اردو بے قاعدہ… ح سے حالی موالی حکام
آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ میں گھگھو گھوڑا ہوں اور اپنا نام اردو میں بھی نہیں لکھ سکتا
حالی صاحب کا نام دیکھ کر آپ چونک گئے ہوں گے، مگر اپنی غلط فہمی دور کر لیجیے، ان کا حالی موالیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اردو کے عالم دین تھے اور انھوں نے سیرت النبی بھی تحریر کی تھی، جس کی بہت قدر کی جاتی ہے۔
معمولی اور ادنیٰ افراد جیسے ہم ہیں کا واسطہ چونکہ کتابوں سے کم پڑتا ہے، چنانچہ حالی کا ہم نے صرف نام ہی سنا ہے۔ انھوں نے کیا کام کیا ہے، یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ میری نہاری کی دکان چلتی ہوئی سڑک پر ہے۔ ہمیں کتابوں سے کیا شغف؟ میرے بچوں نے جتنا ضروری سمجھا پڑھ لیا اس کے بعد کاروبار میں لگ گئے۔
آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ میں گھگھو گھوڑا ہوں اور اپنا نام اردو میں بھی نہیں لکھ سکتا۔ آٹھویں کلاس میں آٹھ بار فیل ہونے کے بعد میرا دل پڑھائی سے اچاٹ ہو گیا اور والد صاحب کا بجٹ میرے فیسوں کو برداشت نہ کر سکا تو انھوں نے ہدایت دی کہ میں ''کچھ اور'' کروں۔ کچھ اور میں تو بہت سی چیزیں آتی تھیں۔ میں گو مگو کی کیفیت سے دوچار تھا کہ انھیں دنوں برنس روڈ پر لائٹ آف پاکستان کے نام سے بک اسٹال کھل گیا۔ چونکہ اس زمانے میں کتابیں خوبصورت اور دیدہ زیب شایع ہوتی تھیں، اس لیے سب کی توجہ مبذول کرا لیا کرتی تھیں۔ غالبا وہ پڑھے لکھوں کا زمانہ تھا۔ (اب تو برائے نام ملتے ہیں) نئی نسل کو کتابوں سے زیادہ کرکٹ سے دلچسپی ہے۔
دکان والے نے مجھے کتابوں کے گرد منڈلاتے دیکھا تو ملازمت کے لیے رکھ لیا۔ اردو سے چونکہ آشنا تھا، لہٰذا جب گاہک کوئی کتاب طلب کرتا تو میں اٹھا کر دے دیتا اور قیمت گلک میں ڈال دیتا، پھر مولانا حالی موالی ہی نہیں بہت سے موالی شاعر اور ادیبوں سے آشنائی ہو گئی۔ نہاری کی دکان کھولنے کا قصہ بعد میں آئے گا، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو نہاری شوق سے کھاتا ہے اسے کتابوں سے دل چسپی نہیں ہوتی یا جو کتابیں پڑھتا ہے، وہ نہاری نہیں کھاتا۔ ابن صفی نہاری بہت شوق سے کھاتے تھے اور دل چسپ قہقہہ آور ناول لکھا کرتے تھے۔
کوئی نئی کتاب آتی تھی تو چند کتابیں بنڈل میں سے نکال کر اسٹال پر سجانا اور باقی کو ملحقہ گودام میں رکھنا، اخبار والوں کا حساب کتاب کرنا، گرد و دھول صاف کرنا، بک اسٹال کو چمکانا میرے فرائض میں شامل تھا۔ نہاری سے میرا تعلق وہیں سے قائم ہوا۔ اس لیے کہ صابری نہاری والا وہاں سے قریب تھا۔ جب چھٹی ہونے والی ہوتی تھی تو ہم دوچار لڑکے مل کر وہاں پہنچ جاتے تھے اور نلی والی نہاری کھایا کرتے تھے، کتابیں اور نہاری کیسا عجیب تعلق ہے؟
جب میں جوان ہو گیا تو والد صاحب نے لگی بندھی تنخواہ دیکھ کر کہا۔ ''میرا خیال ہے کہ تمہیں کوئی کاروبار کرنا چاہیے، اس لیے کہ آگے چل کر تمہارا اور ہمارا گزارا اس میں نہیں ہو گا'' میں نے ان کی بات پلے سے باندھ لی اور منصوبہ سازیاں کرنے لگا، پھر دوستوں سے تذکرہ کیا تو پتہ چلا کہ کھانے کی چیزیں فروخت کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ جہاں تک کتابوں کا تعلق ہے وہ البتہ پرانی ہو جاتی ہیں تو آدھی قیمت میں دینا پڑتی ہیں۔ کبھی کبھار تول کر بھی۔
