’’بحالی متاثرین ِدہشت گردی‘‘ وزارت قائم کی جائے
وطن عزیز کو دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے 15سال کا عرصہ بیت گیا اور کئی ہزار جانیں ضایع ہو چکی ہیں
KARACHI:
حالیہ چند ماہ کے دوران یورپ میں کئی دہشت گرد حملے ہوئے اور ان میں متعدد جانیں چلی گئیں لیکن وہاں کی حکومتیں مقتولین کے لواحقین کو مطمئن کرنے کے لیے بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں اور نہ ہی کسی ''انعامی'' رقم کا اعلان۔ بلکہ وہاں حکومتیں ایک نظام کے تحت جو کچھ کر دیتی ہیں وہ صحیح معنوں میں انسانیت کی خدمت ہوتی ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں جب دہشت گردی کی کسی واردات میں سیکڑوں بے گناہ لوگ شہید ہو جاتے ہیں' تب کوئی یہ فرماتا ہے کہ' ہم حالت جنگ میں ہیں'تو کوئی یہ اعلان کرتا ہے ' ختم ہوتے دہشت گردوں کی باقیات ایسی کارروائیاں کر رہی ہیں' وغیرہ وغیرہ ۔ پھر بے موت مارے جانے والوں کے لیے حکومت فوری نام نہاد ''امداد '' کا اعلان کرتی ہے۔
وطن عزیز کو دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے 15سال کا عرصہ بیت گیا اور کئی ہزار جانیں ضایع ہو چکی ہیں لیکن سانحہ گلشن اقبال لاہور کے بعد اب حکومت کو ایک کاغذ کا ٹکڑا ریلیز کرنے کاخیال آگیا جو گزشتہ دنوں پنجاب حکومت کی جانب سے ایک آرڈیننس کی صورت میں دیکھا گیا جسے قانونی شکل دینے کے لیے پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔
اس کے مطابق دہشت گردی میں شہید ہونے والے کے ورثاء کے لیے ''فکس ڈپازٹ'' 10 لاکھ روپے، جب کہ جسم کا کوئی عضو کٹ جانے یا ناکارہ ہونے کی صورت میں 5 لاکھ روپے وغیرہ ہوں گے ،مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تو حکومت سے جائز کام کرانے کے لیے بیسیوں چکر لگانا پڑتے ہیں، حکومت کی جیب سے پیسے لینا تو آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے مترادف ہے، کہاں کمشنر، ڈی سی او، پولیس رپورٹس، تھانے، کچہریاں یہ سب تو انسان کو جیتے جی مار دینے کے لیے کافی ہیں پھر اس پیکیج کی کیا ضرورت۔غریبوں کے لیے تو اس طرح کے پیچیدہ پیکیجزسہولت کے بجائے مصیبت کا باعث بن جاتے ہیں۔
راقم نے اس حوالے سے بہت تحقیق کی کہ دنیا بھر میں پسماندگان کو کس طرح ریلیف فراہم کیا جاتاہے مگر پاکستان جیسا ''ریلیف'' مجھے کہیں نظر نہیں آیا، یورپ و دیگر ممالک میں دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے لواحقین کی دیکھ بھال کے لیے ادارے موجود ہیں وہاں کی حکومتیں فوری امداد کا اعلان نہیں کرتی ہیں بلکہ مرنے والے افراد کے لواحقین کی ساری زندگی کی کفالت کا ذمے لیتی ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرتی ہے۔
امریکا میں بھی نائن الیون کے بعد لواحقین کے لیے تاحیات امدادی فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ فرانسیسی حملوں میں معمولی زخمی ہونے والی آسٹریلوی خاتون کے لیے آسٹریلین وزیر اعظم نے کم و بیش ایک کروڑ روپے 'کفالت' کا اعلان کیا گیااور اس کے مکمل تعلیمی اخراجات کی ذمے داری بھی اُٹھائی۔اسپین، اٹلی، ناروے اور حتیٰ کہ برازیل اور دیگر مغربی ممالک میں بھی ایسے ادارے کام کر رہے ہیں جو ''عوامی شہداء''کی کفالت کاانتظام کرتے ہیں۔اسرائیل میں تو مستقل فنڈقائم ہیں اور حکومت نے بجٹ میں مخصوص حصہ مقرر کر رکھا ہے۔
