دائیں اوربائیں بازوکا حقیقی مفہوم

یہ ایک ہی چیز ہے جو اپنے الٹ میں بدل کر خود سے مختلف بھی ہوجاتی ہے

ibhinder@yahoo.co.uk

KARACHI:
تبدیلی حرکت کی مرہونِ منت ہے اور حرکت تضاد کا نتیجہ ہے۔اس اعتبار سے ہر شے، تصور،خیال، نظریہ اورقدر وغیرہ کا اپنے الٹ میں تبدیل ہونا لازمی امر ہے۔ الٹ کا یہاں یہ مفہوم نہیں ہے کہ شے، تصور،خیال، نظریہ اور قدرکسی ایسے الٹ یا مخالف میں تبدیل ہوگیا ہے، جو اس سے حتمی طور پر الگ ہے اور اب اسے ایک اجنبی کے طور پر جاننا ہے۔ ایک ایسا اجنبی جو اس سے الگ خارج میں موجود ہے۔

یہ ایک ہی چیز ہے جو اپنے الٹ میں بدل کر خود سے مختلف بھی ہوجاتی ہے اور خود کے جیسی بھی رہتی ہے۔ انسانی شعور ابھی تبدیلی کے اس عمل کا عادی نہیں ہوا کہ جہاں وہ اپنے الٹ کو اپنا قرار دے سکے۔وہ خود میں ہی اپنے اجنبی کو تراش لیتا ہے اور اپنے ہی الٹ کو خود سے الگ کرکے دیکھتا ہے۔

شے، تصور،حقیقت اورنظریے کو مخصوص سماجی حالات میں مختلف تضادات کی بنیاد پر جنم لینے والی حرکت کی بنیاد پر سمجھنا چاہیے۔اس کے برعکس ان عوامل کو ان سے الگ کرکے دیکھنے کے عمل کو منطقی اعتبار سے سمجھنے کی کوشش بالآخر اس نتیجے پر ختم ہوتی ہے کہ انسان کے پاس اتنی عقل ہی نہیں ہے کہ وہ اشیا، تصور، خیال، حقیقت کی ماہیت کو جان سکے۔ دائیں اور بائیں بازو کے درمیان تعلق کو بھی اس اصول کے تحت سمجھا جاسکتا ہے۔

بائیں اور دائیں بازوکے درمیان فرق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں کے اندران کے متضاد کو دیکھا جائے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو بائیں کے اندر دایاں اوردائیں کے اندر بایاں بازو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ جیسا کہ فرانسیسی انقلاب کے دوران جاگیرداراشرافیہ کا تعلق دائیں بازو سے تھا اور انقلابی بورژوازی جو آج بائیں کی نمایندہ ہے اس کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔اسی طرح برطانیہ میں لیبر پارٹی اور پاکستان میں پیپلز پارٹی کا ظہور بائیں بازو کی جماعتوں کے طور پر ہوا تھا، لیکن یہ دونوں ہی آخرکار دائیں بازوکی نمایندہ بن گئیں۔آغاز میں یہ دونوں جماعتیں سماج میں بنیادی تبدیلی کی خواہش مند تھیں۔

بعد ازاں دونوں کا مقدمہ ان کے ردِ مقدمہ میں تبدیل ہوگیا ۔ انھوں نے بنیادی تبدیلی کی خواہش کو ترک کرکے وہ پالیسیاں اختیارکرلیں جو ان کی دائیں بازو کی''قدامت پسندی''کو نمایاں کرنے کے لیے کافی تھیں۔اسی طرح اکثردیکھنے میں آیا ہے کہ کئی سیاسی جماعتیں تبدیلی کا نعرہ لگاتی ہیں، لیکن جونہی وسیع سطح پرعوام حقیقی تبدیلی کے لیے سڑکوں پر نکلتی ہیں تو ان پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما انتخابات سے قبل ''انقلاب'' کے نعرے لگاتے تھے، لیکن اقتدار ملنے کے بعد محنت کشوں کی ہڑتالوں کا جواب بندوق سے دیا جاتا ہے۔

