لبنانی صحافت جس بحران میں آئی
انیسویں صدی میں بھی فارسی، اردو اور ہندی کے اخبارات اپنا اثرورسوخ رکھتے تھے
بیسویں صدی کی ابتدا سے اردو کے ناول اگر آپ کی نظر سے گزرے ہوں تو ان میں 'اخبار' بھی گھر کے ایک فرد کی طرح دکھائی دے گا۔ صاحب خانہ یا دوسرے لفظوں میں 'باپ' جو عموماً بیرسٹر، ڈپٹی کلکٹر، مجسٹریٹ، وکیل یا کلکٹر ہوتے تھے، وہ آپ کو اخبار پڑھتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ناول میں اخبار کا ذکر اس وقت اس بات کی علامت تھا کہ گھرانا پڑھا لکھا ہے اور اردگرد کے معاملات اور دنیا کی خبروں سے آگاہ رہنا چاہتا ہے۔
انیسویں صدی میں بھی فارسی، اردو اور ہندی کے اخبارات اپنا اثرورسوخ رکھتے تھے۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو ہندوستانیوں کے لیے اخبار کی ضرورت اور اہمیت بے حد بڑھ گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ جنگ عظیم میں ہمارے لاکھوں نوجوان (لاکھوں کی اس تعداد کو مبالغہ خیال نہیں کیجیے گا) برطانوی مفادات کے لیے مختلف محاذوں کی اگلی صفوں میں لڑرہے تھے۔ نت نئے اخباروں کے نکلنے اور ان کی اشاعت کے پھیلاؤ کا دوسرا سبب تحریک آزادی تھی، جو شروع ہوچکی تھی اور جسے کچلنے کے لیے برطانوی حکومت اپنی تمام قوت صرف کررہی تھی۔ اس کی ایک بڑی مثال جلیانوالا باغ میں نہتے لوگوں کا قتل عام تھا۔
اخبارات ان خبروں کو دور دراز علاقوں تک پہنچاتے اور یہ اخبار تھے جو تحریک آزادی کے لیے ایندھن کا کام کررہے تھے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ ہندوستان میں نکلنے والے تمام اخبار حکومت مخالف تھے۔ اس کے باوجود یہ ایک حقیقت تھی کہ مخالفین برطانوی حکومت کے حامی اخباروں میں سے بھی اپنے مطلب کی خبر نکال لیتے تھے۔
یہ باتیں اس لیے یاد آئیں کہ چند دن پہلے لندن سے آنے والی ایک خبر نے پریشان کردیا۔ یہ وہاں کے روشن خیال اور آزاد فکر اخبار 'انڈی پینڈنٹ' کی اشاعت کی بندش کی خبر تھی۔ اس سے یہ نہ سمجھیے کہ برطانوی سرکار کی طرف سے اس کے شایع ہونے پر قدغن لگی تھی بلکہ وہ بہت دنوں سے گھاٹے میں تھا، اس لیے انتظامیہ مجبور ہوئی کہ اس موقر اور معتبر اخبار کو بند کردے۔ میرے لیے یہ خبر اس لیے بھی ایک ذاتی حوالہ رکھتی تھی کہ میں جب بی بی سی اردو سروس سے وابستہ ہوئی اور لندن پہنچی تو پہلے دن سے 'انڈی پینڈنٹ' کی خریدار بن گئی۔ یہ وہ دور تھا جب ساری دنیا میں دائیں اور بائیں بازو کے درمیان تصادم اپنے عروج پر تھا۔ ایسے وقت میں 'انڈی پینڈنٹ' بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا۔
ابھی اس خبر کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بیروت سے خبر آئی کہ لبنان کا یہ شہر جو اپنے رسائل، جرائد اور اخباروں کے لیے مشہور تھا، وہاں کے اہم ترین اخبار 'السفیر' کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ اس شدید بحران سے دوچار ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ 40 برس سے اس دعوے کے ساتھ شایع ہونے والا اخبار جس کی لوح پر تحریر ہوتا تھا کہ 'ان کی آواز جن کی آواز نہیں سنی جاتی' اب شاید خود خاموش ہونے والا ہے۔ یہ وہ اخبار ہے جو شرق اوسط میں نہایت تکریم کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