آپ دور نہ جائیں بھارت میں ہی کسی دہشت گردی کی صورت میں عام شہری کے ہلاک ہونے پر اعلان کردہ یکمشت ادائیگی کے ساتھ ساتھ بینک میں اس فیملی کے نام سے معقول رقم فکس ڈپوزٹ کرا دی جاتی ہے جس پر ماہانہ منافع لواحقین کو ملتا رہتا ہے اور ہیلتھ کارڈ دے دیا جاتا ہے، حکومت اعلیٰ تعلیم کے مواقعے فراہم کرتی ہے اور چند مخصوص میڈیکل کالجز میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے بھی ایک مخصوص کوٹہ رکھا جاتا ہے ،بیرون ملک میں بھی تعلیم کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ملکوں میں بھی ایسے ادارے موجود ہیں جو شہداء کے پسماندگان کی کفالت کی ذمے داری لیتے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو شاید یہ علم نہ ہو کہ ان 15سالوں میں جن خاندانوں کے پیارے ان سے بچھڑ گئے ان کی تعداد 90ہزار کے قریب ہے جو حکومتی نظروں سے اوجھل ہیں۔
مرکزی و صوبائی حکومتوں میں سے کسی کے پاس ان 90ہزار افراد کا ڈیٹا ہی موجود نہیں اور نہ ان کے خاندانوں کی فہرستیں ہیں۔ حکمرانوںکو بجائے اس کے کہ وہ اپنے ذاتی کاروبار چمکائیںاوربیرون ملک اربوں ڈالر کے اثاثے بنائیں، ایسا ادارہ بنانے یا وزارت قائم کرنے کی ضرورت ہے جو ان خاندانوں کی مستقل بنیادوں پر کفالت کر سکے۔ اگر حکومت یہ کام نہیں کر سکتی تو ان کی امداد کے لیے ایسا ادارہ قائم کر ے جو عوامی فنڈز کی بنیاد پر چلایا جائے،یہ ادارہ ''بحالی متاثرین دہشت گردی''کے نام سے بھی ہو سکتا ہے، اگر پاکستانی عوام روزانہ ایک ارب روپے خیرات کر سکتے ہیں یا خون دینے کے لیے بلڈ بینکوں کو بھر سکتے ہیں تو انسانی جذبے سے سرشار یہ قوم اس ادارے کی فلاح کے لیے یقینا کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔
بشرطیکہ عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ ان کے دیے ہوئے روپے پیسے کا صحیح جگہ استعمال ہو گا ۔ یہ ادارہ وفاق کے زیر اہتمام کام کرے اور کسی دہشت گردی کے واقعہ کی صورت میں فوراََ جاں بحق ہونے والوں اور زخمیوں کا ڈیٹا اکٹھا کرکے اس بات کا تعین کرے کہ کون کتنا حقدار ہے اور کون نہیں ؟ اگر یہ ادارہ قائم ہوگا تو حکومت کو بلاوجہ نمبر گیم کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔
اگر حکومت نے کچھ کرنا ہی ہے تو اس کے لیے مستقل بنیادوں پر فنڈریزنگ کا اہتمام کرے جیسے فی لیٹر پٹرول میں جہاں اتنے ٹیکسز پہلے سے ہی موجود ہیں ایک روپیہ متاثرین دہشت گردی کے لیے مختص کردیا جائے یاموٹر وہیکل کی رجسٹریشن فیس کے ساتھ فی گاڑی ایک ہزار روپے برائے شہد ا کے لیے رکھ دیے جائیںیا بجلی کے بلوں کے ساتھ جہاں پی ٹی وی کے 25روپے لائسنس فیس وصول کی جارہی ہے وہیں 5روپے شہدا ء کے نام پر وصول کیے جائیں ، ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت پسماندگان کو 5، 10لاکھ روپے دے کر فارغ کردے۔ حکومت اگر چاہے تو انھیں سینئر سٹیزن قرار دیا جائے۔
ان متاثرین کے لیے راشن کارڈ، بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ، ہیلتھ انشورنس کارڈ، یوٹیلیٹی بلز کارڈ، ٹرانسپورٹ کارڈ(جس میں ریلوے اور ہوائی سفر کے لیے رعایتی نرخ موجود ہوں)، ایجوکیشن کارڈ اور دیگر سہولیات جن میں شناختی کارڈ کی فیس اور پاسپورٹ بنوانے کی فیس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور اس جیسی بہت سی سہولیات فراہم کی جائیں جس سے وہ بھی ایک اچھے شہری کی طرح زندگی بسر کرسکیں۔ ورنہ اس طرح کے حکومتی آرڈیننس وغیرہ محض کاغذوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہیں شہدا کے لیے نہیں!!!