اس لیے کہ حالی موالیوں کی ایک فوج ظفر موج پیدا ہو گئی تھی جسے شاعر اور ادیب بننے کا فوبیا ہو گیا تھا۔ کتابوں اور رسالوں کی بھرمار تھی اور ہر سر پھرا اپنے خیال کے مطابق ادب کو فروغ دے رہا تھا۔ جب کہ حقیقت اس سے کوسوں دور تھی۔ ادبی رسائل کا مطالعہ کر کے کوئی بڑا شاعر یا ادیب نہیں بنا۔ پھر ڈائجسٹ بھی اس بھیڑ بھکڑ میں شامل ہو گئے غبارہ ڈائجسٹ، فوارہ ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ اور الم غلم ڈائجسٹ۔ ان ڈائجسٹوں نے اپنی بھڑکیلی، رسیلی اور مسالے دار کہانیاں شایع کر کے قارئین کا دل مٹھی میں لے لیا۔ ان کی توجہ ادبی رسائل کی طرف سے ہٹ گئی۔
سارے حالی موالی کہاں جاتے؟ انھوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی محفلیں سجانا شروع کر دیں۔ ان میں سے کئی دم توڑ گئے۔ باقی نے اپنی ڈفلی اپنا راگ بجانا شروع کر دیا، جو اب تک بج رہے ہیں۔ میں نے نہ صرف یہ ہے نہاری کی دکان کھول لی، بلکہ شادی کر کے جتنے بچے ہوئے انھیں اسی کار خیر میں لگا دیا۔ یقینا یہ ادب کا فیض تھا جس نے اتنی تمیز اور شعور پیدا کر دیا کہ میں نہاری اور ادب میں توازن پیدا کر سکوں۔
اب ہم ح سے حکام بناتے ہیں۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ بعض افراد جن کے پاس کوئی ڈگر ی نہیں ہوتی اور وہ اپنا نام بھی بمشکل قومی زبان میں لکھ پاتے ہیں، حکام (واحد میں) ہوتے ہیں۔ ان کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ (وہ چلنے بھی نہیں دیتے) ان کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہوتے ہیں۔ احتراماً لوگ انھیں چوہدری کہتے ہیں (حالانکہ ان کے پاس کوئی زمین یا جاگیر نہیں ہوتی، لیکن وہ چوہدری ہوتے ہیں)۔ان کے علاوہ سی ایس پی پاس کر کے آنے والے افسران ہوتے ہیں۔
جو بظاہر خوش اخلاق اور وضع دار ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں ہر وہ چیز جو دکھائی دیتی ہے، ویسی نہیں ہوتی۔ یہ ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں اور حکام کہلاتے ہیں۔ ان میں جو حکام بالا بن جاتے ہیں وہ بالائی کھاتے ہیں۔حاکم کی کیا تعریف ہے؟ حکم دینے والا۔ اپنے حکم کو طاقت کے ذریعے نافذ کرنے والا۔ یہ میں کہہ رہا ہوں، کرو۔ تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے تو خاموش بیٹھو۔ لوگ اب خاموش نہیں بیٹھتے۔ ان کے پاس شور مچانے کے لیے میڈیا کے چینلز اور اخبارات ہوتے ہیں، جو سوئی کا بھالا بنانے میں ماہر ہوتے ہیں۔
حکومت اور عوام میں کیا فرق ہے اور عوام کو اب حکومت کی باتیں (پالیسیاں) اچھی کیوں نہیں لگتیں؟ پالیسیوں میں نقص ہے یا عوام چالاک ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب انھیں ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسا نہیں جا سکتا۔ میرے نزدیک یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سیکریٹری جو صدر یا وزیر اعظم کو تقریر لکھ کر دیتا ہے، اسے تبدیل کر دینا چاہیے۔ اس لیے وہ ہر بار ایک ہی تقریر چند جملوں کی تبدیلی کے بعد پھر پیش کر دیتا ہے۔ چنانچہ عوام جن کا حافظہ اس معاملے میں اچھا ہے۔ انھیں مسترد کر دیتے ہیں۔ (تقریر، وزیراعظم اور صدر صاحب، تینوں کو)۔