لبنانی اخبار اور جرائد علاقے میں لڑی جانے والی لڑائی کے دوران خبروں اور تجزیے کا سب سے بڑا ذریعہ تھے لیکن خطے میں جو نیابتی جنگ چل رہی ہے اس نے ایک طرف وہ ذرایع خشک کردیے ہیں جو 'السفیر' ایسے اخبار کو مہیا تھے، دوسری طرف اس کے بعد دوسرے نمبر پر آنے والا اخبار 'النہار' بھی مالی پریشانیوں کے بھنور میں ہے۔ اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس میں کام کرنے والوں کو گزشتہ کئی مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں۔
'السفیر' نے اپنی مالی مشکلات پر قابو پانے کے لیے اخبار کے 18 صفحات سے کم کرکے 12 کردیے ہیں، اس کے باوجود 'السفیر' میں کام کرنے والے 159 ملازمین اس خوف میں گرفتار ہیں کہ کب ان پر چھانٹی کا کلہاڑا گرے گا۔ اس کے ساتھ ہی انھیں یہ اندیشہ بھی ہے کہ کہیں اخبار کی اشاعت سرے سے ہی بند نہ ہوجائے۔ سالہا سال سے وہ اس اخبار سے وابستہ رہے ہیں۔ اور انھوں نے اخبار کی شہرت اور اشاعت کو مستحکم بنیادوں پر تعمیر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'السفیر' نے خانہ جنگی کے بدترین دنوں میں لوگوں کو سچی اور حقیقت پر مبنی خبریں بہم پہنچائی ہیں۔ ایسے اخبار کے صدر دروازے پر ہمیشہ کے لیے تالا پڑجانا عرب صحافت کے لیے برا شگون ہوگا۔
بیروت اپنی امریکن یونیورسٹی، اپنے اشاعتی اداروں اور اخبارات کی وجہ سے تمام عرب دنیا میں عزت اور وقار کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ لبنانی صحافیوں اور دانشوروں کو یوں محسوس ہورہا ہے جیسے کوئی دن جاتا ہے کہ یہ افتخار ان سے چھن جائے گا۔ اس کا بنیادی طور پر ذمے دار وہ سیاست دانوں کو سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لبنان سے متصل علاقوں میں شام کی خانہ جنگی نے انھیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ لبنان دو کیمپوں کی لڑائی میں پس رہا ہے۔ ایک طرف خلیجی ریاستیں اور سعودی عرب ہے جب کہ دوسری طرف ایران اور شام ہیں۔ لبنان میں 7 برس سے عام انتخابات نہیں ہوئے ہیں۔ لبنانی سیاست دانوں کی غیر ذمے داری کا یہ عالم ہے کہ 2 برس کے عرصے میں وہ اپنا صدر منتخب کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس سیاسی بے یقینی کے اثرات لازماً اخبارات پر مرتب ہونے تھے اور وہ ہوئے۔
دنیا بھر کے اخباروں کو اس وقت اشتہارات میں کمی کا شکوہ ہے۔ ٹیلی ویژن کے علاوہ وہ انٹرنیٹ کی بہت بڑے پیمانے پر پذیرائی کے سبب تمام دنیا کا پرنٹ میڈیا مالی بحران کا شکار ہے۔ بہ طور خاص ایک ایسا علاقہ جہاں کی سرحدوں پر مختلف فوجیں اور لڑاکا گروہ پیش قدمی کررہے ہوں، توپیں گرج رہی ہوں اور شہری علاقوں پر بمباری ہورہی ہو۔ ایسے میں اخباروں کو اشتہار کہاں سے ملیں گے اور وہ لوگ کہاں سے آئیں گے جو ان اشتہارات سے متاثر ہو کر مختلف مصنوعات کی خریداری کریں۔ یہ کام الیکٹرونک میڈیا زیادہ خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے اسی لیے اشتہاری کمپنیاں پرنٹ میڈیا پر انھیں ترجیح دیتی ہیں۔