حالیہ چند ماہ کے دوران یورپ میں کئی دہشت گرد حملے ہوئے اور ان میں متعدد جانیں چلی گئیں لیکن وہاں کی حکومتیں مقتولین کے لواحقین کو مطمئن کرنے کے لیے بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں اور نہ ہی کسی ''انعامی'' رقم کا اعلان۔ بلکہ وہاں حکومتیں ایک نظام کے تحت جو کچھ کر دیتی ہیں وہ صحیح معنوں میں انسانیت کی خدمت ہوتی ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں جب دہشت گردی کی کسی واردات میں سیکڑوں بے گناہ لوگ شہید ہو جاتے ہیں' تب کوئی یہ فرماتا ہے کہ' ہم حالت جنگ میں ہیں'تو کوئی یہ اعلان کرتا ہے ' ختم ہوتے دہشت گردوں کی باقیات ایسی کارروائیاں کر رہی ہیں' وغیرہ وغیرہ ۔ پھر بے موت مارے جانے والوں کے لیے حکومت فوری نام نہاد ''امداد '' کا اعلان کرتی ہے۔
وطن عزیز کو دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے 15سال کا عرصہ بیت گیا اور کئی ہزار جانیں ضایع ہو چکی ہیں لیکن سانحہ گلشن اقبال لاہور کے بعد اب حکومت کو ایک کاغذ کا ٹکڑا ریلیز کرنے کاخیال آگیا جو گزشتہ دنوں پنجاب حکومت کی جانب سے ایک آرڈیننس کی صورت میں دیکھا گیا جسے قانونی شکل دینے کے لیے پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔
اس کے مطابق دہشت گردی میں شہید ہونے والے کے ورثاء کے لیے ''فکس ڈپازٹ'' 10 لاکھ روپے، جب کہ جسم کا کوئی عضو کٹ جانے یا ناکارہ ہونے کی صورت میں 5 لاکھ روپے وغیرہ ہوں گے ،مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تو حکومت سے جائز کام کرانے کے لیے بیسیوں چکر لگانا پڑتے ہیں، حکومت کی جیب سے پیسے لینا تو آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے مترادف ہے، کہاں کمشنر، ڈی سی او، پولیس رپورٹس، تھانے، کچہریاں یہ سب تو انسان کو جیتے جی مار دینے کے لیے کافی ہیں پھر اس پیکیج کی کیا ضرورت۔غریبوں کے لیے تو اس طرح کے پیچیدہ پیکیجزسہولت کے بجائے مصیبت کا باعث بن جاتے ہیں۔
راقم نے اس حوالے سے بہت تحقیق کی کہ دنیا بھر میں پسماندگان کو کس طرح ریلیف فراہم کیا جاتاہے مگر پاکستان جیسا ''ریلیف'' مجھے کہیں نظر نہیں آیا، یورپ و دیگر ممالک میں دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے لواحقین کی دیکھ بھال کے لیے ادارے موجود ہیں وہاں کی حکومتیں فوری امداد کا اعلان نہیں کرتی ہیں بلکہ مرنے والے افراد کے لواحقین کی ساری زندگی کی کفالت کا ذمے لیتی ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرتی ہے۔
امریکا میں بھی نائن الیون کے بعد لواحقین کے لیے تاحیات امدادی فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ فرانسیسی حملوں میں معمولی زخمی ہونے والی آسٹریلوی خاتون کے لیے آسٹریلین وزیر اعظم نے کم و بیش ایک کروڑ روپے 'کفالت' کا اعلان کیا گیااور اس کے مکمل تعلیمی اخراجات کی ذمے داری بھی اُٹھائی۔اسپین، اٹلی، ناروے اور حتیٰ کہ برازیل اور دیگر مغربی ممالک میں بھی ایسے ادارے کام کر رہے ہیں جو ''عوامی شہداء''کی کفالت کاانتظام کرتے ہیں۔اسرائیل میں تو مستقل فنڈقائم ہیں اور حکومت نے بجٹ میں مخصوص حصہ مقرر کر رکھا ہے۔