ایک جگہ لمبی چوڑی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ وطن عزیز کے سیاسی، معاشی اور مجموعی حالات زیر بحث تھے۔ کوئی مایوسی کا اظہار کر رہا تھا اور کسی کا تبصرہ تھا کہ اب یہ ملک نہیں بچے گا اسے چلانا ناممکن نہیں۔ فیضؔ سے پوچھا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ''میرا خیال ہے کہ یہ اسی طرح سے چلتا رہے گا'' فیض کا اندازہ بالکل درست تھا۔ اسی طرح سے چل رہا ہے۔ سر مو کوئی فرق نہیں۔ملک چل تو رہا ہے، لیکن اطمینان و سکون غارت ہو چکا ہے، لوگ باہر بھاگے جا رہے ہیں۔ سب سے بڑا مرکز دبئی بن گیا ہے۔ ایک زمانے میں لوگ بیروت جایا کرتے تھے۔
یہ زمانہ جمہوریت ہے۔ سب سے زیادہ غوغا اسی زمانے میں ہوتا ہے۔ حقیقت میں ہوتا وہی ہے جو ان سے زیادہ بااثر ادارے چاہتے ہیں۔ وہی منصوبہ سازی کرتے ہیں اور وہی اس پر عمل کراتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک بے اختیار نظام ہے۔ کچھ جن کے منہ میں زیادہ لمبی زبان ہے۔ کہتے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ تک بے اثر ہے۔ اجلاس میں صرف لپاڈگی ہوتی ہے۔ مطلب یہ ٹائم پاس کیا جاتا ہے اور تصویریں کھچوائی جاتی ہیں۔
ایک مضبوط، بااثر اور مستحکم ادارہ ہی ایسی پارلیمنٹ تشکیل دے سکتا ہے، چاہے اس کا نام کچھ بھی ہو ۔ مثال کے طور پر مجلس شوریٰ۔ تاریخ سیاست پڑھنے پر پتہ چلتا ہے کہ سارے ملک سے مقتدر افراد کا چناو ٔکیا گیا تا کہ باکمال اور بامثال حکمرانی کی جا سکے مگر سیٹ اپ میں نہ معلوم کیا گڑبڑ ہو گئی کہ کسی نے مان کے نہ دیا پھر اس کے تخلیق کار کا طیارہ بلاسٹ ہو گیا۔ ساری کاوشیں تہ خاک ہو گئیں۔ (وہ خود تو شہادت کے عہدے پر متمکن ہو گئے لیکن مجلس شوری خلا میں جھولتی رہ گئی۔ ایک دل جلے کا تبصرہ تھا کہ ''ہمارے محلے کے قصائی، کنجڑے اور گوالے بھی اس میں شامل تھے۔''
معمولی اور ادنیٰ افراد جیسے ہم ہیں کا واسطہ چونکہ کتابوں سے کم پڑتا ہے، چنانچہ حالی کا ہم نے صرف نام ہی سنا ہے۔ انھوں نے کیا کام کیا ہے، یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ میری نہاری کی دکان چلتی ہوئی سڑک پر ہے۔ ہمیں کتابوں سے کیا شغف؟ میرے بچوں نے جتنا ضروری سمجھا پڑھ لیا اس کے بعد کاروبار میں لگ گئے۔
آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ میں گھگھو گھوڑا ہوں اور اپنا نام اردو میں بھی نہیں لکھ سکتا۔ آٹھویں کلاس میں آٹھ بار فیل ہونے کے بعد میرا دل پڑھائی سے اچاٹ ہو گیا اور والد صاحب کا بجٹ میرے فیسوں کو برداشت نہ کر سکا تو انھوں نے ہدایت دی کہ میں ''کچھ اور'' کروں۔ کچھ اور میں تو بہت سی چیزیں آتی تھیں۔ میں گو مگو کی کیفیت سے دوچار تھا کہ انھیں دنوں برنس روڈ پر لائٹ آف پاکستان کے نام سے بک اسٹال کھل گیا۔ چونکہ اس زمانے میں کتابیں خوبصورت اور دیدہ زیب شایع ہوتی تھیں، اس لیے سب کی توجہ مبذول کرا لیا کرتی تھیں۔ غالبا وہ پڑھے لکھوں کا زمانہ تھا۔ (اب تو برائے نام ملتے ہیں) نئی نسل کو کتابوں سے زیادہ کرکٹ سے دلچسپی ہے۔