سیاسی جماعتیں اس تبدیلی کی بات نہیں کرتیں جو معروضی حقیقت کے اندر سماجی تضادات کی تحلیل کے لیے ضروری ہوتی ہے، بلکہ انھیں صرف وہ تبدیلی درکار ہوتی ہے، جو ان کے اپنے مفادات کے لیے ناگزیر ہو۔تبدیلی کا یہ مخصوص تصور چونکہ گنتی کے لوگوں کے مخصوص مفادات کی تکمیل کے لیے ضروری ہوتا ہے،اس لیے یہ بہت محدود ہوتا ہے۔اس تصور پر وسیع تر انسانی مفادات کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ان کا تبدیلی کا مخصوص تصور جو انھیں انھی کے مفادات کے گرد گھماتا ہے، وہ انھیں دائیں بازو سے جوڑتا نظر آتا ہے۔ ان معنوں میں تمام سیاسی جماعتیں حقیقت میں دائیں بازو ہی کی نمایندہ ہوتی ہے۔

فرانسیسی انقلاب اور اس کے بعد انقلابات و رد انقلابات اور بعدازاں ان میں سے مغربی دنیا نے جو شکل اختیارکی اس کا باریک تجزیہ کرنے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ فلسفے، نظریات اور اقدار اپنے الٹ میں کیسے تبدیل ہوتے ہیں۔ فرانسیسی انقلاب اپنی سرشت میں ایک بورژوا انقلاب تھا، جس نے مغرب میں جدید جمہوریت کے تمام راستے کھول دیے۔ تاہم آج ''بورژوا'' کا لفظ ساری دنیا میںقدامت پسندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

اٹھارویں صدی میں جس طبقے نے اپنے عہدکے دائیں بازوکا تختہ الٹا،آج وہی طبقہ ساری دنیا میں تبدیلی کے عمل کے راستے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ایسی ہی صورتحال ہمیں روسی انقلاب سے قبل اور بعد میں دکھائی دیتی ہے ۔انقلاب سے قبل کے انقلابی جنہوں نے ایک انسان دوست نظریے کی بنیاد پر انقلاب برپا کیا، جنہوں نے زار شاہی کا تختہ الٹا، بعد ازاں انھوں نے خود ہی ایک جامد وساکت بیوروکریسی کے نمائندے بن کر تاریخی عمل کی حرکت کو اپنے حساب سے چلانے کا بیڑہ اٹھالیا، انقلابی تبدیلی کو برپا کرنے والے تبدیلی کے راستے کی رکاوٹ بن گئے۔ہزاروں کی تعداد میں اپنے ہی نظریے سے تعلق رکھنے والے کارکنوں، دانشوروں، مفکروں، فلسفیوں اورادیبوں کا قتل عام کرنے لگے۔ انسان دوستی انسان دشمنی میں بدل گئی، یہی وہ وقت تھا جب نظریہ تبدیلی کی جہت کی تشخیص کرنے میں معاون ثابت نہ ہوا اور آخرکار اپنے الٹ میں تبدیل ہونے لگا۔


پاکستان کے لبرل حلقے جن کو غلطی سے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے تصورکرلیا گیا ہے، وہ اپنی سرشت میں دائیں بازو ہی کے علمبردار ہیں۔ جب اقلیتوں کے لیے انصاف اور مساوات کی وکالت کرتے ہیں، جب خواتین کے حقوق کا واویلا کرتے ہیں، آزادی، انفرادیت کے فروغ کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس وقت یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ ان کی فکر ترقی پسندانہ اور بائیں بازو کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس سے دائیں بازو کے کٹر ''دانشوروں'' کو ان کے بائیں بازو سے تعلق ہونے کا یقین ہوتا ہے۔

لبرل حلقوں میں دائیں بازوکا رجحان ان کے ''مثالی آدرشوں'' میں مضمرنہیں ہے، بلکہ ان کی اس تنگ نظری میں ہے ، جس کی وجہ سے وہ نظام کے ان گھناؤنے تضادات کو نہیں دیکھ پاتے جو ریاستوں کو جنگوں اور دہشت گردی میں دھکیل کر ان تمام اقدارکی نفی کرتا ہے جن کا مطالبہ لبرل حضرات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سرمایہ داری نظام کے اندر اپنے ہی خیالی آدرشوں کی عدم تکمیل کا عنصر دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

