ایران کیوبا اور اوباما
بارک اوباما نے بار بارکہا ہے کہ وہ فلسطین کے تنازعہ کا حل دو ریاستوں کے قیام ہی کو سمجھتے ہیں
ایران سے ایٹمی تنازعہ پرکامیاب بات چیت میں امریکی صدر بارک اوباما نے بھی اہم رول ادا کیا، یوں عشروں پرانا یہ تنازعہ ختم ہوا۔ ایران اس تنہائی سے باہرآیا جو مغربی ملکوں نے اس پر مسلط کی تھی، ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا مقصد ایران کو جوہری پروگرام سے دست بردارکرانا تھا۔ ایٹمی ہتھیارکسی ملک کے پاس ہوں اورکوئی ملک بھی ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہو یہ انسانیت کے خلاف بین الاقوامی جرم ہے۔
اگر ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکا گیا ہے تو یہ عالمی تناظر میں ایک مثبت کوشش ہے لیکن مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس ایٹمی طاقت کو اسرائیل عرب ملکوں کو بلیک میل کرنے کے لیے ہی استعمال نہیں کر رہا ہے بلکہ اسرائیل کی اس برتری ہی کی وجہ سے فلسطینی عوام نصف صدی سے اسرائیل کے مظالم سہہ رہے ہیں۔ دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت سے اوباما کا یہ فرض ہے کہ وہ اسرائیل کی ظالمانہ سیاست کو روکنے کے لیے عالمی برادری کی قیادت کریں۔
2016ء میں امریکی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، امریکا کی صدارتی دوڑ میں شامل مسلمانوں کے کٹر دشمن ڈونلڈ ٹرمپ نے ''ایپک'' کی سالانہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ کھولیںگے۔ بیت المقدس عربوں اوراسرائیل کے درمیان ایک شدید قسم کا عقائدی تنازعہ ہے اور ایسے نازک تنازعہ میں اگر امریکا کا ایک صدارتی امیدواراس قدر جارحانہ رویہ اختیار کرتا ہے تو بین الاقوامی خطرناک تنازعات حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔
بارک اوباما نے بار بارکہا ہے کہ وہ فلسطین کے تنازعہ کا حل دو ریاستوں کے قیام ہی کو سمجھتے ہیں، یعنی ایک آزاد اورخود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ہی اس سنگین مسئلے کا حل ہے لیکن اسرائیل اس دو ریاستی حل کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اوباما نے کہا ہے کہ وہ اپنی صدارتی مدت ختم کرنے کے بعد بھی اس دو ریاستی حل کے لیے کوشش کرتے رہیںگے، ان عزائم سے اوباما کی فلسطین کے مسئلے کے حل کے حوالے سے منصفانہ سیاست سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت اسرائیل جیسے ایک چھوٹے سے ملک کے سامنے اس قدر بے بس کیوں ہے؟
امریکا کی تاریخ میں کیوبا کا مسئلہ ہمیشہ ایک سنگین تنازعہ بنا رہا۔اس تنازعے کی وجہ سے امریکا اور روس کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ فیدل کاسترو امریکا کے سخت ترین مخالفوں میں ہمیشہ صف اول میں شامل رہے ہیں۔ سوشلسٹ بلاک کے خاتمے کے باوجود اب بھی جو ملک سوشلزم کو اپنائے ہوئے ہیں ان میں کیوبا اور شمالی کوریا سر فہرست ہیں۔
اس شدید نظریاتی اختلافات کے باوجود اوباما کے دورہ کیوبا سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اوباما اپنا دور اقتدار ختم ہونے سے پہلے دنیا کے اہم اور مشکل تنازعات کے حل کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ ایران سے ایٹمی مسئلے کے حل اورکیوبا کے تاریخی دورے کو اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اوباما نے اپنے دورۂ کیوبا کے دوران کہا کہ ''انسانی حقوق'' پر تنازعہ کے باوجود ہم نے کیوبا کے ساتھ مل کرکام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کیوبا بھی ان ملکوں میں شامل ہے جن کی گستاخیوں اور نا فرمانیوں کی وجہ سے ان کا دانہ پانی بند کردیاگیا ہے یعنی ان پر اقتصادی پابندیاں لگادی گئی ہیں۔کیوبا کے صدر راول کاسترو نے اوباما سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کیوبا پر لگائی گئی تجارتی پابندیاں ختم کریں اورگوانتا ناموبے جیل کو بند کریں۔ راول کاسترو کے اس مطالبے کے جواب میں اوباما نے کہاہے کہ تجارتی پابندیاں ختم کرانے کے لیے کیوبا کو انسانی حقوق کے بارے میں اقدامات کرنے ہوںگے۔
