تھر میں غیر سرکاری تنظیمیں اور حقائق

این جی اوز تھر کی بہبود کے نام پر ملنے والی رقم سے عیاشی کرتی ہیں جبکہ تھر باسی آج بھی دشوار زندگی گزارنے پرمجبور ہیں


مزمل فیروزی April 08, 2016
آنکھوں دیکھا حال یہ بتاتا ہے کہ تھر میں این جی اوز اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے بورڈز کا سہارا لے رہی ہیں، دیکھنے والوں کو لگے کہ یہاں بہت کام ہورہا ہے لیکن حقیقت بالکل برعکس ہے۔ 

تھر، دنیا کا تیسرا بڑا عظیم صحرا جہاں کی 90 فیصد آبادی خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ جب وہاں جاکر لوگوں سے ملاقات ہوئی یہ احساس شدت سے ہوا کہ انہیں زندگی کے نام پر محض گھسیٹا جا رہا ہے۔ ان کی زرد آنکھیں، الجھے بال، خوشی سے عاری سپاٹ چہرے دیکھ کر دل میں سوز و گداز پیدا ہوتا چلا جاتا ہے کہ ارباب اختیار آخر انہیں نظر انداز کیوں کرتے چلے آرہے ہیں؟

آزادی حاصل ہونے کے طویل عرصے بعد بھی آج تک ہم اپنی سرحدوں پر بسنے والوں کو وہ اہمیت نہیں دے پائے جس کے وہ مستحق ہیں۔ ننگر پارکر جاتے ہوئے رینجرز کی چوکی پر معلوم ہوا کہ وہاں مقامی رہائشی کے گھر سے کچھ بھارتی پکڑے گئے ہیں۔ سماجی کارکن بن کر آنے والے ان بھارتیوں کو یہاں کے سادہ لوح مقامی افراد کچھ پیسوں کی آس پر اپنے گھروں میں رہنے کو جگہ دے رکھی تھی۔

سازشی کارستانیوں کی یہ داستاں کوئی نئی نہیں بلکہ تقسیم ہند کے بعد سے ہی بھارت اس خطے کوعدم استحکام دینے کی نیت کئے بیٹھا ہے، جس پر وہ گاہے بہ گاہے اپنے لوگ سماجی کارکنوں کے بھیس میں یہاں بھیجتا رہتا ہے اور یہ نام نہاد غیر سرکاری فلاحی تنظیمیں جہاں ایک طرف وطن عزیز کی سالمیت کو نقصان پہنچانے میں ملوث ہیں تو دوسری طرف ان کی اس حالات زار کو مقامی ایجنٹوں کے ذریعے کیش بھی کرا رہی ہیں۔ ایسے ہی ایک نام نہاد مقامی سماجی کارکن سے جو ان فلاحی تنظیموں کے ساتھ منسلک ہے۔ ہم نے مٹھی کے بازار میں ایک دوکاندار کے توسط سے ملاقات کی مگر مزید معلومات کے لئے جب ہم نے اس شخص کو دوبارہ زحمت دی تو موصوف نے بہانہ بنا کر ملنے سے معذرت کرلی، جس سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوگیا کہ انسانیت کہ یہ سوداگر سادہ لوح تھریوں کو کس طرح بے وقوف بنا رہے ہیں۔

تھری عوام کی تصاویری شکل میں حالت زار دکھا کر دوسرے ممالک سے کروڑوں روپے بٹور رہے ہیں۔ یہ حضرات علاقے کی بہبود کے نام پر ملنے والی رقم سے عیاشی کرتے ہیں، جبکہ تھر باسی وہی سخت اور دشوار زندگی گزار رہے ہیں۔ صحرائے تھر میں مختلف این جی اوز کے نام کے بورڈز جگہ جگہ لگے نظر آتے ہیں، جن پر ان این جی اوز کی جانب سے تعمیر کئے گئے اسکول، ہنر مندی کے مراکز اور ڈسپینسریوں پر مشتمل مختلف قسم کے پروجیکٹس کے نام درج ہیں، مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ تمام پروجیکٹس اب بند پڑے ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں سب برائے نام چلتا ہے، ان سے وابستہ افراد سال میں ایک دو بار یہاں آتے ہیں رجسٹر میں لوگوں کے ناموں کا اندراج کرتے ہیں اور پھر ایک لمبےعرصے کیلئےغائب ہوجاتے ہیں۔





