آپ کا بندر ہمارے پاس ہے
بھارت اسے خلیجی ممالک تک اپنے بحری جہازوں کی آمد و رفت کے لیے نہ جانے کیوں خطرہ سمجھتا ہے
اس حقیقت کے سامنے آنے کے بعد کہ بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کا تمام تر محور صرف اور صرف گوادر بندرگاہ ہے، لگتا ہے ہم پاکستانی اس بندرگاہ کی اہمیت سے اتنے آگاہ نہیں ہیں جتنے ہمارے دشمن ہیں۔
جب ہی تو ادھر حکومت پاکستان نے اسے عالمی سطح کی بندرگاہ بنانے کے کام کا آغاز کیا ادھر ہمارے دشمنوں نے اس منصوبے کو خواب و خیال بنانے کے لیے پورے بلوچستان میں تخریب کاری کا جال بچھا دیا۔ اب جب سے چین نے اس میں دلچسپی لینا شروع کی ہے اور اکنامک کوریڈور پر کام کرنے کا اعلان کیا ہے دشمنوں نے اس عظیم منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اپنے دہشت گردی کے مشن کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ بظاہر اس بندرگاہ کو اپنے لیے خطرہ خیال کرنے والے دو ہی پڑوسی ممالک ہیں۔
بھارت اسے خلیجی ممالک تک اپنے بحری جہازوں کی آمد و رفت کے لیے نہ جانے کیوں خطرہ سمجھتا ہے مگر شاید اصل بات یہ ہے کہ اس کے خلیج فارس سے لے کر بحر ہند تک سپر پاور بننے کے راستے میں گوادر بندرگاہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
امریکی ہمت افزائی کی وجہ سے وہ خود کو پورے خطے کا خودساختہ تھانیدار سمجھنے لگا ہے۔ چنانچہ اسے گوادر بندرگاہ میں چینی دلچسپی پسند نہیں ہے۔ اسے معاشی راہداری کے آزاد کشمیر سے گزرنے پر بھی سخت اعتراض ہے حالانکہ آزاد کشمیر تو کیا مقبوضہ کشمیر پر بھی اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایران کا جہاں تک تعلق ہے اس کو گوادر بندرگاہ کی ترقی کے بعد چاہ بہار بندرگاہ کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی، چنانچہ اس نے گوادر کی ٹکر پر چاہ بہار کو ترقی دے کر اسے عالمی سطح کی بندرگاہ بنانے کے لیے ایران کو کئی ارب ڈالر مہیا کیے ہیں۔
چاہ بہار بندرگاہ کو بھارت افغانستان تک اپنی رسائی کا ذریعہ بھی بنانا چاہتا ہے کیونکہ اس وقت اس کے لیے سب سے پریشان کن مسئلہ اپنا برآمدی مال افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچانا ہے چونکہ پاکستان اسے واہگہ کے راستے افغانستان تک رسائی دینے کے لیے تیار نہیں ہے جس کی وجہ اس کی پاکستان میں پہلے سے جاری تخریبی کارروائیاں ہیں۔ اس راستے کے ذریعے وہ پہلے ہی کئی ''را'' کے جاسوسوں کو پاکستانی بھیج کر کئی شہروں میں دہشت گردی کرا چکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ سربجیت سنگھ، سرجیت سنگھ اور کشمیرا سنگھ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
اب بلوچستان سے اس کا ایک اہم جاسوس کل بھوشن یادو گرفتار کیا گیا ہے یہ جاسوس بھارتی نیوی میں کمانڈر کے رینک کا افسر ہے۔ اس نے اعتراف کر لیا ہے کہ وہ چودہ برس سے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کروا رہا ہے مگر اس کا اصل ہدف گوادر بندرگاہ تھی۔
اس نے ایران میں اپنے نیٹ ورک کا بھانڈا پھوڑ کر پاکستان کے ایران سے تعلقات میں غلط فہمی کا زہر گھول دیا لیکن چاہ بہار بندرگاہ کی آڑ میں بھارت کے اس پاکستان مخالف گھناؤنے کھیل سے ایران کیوں کر غافل رہا؟ بہرحال بلوچستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اسی نیٹ ورک کا کمال ہے مگر افسوس کہ ہم بھی کیوں اتنے طویل عرصے تک اس سے غافل رہے۔ اب تک اس کی وجہ سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے مبصرین کے نزدیک ہماری یہ غفلت غور طلب ہے۔
بدقسمتی سے بعض ایرانی عناصر بھی اس بھارتی سازشی منصوبے میں کسی نہ کسی پہلو سے شریک نظر آتے ہیں۔ حیرت ہے کہ بلوچستان کے بعض بااثر قبائلی سردار بھی لالچ میں آ کر دشمن کی سرگرمیوں کے شریک کار بن گئے کاش کہ انھوں نے یہ سوچا ہوتا کہ دشمن اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ان کی عزت و ناموس کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔
جہاں تک بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کی بات ہے اس میں دشمن قیامت تک کامیاب نہیں ہو سکتا۔ مشرقی پاکستان اور بلوچستان میں بہت فرق ہے۔ اگر مشرقی پاکستان بھی مغربی حصے سے جڑا ہوا ہوتا تو دشمن اسے کبھی علیحدہ نہ کر پاتا پھر بلوچستان میں نہ صرف بلوچ بلکہ پختون بھی آباد ہیں اور یہ دونوں پاکستان سے علیحدگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بعض متعصب سرداروں کی وجہ سے بلوچستان کو دو صوبوں میں منقسم کرنے کا ایک عرصے سے زور لگایا جا رہا ہے مگر نہ تو بلوچ اور نہ ہی پختون ایک دوسرے سے جدا ہونا قبول کر سکتے ہیں۔ وہ جیسے شروع سے ایک ساتھ رہتے چلے آئے ہیں ویسے ہی ہمیشہ رہنا چاہتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت کی سازش میں شریک افراد اپنے قبلے کو درست کر لیں۔ وہ بھارت کے بہکاوئے میں آ کر عوام کے سامنے مزید ذلیل و خوار نہ ہوں کیونکہ بلوچستان کے محب وطن عوام کو کسی صورت بھی علیحدگی کی راہ پر نہیں ڈالا جا سکتا پھر کسی بھی تحریک میں جب تک عوام شریک نہ ہوں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ صرف کرائے کے چند مہروں کے ذریعے چلائی گئی کوئی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
جہاں تک کل بھوشن یادو کا تعلق ہے اس کی گرفتاری کے سلسلے میں بھارتی حکومت نے روایتی جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس کا ''را'' سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ ایک کاروباری شخص ہے البتہ نیوی کا ریٹائرڈ افسر ہے۔ بھارت کے اس جھوٹ کی خود بھارتی اخباروں نے قلعی کھول دی ہے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق وہ مہاراشٹر کا رہائشی ہے وہ پہلے واقعی نیوی میں ایک اعلیٰ افسر تھا مگر حکومت نے اس میں کوئی خوبی دیکھ کر اسے ''را'' میں اعلیٰ عہدے پر فائز کر دیا تھا اس کا پونا سے حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاسپورٹ بنوایا گیا اور اسے چاہ بہار بندرگاہ بھیج دیا گیا ۔
جس کے کئی برتھ بھارت نے ایران سے اپنے لیے الاٹ کرا لیے ہیں۔ چاہ بہار بندرگاہ میں بھارتی سرمایہ کاری کی وجہ سے ایران کے بھارت سے خوشگوار تعلقات قائم ہیں۔ ان ہی بہترین تعلقات کی آڑ میں وہ وہاں اپنی مشکوک سرگرمیوں کو پروان چڑھاتا رہا مگر اس کا اصل ہدف بلوچستان تھا۔ کل بھوشن یادو وہاں سے بلوچستان آ کر اپنے مقامی سہولت کاروں کے ذریعے دہشت گردانہ کارروائیوں کی نگرانی کرتا رہا۔ اس نے کئی ہولناک وارداتوں میں اپنے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے۔
بھارتی اخبارات ممبئی مرر اور احمد آباد مرر کے مطابق کل بھوشن کے پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں پکڑے جانے کی اصل وجہ یہ ہوئی کہ وہ ممبئی میں اپنے اہل خانہ سے مراٹھی میں فون پر بات کرتا تھا۔ بہرحال ہماری خفیہ ایجنسیوں کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ہماری حکومت بھارتی حکومت کو بلوچستان اور کراچی میں ''را'' کی تخریبی کارروائیوں سے پہلے بھی آگاہ کرتی رہی ہے بلکہ ''را'' کی دہشت گردی کے ثبوت اقوام متحدہ تک میں پیش کر چکی ہے مگر بھارتی حکومت اسے ہمیشہ افسانہ کہہ کر ٹالتی رہی ہے۔ اب جب کہ حقیقت سامنے آ چکی ہے وہ روایتی جھوٹ بول کر بات کو ٹال نہیں سکتی کیونکہ خود اس کے اپنے معتبر اخبار اس کے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اب اس سنگین معاملے کو سلامتی کونسل میں پیش کرنے اور ساتھ ہی بھارت کی پاکستان کو توڑنے کی گھناؤنی سازش سے اس کے طرفداروں کو بھی بطور خاص آگاہ کرے حکومت پاکستان کو ایک کام اور کرنا چاہیے کل بھوشن کی فرمائش پر اس کا یہ پیغام ضرور بھارتی حکومت کو پہنچا دینا چاہیے کہ ''آپ کا بندر ہمارے پاس ہے۔''