دکان والے نے مجھے کتابوں کے گرد منڈلاتے دیکھا تو ملازمت کے لیے رکھ لیا۔ اردو سے چونکہ آشنا تھا، لہٰذا جب گاہک کوئی کتاب طلب کرتا تو میں اٹھا کر دے دیتا اور قیمت گلک میں ڈال دیتا، پھر مولانا حالی موالی ہی نہیں بہت سے موالی شاعر اور ادیبوں سے آشنائی ہو گئی۔ نہاری کی دکان کھولنے کا قصہ بعد میں آئے گا، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو نہاری شوق سے کھاتا ہے اسے کتابوں سے دل چسپی نہیں ہوتی یا جو کتابیں پڑھتا ہے، وہ نہاری نہیں کھاتا۔ ابن صفی نہاری بہت شوق سے کھاتے تھے اور دل چسپ قہقہہ آور ناول لکھا کرتے تھے۔
کوئی نئی کتاب آتی تھی تو چند کتابیں بنڈل میں سے نکال کر اسٹال پر سجانا اور باقی کو ملحقہ گودام میں رکھنا، اخبار والوں کا حساب کتاب کرنا، گرد و دھول صاف کرنا، بک اسٹال کو چمکانا میرے فرائض میں شامل تھا۔ نہاری سے میرا تعلق وہیں سے قائم ہوا۔ اس لیے کہ صابری نہاری والا وہاں سے قریب تھا۔ جب چھٹی ہونے والی ہوتی تھی تو ہم دوچار لڑکے مل کر وہاں پہنچ جاتے تھے اور نلی والی نہاری کھایا کرتے تھے، کتابیں اور نہاری کیسا عجیب تعلق ہے؟
جب میں جوان ہو گیا تو والد صاحب نے لگی بندھی تنخواہ دیکھ کر کہا۔ ''میرا خیال ہے کہ تمہیں کوئی کاروبار کرنا چاہیے، اس لیے کہ آگے چل کر تمہارا اور ہمارا گزارا اس میں نہیں ہو گا'' میں نے ان کی بات پلے سے باندھ لی اور منصوبہ سازیاں کرنے لگا، پھر دوستوں سے تذکرہ کیا تو پتہ چلا کہ کھانے کی چیزیں فروخت کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ جہاں تک کتابوں کا تعلق ہے وہ البتہ پرانی ہو جاتی ہیں تو آدھی قیمت میں دینا پڑتی ہیں۔ کبھی کبھار تول کر بھی۔
اس لیے کہ حالی موالیوں کی ایک فوج ظفر موج پیدا ہو گئی تھی جسے شاعر اور ادیب بننے کا فوبیا ہو گیا تھا۔ کتابوں اور رسالوں کی بھرمار تھی اور ہر سر پھرا اپنے خیال کے مطابق ادب کو فروغ دے رہا تھا۔ جب کہ حقیقت اس سے کوسوں دور تھی۔ ادبی رسائل کا مطالعہ کر کے کوئی بڑا شاعر یا ادیب نہیں بنا۔ پھر ڈائجسٹ بھی اس بھیڑ بھکڑ میں شامل ہو گئے غبارہ ڈائجسٹ، فوارہ ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ اور الم غلم ڈائجسٹ۔ ان ڈائجسٹوں نے اپنی بھڑکیلی، رسیلی اور مسالے دار کہانیاں شایع کر کے قارئین کا دل مٹھی میں لے لیا۔ ان کی توجہ ادبی رسائل کی طرف سے ہٹ گئی۔
سارے حالی موالی کہاں جاتے؟ انھوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی محفلیں سجانا شروع کر دیں۔ ان میں سے کئی دم توڑ گئے۔ باقی نے اپنی ڈفلی اپنا راگ بجانا شروع کر دیا، جو اب تک بج رہے ہیں۔ میں نے نہ صرف یہ ہے نہاری کی دکان کھول لی، بلکہ شادی کر کے جتنے بچے ہوئے انھیں اسی کار خیر میں لگا دیا۔ یقینا یہ ادب کا فیض تھا جس نے اتنی تمیز اور شعور پیدا کر دیا کہ میں نہاری اور ادب میں توازن پیدا کر سکوں۔
اب ہم ح سے حکام بناتے ہیں۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ بعض افراد جن کے پاس کوئی ڈگر ی نہیں ہوتی اور وہ اپنا نام بھی بمشکل قومی زبان میں لکھ پاتے ہیں، حکام (واحد میں) ہوتے ہیں۔ ان کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ (وہ چلنے بھی نہیں دیتے) ان کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہوتے ہیں۔ احتراماً لوگ انھیں چوہدری کہتے ہیں (حالانکہ ان کے پاس کوئی زمین یا جاگیر نہیں ہوتی، لیکن وہ چوہدری ہوتے ہیں)۔ان کے علاوہ سی ایس پی پاس کر کے آنے والے افسران ہوتے ہیں۔
