واٹس ایپ نے اپنے صارفین کے پیغامات کو مزید محفوظ بنا دیا
نظام میں میسج بھیجنے والے اور موصول کرنے والے دونوں کی طرف اِنکرپشن کی جائے گی۔
صارفین کے پیغامات کو مزید محفوظ بنانے کے لیے پیغام بھیجنے والی سروس 'واٹس ایپ' نے صارفین کی بات چیت کو اِنکرپٹ کرنا شروع کردیا۔
واٹس ایپ کے مطابق اس نظام میں میسج بھیجنے والے اور موصول کرنے والے دونوں کی طرف اِنکرپشن کی جائے گی جس کا مطلب ہے کہ بھیجنے والے کا پیغام گڈمڈ ہو گا اور یہ موصول ہونے والے کو صرف اسی وقت سمجھ آئے گا جب وہ اس پیغام کو ڈی کرپٹ کرے گا جب کہ اگر اس پیغام کو کوئی اور پڑھنے کی کوشش کرے گا مثلاً کوئی مجرم یا کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ، تو وہ نہیں پڑھ پائے گا۔ واٹس ایپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی فائل ٹرانسفرز اور کالز بھی اِنکرپٹڈ ہوں گی کیوں کہ ذاتی روابط کی حفاظت ان کے لیے مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔
کمپنی انتظامیہ کے مطابق انکرپشن پراس وقت توجہ مرکوز ہوئی جب امریکی ادارے ایف بی آئی نے ایپل کمپنی سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلح شخص کے آئی فون کو کو کھولنے میں مدد دے لیکن ایپل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جن صارفین کے پاس اس ایپ کا بالکل نیا ورژن موجود ہے ان کے پاس اس سروس نے کام شروع کردیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ آزادیِ اظہار کی فتح ہے، خاص طور پر ان سرگرم کارکنوں اور صحافیوں کے لیے جن کے کام کا انحصار قابل اعتماد ذرائع ابلاغ پر ہے۔ اب وہ اپنی زندگیاں داؤ پر لگائے بغیر کام کر سکیں گے۔
واٹس ایپ کے مطابق اس نظام میں میسج بھیجنے والے اور موصول کرنے والے دونوں کی طرف اِنکرپشن کی جائے گی جس کا مطلب ہے کہ بھیجنے والے کا پیغام گڈمڈ ہو گا اور یہ موصول ہونے والے کو صرف اسی وقت سمجھ آئے گا جب وہ اس پیغام کو ڈی کرپٹ کرے گا جب کہ اگر اس پیغام کو کوئی اور پڑھنے کی کوشش کرے گا مثلاً کوئی مجرم یا کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ، تو وہ نہیں پڑھ پائے گا۔ واٹس ایپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی فائل ٹرانسفرز اور کالز بھی اِنکرپٹڈ ہوں گی کیوں کہ ذاتی روابط کی حفاظت ان کے لیے مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔
کمپنی انتظامیہ کے مطابق انکرپشن پراس وقت توجہ مرکوز ہوئی جب امریکی ادارے ایف بی آئی نے ایپل کمپنی سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلح شخص کے آئی فون کو کو کھولنے میں مدد دے لیکن ایپل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جن صارفین کے پاس اس ایپ کا بالکل نیا ورژن موجود ہے ان کے پاس اس سروس نے کام شروع کردیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ آزادیِ اظہار کی فتح ہے، خاص طور پر ان سرگرم کارکنوں اور صحافیوں کے لیے جن کے کام کا انحصار قابل اعتماد ذرائع ابلاغ پر ہے۔ اب وہ اپنی زندگیاں داؤ پر لگائے بغیر کام کر سکیں گے۔