ہر امریکی حکمران کو ہمیشہ انسانی حقوق کے بارے میں شدید فکر لاحق رہتی ہے اور امریکی حکمرانوں کے خیال میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جمہوریت کا ہونا لازمی ہے۔
اس حوالے سے پہلی دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی حکمرانوں کا موقف دوغلا رہا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں جمہوریت کے نام پر جو اشرافیائی حکومت قائم ہیں وہ قدم قدم پر انسانی حقوق کو پامال کرتی رہتی ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو بادشاہتیں قائم ہیں ان میں انسانی حقوق کا نام لینا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو اپنی زندگی جیلوں میں گزارنی پڑتی ہے یا پھر انھیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ایسے انسانی حقوق کے پاسدار ملکوں سے امریکا کی گہری یاری ہے۔ یہاں ایسے انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی۔
اوباما نے راول کاسترو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کیوبا کی جیلوں میں بند سیاسی قیدیوں کو رہا کریں۔ اوباما کے اس مطالبے کے جواب میں کیوبا کے صدر راول کاسترو نے کہا ہے کہ اگر اوباما ایسے سیاسی قیدیوں کی نشان دہی کریں اور ان کی فہرست پیش کریں تو ہم شام تک ان قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں، راول کاسترو کے اس جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیوبا میں سیاسی قیدیوں کی بات کمیونسٹ ملکوں کو بدنام کرنے کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور اس قسم کے الزامات ہمیشہ سامراجی ملک اپنے مخالفین پر لگاتے آئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوبا کے علاقے گوانتا ناموبے میں جو دنیا کی بد ترین جیل قائم ہے ۔
اس جیل میں قیدیوں پر ہونے والے مظالم کی داستانوں سے عالمی میڈیا بھرا پڑا ہے اس بدنام زمانہ عقوبت خانے میں جو لوگ بند رہے ہیں کیا انھیں سیاسی قیدی نہیں کہا جاسکتا۔ میں نے اپنے ایک افسانے ''جاناں'' میں گوانتا ناموبے کے قیدیوں کی حالت زار کا جائزہ پیش کیا ہے جس میں اس عقوبت خانے میں بے گناہ قیدیوں پر شک کی بنیاد پر جو مظالم ڈھائے جاتے ہیں ان کی تصویرکشی کی گئی ہے۔
شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا دور سیاسی مخالفین کے حوالے سے تاریخ کا بد ترین دورکہا جاتا ہے جس میں شہنشاہ نے اپنے سیاسی مخالفین کا بہیمانہ قتل عام کیا اور یہ انسانی حقوق کا چیمپئن امریکا کا سب سے بڑا دوست تھا، جسے امریکا نے اس علاقے میں پولیس مین کا نام دے رکھا تھا۔ اصل مسئلہ نظریاتی مخالفین کا ہے اگرچہ امریکا کے سب سے بڑے مخالف روس اور چین اب امریکا کے نظریاتی یار ہیں لیکن امریکا اس حوالے سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ کیوبا اور شمالی کوریا کو بھی شک کی نظر سے دیکھتا ہے بلکہ اپنا نظریاتی دشمن سمجھتا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اوباما نے اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں عالمی امن کے لیے مثبت کوششیں کیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ میں ان کا شمار بھی ان مرد آہنوں میں ہوتا ہے جو اصولوں اور عالمی اختلاقیات کو پامال کرتے رہے ہیں۔ پھر بھی ایران اورکیوبا کے حوالے سے اوباما مثبت سمت میں آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکا گیا ہے تو یہ عالمی تناظر میں ایک مثبت کوشش ہے لیکن مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس ایٹمی طاقت کو اسرائیل عرب ملکوں کو بلیک میل کرنے کے لیے ہی استعمال نہیں کر رہا ہے بلکہ اسرائیل کی اس برتری ہی کی وجہ سے فلسطینی عوام نصف صدی سے اسرائیل کے مظالم سہہ رہے ہیں۔ دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت سے اوباما کا یہ فرض ہے کہ وہ اسرائیل کی ظالمانہ سیاست کو روکنے کے لیے عالمی برادری کی قیادت کریں۔
2016ء میں امریکی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، امریکا کی صدارتی دوڑ میں شامل مسلمانوں کے کٹر دشمن ڈونلڈ ٹرمپ نے ''ایپک'' کی سالانہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ کھولیںگے۔ بیت المقدس عربوں اوراسرائیل کے درمیان ایک شدید قسم کا عقائدی تنازعہ ہے اور ایسے نازک تنازعہ میں اگر امریکا کا ایک صدارتی امیدواراس قدر جارحانہ رویہ اختیار کرتا ہے تو بین الاقوامی خطرناک تنازعات حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔
بارک اوباما نے بار بارکہا ہے کہ وہ فلسطین کے تنازعہ کا حل دو ریاستوں کے قیام ہی کو سمجھتے ہیں، یعنی ایک آزاد اورخود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ہی اس سنگین مسئلے کا حل ہے لیکن اسرائیل اس دو ریاستی حل کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اوباما نے کہا ہے کہ وہ اپنی صدارتی مدت ختم کرنے کے بعد بھی اس دو ریاستی حل کے لیے کوشش کرتے رہیںگے، ان عزائم سے اوباما کی فلسطین کے مسئلے کے حل کے حوالے سے منصفانہ سیاست سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت اسرائیل جیسے ایک چھوٹے سے ملک کے سامنے اس قدر بے بس کیوں ہے؟
امریکا کی تاریخ میں کیوبا کا مسئلہ ہمیشہ ایک سنگین تنازعہ بنا رہا۔اس تنازعے کی وجہ سے امریکا اور روس کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ فیدل کاسترو امریکا کے سخت ترین مخالفوں میں ہمیشہ صف اول میں شامل رہے ہیں۔ سوشلسٹ بلاک کے خاتمے کے باوجود اب بھی جو ملک سوشلزم کو اپنائے ہوئے ہیں ان میں کیوبا اور شمالی کوریا سر فہرست ہیں۔
اس شدید نظریاتی اختلافات کے باوجود اوباما کے دورہ کیوبا سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اوباما اپنا دور اقتدار ختم ہونے سے پہلے دنیا کے اہم اور مشکل تنازعات کے حل کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ ایران سے ایٹمی مسئلے کے حل اورکیوبا کے تاریخی دورے کو اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اوباما نے اپنے دورۂ کیوبا کے دوران کہا کہ ''انسانی حقوق'' پر تنازعہ کے باوجود ہم نے کیوبا کے ساتھ مل کرکام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کیوبا بھی ان ملکوں میں شامل ہے جن کی گستاخیوں اور نا فرمانیوں کی وجہ سے ان کا دانہ پانی بند کردیاگیا ہے یعنی ان پر اقتصادی پابندیاں لگادی گئی ہیں۔کیوبا کے صدر راول کاسترو نے اوباما سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کیوبا پر لگائی گئی تجارتی پابندیاں ختم کریں اورگوانتا ناموبے جیل کو بند کریں۔ راول کاسترو کے اس مطالبے کے جواب میں اوباما نے کہاہے کہ تجارتی پابندیاں ختم کرانے کے لیے کیوبا کو انسانی حقوق کے بارے میں اقدامات کرنے ہوںگے۔
ہر امریکی حکمران کو ہمیشہ انسانی حقوق کے بارے میں شدید فکر لاحق رہتی ہے اور امریکی حکمرانوں کے خیال میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جمہوریت کا ہونا لازمی ہے۔
اس حوالے سے پہلی دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی حکمرانوں کا موقف دوغلا رہا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں جمہوریت کے نام پر جو اشرافیائی حکومت قائم ہیں وہ قدم قدم پر انسانی حقوق کو پامال کرتی رہتی ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو بادشاہتیں قائم ہیں ان میں انسانی حقوق کا نام لینا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو اپنی زندگی جیلوں میں گزارنی پڑتی ہے یا پھر انھیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ایسے انسانی حقوق کے پاسدار ملکوں سے امریکا کی گہری یاری ہے۔ یہاں ایسے انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی۔
اوباما نے راول کاسترو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کیوبا کی جیلوں میں بند سیاسی قیدیوں کو رہا کریں۔ اوباما کے اس مطالبے کے جواب میں کیوبا کے صدر راول کاسترو نے کہا ہے کہ اگر اوباما ایسے سیاسی قیدیوں کی نشان دہی کریں اور ان کی فہرست پیش کریں تو ہم شام تک ان قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں، راول کاسترو کے اس جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیوبا میں سیاسی قیدیوں کی بات کمیونسٹ ملکوں کو بدنام کرنے کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور اس قسم کے الزامات ہمیشہ سامراجی ملک اپنے مخالفین پر لگاتے آئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوبا کے علاقے گوانتا ناموبے میں جو دنیا کی بد ترین جیل قائم ہے ۔
اس جیل میں قیدیوں پر ہونے والے مظالم کی داستانوں سے عالمی میڈیا بھرا پڑا ہے اس بدنام زمانہ عقوبت خانے میں جو لوگ بند رہے ہیں کیا انھیں سیاسی قیدی نہیں کہا جاسکتا۔ میں نے اپنے ایک افسانے ''جاناں'' میں گوانتا ناموبے کے قیدیوں کی حالت زار کا جائزہ پیش کیا ہے جس میں اس عقوبت خانے میں بے گناہ قیدیوں پر شک کی بنیاد پر جو مظالم ڈھائے جاتے ہیں ان کی تصویرکشی کی گئی ہے۔
شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا دور سیاسی مخالفین کے حوالے سے تاریخ کا بد ترین دورکہا جاتا ہے جس میں شہنشاہ نے اپنے سیاسی مخالفین کا بہیمانہ قتل عام کیا اور یہ انسانی حقوق کا چیمپئن امریکا کا سب سے بڑا دوست تھا، جسے امریکا نے اس علاقے میں پولیس مین کا نام دے رکھا تھا۔ اصل مسئلہ نظریاتی مخالفین کا ہے اگرچہ امریکا کے سب سے بڑے مخالف روس اور چین اب امریکا کے نظریاتی یار ہیں لیکن امریکا اس حوالے سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ کیوبا اور شمالی کوریا کو بھی شک کی نظر سے دیکھتا ہے بلکہ اپنا نظریاتی دشمن سمجھتا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اوباما نے اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں عالمی امن کے لیے مثبت کوششیں کیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ میں ان کا شمار بھی ان مرد آہنوں میں ہوتا ہے جو اصولوں اور عالمی اختلاقیات کو پامال کرتے رہے ہیں۔ پھر بھی ایران اورکیوبا کے حوالے سے اوباما مثبت سمت میں آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