جو بظاہر خوش اخلاق اور وضع دار ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں ہر وہ چیز جو دکھائی دیتی ہے، ویسی نہیں ہوتی۔ یہ ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں اور حکام کہلاتے ہیں۔ ان میں جو حکام بالا بن جاتے ہیں وہ بالائی کھاتے ہیں۔حاکم کی کیا تعریف ہے؟ حکم دینے والا۔ اپنے حکم کو طاقت کے ذریعے نافذ کرنے والا۔ یہ میں کہہ رہا ہوں، کرو۔ تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے تو خاموش بیٹھو۔ لوگ اب خاموش نہیں بیٹھتے۔ ان کے پاس شور مچانے کے لیے میڈیا کے چینلز اور اخبارات ہوتے ہیں، جو سوئی کا بھالا بنانے میں ماہر ہوتے ہیں۔
حکومت اور عوام میں کیا فرق ہے اور عوام کو اب حکومت کی باتیں (پالیسیاں) اچھی کیوں نہیں لگتیں؟ پالیسیوں میں نقص ہے یا عوام چالاک ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب انھیں ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسا نہیں جا سکتا۔ میرے نزدیک یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سیکریٹری جو صدر یا وزیر اعظم کو تقریر لکھ کر دیتا ہے، اسے تبدیل کر دینا چاہیے۔ اس لیے وہ ہر بار ایک ہی تقریر چند جملوں کی تبدیلی کے بعد پھر پیش کر دیتا ہے۔ چنانچہ عوام جن کا حافظہ اس معاملے میں اچھا ہے۔ انھیں مسترد کر دیتے ہیں۔ (تقریر، وزیراعظم اور صدر صاحب، تینوں کو)۔
ایک جگہ لمبی چوڑی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ وطن عزیز کے سیاسی، معاشی اور مجموعی حالات زیر بحث تھے۔ کوئی مایوسی کا اظہار کر رہا تھا اور کسی کا تبصرہ تھا کہ اب یہ ملک نہیں بچے گا اسے چلانا ناممکن نہیں۔ فیضؔ سے پوچھا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ''میرا خیال ہے کہ یہ اسی طرح سے چلتا رہے گا'' فیض کا اندازہ بالکل درست تھا۔ اسی طرح سے چل رہا ہے۔ سر مو کوئی فرق نہیں۔ملک چل تو رہا ہے، لیکن اطمینان و سکون غارت ہو چکا ہے، لوگ باہر بھاگے جا رہے ہیں۔ سب سے بڑا مرکز دبئی بن گیا ہے۔ ایک زمانے میں لوگ بیروت جایا کرتے تھے۔
یہ زمانہ جمہوریت ہے۔ سب سے زیادہ غوغا اسی زمانے میں ہوتا ہے۔ حقیقت میں ہوتا وہی ہے جو ان سے زیادہ بااثر ادارے چاہتے ہیں۔ وہی منصوبہ سازی کرتے ہیں اور وہی اس پر عمل کراتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک بے اختیار نظام ہے۔ کچھ جن کے منہ میں زیادہ لمبی زبان ہے۔ کہتے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ تک بے اثر ہے۔ اجلاس میں صرف لپاڈگی ہوتی ہے۔ مطلب یہ ٹائم پاس کیا جاتا ہے اور تصویریں کھچوائی جاتی ہیں۔
ایک مضبوط، بااثر اور مستحکم ادارہ ہی ایسی پارلیمنٹ تشکیل دے سکتا ہے، چاہے اس کا نام کچھ بھی ہو ۔ مثال کے طور پر مجلس شوریٰ۔ تاریخ سیاست پڑھنے پر پتہ چلتا ہے کہ سارے ملک سے مقتدر افراد کا چناو ٔکیا گیا تا کہ باکمال اور بامثال حکمرانی کی جا سکے مگر سیٹ اپ میں نہ معلوم کیا گڑبڑ ہو گئی کہ کسی نے مان کے نہ دیا پھر اس کے تخلیق کار کا طیارہ بلاسٹ ہو گیا۔ ساری کاوشیں تہ خاک ہو گئیں۔ (وہ خود تو شہادت کے عہدے پر متمکن ہو گئے لیکن مجلس شوری خلا میں جھولتی رہ گئی۔ ایک دل جلے کا تبصرہ تھا کہ ''ہمارے محلے کے قصائی، کنجڑے اور گوالے بھی اس میں شامل تھے۔''