ڈاکٹر ارباب کھاوڑ ہمیں چھوڑ گئے
انھوں نے سیاسی کارکن کی حیثیت سے جئے سندھ محاذ میں شمولیت اختیار کی۔
ڈاکٹر ارباب علی کھاوڑ معروف کمیونسٹ رہنما تھے۔ ان کی پیدائش 1947ء میں وارہ، ضلع لاڑکانہ میں ہوئی۔ کامریڈ ارباب علی طالب علمی کے زمانے سے ہی ایک سرگرم سیاسی کارکن تھے۔ بعد ازاں ایم بی بی ایس کر کے وارہ اور گلشن حدید کراچی میں کلینک بھی چلاتے رہے۔
انھوں نے سیاسی کارکن کی حیثیت سے جئے سندھ محاذ میں شمولیت اختیار کی۔ مگر ان کا جئے سندھ کے رہنماؤں جی ایم سید سمیت دیگر سے بنیادی اختلاف رہا۔ ڈاکٹر ارباب سمجھتے تھے کہ طبقاتی استحصال کے خاتمے کے بغیر قومی حقوق بھی نہیں حاصل کیے جا سکتے۔ اس لیے انھوں نے جئے سندھ سے علیحدگی اختیار کر کے جئے سندھ پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی۔ اسی تنظیم کے تحت ایک عرصے تک کام کرتے رہے۔ بعد ازاں انھوں نے سندھ وطن دوست انقلابی پارٹی تشکیل دی۔
1984ء میں وطن دوست اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام خیرپور میرس میں بڑے جلسے کا انعقاد کیا، جس کے مہمان خصوصی شیر محمد مری عرف جنرل شیروف تھے۔ اس کے کچھ عرصے بعد سندھ وطن دوست انقلابی پارٹی کے نام سے سندھ کا لفظ ہٹا کر وطن دوست انقلابی پارٹی رکھا۔ ان تمام عمل میں ڈاکٹر ارباب اور ان کے رفقا کی مر ضی نہ صرف شامل تھی بلکہ اتفاق رائے سے یہ سارے عمل ہوتے رہے۔ پھر ایک بار 1988ء میں بدین، تلہار میں وطن دوست اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسے سے ڈاکٹر ارباب علی کھاوڑ کے علاوہ معراج محمد خان، جام ساقی، شاہ محمد شاہ اور رسول بخش پلیجو نے خطاب کیا۔
ڈاکٹر ارباب نہ انتہاپسندی کے حامی تھے اور نہ تنگ نظر قوم پرستی کے۔ انھوں نے کمیونسٹ نظریات سے اپنے آپ کو اور اپنی جما عت کو مسلح کیا۔ آگے چل کر انھوں نے سماج کے مختلف استحصال زدہ طبقات، گروہوں اور پیشہ ورانہ سرگرمی کرنے والوں کی تنظیم دی، جن میں مزدوروں کی وطن دوست مزدور فیڈریشن، کسانوں کی وطن دوست ہاری تنظیم، بچوں کی وطن دوست بار تنظیم اور طلبا کی وطن دوست اسٹوڈنٹس فیڈریشن شامل ہیں۔
ان تنظیموں کو کمیونسٹ نظریات سے لیس، فعال اور سرگرم کیا۔ ان تمام عوامی تنظیموں بشمول وطن دوست انقلابی پارٹی کے کارکنان کی مسلسل نظریاتی تربیت ہوا کرتی تھی، جس میں کامریڈ ارباب پیش پیش ہوتے تھے۔ اس دور میں کامریڈ ارباب علی کے زیادہ سرگرم رہنماؤں میں عزیز عباسی، محمد خان ہمدانی، اقبال رند، سید عالم شاہ، خادم حسین شر اور ہوت خان گاڑھی وغیرہ تھے۔ وطن دوست مزدور فیڈریشن جس کے رہنما عزیز عباسی اب بھی فعال اور سرگرم ہیں، سندھ میں مزدوروں کی یہ تنظیم زیادہ منظم اور باعمل ہے۔
ڈاکٹر ارباب کے انتقال پر ملیر پریس کلب کراچی کے 'ہال' میں گزشتہ دنوں ایک جلسہ منعقد ہوا۔ یہ جلسہ بڑامنفرد اور باوقار تھا۔ اس جلسے کا نہ کوئی مہمان خصوصی تھا، نہ کوئی صدر اور نہ ہی ناظم۔ ہاں مگر مقررین کو دعوت کلام کے لیے منان بروہی باری باری بلاتے رہے۔ ڈا کٹر ارباب کھاوڑ کے صاحبزادے مبارک علی کو اعزازی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔
جلسے کے حاضرین اور مقررین میں ہدایت سومرو، عبدالرزاق بروہی، انور عقیلی، اسماعیل، حبیب ابڑو، ڈاکٹر جیون، بیدار جعفری، جنت حسین، پنو عقیلی، ریاض حسین، حاکم علی، دیدار پٹھان، رضا بلوچ اور سکندر چانڈیو نے بھی شرکت کی۔ جلسہ گاہ میں ایک بینر دیوار پہ آویزاں تھا جس پر درج تھا کہ 'عظیم کمیونسٹ رہنما ڈاکٹر ارباب کھاوڑ کی یاد میں تعزیتی جلسہ'۔ یہ جملہ بھی کیا خوب تھا۔
کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کارل مارکس نے ایک جگہ یہ کہا ہے کہ 'اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم اپنے کمیونسٹ نظریات کا برملا اظہار کریں۔ کمیونسٹ اپنے نظریہ کے اظہار کو اپنی شان سمجھتے ہیں'۔ کامریڈ ڈاکٹر ارباب کا کمیونسٹ نظریہ دنیا بھر میں پھول پھل رہا ہے۔ پاکستان میں بھی ان کے نظریات کے حامی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ ہیں۔
آج امریکا کا صدارتی سوشلسٹ امیدوار برنی سینڈرز امریکی اور دنیا بھر کے عوام میں مقبولیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ابھی حال ہی میں چند دنوں قبل واشنگٹن، الاسکا اور ہوائی کی ریاستوں میں بہتر، اکسٹھ اور انسٹھ فیصد ووٹ لے کر برنی سینڈرز کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ برملا اپنی انتخابی مہم میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ امریکی عوام کی بدحالی کے ذمے دار امریکا کے ارب پتی ہیں۔
امریکا کے عام آدمی کو صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولیات میسر نہیں۔ برنی کا کہنا ہے کہ امریکا میں آنے پر کسی پر پابندی نہیں ہو گی، جب کہ دائیں بازو کا رجعتی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ ہم اگر جیت گئے تو جو غیر ملکی امریکا میں آ بسے ہیں انھیں ملک سے نکال دیں گے۔ جب کہ ٹر مپ سمیت سارے گوروں نے یورپ سے آ کر امریکا پر قبضہ کیا ہے۔ پھر تو ٹرمپ کو سب سے پہلے امریکا چھوڑنا چاہیے۔ آج نیپال میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ ہندوستان کی ایک تہائی سرزمین پر ماؤ نواز کمیونسٹ (عرف عام میں نکشلائڈ) قابض ہیں۔ بقول ہندوستانی حکومت کمیونسٹ بانوے ہزار مربع کلومیٹر جنگلات پر قابض ہیں۔
پاکستان میں بھی تقریباً سبھی مزدور فیڈریشن اور کسان تنظیمیں بائیں بازو کی حامل ہیں۔ سری لنکا، ملائشیا، ہانگ کانگ، چین، تائیوان اور بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر میں سوشلسٹ، کمیونسٹ اور انارکسٹ سرگرم عمل ہیں۔ جب ڈاکٹر ارباب کا کمیونسٹ نظام پاکستان، برصغیر اور دنیا بھر میں قائم ہو کر دنیا سے بھوک، افلاس، بے روزگاری، لاعلاجی، بے گھری اور غربت کا خاتمہ کر دے گا۔ پھر نہ کوئی طبقہ ہو گا، ملکیت ہو گی، جائیداد ہو گی اور نہ انفرادی اثاثے۔ سارے مسائل ملکیت اور مسابقت سے جنم لیتے ہیں۔ مسابقت کو ختم کر دیں پھر سب لوگ سکون سے زندگی گزارنے لگیں گے۔ چونکہ ریاست جبر کا ادارہ ہے۔
جب طبقات، ملکیت، سرحدیں، جنگ، اسلحہ، جائیداد اور خاندانی وراثت کا خاتمہ ہو جائے گا تو پھر لوگ جینے لگیں گے۔ ایک دن ضرور آنے والا ہے کہ جب ایک آسمان تلے ایک خاندان ہو گا، کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