قیامت کی چال

یہاں تک کہ برصغیر کے ساتھ والے ممالک کے پاس بھی نہیں ہے آپ نیٹ پر جاکر چیک کر لیں ہماری بات کو

جو قوم ٹوتھ برش کو آخر میں ازاربند ڈالنے کے سہولت کارکا کردار ادا کرنے کے قابل بنانے کی ٹیکنالوجی رکھتی ہو، جس کے پاس K-2 جیسا پہاڑ اور 1965 میں اس جیسے عزم کا مظاہرہ کرنے کا ریکارڈ ہو۔ جس کے پاس سٹیوک کی سونے کی کان ہو، KPK میں جواہرات کا خزانہ ہو، تیل، گیس، کوئلہ، سمندر، دریا، میدان، بندرگاہیں اور وہ سب کچھ ہو جوکسی دنیا کے ملک کے پاس نہیں ہے۔

یہاں تک کہ برصغیر کے ساتھ والے ممالک کے پاس بھی نہیں ہے آپ نیٹ پر جاکر چیک کر لیں ہماری بات کو۔ انشاء اللہ سو فیصد درست پائینگے وہ قوم بھکاری کیوں بن گئی ہے؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر قوم نے اپنے آپ سے کیا ہے، جو زوال پذیر تھی اور اس کا جواب حاصل کرکے انھوں نے ''بندوبست'' کیا ''چور دروازے'' بند کیے۔ ملک کی نظریاتی اور حقیقی سرحدوں اور فصیلوں کو مضبوط کیا اور بحران سے نکل کر آزاد، آباد، خوشحال ملک بن گئے۔

سری لنکا کو ہی دیکھ لیجیے۔اس ملک میں کیا کیا تباہ کاریاں تاملوں نے کسی کے اشارے پرکیں اور پھر اسے اس مصیبت سے پاکستان نے ہی چھٹکارا دلایا جس کا وہ آج تک اعتراف کرتے ہیں۔ ان پر دوسرا اثر اس وقت پڑا جب پاکستانی ڈرائیور نے ان کی کرکٹ ٹیم کی جان بچائی جس پر وہ آج تک اس احسان کو نہیں بھولے۔جو پاکستان دوسرے ملک کیلیے یہ سب کچھ کرسکتا ہے وہ آج اپنے لیے یہ سب کچھ کرنے میں کس قدر دشواری محسوس کر رہا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے تو وہ کیا چیز ہے جو ہماری ترقی یا ملک کی ترقی کو روکے ہوئے ہے۔

جس لیڈر سے پوچھیں وہ پاکستانی قوم کے عزم اور حوصلے کی بات کریگا یہ ٹھیک ہے کہ ایسا ہی ہے مگراس عزم اور حوصلے کے باوجود ملک کا حال بدترین ہے۔کیا وجہ ہے؟ اس پر غورکرنا چاہیے اور ضرورکرنا چاہیے۔ قوموں کیلیے سب سے ضروری ہے اتحاد باہمی۔ یہ ایک پرانی اور سچ بات ہے کہ ملک سے باہر جا کرآپ پاکستانی ہی ہوتے ہیں مگر ملک کے اندر؟ ہم ایسے شکاری بن جاتے ہیں جو ہر دوسری برادری، زبان کے بولنے والے اور علاقوں کے رہنے والے کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔

ملک سے باہر ہم بین الاقوامی اورغیرملکی قوانین کا ''جوا'' گردن میں ڈال لیتے ہیں اور''کولھو کے بیل'' کی طرح ''جُتے'' رہتے ہیں کام میں۔ ڈالر، ریال، ین کے چکر میں اور ملک میں آتے ہی ہم ذہنی طور پر بنیان اور نیکر میں رہ جاتے ہیں۔ ایک نمبرکے شیخی خورے، دھوکے باز بن جاتے ہیں بلاتفریق! اس لفظ بلاتفریق کو تمام تر وسعتوں کے ساتھ محسوس کیجیے۔یہ میں چند لوگوں کا رونا نہیں رو رہا بشمول اپنے ہم سب اس کے ذمے دار ہیں اور اس کی وجہ ہے ہماری قومی بینائی کی کمزوری جس پر تعصب کی عینک چڑھی ہے۔

ہم اسلام کو بھی اپنے مقاصد کے تحت الگ الگ بیان کرتے ہیں جب کہ یہ ہماری اساس ہے اور بہت سادہ اور آسان ہے مگر ہم نے مشکل بنادیا ہے۔ خدا ان کی مدد کر رہا ہے جو سمجھنا چاہتے ہیں اور وہ اسلام کے حلقے میں داخل ہو رہے ہیں اور سچے ہیں۔ ہم سے زیادہ سچے اور بہتر مسلمان عقائد چاہے کچھ ہوں کیونکہ اسلام عقائد کا مجموعہ نہیں ہے۔ حقائق کا آسمان ہے۔ سچ کا درخشاں سورج ہے۔

