چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی کی ازلی کش مکش
ہر فرد، قوم، گروہ اور ملک اپنے جیسے دیگر افراد، اقوام، گروہوں اور ملکوں سے برسر پیکار ہے۔
ہر فرد، قوم، گروہ اور ملک اپنے جیسے دیگر افراد، اقوام، گروہوں اور ملکوں سے برسر پیکار ہے۔ ہم سب اپنے انفرادی و اجتماعی مسائل کا ذمے دار اپنے جیسے ہم جنسوں اور ہم سروں کو ٹھہرا کر ہمہ وقت انہیں مورد الزام قرار دیتے اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں۔
سالہا سال سے جاری معمول کی اس مشق سے سوائے تھکن، الجھن، یاس و ناامیدی اور پریشان خیالی کے کچھ حاصل و موصول نہیں۔ کاش کہ بریں موقع ہم چند ثانیے رُک کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اپنے مروجہ افکار و اعمال پر نظر ثانی یا خود احتسابی کی ہمت کرسکیں۔ قرار واقعی اگر ہم خود احتسابی اور اصلاح احوال کے لیے آمادہ ہوجائیں تو فطرت کے آفاقی و لازوال اصولوں پر مبنی قرآن حکیم، حکمت نبویؐ، تاریخ انسانی اور عقل سلیم کی روشنی میں واضح اور دو ٹوک نظری و عملی لائحہ عمل بھی خوش قسمتی سے ہمیں میسر ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''یہ کہ اﷲ کی بندگی کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔'' (القرآن) مذکورہ قرآن حکیم کے ارشاد کے تناظر میں ''اﷲ کی بندگی اور طاغوت سے اجتناب'' لازم و ملزوم ہیں وگرنہ یہی بندگی، حق شناسی کے بجائے باعث شرمندگی قرار پاتی ہے۔ طاغوت دراصل ہر دور کی ایسی سرکش طاقت کا عنوان ہے، جو بے مثل اور لازوال خدائی طاقت، مطلق العنانیت اور اختیار و اقتدار کے حقیقی سرچشمہ کو چیلنج کر بیٹھتی ہے۔ جب کہ ہر ایک دور کا اپنا ایک طاغوت ہوتا ہے، جسے اس کی متعین خاصیتوں اور علامات کی مدد سے پہچانا جاسکتا ہے۔
قرآن اور تاریخ انسانی کے مطابق حق و باطل، نیکی و بدی اور روشنی و تاریکی کے مابین غلبہ و کام رانی کی غرض سے جاری یہ کش مکش ازل سے چل رہی ہے اور رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔
آدمؑ و ابلیس کا تصادم ہو یا موسیٰؑ و فرعون کا معرکہ، ابراہیمؑ اور نمرود کے درمیان ٹکراؤ ہو یا پیغمبر اعظم و آخر نبی اکرم ﷺ کی ابوجہل اور اس کے حواریوں اور قیصر و کسریٰ کے خلاف مثالی و تاریخی جدوجہد، سب کی سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ادوار کے تغیر و تبدل کے باعث عنوانات اور ناموں کی تبدیلی سے فرق نہیں پڑتا، بل کہ مخصوص خاصیتوں اور کرداروں کی اساس پر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کون کس صف میں کھڑا ہے؟
ابلیس کی دو بنیادی خاصیتوں اور خامیوں نے اسے اپنے دور کے صالح اجتماعی دھارے سے الگ تھلک کرتے ہوئے بارگاہ ایزدی سے خارج کروایا، جن کی طرف قرآن حکیم نے ہماری توجہ دلائی ہے۔ ''اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا''
