ضایع کر دیتے ہیں اس کی تیاری میں جتنا پانی خرچ ہوتا ہے وہ روس کے سب سے بڑے دریا وولگا کے سالانہ بہاؤ کے برابرہے۔ایک کلو چاول جو استعمال ہوئے بغیر ضایع ہوگیا اس کی پیداوار پر دو ہزار لیٹر پانی صرف ہوتا ہے۔ایک کلو بیف جو ہم کوڑے میں پھینک دیتے ہیں اس کی نمو پذیری پر پندرہ ہزار لیٹر پانی صرف ہوتا ہے۔
جو کھانا ہم کبھی چکھتے بھی نہیں اسے پیدا کرنے میں کل عالمی زرعی رقبے کا اٹھائیس فیصد استعمال ہوتا ہے اور اسے قابلِ خورد بنانے پر بیالیس ارب ڈالر کا ایندھن صرف ہوتا ہے۔
پاکستان میں دو ہزار تیرہ کے قومی غذائی سروے کے مطابق اٹھاون فیصد خاندانوں کو یا تو پوری خوراک نہیں ملتی یا ناقص خوراک ملتی ہے۔پانچ برس سے کم عمر کے چوبیس فیصد بچے یعنی ہر چوتھا پاکستانی بچہ ناکافی غذائیت کا شکار ہونے کے سبب فطری جسمانی و ذہنی نشوونما سے محروم ہے۔ پاکستان نے ازخود اقوامِ متحدہ سے سن دو ہزار میں وعدہ کیا کہ اگلے پندرہ برس میں ناکافی غذائیت کے بحران کو کم از کم پچاس فیصد تک کم کرنے کیلیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔اب یہ ہدف دو ہزار تیس تک بڑھا دیا گیا ہے۔مگر دو ہزار تیس تک بھی یہ ہدف کیسے حاصل ہو پائے گا ؟
جرمن واچ گلوبل کلائمٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی ابتری کے نتیجے میں پانی کی کمی کے سبب دو ہزار تیس تک زرعی پیداوار میں پچاس فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔اس کمی کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانیوں کی پوری کوشش ہے کہ زرعی رقبہ بڑھانے کے بجائے اور گھٹایا جائے اور اس کا ایک طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ بڑھتی آبادی کی رہائشی ضروریات پوری کرنے کے لیے بنجر قطعاتِ زمین پر بستیاں بسانے کے بجائے پھیلتے شہروں اور قصبوں کے نزدیک کی زرخیز زرعی زمینوں کو ہی رہائشی کالونیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ فوراً کروڑ پتی بنا جائے۔آیندہ نسلوں کے ساتھ کیا ہوگا آیندہ نسلیں جانیں۔
اور آیندہ نسل کا انتظار کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے ؟ پاکستان میں دنیا کے بہترین پھل اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔لیکن درجہ اول کی معیاری زرعی اجناس بیرونِ ملک برآمد ہو جاتی ہیں۔ پاکستانیوں کو صرف بی اور سی درجے کا پھل اور سبزی درجہ اول کے نرخوں پر میسر ہے۔
ان حالات میں کاشتکار بھی کیوں نہ نقد آور فصلوں میں دلچسپی لے جب وہ یہ دیکھے کہ آڑھتی اس سے پانچ روپے کلو آلو خرید کر منڈی میں دس روپے کلو سپلائی کررہا ہے اور منڈی سے پرچون والا وہی آلو خرید کے اس صارف کو بیس تا پچیس روپے کلو بیچ رہا ہے جو صارف بذاتِ خود ناکافی غذائیت اور غذائی عدم تحفظ کے نرغے میں ہے۔یعنی کھیت سے آلو ڈھائی سو فیصد زائد قیمت پر صارف کے کچن تک پہنچ رہا ہے۔
اس فارمولے کو آپ ہر سبزی اور پھل پر لاگو کر لیں۔ اگر حکومت مڈل مین کو بیچ میں سے نکال کر فارمر اور کنزیومر کو براہ راست رابطے کی سہولت فراہم کرے جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان ہے تو کاشتکار کو بھی اپنی فصل کی اچھی قیمت مل سکتی ہے اور صارف کو بھی یہ اشیا آدھی قیمت میں دستیاب ہوسکتی ہیں۔مگر حکومت یہ غیر ضروری کام کرے کیوں ؟
دودھ بچے کی جسمانی و ذہنی نشو و نما میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔پاکستان دودھ کی پیداوار کے عالمی چارٹ میں پانچویں نمبر پر ہے۔اس کے باوجود کوئی یہ المیہ سمجھنے پر تیار نہیں کہ سب سے کم دودھ پاکستانی بچے کو ہی میسر آتا ہے اور اس کے اثرات جسم تاحیات بھگتتا ہے۔
بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں گاؤں سے چالیس تا ساٹھ روپے لیٹر دودھ خرید کے یہی دودھ ڈبہ پیک کر کے اسی کسان کو ایک سو بیس روپے فی لیٹر میں واپس کر رہی ہیں۔مگر ادھار کا مارا اور ترس ترس کے پیسے وصول کرنے کا عادی خوار کسان ملٹی نیشنل کارپوریشن سے چالیس تا ساٹھ روپے نقد اور فوری ملنے پر اتنا خوش ہے کہ اس کی نگاہ طویل المیعاد نقصانات تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔
یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ جسمانی نشو و نما کے لیے لازمی پوٹاشیم کا خزانہ بہترین پاکستانی کیلا ایکسپورٹ ہو رہا ہے اور بھارت کا کیلاپاکستان میںامپورٹ ہو رہا ہے۔ کہنے کو پاکستان غذائی توانائی کے خزانے یعنی کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے عالمی رینکنگ میں پانچویں نمبر پر ہے مگر مکران کی بیگم جنگی کھجور کو پیک کر کے مارکیٹ کرنے کا کوئی انتظام نہیں اور ایرانی کھجور ہر جگہ دستیاب ہے۔
بچپن میں جو دیسی رسیلی ناشپاتی کھائی اس کا سوچ کے آج بھی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔لیکن اب اس ناشپاتی کو چین سے آنے والی ناشپاتی نے بری طرح بیدخل کردیا ہے۔یہ سیکڑوں میں سے چند مثالیں ہیں۔گویا ہمارا حقِ انتخابِ غذا بھی اب غیروں کے ہاتھوں مقامی کاروباریوں کے توسط سے گروی ہو گیا ہے۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ ِنازک پے آشیانہ بنے گا ، ناپائیدار ہو گا
کہا تو یہ شعر اقبال نے مغرب کے لیے تھا۔ لیکن اب اپنے بارے میں کیا خیال ہے اے اقبال کے شاہینو؟