یہی وہ فیصلہ کن نکتہ ہے جو لبرل یعنی دائیں بازو کے لیے بائیں بازوکے التباس کو جنم دینے والے دائیں بازو کے نمایندہ دکھائی دیتے ہیں۔خرابی کی جڑیں ان کے ''خیالی آدرشوں'' میں نہیں، بلکہ نظام کے اندر مساوات، آزادی، انفرادیت، جمہوریت اور انصاف جیسی اقدار کی حدود کو نہ دیکھنے میں پیوست ہیں۔ اس غلط فہمی کو دورکرنا بہت ضروری ہے کہ لبرل ازم کے حامیوں کا تعلق بائیں بازو سے نہیں ہے۔

کیونکہ لبرل ازم کے حامی نظام کے اندر رہتے ہوئے اس تبدیلی کی بات کرتے ہیں جس کی گنجائش سرمایہ داری کے اندر سرمائے کی بقا کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ وہ ریاست کے مسائل کو محض نظریات کا تصادم گردانتے ہیں۔ وہ مساوات، انفرادیت، جنس، خواتین کے حقوق جیسے اہم مسائل کو معاشی، سیاسی اور سماجی نظام سے الگ کرکے دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس غربت، افلاس، بیروزگاری، جبر و استحصال ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔

ویسے بھی اگر مارکسی پس منظر میں بایاں بازو اپنی الگ شناخت بناچکا ہے تو لبرل حضرات کو بائیں بازو سے جوڑنا سنگین نوعیت کی غلطی ہے۔ پاکستان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے نظریاتی سطح پر سرمایہ داری کے احیاوارتقا کا درست فہم رکھتے ہیں۔ وہ جب لبرل ازم کے خلاف لکھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ آزادی، مساوات، انصاف، انفرادیت اور جمہوریت وغیرہ کے خلاف ہیں اور ان کے برعکس قدامت پسندانہ 'ملائی' اقدار کا فروغ چاہتے ہیں۔ اس کا واحد مفہوم یہ ہے کہ ان تمام اقدارکو سرمایہ داری کے اندر یقینی نہیں بنایا جاسکتا اور تاریخ نے اس بات کو ثابت کیا ہے۔ سرمایہ داری کا بحران ان اقدارکی حدود کو متعین کرتا ہے۔

یہ بات ذہن نشین رہنی بہت ضروری ہے کہ جنگ یا دہشت گردی کا کوئی واقعہ بغیر وجہ کے رونما نہیں ہوتا۔ نائن الیون کا ذمے دار خواہ اسامہ بن لادن ہو، یا امریکا کی اپنی خفیہ ایجنسیاں، ایک بات تو طے ہے کہ اس واقعے کی احتیاج امریکی سرزمین پر موجود تھی، یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں اسی ایک واقعے کی بنیاد پر امریکا کی ساری خارجہ پالیسی متعین کرلی گئی تھی۔ نائن الیون کی دہشت گردی کے اندر امریکا کی خارجہ پالیسی اسی طرح پیوست ہے، جس طرح دائیں بازوکے اندر بایاں بازو اور بائیں بازوکے اندردایاں بازوموجود ہے۔

نائن الیون کا واقعہ امریکا کی کسی ایک حکومت کے اندر دائیں بازوکے رجحان کو نمایاں نہیں کرتا، بلکہ یہ واقعہ امریکی ریاست میں بحیثیت مجموعی دائیں بازو کے رجحان کو منکشف کرتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال فرانس اور بلجیم کے شہر برسلز میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں دکھائی دیتی ہے۔گزشتہ دو دہائیوں کے واقعات کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی کے حملے کے بعد خارجہ پالیسی متعین نہیں ہوتی، بلکہ خارجہ پالیسی کے اندر دہشت گردی پہلے ہی سے متعین کرلی جاتی ہے، جب کہ خارجہ پالیسی بیک وقت داخلہ پالیسی کا حصہ ہوتی ہے۔

اس تناظر میں دیکھیں تو اس وقت امریکا، برطانیہ، مغرب سمیت بہت سے ممالک داخلی و خارجی سطح پر قدامت پسندانہ دائیں بازوکے حصار میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ تبدیلی کے عمل کی جہت کو شناخت نہ کرنا،اس سے الٹ یہ کہ صورتحال پر خود سے کوئی 'تبدیلی' مسلط کرنے کی خواہش دائیں بازوکی سیاست کی ترجیح بن کر رہ گئی ہے اور یہ رجحان اس وقت کم و بیش ساری دنیا میں پایا جاتا ہے۔
Load Next Story