صرف انکار کردینا اس قدر بڑا مسئلہ نہ تھا اس لیے کہ اس کے بعد بھی توبہ اور رجوع الیٰ الحق کی گنجائش موجود رہتی ہے تاوقتیکہ تکبر کی چادر اوڑھ کر ضد اور ہٹ دھرمی کو بھی اپنالیا جائے۔ اپنی غلطی پر ندامت کی بجائے تکبر سے کام لینے کا واضح مفہوم خدا کی کبریائی کو چیلنج کرنا ہے اور اسی انانیت اور تکبر پسندی نے ابلیس کو مقبول سے مردود کے درجۂ اسفل پر لاکھڑا کیا۔
امام انسانیت سیدنا ابراہیمؑ کے مد مقابل نمرود نے بھی اپنے آپ کو طاقت و قوت کا آخری سرچشمہ قرار دے کر خدا تعالیٰ کی ربوبیت و ملوکیت کو چیلنج کرنا چاہا اور ابلیسی پیروی و تسلسل میں انکار، تکبر اور انسانوں میں تقسیم کے مکروہ اصولوں پر اپنی سلطنت کی بنیاد استوار کی۔
جب کہ سیدنا موسیٰؑ کے سامنے موجود فرعونی حکومت و طاقت کے اجزائے ترکیبی بھی یہی کچھ ہیں ''اور وہاں کے رہنے والوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا گیا، وہ ان میں سے ایک گروہ کو کم زور کرتا تھا، ان کے لڑکوں کو ذبح کرتا اور عورتوں کو زندہ چھوڑتا، بلاشبہ وہ فسادیوں میں سے تھا اور ہم نے چاہا کہ ان بنی اسرائیل پر احسان کریں جو ملک میں کم زور کردیے گئے تھے اور انہیں سردار بنادیں اور انہی کو ملک کا وارث بنادیں۔ اور ان کو زمین کا قبضہ واپس دلائیں اور ان کے ذریعے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز دکھائیں جس سے وہ خطرہ محسوس کرتے تھے'' (سورۃ القصص 6-1)
سیدنا موسیٰ ؑ نے نہایت منظم انداز میں فرعونی قوت کو چیلنج کرتے ہوئے نان ایشوز کو اٹھانے کے بجائے بنی اسرائیل کی آزادی کا بنیادی و حقیقی مطالبے پر فوکس کیا جس میں آخر کار انہیں کام یابی حاصل ہوئی۔
''اے فرعون! بنی اسرائیل کو آزاد کرکے میرے ساتھ جانے دو'' (القرآن)
دراصل ابلیسی، نمرودی، فرعونی اور طاغوتی قوتوں کا طریقۂ واردات اسی وحدت انسانی کو پارہ پارہ کرکے انہیں مختلف طبقات میں منقسم رکھنا اور نان ایشوز پر ان کو باہم جنگ و جدال میں مصروف رکھنا ہوتا ہے، تاکہ ان پر سیاسی جبر اور معاشی ظلم کو تادیر مسلط رکھا جاسکے۔ بہ صورت دیگر وحدت و اخوت کی بنیاد پر انسانی اجتماعیت کا استحکام، انسانیت کے ان دشمنوں کے لیے موت کا پیام لاتا ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی خلق اور مظلوم کی خاطر صبرآزما اور طویل مزاحمت کے بعد جب نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو آپؐ کے عہد میں بھی انکار حقیقت استمرار تکبر اور تقسیم انسانیت کے طاغوتی منشور پر عرب کے اندر ابوجہل و ابولہب اور عالمی سطح پر قیصر و کسریٰ کے ظالمانہ و استحصالی اقتدار پورے جوبن پر قائم تھے اور انسانوں کی اکثریت سیاسی جبر، معاشی استحصال اور سماجی ناانصافی کے باعث روحانی و اخلاقی اقدار سے محروم اور ناآشنا تھی۔
امام شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کے بہ قول ''اقتصادیات میں ناہمواری اور طبقاتی تفاوت کے سبب انسانیت اپنے شرف کے برعکس حیوانی ضرورتوں کی خاطر گدھوں اور بیلوں کی طرح محنت و مشقت پر مجبور کردی گئی تھی۔ لہٰذا نبی اکرم ﷺ دنیوی و اُخروی، اقتصادی و روحانی اور ارتفاقی و اقترابی وحدت پر مشتمل ایک فطری، جامع اور مکمل نظام فکر و عمل کے ساتھ تشریف لائے تاکہ ہمہ جہتی جمود کو توڑ کر قافلۂ انسانیت کو پھر سے اس کے فطری ارتقا سے ہم کنار اور روشناس کیا جاسکے۔
طاغوت شناسی اور اجتناب طاغوت اس قدر لازم ٹھہرایا گیا کہ نبوت و بعثت کے ابتدائی عہد میں اک دن سر شام جب سورج غروب ہو رہا تھا تو نبی اکرمؐ نے اپنے ساتھ کھڑے چند دوستوں کو ارشاد فرمایا کہ: ''قیصر و کسریٰ کا سورج بھی ایک دن ایسے ہی غروب ہوگا جیسے آج کے روز یہ سورج ڈوب رہا ہے''
یہی وجہ ہے کہ نصب العین کا تعین کرلینے کے بعد 13 سالہ مکی دور میں جب جماعتی اور قومی و اجتماعی شیرازہ بندی کا مرحلۂ اول درپیش تھا تو صحابہ کرامؓ نے مکہ کی ظالم قوتوں کے تمام تر ظلم و تشدد کو انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے ڈسپلن اور اطاعت کی لازوال تاریخ رقم کی۔ اس وقت قرآن نے بھی یہی حکم دیا تھا کہ ''اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو۔'' (القرآن)
تشدد کا جواب تشدد سے دینے کے بجائے عقل و شعور کی اساس پر طاغوتی قوتوں کو ناکامی سے دو چار کرنے کی یہ قرآنی و نبویؐ حکمت اپنی مثال آپ ہے اور اس حکمت کو ماضی قریب کی تاریخ میں بھی دہرا کر مختلف اقوام نے مطلوبہ نتائج پانے میں کام یابی حاصل کی ہے۔ پھر تاریخ نے وہ لمحات اور گھڑیاں بھی اپنے دامن میں محفوظ کر رکھی ہیں کہ جب عدم تشدد پر سختی سے کار بند جماعت صحابہؓ کے ذریعے مدینہ منورہ کی مثالی ریاست وجود میں آئی تو پھر ایک اعلیٰ ترین سیاسی و اجتماعی مرکزیت کے تحت پہلے پہل حجاز پر اور بعد ازاں دور فاروقیؓ میں عالمی سطح پر سیاسی، سفارتی و اخلاقی اور عسکری و فوجی ذرائع سے ظلم و استحصال کا انسداد اور اسلام کے عادلانہ اصولوں کا غلبہ و قیام عمل میں آیا۔
آج پھر ہمیں تمام انبیا و رسل ؑ اور خاص طور پر حضرت محمد ؐ کے مبارک نقوش کی پیروی میں بدی کے اصل محور و مرکز کا سراغ لگانا اور آج کے طاغوت کے مقابلے میں عقل و شعور اور حکمت و بصیرت کی بنیاد پر عصری تقاضوں کے عین مطابق لائحہ عمل ترتیب دینا ہے، ورنہ ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
طاغوت سے اجتناب کیے بغیر رب کی بندگی اور اس کے ثمرات سے فیض یابی ممکن نہیں، اس لیے کہ رب کی بندگی، غلامی سے نجات دلاکر حریت و آزادی کا شرف عطا کرتی ہے۔ صرف عبادت کے ذریعے اجتماعی غلامی سے نجات کا لائحہ عمل قرآنی و نبویؐ حکمت کے برعکس ہے۔ لازم ہے کہ اﷲ کی کبریائی کے اقرار کے ساتھ طاغوت کی بڑائی کے انکار پر مبنی مکمل نظریہ کو اختیار کیا جائے۔ عقل و شعور کی بنیاد پر لائحہ عمل ترتیب دے کر اجتماعی جدوجہد کے ذریعے پہلے اپنی قوم اور پھر تمام مظلوم انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کی سبیل پیدا کی جاسکے۔
سالہا سال سے جاری معمول کی اس مشق سے سوائے تھکن، الجھن، یاس و ناامیدی اور پریشان خیالی کے کچھ حاصل و موصول نہیں۔ کاش کہ بریں موقع ہم چند ثانیے رُک کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اپنے مروجہ افکار و اعمال پر نظر ثانی یا خود احتسابی کی ہمت کرسکیں۔ قرار واقعی اگر ہم خود احتسابی اور اصلاح احوال کے لیے آمادہ ہوجائیں تو فطرت کے آفاقی و لازوال اصولوں پر مبنی قرآن حکیم، حکمت نبویؐ، تاریخ انسانی اور عقل سلیم کی روشنی میں واضح اور دو ٹوک نظری و عملی لائحہ عمل بھی خوش قسمتی سے ہمیں میسر ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''یہ کہ اﷲ کی بندگی کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔'' (القرآن) مذکورہ قرآن حکیم کے ارشاد کے تناظر میں ''اﷲ کی بندگی اور طاغوت سے اجتناب'' لازم و ملزوم ہیں وگرنہ یہی بندگی، حق شناسی کے بجائے باعث شرمندگی قرار پاتی ہے۔ طاغوت دراصل ہر دور کی ایسی سرکش طاقت کا عنوان ہے، جو بے مثل اور لازوال خدائی طاقت، مطلق العنانیت اور اختیار و اقتدار کے حقیقی سرچشمہ کو چیلنج کر بیٹھتی ہے۔ جب کہ ہر ایک دور کا اپنا ایک طاغوت ہوتا ہے، جسے اس کی متعین خاصیتوں اور علامات کی مدد سے پہچانا جاسکتا ہے۔
قرآن اور تاریخ انسانی کے مطابق حق و باطل، نیکی و بدی اور روشنی و تاریکی کے مابین غلبہ و کام رانی کی غرض سے جاری یہ کش مکش ازل سے چل رہی ہے اور رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔
آدمؑ و ابلیس کا تصادم ہو یا موسیٰؑ و فرعون کا معرکہ، ابراہیمؑ اور نمرود کے درمیان ٹکراؤ ہو یا پیغمبر اعظم و آخر نبی اکرم ﷺ کی ابوجہل اور اس کے حواریوں اور قیصر و کسریٰ کے خلاف مثالی و تاریخی جدوجہد، سب کی سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ادوار کے تغیر و تبدل کے باعث عنوانات اور ناموں کی تبدیلی سے فرق نہیں پڑتا، بل کہ مخصوص خاصیتوں اور کرداروں کی اساس پر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کون کس صف میں کھڑا ہے؟
ابلیس کی دو بنیادی خاصیتوں اور خامیوں نے اسے اپنے دور کے صالح اجتماعی دھارے سے الگ تھلک کرتے ہوئے بارگاہ ایزدی سے خارج کروایا، جن کی طرف قرآن حکیم نے ہماری توجہ دلائی ہے۔ ''اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا''
صرف انکار کردینا اس قدر بڑا مسئلہ نہ تھا اس لیے کہ اس کے بعد بھی توبہ اور رجوع الیٰ الحق کی گنجائش موجود رہتی ہے تاوقتیکہ تکبر کی چادر اوڑھ کر ضد اور ہٹ دھرمی کو بھی اپنالیا جائے۔ اپنی غلطی پر ندامت کی بجائے تکبر سے کام لینے کا واضح مفہوم خدا کی کبریائی کو چیلنج کرنا ہے اور اسی انانیت اور تکبر پسندی نے ابلیس کو مقبول سے مردود کے درجۂ اسفل پر لاکھڑا کیا۔
