تین بڑے آدمیوں کی باتیں
اعلیٰ عدلیہ میں جسٹس کارنیلیس کے بعد سب سے معتبر نام جسٹس حمود الرحمن کاہے
سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒ اسلام کے وہ مفکّر اور قرآن کے وہ مفسّر تھے جنہوں نے الحاد کے آگے بند باندھ کر لاکھوں پڑھے لکھے نوجوانوں کو اسلام کی حقانیت سے روشناس کرایا۔اسلام پر ریسرچ کرنے والے یورپ اور امریکا کے ادارے مولانا مودودیؒ کی فکر اور فلسفے کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو روشن دماغ اور تاریخ کا گہرا شعور رکھنے والے مقبول ترین رہنما تھے۔ وہ ملک کے سب سے قابل اور مستعد وزیرِ خارجہ بھی رہے ۔
اعلیٰ عدلیہ میں جسٹس کارنیلیس کے بعد سب سے معتبر نام جسٹس حمود الرحمن کاہے، جنہوں نے جنرل یحيٰ کو غاصب قرار دیا اور سقوطِ مشرقی پاکستان پر تفصیلی رپورٹ لکھی۔ اِن تینوں بڑی شخصیات کے انٹرویوز ایک بڑے صحافی جناب الطاف حسن قریشی کے قلم سے تحریر ہوئے۔انتہائی اہم موضوعات پر ان کے خیالات قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کررہا ہوں اس لیے کہ ایک ایک لفظ آج بھی تروتازہ اور Relevant ہے۔
مولانا مودودیؒ بتاتے ہیں''جب میں کالج سے فارغ ہوا تو میری عمر سولہ سترہ برس تھی۔ اُس کے بعد 'آوارہ خوانی' شروع کی یعنی جو کچھ ملا، پڑھ ڈالا اور ہر موضوع پر کتابیں زیرِ مطالعہ رہیں۔ اَس آوارہ خوانی کا انتہائی خطرناک نتیجہ برآمد ہوا۔ خُدا اور آخرت پر سے یقین اُٹھ گیا اور تشکیک سے ایمان کی بنیادیں منہدم ہوتی گئیں۔ خدا کا وجود سمجھ ہی میں نہ آتا اور تمام دینی عقائد لَغو اور غیر منطقی محسوس ہونے لگے۔ ایک ڈیڑھ سال یہی کیفیت رہی''
الطاف صاحب نے حیران و پریشان ہوکر پوچھا ۔ کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں؟
''ہاںمگرتذبذُب و تشکیک کی یہ کیفیّت زیادہ دیر قائم نہیں رہی۔ مجھے عربی زبان پر خاصاعبور حاصل تھا، چنانچہ قرآن و حدیث کا براہِ راست مطالعہ شروع کیا اور حقائق کے باب کھُلتے گئے اور بے یقینی کا غبار دُھلتا گیا۔ میں دوسرے ادیان کا مطالعہ بھی کر چکا تھا جس نے مجھے ایک گونہ اطمینان عطا کیا۔ اب میں نے اسلام سوچ سمجھ کر قبول کیا اور مجھے اس کی حقانیّت پر کامل یقین تھا۔ ''
''مولانا ! اسلام کا پورا نظامِ حیات سمجھنے میں قرآن و حدیث کے علاوہ کونسی کتابوں نے رہنمائی کی؟''
'' ابنِ تیمیہؒ، ابنِ قیّمؒ اور شاہ ولی اﷲ ؒ کی کتابوں نے میرے ذہن کی پختگی میں اہم کردار ادا کیا۔''
''مولانا! دین اور مذہب میں کیا فرق ہے؟ '' اُنھوں نے بے ساختہ جواب دیا:
''شریعت میں مذہب کا لفظ 'مکتب ِ فکر' (School of Thought) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جب کہ دین سے مراد وہ پورا ضابطہء حیات اور نظامِ زندگی ہے جو خدا اور اُ س کے رسولؐ نے ہمیں دیا ہے''۔
س: ''ہر آن زندگی متحرک اور ارتقاء پذیرہے اور اسلام جو ایک نظامِ زندگی ہے، کیا اس میں بھی لچک اور حرکت پائی جاتی ہے؟''
ج: ''یقیناً اِس میں وہ فطری لچک موجود ہے جس کا تقاضا ایک ارتقاء پذیر زندگی کرتی ہے۔ اِجتہاد اِسی لچک اور حرکت کا دوسرا نام ہے۔ اَس کے ذریعے اسلام زندگی کے ہر گُل ِ تازہ کی آبیاری کے علاوہ ہر نئے اُبھرنے والے گوشے کو روشنی فراہم کرتا ہے، چنانچہ اِجتہاد اسلام میں غیر معمولی اہمیّت رکھتا ہے اور اِس کی ضرورت ہر زمانے میں محسوس کی جاتی رہی ہے۔ یہ اور بات کہ اجتہاد آج متضاد مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے''۔
س: یہ بین الاقوامیت کا دور ہے، مختلف تہذیبوں کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا ایک فطری عمل ہے ان حالات میں مغربی تہذیب کے ساتھ مصالحت کرلینے میں کیا حرج ہے؟
