برمودا تکون کی پراسراریت کی بنیادی وجہ
برمودا تکون کی پراسراریت کی بنیادی وجہ؟
کائنات بے شمار اسرار اور عجوبوں سے بھری پڑی ہے اور انسان راز ہائے قدرت کو بے نقاب کرنے کی سعی کررہا ہے۔ علوم بالخصوص سائنس سے کام لیتے ہوئے ابن آدم ابتدا سے لے کر اب تک کائنات کے ان گنت رازوں سے پردہ اٹھا چکا ہے۔
اس کے باوجود نہ جانے کتنی گتھیاں اس کی منتظر ہیں۔ اس وسیع و عریض کائنات میں انسان کی رسائی نظام شمسی کے چند ہی سیاروں تک ہوسکی ہے۔ نیز کرۂ ارض پر بھی کئی مظاہر اس کے لیے ہنوز معما ہیں۔ ان میں سے ایک برمودا تکون یا برمودا ٹرائی اینگل ہے۔ یہ دراصل مثلث نما سمندری علاقہ ہے جو برٹش اوورسیز ٹریٹری سے لے کر شمالی بحر اوقیانوس اور فلوریڈا کے ساحل سے لے کر پورٹوریکو کی بندرگاہ تک پھیلا ہوا ہے۔ برمودا مثلث کی پراسراریت کا سبب اس علاقے میں لاپتا ہوجانے والے ہوائی اور بحری جہاز ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : برمودا ٹرائی اینگل نے ایک اور بحری جہاز نگل لیا
1945ء سے 1965 تک برمودا مثلث میں درجن سے زائد بحری اور ہوائی جہاز لاپتا ہوئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آج تک ان جہازوں کا کوئی ٹکڑا نہیں ملا اور نہ ہی ان میں سوار مسافروں کی کوئی نشانی دنیا کے سامنے آسکی۔
جہازوں اور ان کے بدقسمت مسافروں کو سمندر نگل گیا یا آسمان، سائنس داں اب تک نہیں جان سکے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 1965ء کے بعد سے اب تک اس علاقے سے ان گنت جہاز صحیح سلامت گزر چکے ہیں۔
اب سائنس دانوں نے برمودا تکون میں جہازوں کے غائب ہونے کی وجہ جان لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ ناروے کی آرکٹک یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے بحیرۂ اوقیانوس کی تہ میں وسیع و عریض گڑھے دریافت کیے ہیں۔ ان میں سے بعض نصف میل چوڑے اور 150 فٹ گہرے ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : برمودا مثلث میں چیزیں کیوں غائب ہوجاتی ہیں؟
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ہوائی اور بحری جہازوں کے غائب ہونے کا راز ان گڑھوں میں پوشیدہ ہوسکتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ یہ گڑھے میتھین گیس کے ذخائر کی وجہ سے بنے ہیں۔ ناروے کا یہ ساحل قدرتی گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سمندر کی تہ کے نیچے میتھین گیس ذخیرہ ہوتی رہتی ہے، جب اسے اخراج کا راستہ نہ ملے تو وہ جگہ دھماکے سے پھٹ جاتی ہے اور تہ میں گڑھا پڑ جاتا ہے۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سطح زمین پر طاقت ور بم کے دھماکے کے نتیجے میں گڑھا پڑ جاتا ہے۔ سمندر کی تہ میں نصف میل چوڑے اور ڈیڑھ سو فٹ گہرے گڑھوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں ہونے والے دھماکے ایٹم بم کے دھماکے جیسے ہوں گے۔
ان دھماکوں کے نتیجے میں سمندر اور اس سے اوپر فضا میں پیدا ہونے والا زبردست ارتعاش بڑے بڑے جہازوں کو بھی تنکے کی طرح بکھیر دینے کے لیے کافی ہوگا۔ گذشتہ برس ایک روسی سائنس داں نے بھی میتھین گیس کے تعاملات ہی کو جہازوں کے غائب ہونے کا سبب قرار دیا تھا۔ تاہم محققین کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کے درست ہونے کی تصدیق برمودا مثلث میں کسی جہاز کے دوبارہ غائب ہونے کے واقعے کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔
اس کے باوجود نہ جانے کتنی گتھیاں اس کی منتظر ہیں۔ اس وسیع و عریض کائنات میں انسان کی رسائی نظام شمسی کے چند ہی سیاروں تک ہوسکی ہے۔ نیز کرۂ ارض پر بھی کئی مظاہر اس کے لیے ہنوز معما ہیں۔ ان میں سے ایک برمودا تکون یا برمودا ٹرائی اینگل ہے۔ یہ دراصل مثلث نما سمندری علاقہ ہے جو برٹش اوورسیز ٹریٹری سے لے کر شمالی بحر اوقیانوس اور فلوریڈا کے ساحل سے لے کر پورٹوریکو کی بندرگاہ تک پھیلا ہوا ہے۔ برمودا مثلث کی پراسراریت کا سبب اس علاقے میں لاپتا ہوجانے والے ہوائی اور بحری جہاز ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : برمودا ٹرائی اینگل نے ایک اور بحری جہاز نگل لیا
1945ء سے 1965 تک برمودا مثلث میں درجن سے زائد بحری اور ہوائی جہاز لاپتا ہوئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آج تک ان جہازوں کا کوئی ٹکڑا نہیں ملا اور نہ ہی ان میں سوار مسافروں کی کوئی نشانی دنیا کے سامنے آسکی۔
جہازوں اور ان کے بدقسمت مسافروں کو سمندر نگل گیا یا آسمان، سائنس داں اب تک نہیں جان سکے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 1965ء کے بعد سے اب تک اس علاقے سے ان گنت جہاز صحیح سلامت گزر چکے ہیں۔
اب سائنس دانوں نے برمودا تکون میں جہازوں کے غائب ہونے کی وجہ جان لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ ناروے کی آرکٹک یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے بحیرۂ اوقیانوس کی تہ میں وسیع و عریض گڑھے دریافت کیے ہیں۔ ان میں سے بعض نصف میل چوڑے اور 150 فٹ گہرے ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : برمودا مثلث میں چیزیں کیوں غائب ہوجاتی ہیں؟
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ہوائی اور بحری جہازوں کے غائب ہونے کا راز ان گڑھوں میں پوشیدہ ہوسکتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ یہ گڑھے میتھین گیس کے ذخائر کی وجہ سے بنے ہیں۔ ناروے کا یہ ساحل قدرتی گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سمندر کی تہ کے نیچے میتھین گیس ذخیرہ ہوتی رہتی ہے، جب اسے اخراج کا راستہ نہ ملے تو وہ جگہ دھماکے سے پھٹ جاتی ہے اور تہ میں گڑھا پڑ جاتا ہے۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سطح زمین پر طاقت ور بم کے دھماکے کے نتیجے میں گڑھا پڑ جاتا ہے۔ سمندر کی تہ میں نصف میل چوڑے اور ڈیڑھ سو فٹ گہرے گڑھوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں ہونے والے دھماکے ایٹم بم کے دھماکے جیسے ہوں گے۔
ان دھماکوں کے نتیجے میں سمندر اور اس سے اوپر فضا میں پیدا ہونے والا زبردست ارتعاش بڑے بڑے جہازوں کو بھی تنکے کی طرح بکھیر دینے کے لیے کافی ہوگا۔ گذشتہ برس ایک روسی سائنس داں نے بھی میتھین گیس کے تعاملات ہی کو جہازوں کے غائب ہونے کا سبب قرار دیا تھا۔ تاہم محققین کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کے درست ہونے کی تصدیق برمودا مثلث میں کسی جہاز کے دوبارہ غائب ہونے کے واقعے کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