جب ہم نے یہاں کے پرانے رہائشی اور ریسٹ ہاؤس کے ملازم مہا دیو کمہار سے ان بند اداروں سے متعلق جانچ پڑتال کی تو پتا چلا کہ ان دکھی تھریوں کا مداوا کرنے کیلئے بڑی تعداد میں غیر سرکاری تنظیمیں محض دکھاوے کی حد تک کام کرکے اپنے بینک بیلنس بنا رہی ہیں۔ یہاں یہ بات ضرور کہنا چاہیں گے کہ دھوکہ دہی کا معاملہ سب تنظیموں پر نہیں بلکہ اکثر تنظیموں پر لاگو ہوتا ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ اکثر این جی اوز نے اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے خدمت اور انسانیت کے نام پر تھری عوام کی لاچاری کا سودا کر رکھا ہے۔ اس حقیقت کا اندازہ ایسے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈیپلو میں نمک جھیل سے واپسی پر ہم نے گلے میں کیمرا لٹکائے ایک موٹر سائیکل سوار شخص کو کو روک کر کچھ معلومات میں مدد چاہی تو پتہ چلا کہ وہ یہاں کے کھیتوں اور مویشیوں کی تصاویر اُتار کر ایک این جی او کو ای میل کر دیتا ہے، جس پر یہ نام نہاد این جی اوز اپنا گھناؤنا کاروبار چلاتی ہیں۔





اس کے ساتھ سانپ کے کاٹنے کی فری ملنے والی ویکسین این جی او کے مقامی کارندے پیسوں کے عوض لوگوں کو دیتے ہیں۔ تھر کے ایک اور مقامی چندر کمار کا کہنا تھا کہ پیسوں کی مدد کے بجائے یہاں کے لوگوں کو اس قابل بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی محنت سے کمانے کے قابل ہوجائیں۔ اب تک خشک سالی سے تھر کا 60 فیصد سے زائد حصہ متاثر ہوا ہے، جبکہ زیادہ تر افراد اپنے مال مویشی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں حالانکہ قدرتی آفات سے بچاؤ اور فوری امدادی سرگرمیاں انجام دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ مگر حکومتی کارندے زمینی حقائق کے برعکس چین کی بانسری اور سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔

یہاں کے حکمراں اس صحرا کی بھوک و افلاس پر قابو پانا نہیں چاہتے ورنہ یہ نا ممکنات میں سے ہر گز نہیں ہے۔ یہاں سے اتنا زرمبادلہ پیدا کیا جاسکتا ہے جو کہ نہ صرف اس خطے کیلئے بلکہ آس پاس کے علاقوں کی ضروریات کو بھی پورا کرسکتا ہے۔ سرحدی علاقے ننگر پارکر میں کارونجھر جبل بھی اسی عظیم صحرا کی زینت ہے، جو قیمتی پتھر گرینائیٹ کا خزانہ لئے اپنی شان و شوکت دکھا رہا ہے۔ یہاں سے متعلق مشہور ہے کہ آتش فشاں نے ٹھنڈا ہونے اور جمنے کے بعد گرینائیٹ کی شکل اختیار کرلی تھی جو کم وبیش 27 مربع کلو میٹر رقبے پر 305 میٹر اونچائی پر محیط ہے۔ کارونجھر پہاڑ کے قیمتی پتھر کو جدید طریقوں سے نکالنے، تھر کول منصوبے کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنے، شمسی توانائی کے منصوبے لگانے اور ترسیل کے لئے ریلوے لائن بچھانے جیسے انتظامات ہنگامی بنیادوں پر کر لئے جائیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہاں کے مقامی افراد کو سہل آمد و رفت کے ساتھ ساتھ معدنیات کی ترسیل بھی با آسانی ہوسکتی ہے۔

ایشیاء کے سب سے بڑے پانی کے آر او پلانٹ سے بھی صحیح معنوں میں فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر پانی کو دور افتادہ گاؤں تک پہنچانے کا معقول بندوبست کرلیا جائے، بند چھوٹے پلانٹس کو فعال بنالیا جائے تو وہاں کے لوگوں کی پریشانی بہت حد تک کم کی جاسکتی ہے۔ مٹھی سول اسپتال کو مزید بہتر بنا کر، سرکاری اسپتال ہر تحصیل میں قائم کرنے اور بڑے گوٹھوں میں ڈسپنسریاں قائم کرنے سے لوگوں کو طبی سہولیات کی فراہمی بھی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ تھرمیں پہلے سے جاری قالین بانی اور دستکاری کے کام کو صنعت کا درجہ دینے، اورعلاقے میں چھوٹی صنعتیں قائم کرنے سے روزگار کے محدود مواقع کو وسیع کیا جاسکتا ہے۔ جانوروں کی افزائش میں اضافہ کے لئے وسیع فارمز، دودھ محفوظ کرنے کے پلانٹس اور جانووں کی بیماریوں اور اموات کی روک تھام کیلئے ویٹرنری اسپتال اور پولٹری فارمز جیسے منصوبےعلاقے مقامی رہائشیوں کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہوسکتے ہیں۔

دوسری جانب اسکولوں، کالجوں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی ذہن سازی کے لیے بھی ادارے قائم کیے جاسکتے ہیں جس میں لوگوں کی ذہنی اہلیت کو دیکھتے ہوئے انہیں بتایا جائے کہ وہ کس کا آغاز کریں، کونسا کام اُن کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ دنیا کا یہ تیسرا عظیم صحرا ارباب اختیار کی نظر کرم کا تاحال منتظر ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں