اسٹارٹ سے فنش لائن کا سفر
سامنے والے گھرکا نوجوان مالی اس صبح پہلی بار مجھے سائیکل کے بجائے موٹر سائیکل چلاتے دکھائی دیا
KARACHI:
سامنے والے گھرکا نوجوان مالی اس صبح پہلی بار مجھے سائیکل کے بجائے موٹر سائیکل چلاتے دکھائی دیا۔ جسے وہِ خوفزدہ انداز میں چلانا سیکھ رہا تھا، لیکن اس کی آنکھوں میں سائیکل سے موٹر سائیکل تک کے ترقی کے اس سفر کی خوشی اور چمک تھی۔ چند روز بعد وہ مستقلاً موٹرسائیکل سوار بن گیا، زندگی میں ترقی کی ایک اور سیڑھی چڑھ گیا، سائیکل اس کا ماضی بن گئی۔ اس کے تاثرات اس وقت ایسے ہی تھے جیسے کبھی میرے اسکول میں میٹرک کے زمانے میں اس وقت ہوتے جب میں کبھی اکیلا موٹر سائیکل چلا کر اسکول جایا کرتا۔ اس وقت میں اپنے آپ کو بہت بڑا، خود مختار اور آزاد انسان محسوس کرتا۔ پھر ایک وقت آیا جب میں موٹر سائیکل کو بھی پھلانگتے ہوئے کار تک پہنچ گیا اور موٹرسائیکل میرے ماضی کا حصہ بن گئی، ہم سب اسی طرح زندگی میں آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کرتے جاتے ہیں۔
دو پہیوں کی سواری سے چار پہیوں والی قیمتی سواری، چھوٹے مکان سے بڑے گھر، محدود آمدنی سے بھاری تنخواہ یا نفع بخش کاروبار اور ریل سے ہوائی جہاز تک کا سفر، یوں ترقی کے زینے چڑھتے چلے جاتے ہیں۔ معاشی ہی نہیں وقت کے ساتھ ہم جسمانی و ذہنی طور پر بھی فطرتاً ترقی کرتے رہتے ہیں۔ بچپن سے جوانی کی جانب بڑھتے ہوئے ہر گزرنے والے ماہ و سال کے ساتھ ہماری جسمانی و ذہنی قوت میں پختگی آتی جاتی ہے، رشتوں کے اعتبار سے بھی ہماری پہچان اور اہمیت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
پہلے ہم صرف اولاد کی حیثیت سے دنیا میں آتے ہیں، پھر کچھ سال بعد ترقی کرتے ہوئے میاں یا بیوی بن جاتے ہیں، پھر مزید ترقی کرتے ہوئے ماں باپ بننے کا شرف بھی ہمیں عطا کر دیا جاتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی کی تھوڑے سے فرق کے ساتھ کم و بیش یہی کہانی ہے، مگر یہ کہانی مکمل نہیں، ادھوری ہے۔ یہ ہماری پیدائش سے چالیس پینتالیس سال تک کے توانائی اور صلاحیتوں سے بھر ے دور کی کہانی ہے جس میں ہر انسان ہی کم یا زیادہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے، کسی نہ کسی حد تک دولت، شہرت اور دوست بنانے میں کامیاب رہتا ہے، یہی قانونِ قدرت ہے۔
مگر کہانی کا دوسرا ا ور آخری حصہ جو چالیس سال کے بعد سے زندگی کی آخری سانس تک کا ہے، جسے اصولاً پہلے حصے کے مقابلے میں زیادہ کارآمد، نتیجہ خیز اور کامیابیوں سے بھرا ہونا چاہیے کیونکہ اس حصے میں ہم پہلے حصے میں حاصل کیے تجربات کو بروے کار لا کر بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں، خود کو دنیا کے لیے رول ماڈل بنا سکتے ہیں، جسمانی ہی نہیں، اخلاقی، ذہنی اور روحانی اعتبار سے بھی قابل ذکر ترقی کر سکتے ہیں، ایک لطیف کیفیت اور اطمینان بخش مقام پر اس دنیا سے رخصت ہو سکتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا نہیں۔
جہاں سے ہمارے اصل عمل کا دور شروع ہوتا ہے وہیں سے ترقی کے بجائے ہماری تنزلی کی ابتدا ء ہو جاتی ہے۔ ہم جانتے بوجھتے، آنکھیں بند کیے غلط سمت میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اس کے باعث زندگی کے اس فیصلہ کن حصے میں ناکامیوں، بیماریوں اور پچھتاووں کا شکار ہو جاتے ہیں، ہماری زندگی کی اس دوڑ کا اختتام فاتحانہ انداز میں فنش لائن پر ہونے کے بجائے بیچ راہ مایوسی، خالی پن اور بوجھل روح پر ہوتا ہے۔
یہ ایک انتہائی اہم نقطہ ہے جس پر باریک بینی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر بستر مرگ پر آخری سانسیں لیتے لوگوں کی کیفیات کو ریکارڈ کیا جا سکے، ان آخری لمحات میں ان کے دل و دماغ میں گردش کرنے والے خیالات و احساسات کو کسی جدید مشین کے ذریعے محفوظ کیا جا سکے، ایسا کوئی سروے کیا جا سکے جس سے پتہ چل سکے کہ ان کی دلی کیفیات ان آخری لمحات میں کیا ہوتی ہیں تو شاید ان کے نتائج ہمارے تصور سے زیادہ عبرت ناک ہوں، اس راز پر سے پردہ اٹھے کہ ان میں سے کثیر تعداد گھبرائے، بوکھلائے اور ضمیر کے منوں بوجھ تلے دبے پچھتاتے لوگوں کی تھی۔
انسانی زندگی کے سفر کا آخری حصہ زیادہ اہمیت و توجہ کا متقاضی ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ دور ہے جہاں ہم دولت، شہرت کے باوجود بے اطمینانی اور مایوسی کی تاریکی میں گھِر جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسان زندگی کے ابتدائی حصے میں جن خصوصیات، نعمتوں اور قوتوں کی مدد سے ترقی کرتا ہوا نصف فاصلہ طے کرتا ہے، آخری حصے میں ان ہی خصوصیات کو کھو بیٹھتا ہے، انھیں کم تر اہمیت دیتا ہے، مثلاً والدین کے ساتھ وقت گزارنا اب اس کے لیے اتنا اہم نہیں رہتا، بچپن کی سادگی، سچائی اور لگن اس میں سے ختم ہو جاتی ہے، لڑکپن کے صحت مندانہ مشاغل بھاگ دوڑ سے وہ خود کو محروم کر دیتا ہے، کھلے نظاروں اور فطرت سے اس کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ سیکھنے، علم و نصیحت حاصل کرنے میں وہ اب دلچسپی نہیں رکھتا، اللہ سے اس کا کم عمری والا معصوم رشتہ اب اپنی خوشبو کھو چکا ہوتا ہے۔
وہ یہ تمام خصوصیات گنوا کر اب فقط مادیت پسندی اور خواہشات طلبی کی اندھی دوڑ میں مبتلا ہو چکا ہوتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ''دوڑ جس نشان سے شروع ہوتی ہے، اسی نشان پر آ کر ختم ہوتی ہے'' ، کامیاب و فاتح کہلانے کے لیے دوبارہ اسی نشان پرآنا ضروری ہوتا ہے، اگر درمیان میں ہی کہیں پڑاؤ کر لیا جائے یا کسی اور جانب نکل جایا جائے تو وہ کھلاڑی دوڑ سے باہر ہو جاتا ہے، کامیابی پھر اس کا مقدر نہیں بن سکتی۔ کامیابی کے لیے فنش لائن ذہن میں رکھتے ہوئے، یکسوئی سے اسی سمت مسلسل بڑھتے ہوئے واپس اسی نشان پر پہنچنا لازم ہوتا ہے۔بدقسمتی سے ہم زندگی کی اپنی اس دوڑ کے فیصلہ کن مرحلے میں اپنی فنش لائن سے ڈی ٹریک ہو کر کسی اور سمت جا نکلتے ہیں، خواہشات کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں، ہمیں اپنی منزل کی فکر رہتی ہے نہ راستے کا ہوش، ہم کب حقیقی ترقی کی دوڑ سے باہر نکل جاتے ہیں ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہم دوڑتے دوڑتے تھک جاتے ہیں مگر منزل کا نام و نشان نہیں ملتا، دوبارہ منزل کی را ہ پانے کے لیے ہمیں ایک بار پھر بچپن و نوجوانی کے حصے کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہوتی ہے، وہی روٹین، ایکٹیویٹی، جذبات و احساسات اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح دوبارہ خود کو جسمانی طور پر متحرک، علم حاصل کرنے کے لیے آمادہ، نصیحتوں پر عمل کرنے کی خالص کوشش اور اسی معصومیت اور سچے دل سے اللہ کو پکارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ان میں سے بہت سے معاملات میں مغربی ممالک ہم سے بہتر مقام پر ہیں۔ جہاں امریکا جیسے ملک میں آج بھی امریکی صدر اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود باقاعدگی سے نوجوانوں کی طرح جاگنگ، سائیکلنگ، ہائکنگ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں مطالعہ ان کے نوجوان، بوڑھے سب کی روٹین کا حصہ ہے، جہاں عام شہری ایک دوسرے سے سچ بولتے ہیں، ایک دوسرے کے حقوق کا پاس کرتے ہیں۔ جہاں والدین اپنی معاشی مصروفیات کے باوجود وقت نکال کر بچوں کے ساتھ بھاگتے دوڑتے کوالٹی وقت گزارتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہمیں بھی زندگی کی دوڑ میں کامیابی سے فنش لائن تک فاتحانہ انداز میں پہنچنے کے لیے حاضر دماغی سے اپنی عمر اور دور کے مطابق ترقی کی جانب جاتی صحیح راہوں کی تشخیص کرنا ہو گی، کیونکہ ترقی مختلف عمر میں مختلف معنی رکھتی ہے۔ ایک غریب نوجوان کے لیے موٹر سائیکل کا حصول ترقی کی علامت ہے لیکن بزرگ کے لیے حق شناسی، ترقی صرف شاندار بنگلوں کا حصول ہی نہیں، فطرت کے وسیع و عریض حسین نظاروں سے بھی مشروط ہے، فقط سائیکل سے گاڑی تک کا سفر ہی نہیں، بلکہ قیمتی کاروں سے دوبارہ سائیکل تک پہنچنے کا نام بھی ہے۔
اس روز گلی کے مالی کو ترقی کرتا دیکھ کر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس کی طرح میری ترقی کا سفر بھی ابھی جاری تھا۔ اس نے سائیکل سے موٹر سائیکل تک کی ترقی کا سفر طے کیا تھا اور میں نے کار سے دوبارہ سائیکل تک کی ترقی کا...!