اب اگر مجھ جیسا آدمی یہ بات کرے تو ''ٹھیکیداروں'' کواعتراض ہوگا؟ یہ ان کا علاقہ ہے اور یہ ان کی دکان۔بہت افسوس سے لکھ رہا ہوں اور ہمیشہ یہ لکھتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ہم نام کے مسلمان ہیں، کام کے مسلمان نہیں ہیں۔کام کا مسلمان وہ ہے اگر آپ سوال کریں تو عرض کرتا ہوں کہ جس کا سب سے پہلے انسانیت پر ایمان ہو، تُوکون، میں کون؟ پر نہیں اسلام پہلے انسان کو دیکھتا، سمجھتا ہے، اس کے بعد وہ حق کی طرف بلاتا ہے یہاں بندوق، خنجر، لاٹھی، جلسے جلوس سے اسلام کو نافذ کیا جاتا ہے، اسلام ذاتی کردار سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ ہر مسلمان کا فرض ہے۔


اس دیوار کی ہر اینٹ ایک مسلمان ہے اور مسلمان صرف مسلمان ہے اور کچھ نہیں۔جب بھی کسی قوم نے ''انتشار'' کو رہنما بنایا، وہ ذلتوں کے گہرے غار کی نذر ہوگئی، انتشار ہوس سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ تقسیم وسائل کا عمل رک جاتا ہے اور ہر شخص جمع کرنے لگتا ہے، طاقت، دولت، جائیداد، جو چیزیں خلق خدا کی مدد کیلیے ہیں وہ خلق خدا سے ہی چھین کر فرد جمع کرلیتا ہے۔ اسے کسی بھی ازم کا نام دے دیں یہ انسانیت کا ''تباہی ازم'' ہے۔زمین پر انسان آرام سے کیوں نہیں رہ سکتا؟ یہ زمین اللہ نے انسان کیلیے بنائی ہے کہ وہ یہاں آرام سے رہے۔

دوسروں کو ''آرام سے رہنے دے'' کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ کہ سب کچھ دنیا سے چھین کر جمع کرکے، خود بھی بے سکون رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی بے سکون رکھتے ہیں۔ چاہے وہ ملکی وسائل ہوں یا کسی غریب کی کٹیا جو امیر نے اپنا محل بنانے کو غریب سے چھین لی ہے اور خود دربدر ہے۔جن لوگوں کو وراثت میں آرام، دولت، وسائل ملے ہیں انھیں خدا کے سامنے جھک جانا چاہیے اور خدا کے بندوں کی ''سچی خدمت'' کرنی چاہیے۔ بلٹ پروف شیشے کے پیچھے کھڑے ہوکر خطاب نہیں کرنا چاہیے۔

بلند صرف ایک ذات ہے آپ خود کو پھلدار درخت بنائیں تو دلوں میں محبتوں کے چراغ جلیں گے نہ جانے میں کیوں کہہ رہا ہوں؟ کس سے کہہ رہا ہوں؟ یہاں تو صرف اپنا علاقہ، اپنی زبان، اپنے لوگ کا فلسفہ ہے اور اس اپنے میں بھی صرف اپنے کی نیت ہے۔ توڑ دو ان دیواروں کو، ذہانت اور ایمانداری کو راستہ دے دو، ذہانت، ایمانداری محنت سے مل کر قوم کو قوم بناتی ہے اور پھر اس کے سامنے نہ پہاڑ کھڑے رہ سکتے ہیں، نہ صحرا، نہ سمندر۔ وہ قوم ہر جگہ وہ راستے تعمیر کردیتی ہے جس سے اس کے لوگ ہمیشہ آباد رہتے ہیں خوش رہتے ہیں، بامراد رہتے ہیں، ہمارے بزرگوں نے سب کے بزرگوں نے، ہمیشہ سچ اور حق کا ساتھ دیا اور کامیاب و کامران رہے۔

کس کے دربار میں کون مقام پاتا تھا کوئی کوٹہ سسٹم نہیں تھا، صرف قابلیت، ذہانت کو معیار اور سکہ رائج الوقت کا درجہ حاصل تھا۔ انصاف یہ ہے کہ سب کے ساتھ ہو۔ انصاف یہ نہیں کہ تقسیم میں جانبداری کا مظاہرہ کیا جائے۔ زبان سے مذہب تک ہم نے دکانداری ہی کی ہے اور کچھ نہیں کیا ہے اور دکانداری بھی ایمانداری کے ساتھ نہیں بلکہ ذاتی فائدوں کیلیے، پر اس کا کیا نتیجہ ہے۔ ملک سے فرار، شہنشاہ ایران سے زیادہ کوئی طاقتور شہنشاہ موجودہ صدی میں نہیں تھا، کیا ہوا آج اس کے وارثوں کا بھی کچھ دنیا کو پتا نہیں شاہ تو نہ جانے کہاں دفن ہوگیا۔

دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

پاکستان کے شاہوں غور کرلو! دیکھ لو، سمجھ لو کہ زمانہ جب چال چلے گا تو پھر آپ کی کوئی چال نہیں چلنے والی۔ میں نے تو بہت کچھ لکھ دیا کہ یہی کرسکتا ہوں سب کے لیے اپنے لیے۔

آج کچھ درد مرے دل میں سِوا ہوتا ہے
Load Next Story