ج:'' تہذیبیں برابری کی سطح پر رہ کر کبھی سفر نہیں کرتیں۔ ایک تہذیب غالب ہوتی ہے اور دوسری مغلوب اوراس عمل میں کوئی درمیانہ راستہ موجود نہیں۔ اگر ہم اپنی تہذیب کو غالب رکھنا چاہتے ہیں، تو پھر ہمیں مدافعت کے بجائے جارحانہ قدم اٹھانا ہوگا ۔ وہ قومیں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہا کرتیں جو حفاظت کے لیے اپنے چاروں طرف قلعے تعمیر کرلیتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں اسلامی تہذیب کے اندر دنیا کی غالب تہذیب بننے کی تمام ترصلاحیتیں موجود ہیں، اور اب اس کا انحصار مسلمانوں پر ہے کہ وہ اِسے غالب تہذیب بنانے کے لیے کیا کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ میں اِتنا جانتا ہوں کہ کوئی غیور اور آزاد قوم تہذیب کے معاملے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا کرتی۔ قوم کی تہذیبی انفرادیت اگر ختم ہو گئی، تو پھر کیا باقی رہا؟ جو لوگ اپنی تہذیب چھوڑ کر دوسروں کی تہذیب اپناتے ہیں، اُن کی حیثیّت خس و خاشاک سے زیادہ نہیں ہوتی''۔ قریشی صاحب مزیدلکھتے ہیں
''مولانا مودودی نے 1948 کے اوائل میں ٹیمپل روڈ پر مولانا عبدالحلیم قاسمی کی مسجد میں ہر اتوار کی صبح درسِ قرآن دینا شروع کیا۔ میں اس میں باقاعدگی سے شریک ہوتا رہا۔ یہ غالباً مئی کا مہینہ تھا کہ درسِ قرآن کے اختتام پر ایک صاحب نے مولانا سے جہادِ کشمیر کے بارے میں سوال کیا۔ وہ پہلے خاموش رہے۔
بار بار اصرار کے بعد فرمانے لگے ''قرآن کی رُو سے صرف ریاست جہاد کا اعلان کرنے کی مجازہے۔ غیر مسلّح ریاستی جتھّے اپنے طور پر کسی ملک یا ریاست کے خلاف جہاد شروع نہیں کرسکتے۔ ''اس پر ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا کہ مولانامودودیؒ نے جہادِ کشمیر کو حرام قرار دے دیا ہے مگر وقت نے اُن کی بات پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے، کہاں جماعتِ اسلامی کاوہ امیر... کہ علم و عرفان کا بحرِ بیکراں ... اور کہاں آج کے امیر ... افسوس صد افسوس! پَست قسم کے سیاسی مفادات جنکا مطمعٔ نظر!
٭٭٭٭٭
پاکستان کے ذہین ترین وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے پوچھا گیا
''پاکستان میں آنے کے بعد آپ نے تعلیم کا میدان منتخب کیا یا وکالت کا؟'' تو انھوں نے جواب دیا۔
''سچ پوچھیے، مجھے شروع سے علمی مشاغل سے گہری دلچسپی رہی۔ اِسی شوق نے مُجھے ساؤتھمپٹن یونیورسٹی (انگلستان) میں کام کرنے پر مجبور کیا۔ میں وہاں بین الاقوامی قانون کا لیکچرار مقرر ہوا، لیکن جلد ہی یہ فخر میرے اندر ایک کسک میں تبدیل ہوگیا۔ میں سوچنے لگا میری تمام صلاحیّتیں مرے وطن کی ہیں، تو میں اِنہیں کسی دوسرے ملک کے لیے کیو ںضایع کروں ، چنانچہ اپنے وطن چلا آیا اور سندھ مسلم لاء کالج (کراچی) میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگا۔ ''
س:''اس تاثر میں کتنی صداقت ہے کہ اسلامی ممالک نے 1965 کی جنگ میں ہماری مدد کی تھی؟''
ج:''یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ ہمارا بہت مضبوط سہارا بنے تھے''۔
سوال:کیا بھارت واقعی دل سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں مخُلص ہے؟
جواب:''میرے خیال میں یہ سب ایک فریب ہے۔ ہماری شدید خواہش ہے ہمسایہ ملک سے ہمارے تعلقات نہایت اچھے ہوں، لیکن بھارت کی نیّت ٹھیک نہیں لگتی۔ ہندو ذہنیت کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اُس نے برِصغیر میں ہر نئی اُبھرنے والی تہذیب کو اپنے اندر جذب کرکے اُس کی انقلابی اور تحریکی قوّت ختم کرڈالی،لیکن اسلامی تہذیب اتنی جاندار ثابت ہوئی کہ ہندو تہذیب کے تمام ہتھکنڈے اور سارے حربے ناکام رہے ۔
