مشاعرہ در مشاعرہ

ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی وی اور ریڈیو پر بھی تسلسل سے مشاعرے ہوا کرتے تھے

Amjadislam@gmail.com

KARACHI:
ٹی ایس ایلیٹ نے آغاز بہار کے حوالے سے April is the cruellest month کہا تھا لیکن ہمارے یہاں بہار کی علامت اب مارچ کا مہینہ ٹھہرا ہے کہ جشن بہاراں کی معرفت بیشتر تقریبات اسی مہینے میں منعقد ہوتی ہیں جن کا ایک حصہ مشاعرے بھی ہیں کہ کم و بیش ہر ڈسٹرکٹ کونسل دیگر تقریبات کے ساتھ ان کا بھی اہتمام کرتی ہے ان کے علاوہ آرٹ کونسلز اور دیگر متعلقہ ادارے بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں، سو ان دنوں میں سینئر اور مقبول شعراء کے ساتھ ساتھ نوجوان اور نسبتاً کم معروف شعراء بھی بہت معروف ہو جاتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی وی اور ریڈیو پر بھی تسلسل سے مشاعرے ہوا کرتے تھے لیکن پھر یہ چند قومی دنوں اور مذہبی تہواروں تک محدود ہو گئے یا پھر ان کی جگہ مزاحیہ مشاعروں نے لے لی، ہر دو صورتوں میں اس کا ادبی اور تہذیبی پہلو دبتا چلا گیا، دوسری طرف زندگی کی ہماہمی اور مصروفیات کی زیادتی کے باعث سامعین بھی کم ہوتے چلے گئے کہ اب کسی کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر ایک ہی نشست میں پچاس پچاس شاعروں کو سننے کا وقت نہیں رہا تھا، شعرا کی تعداد کو ایک حد تک محدود رکھنا منتظمین کی مجبوری کے ساتھ ساتھ کئی قسم کے مسائل کا باعث بھی بن گئی کہ اس سے ایسی رنجشوں نے جنم لینا شروع کر دیا جن کا سلسلہ برسوں اور بعض صورتوں میں آیندہ نسلوں تک پھیلتا چلا گیا۔ بعض شاعروں (جن میں زیادہ تر تعداد نیم یا شوقیہ شاعروں کی ہوتی ہے) نے اسے زندگی و موت کا مسئلہ بنا لیا۔

ڈاکٹر ریاض مجید راوی ہیں کہ ایک دفعہ فیصل آباد میں اچانک کسی سیاسی انتخابی جھگڑے کے باعث کرفیو لگ گیا اور گلیوں میں فوج گشت کرنے لگی اتفاق سے اس شام ایک مشاعرہ بھی تھا ان کا بیان ہے کہ وہ لوگ بھی باقی شہر والوں کی طرح گھروں میں ڈرے سہمے بیٹھے تھے کہ دروازے کی گھنٹی بجی جس نے گھبراہٹ میں مزید اضافہ کر دیا، دروازہ کھولا تو ایک مقامی شاعر بیاض بغل میں دبائے کھڑے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ ''مشاعرے پر نہیں چلنا؟'' ریاض مجید نے کہا یار خدا کا خوف کرو چاروں طرف فوج گشت کر رہی ہے اور تمہیں مشاعرے کی پڑی ہے۔ اس پر وہ صاحب مسکرا کر بولے ''کوئی بات نہیں ہم گلیوں گلیوں میں سے ہو کر نکل جائیں گے''


یہ بہاریہ مشاعرے سرکاری احکامات کے باعث چونکہ ایک خاص مدت میں ہونا تھے اس لیے ہر ویک اینڈ پر کئی کئی مشاعرے منعقد ہوئے اور یوں ایک دوست خوش اور کئی ناراض ہوئے ،میں بوجوہ بہت زیادہ مشاعروں میں شرکت نہیں کرتا لیکن اس بار فرمائشوں کا ہجوم کچھ اتنا زیادہ تھا کہ 15سے 31 مارچ کے دوران مجھے آٹھ جگہ پر ہاں کرنا پڑی۔ سانحہ لاہور کے باعث فیصل آباد زرعی یونیورسٹی اور منڈی بہاؤ الدین کے سرکاری مشاعرے تو ملتوی ہو گئے لیکن لاہور' ملتان' حضرو' کراچی اور سرگودھا میں حاضری دینا پڑی جب کہ جہلم کے مشاعرے کو دو اپریل پر لے جایا گیا اس مشاعرہ در مشاعرہ سفر کی تفصیل کچھ یوں رہی کہ پہلا مشاعرہ باغ جناح لاہور میں ہوا جس کا اہتمام الحمرا آرٹ کونسل لاہور کی طرف سے کیا گیا تھا۔

میں اس شام کراچی جم خانہ میں رسول احمد کلیمی مرحوم کے بعد از مرگ شایع ہونے والے شعری مجموعے کی تعارفی تقریب میں شرکت کے بعد واپس آ رہا تھا، سو ایئر پورٹ سے سیدھا مشاعرہ گاہ کا رخ کرنا پڑا جہاں مشاعرہ اپنے اختتامی دور میں تھا جس کے صدر محفل ظفر اقبال تھے جب کہ نظامت کے فرائض ناصر بشیر اور ڈاکٹر صغرا صدف انجام دے رہے تھے، ریذیڈنٹ ڈائریکٹر برادرم کیپٹن (ریٹائرڈ) عطا محمد اسٹیج پر اور نامور مصور اور کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر ذوالفقار زلفی مشاعرہ گاہ میں منتظر تھے اور مشاعرہ خوب جما ہوا تھا۔

ملتان میں حال ہی میں مقامی شاعروں ادیبوں کی تحریک اور تعاون سے لاہور کی معروف ادبی بیٹھک ''پاک ٹی ہاؤس'' کی طرز پر ''ملتان ٹی ہاؤس'' کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کا بیشتر کریڈٹ ڈی سی او زاہد گوندل اور بھائی افضل شیخ کو جاتا ہے کہ ان دونوں ادب پرور دوستوں نے ملتان آرٹ کونسل کے پہلو میں اس بہت خوب صورت اور ادب دوست منصوبے کو عملی شکل دی۔ مشاعرہ ٹی ہاؤس کی بالائی منزل پر واقع ہال میں تھا جس میں دو سو سے زیادہ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، صدارت برادرم اسلم انصاری کی تھی اور نظامت شاکر حسین شاکر کر رہے تھے جب کہ خالد مسعود' رضی الدین رضی اور قمر رضا شہزاد حسب معمول اور حسب توقع انتظامات میں پیش پیش تھے۔

مشاعرہ بہت اچھا رہا بالخصوص سرائیکی شاعر عزیز شاہد نے بہت رنگ جمایا۔ اگلا پڑاؤ اسلام آباد اور پشاور کے درمیان واقع حضرو کا قصبہ تھا جو موٹروے کی تعمیر کے باعث اب بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے کہ اس سے قبل اس کا نام صرف تمباکو اور نسوار کے حوالے سے لیا جاتا تھا۔ نوجوان اور پرجوش اسسٹنٹ کمشنر بسرا نے بتایا کہ یہ تیسرا سالانہ مشاعرہ ہے جب کہ جشن بہاراں کے حوالے سے وہاں 20 سے زیادہ مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔
Load Next Story