آپ دور نہ جائیں بھارت میں ہی کسی دہشت گردی کی صورت میں عام شہری کے ہلاک ہونے پر اعلان کردہ یکمشت ادائیگی کے ساتھ ساتھ بینک میں اس فیملی کے نام سے معقول رقم فکس ڈپوزٹ کرا دی جاتی ہے جس پر ماہانہ منافع لواحقین کو ملتا رہتا ہے اور ہیلتھ کارڈ دے دیا جاتا ہے، حکومت اعلیٰ تعلیم کے مواقعے فراہم کرتی ہے اور چند مخصوص میڈیکل کالجز میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے بھی ایک مخصوص کوٹہ رکھا جاتا ہے ،بیرون ملک میں بھی تعلیم کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ملکوں میں بھی ایسے ادارے موجود ہیں جو شہداء کے پسماندگان کی کفالت کی ذمے داری لیتے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو شاید یہ علم نہ ہو کہ ان 15سالوں میں جن خاندانوں کے پیارے ان سے بچھڑ گئے ان کی تعداد 90ہزار کے قریب ہے جو حکومتی نظروں سے اوجھل ہیں۔
مرکزی و صوبائی حکومتوں میں سے کسی کے پاس ان 90ہزار افراد کا ڈیٹا ہی موجود نہیں اور نہ ان کے خاندانوں کی فہرستیں ہیں۔ حکمرانوںکو بجائے اس کے کہ وہ اپنے ذاتی کاروبار چمکائیںاوربیرون ملک اربوں ڈالر کے اثاثے بنائیں، ایسا ادارہ بنانے یا وزارت قائم کرنے کی ضرورت ہے جو ان خاندانوں کی مستقل بنیادوں پر کفالت کر سکے۔ اگر حکومت یہ کام نہیں کر سکتی تو ان کی امداد کے لیے ایسا ادارہ قائم کر ے جو عوامی فنڈز کی بنیاد پر چلایا جائے،یہ ادارہ ''بحالی متاثرین دہشت گردی''کے نام سے بھی ہو سکتا ہے، اگر پاکستانی عوام روزانہ ایک ارب روپے خیرات کر سکتے ہیں یا خون دینے کے لیے بلڈ بینکوں کو بھر سکتے ہیں تو انسانی جذبے سے سرشار یہ قوم اس ادارے کی فلاح کے لیے یقینا کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔
بشرطیکہ عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ ان کے دیے ہوئے روپے پیسے کا صحیح جگہ استعمال ہو گا ۔ یہ ادارہ وفاق کے زیر اہتمام کام کرے اور کسی دہشت گردی کے واقعہ کی صورت میں فوراََ جاں بحق ہونے والوں اور زخمیوں کا ڈیٹا اکٹھا کرکے اس بات کا تعین کرے کہ کون کتنا حقدار ہے اور کون نہیں ؟ اگر یہ ادارہ قائم ہوگا تو حکومت کو بلاوجہ نمبر گیم کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔
اگر حکومت نے کچھ کرنا ہی ہے تو اس کے لیے مستقل بنیادوں پر فنڈریزنگ کا اہتمام کرے جیسے فی لیٹر پٹرول میں جہاں اتنے ٹیکسز پہلے سے ہی موجود ہیں ایک روپیہ متاثرین دہشت گردی کے لیے مختص کردیا جائے یاموٹر وہیکل کی رجسٹریشن فیس کے ساتھ فی گاڑی ایک ہزار روپے برائے شہد ا کے لیے رکھ دیے جائیںیا بجلی کے بلوں کے ساتھ جہاں پی ٹی وی کے 25روپے لائسنس فیس وصول کی جارہی ہے وہیں 5روپے شہدا ء کے نام پر وصول کیے جائیں ، ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت پسماندگان کو 5، 10لاکھ روپے دے کر فارغ کردے۔ حکومت اگر چاہے تو انھیں سینئر سٹیزن قرار دیا جائے۔
ان متاثرین کے لیے راشن کارڈ، بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ، ہیلتھ انشورنس کارڈ، یوٹیلیٹی بلز کارڈ، ٹرانسپورٹ کارڈ(جس میں ریلوے اور ہوائی سفر کے لیے رعایتی نرخ موجود ہوں)، ایجوکیشن کارڈ اور دیگر سہولیات جن میں شناختی کارڈ کی فیس اور پاسپورٹ بنوانے کی فیس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور اس جیسی بہت سی سہولیات فراہم کی جائیں جس سے وہ بھی ایک اچھے شہری کی طرح زندگی بسر کرسکیں۔ ورنہ اس طرح کے حکومتی آرڈیننس وغیرہ محض کاغذوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہیں شہدا کے لیے نہیں!!!