تمام ادارے عدالتی احکام من وعن تسلیم کرنے کے پابند ہیں چیف جسٹس
وزرائے اعظم اور وزرأ آتے جاتے رہتے ہیں،سول افسروں کا کوئی سیاسی کردار نہیں ہونا چاہیے
KARACHI:
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اور آئین کے تحت سپریم کورٹ کے پاس معاملات کو نمٹانے کیلیے حقیقی دائرہ اختیار، اپیل، نظرثانی اور مشاورتی اختیارِ سماعت حاصل ہے۔
سپریم کورٹ کے دورے پر آئے ہوئے زیرتربیت سول افسروں(اوایم جی) سے خطاب میں انھوں کہاکہ آئینِ پاکستان کے تحت اس عدالت کے فیصلہ جات کی پابندی ملک کی دیگر تمام عدالتوں پر لازم ہے۔ تمام انتظامی اور قانون ساز اداروں پر لازم ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایات پر من و عن عمل کریں۔ چیف جسٹس نے شرکا سے کہا کہ عزت اورمرتبہ ایسے نہیں ملتے ان کا حصول تبھی ممکن ہے جب آپ اپنے فرائض کو بہتر طریقے سے سرانجام دیں گے۔ ہر سرکاری عہدیدار کو اختیارات قانون کے مطابق اور معاشرے کی فلاح کیلیے استعمال کرنے چاہئیں۔ اگر آپ پاکستان کی عزت اور وقار کو بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی بھی دبائو کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اپنے فرائض عوام اور ریاست کے ملازمین کے طور پر بلاخوف و خطر اور ایمانداری سے سرانجام دیں۔ سوِل سروس ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔
حکومتیں بنتی ہیں، حکومتیں ختم ہوتی ہیں، وزرائے اعظم اور وزرأ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن آپ اپنی جگہ پر رہتے ہیں لہٰذا آپ کے کندھوں پر بہت بڑی ذمے داری ڈالی گئی ہے۔ کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاسی رہنما کی مخالفت یا حمایت کرنے میں آپ کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ آئین کے مطابق جو کوئی حکومت بنے یا جو کوئی بھی وزیراعظم یا وزیر آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اختیارات سنبھالے آپ کی ذمے داری صرف اُس حکومت کی خدمت ایمانداری اور وفاداری سے کرنا اور بے خطر رہتے ہوئے اپنے اونچے رتبے، وقار اور اپنی ملازمت کی ساکھ کو بحال رکھنا ہے۔ اگر سیاسی عہدیداروں کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی بے ضابطی یا بدافعالی نظر آئے تو آخری حربے کے طور پر عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ آئین کی شق 37(d) میں ریاست پر لازم ہے کہ وہ سستا اور فوری انصاف یقینی بنائے۔ اگر عدالتیں غیر جانبدارانہ اور فوری انصاف فراہم کررہی ہوں تو کسی قوم کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ عوام کے حقوق کا حتمی تحفظ عدالتوں کے پاس ہے جو آخری اُمیدگاہ ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اور آئین کے تحت سپریم کورٹ کے پاس معاملات کو نمٹانے کیلیے حقیقی دائرہ اختیار، اپیل، نظرثانی اور مشاورتی اختیارِ سماعت حاصل ہے۔
سپریم کورٹ کے دورے پر آئے ہوئے زیرتربیت سول افسروں(اوایم جی) سے خطاب میں انھوں کہاکہ آئینِ پاکستان کے تحت اس عدالت کے فیصلہ جات کی پابندی ملک کی دیگر تمام عدالتوں پر لازم ہے۔ تمام انتظامی اور قانون ساز اداروں پر لازم ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایات پر من و عن عمل کریں۔ چیف جسٹس نے شرکا سے کہا کہ عزت اورمرتبہ ایسے نہیں ملتے ان کا حصول تبھی ممکن ہے جب آپ اپنے فرائض کو بہتر طریقے سے سرانجام دیں گے۔ ہر سرکاری عہدیدار کو اختیارات قانون کے مطابق اور معاشرے کی فلاح کیلیے استعمال کرنے چاہئیں۔ اگر آپ پاکستان کی عزت اور وقار کو بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی بھی دبائو کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اپنے فرائض عوام اور ریاست کے ملازمین کے طور پر بلاخوف و خطر اور ایمانداری سے سرانجام دیں۔ سوِل سروس ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔
حکومتیں بنتی ہیں، حکومتیں ختم ہوتی ہیں، وزرائے اعظم اور وزرأ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن آپ اپنی جگہ پر رہتے ہیں لہٰذا آپ کے کندھوں پر بہت بڑی ذمے داری ڈالی گئی ہے۔ کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاسی رہنما کی مخالفت یا حمایت کرنے میں آپ کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ آئین کے مطابق جو کوئی حکومت بنے یا جو کوئی بھی وزیراعظم یا وزیر آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اختیارات سنبھالے آپ کی ذمے داری صرف اُس حکومت کی خدمت ایمانداری اور وفاداری سے کرنا اور بے خطر رہتے ہوئے اپنے اونچے رتبے، وقار اور اپنی ملازمت کی ساکھ کو بحال رکھنا ہے۔ اگر سیاسی عہدیداروں کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی بے ضابطی یا بدافعالی نظر آئے تو آخری حربے کے طور پر عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ آئین کی شق 37(d) میں ریاست پر لازم ہے کہ وہ سستا اور فوری انصاف یقینی بنائے۔ اگر عدالتیں غیر جانبدارانہ اور فوری انصاف فراہم کررہی ہوں تو کسی قوم کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ عوام کے حقوق کا حتمی تحفظ عدالتوں کے پاس ہے جو آخری اُمیدگاہ ہیں۔