لبنانی اخبارات کی شہرت کا ایک سبب یہ بھی تھا اس میں لکھنے والے کالم نگاروں اور صحافیوں کو لکھنے کی آزادی تھی۔ اس سے وابستہ کالم نگار اس بات پر فخر بھی کرتے تھے لیکن اس میں سے کئی نے اس فخر کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کی اور کئی کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ 1975سے 1990 کے درمیان لیبیا کے معمر قذافی، عراق کے صدام حسین اور پی ایل او کے یاسر عرفات ان اخباروں کو سرمایہ فراہم کرتے تھے۔
لبنان کی خانہ جنگی ختم ہوئی تو لبنانی اخبارات کی سرپرسرستی کرنے والے بدل گئے۔ اب یہ سعودی عرب، قطر اور ایران سے آنے والا سرمایہ تھا جو ان اخباروں کے اخراجات پورے کررہا تھا۔ مشکل یہ ہے کہ ایران جس پر مغرب کی طرف سے سخت معاشی پابندیاں عائد رہیں، اس کے لیے بھی کھلے ہاتھوں سے خرچ کرنا ممکن نہیں رہا۔ ادھر سعودی عرب ہے جو عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے سبب مالی بحران سے دوچار ہے۔ تیل کی قیمتوں نے قطر کی دولت کے سوتے بھی خشک کردیے ہیں۔ ایک ایسی صورت حال کے سب سے خراب اثرات لبنانی صحافت پر مرتب ہوئے ہیں۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اخبارات اگر مختلف ملکوں کے بادشاہوں یا مال دار تجارتی گروہوں سے 'عطیات' لے کر چلائے جائیں تو خواہ وہ کتنے ہی اعلیٰ معیار کے ہوں، آخرکار انھیں مالی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیروت، قاہرہ اور فلسطین میں اس حوالے سے بہت سی افواہیں گردش کررہی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ 2015 میں ایک لبنانی ٹیلی وژن نے اپنے سرپرست اور مربی سعودی عرب سے جب عطیے کی درخواست کی تو اس کا صرف 10 فیصد یعنی 20 لاکھ ڈالر اسے دیا گیا۔ اخبارات کے مالکان اور ٹیلی وژن کے کرتا دھرتا اس نوعیت کی افواہوں کو غلط قرار دیتے ہیں لیکن اس میں سے کئی کا ماخذ 'وکی لیکس' ہیں۔
بیروت یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ لبنانی اخباروں کی اس تباہ حالت کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ 2011کے بعد سوشل میڈیا جس تیزی سے ابھر کر سامنے آیا اس نے اور مختلف عرب آمریتوں نے خود اپنے اخبار اور ٹیلی وژن اسٹیشن قائم کرنے شروع کردیے تاکہ صحافیوں اور دانشوروں سے وہ براہ راست کام لے سکیں۔
'انڈی پینڈنٹ' کی اشاعت کے خاتمے کی وجوہ اشہارات کی بھاری رقوم کا ٹیلی وژن چینلوں کو ملنا ہے۔ اس کے علاوہ اس اخبار نے جو آزادانہ پالیسی رکھی، وہ قدامت پرست اخبارات سے یکسر مختلف تھی اور اشتہاری کمپنیوں کو اس سے اختلاف تھا۔
اس کے برعکس لبنانی صحافت جس بحران میں آئی ہے، اس کا سبب اپنے خطے کی بادشاہوں کے 'عطیات' پرانحصار تھا۔ مشکل یہ ہے کہ 'عطیات' کے دریا کبھی بھی خشک ہوجاتے ہیں جس سے آج لبنانی اخبار دوچار ہیں۔ ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے اخبار بادشاہتوں کے عطیات پر نہیں چلتے اور وہ آج بھی گھر کے ایک 'فرد' کی حیثیت رکھتے ہیں۔