انیسویں صدی میں ہندوتہذیب ایک نیا سوانگ بھر کر سامنے آئی اور اس نے ا پنا نام 'انڈین نیشنل کانگریس ' رکھ لیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے اندر سے وہ جوہر کھینچ لیاجائے جو انھیں زندہ، غیور اور بے باک رکھتا ہے۔ قائدِاعظمؒ کی دُوربین نگاہوں نے ہندو ذہنیّت کے خطرناک ارادے بھانپ لیے اور اُنھوں نے اپنی تمام کوششیں مسلمانوں کے اندر سیاسی ، دینی اور تہذیبی شعور منظّم کرنے پر صرف کردیں، یوں مسلمان اپنا جداگانہ تشخّص قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔
اِ س کی بنیاد پر برِصغیر تقسیم ہوا اور ہندو عَفریت پیچ و تاب کھاتا رہ گیا، مگر شکار پھانسنے کے نئے نئے منصوبے بناتا رہا ۔ ہندو برہمن نے پاکستان کا وجود کبھی تسلیم نہیں کیا، اُن کا مقصد پاکستان کی صورت میں ہندو تہذیب کے خلاف تعمیر ہونے والے قلعے میں شگاف ڈالنا ہے۔ ہم نے اُن پر یہ حقیقیت بار بار واضح کی ہے کہ تعاون صرف دو برابر مُلکوں کے درمیان ہوسکتا ہے۔ تم جب تعاون کی بات کرتے ہو، تو تمہارے پیشِ نظر پاکستان کی تسخیر ہے۔''کہاں بھٹو صاحب جیساپاکستانی نیشنلسٹ اور کہاں ان کے جانشین ۔۔۔قبلہ زرداری صاحب! اور ان کا پِسر۔
٭٭٭٭٭٭
اور اب ملک کے سب سے Birlliantچیف جسٹس سے کی گئی بات چیت سے مستفیض ہوں۔
س:''آپ کے خیال میں ایک مثالی جج کو کن صفات کا حامل ہونا چاہیے؟''
ج:'' ایک آئیڈیل جج کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں خدا کی رہنمائی کا طالب رہے اور اپنی تمام صلاحیتیں اور قوّتیں قیامِ عدل کے لیے بروئے کار لائے۔ اُس میں آخرت کی جوابدہی کا احساس بہت پختہ ہونا لازم ہے۔ خدا کے سامنے پیش ہونے کا تصوّر اُس کے ضمیر کو زندہ رکھے گا اور وہ پامردی کے ساتھ اُن رکاوٹوں کو عبور کرتا اور آگے بڑھتا رہے گا جو انصاف کا راستہ روکتی ہوں ''۔
''... میں مارشل لاء کے دوران دو سال ڈھاکا یونیورسٹی کا وائس چانسلر رہا۔ مجھے اس عرصے میں نوجوان طلبہ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اُن کی گمراہی اور بے راہ روی دیکھ کر اکثر سوچتا رہتا کیا ہم نے اس لیے یہ خطہء زمین حاصل کیا تھا کہ ہماری آنکھوں کے سامنے وہ مقاصد پامال ہوتے رہیں جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ مذہب سے گریز، اخلاقی نظم سے فرار ، زندگی کے بارے میں غیر سنجیدہ رویہ اور اسی قسم کے دوسرے عوامل سوسائٹی میں تیزی سے راہ پارہے ہیں''۔
''جن خرابیوں کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہ عام لوگوں میں پائی جاتی ہیں یا ایک خاص طبقے تک محدود ہیں؟''
''یہ خرابیاں ان لوگوں میں ہیں جو دانشور کہلاتے ہیں اور جن کے ذمے گلستان ِذہن کی آبیاری ہے''۔
چیف جسٹس حمود الرحمان، اﷲ کے احکامات پر تنقید کرنے والے موجودہ ججوں سے سو گنازیادہ پڑھے لکھے اور قابل تھے، ان کا یہ نقطہء نظر بھی سن لیں۔
''عقیدے کے بغیر کوئی معاشرہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ جاپان کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ وہ اپنے شہنشاہ کو خدا کا اوتار سمجھتے تھے۔ یہ شہنشاہ پوری قوم کو زندگی ، تازگی اور عزمِ راسخ عطا کرتا تھا، لیکن جب سے شکست خوردہ شہنشاہ نے فاتح جنرل میکارتھر کے آگے ہاتھ جوڑے ہیں، اہلِ جاپان کا عقیدہ متزلزل ہوگیا ہے اور وہ بے یقینی اور ذہنی انتشار کے گرداب میں پھنس گئے ہیں۔ اسلام۔۔ اہلِ پاکستان کے لیے ایک ناقابلِ تسخیر طاقت ہے۔ ہم ذہنی آزادی کے نام پر اس قوّت کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے''۔
یہ ہیں وہ شخصیات کہ جن کی فکر سے ریاستِ پاکستان کے خدوّ خال کی تشکیل میں رہنمائی لی جانی چاہیے ، ٹی وی اسکرینوں پر نظر آنے والے احساسِ کمتری کے مارے ہوئے جعلی دانشور انتشار تو پھیلاسکتے ہیں رہنمائی نہیں کرسکتے۔