امام انسانیت سیدنا ابراہیمؑ کے مد مقابل نمرود نے بھی اپنے آپ کو طاقت و قوت کا آخری سرچشمہ قرار دے کر خدا تعالیٰ کی ربوبیت و ملوکیت کو چیلنج کرنا چاہا اور ابلیسی پیروی و تسلسل میں انکار، تکبر اور انسانوں میں تقسیم کے مکروہ اصولوں پر اپنی سلطنت کی بنیاد استوار کی۔
جب کہ سیدنا موسیٰؑ کے سامنے موجود فرعونی حکومت و طاقت کے اجزائے ترکیبی بھی یہی کچھ ہیں ''اور وہاں کے رہنے والوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا گیا، وہ ان میں سے ایک گروہ کو کم زور کرتا تھا، ان کے لڑکوں کو ذبح کرتا اور عورتوں کو زندہ چھوڑتا، بلاشبہ وہ فسادیوں میں سے تھا اور ہم نے چاہا کہ ان بنی اسرائیل پر احسان کریں جو ملک میں کم زور کردیے گئے تھے اور انہیں سردار بنادیں اور انہی کو ملک کا وارث بنادیں۔ اور ان کو زمین کا قبضہ واپس دلائیں اور ان کے ذریعے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز دکھائیں جس سے وہ خطرہ محسوس کرتے تھے'' (سورۃ القصص 6-1)
سیدنا موسیٰ ؑ نے نہایت منظم انداز میں فرعونی قوت کو چیلنج کرتے ہوئے نان ایشوز کو اٹھانے کے بجائے بنی اسرائیل کی آزادی کا بنیادی و حقیقی مطالبے پر فوکس کیا جس میں آخر کار انہیں کام یابی حاصل ہوئی۔
''اے فرعون! بنی اسرائیل کو آزاد کرکے میرے ساتھ جانے دو'' (القرآن)
دراصل ابلیسی، نمرودی، فرعونی اور طاغوتی قوتوں کا طریقۂ واردات اسی وحدت انسانی کو پارہ پارہ کرکے انہیں مختلف طبقات میں منقسم رکھنا اور نان ایشوز پر ان کو باہم جنگ و جدال میں مصروف رکھنا ہوتا ہے، تاکہ ان پر سیاسی جبر اور معاشی ظلم کو تادیر مسلط رکھا جاسکے۔ بہ صورت دیگر وحدت و اخوت کی بنیاد پر انسانی اجتماعیت کا استحکام، انسانیت کے ان دشمنوں کے لیے موت کا پیام لاتا ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی خلق اور مظلوم کی خاطر صبرآزما اور طویل مزاحمت کے بعد جب نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو آپؐ کے عہد میں بھی انکار حقیقت استمرار تکبر اور تقسیم انسانیت کے طاغوتی منشور پر عرب کے اندر ابوجہل و ابولہب اور عالمی سطح پر قیصر و کسریٰ کے ظالمانہ و استحصالی اقتدار پورے جوبن پر قائم تھے اور انسانوں کی اکثریت سیاسی جبر، معاشی استحصال اور سماجی ناانصافی کے باعث روحانی و اخلاقی اقدار سے محروم اور ناآشنا تھی۔
امام شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کے بہ قول ''اقتصادیات میں ناہمواری اور طبقاتی تفاوت کے سبب انسانیت اپنے شرف کے برعکس حیوانی ضرورتوں کی خاطر گدھوں اور بیلوں کی طرح محنت و مشقت پر مجبور کردی گئی تھی۔ لہٰذا نبی اکرم ﷺ دنیوی و اُخروی، اقتصادی و روحانی اور ارتفاقی و اقترابی وحدت پر مشتمل ایک فطری، جامع اور مکمل نظام فکر و عمل کے ساتھ تشریف لائے تاکہ ہمہ جہتی جمود کو توڑ کر قافلۂ انسانیت کو پھر سے اس کے فطری ارتقا سے ہم کنار اور روشناس کیا جاسکے۔
طاغوت شناسی اور اجتناب طاغوت اس قدر لازم ٹھہرایا گیا کہ نبوت و بعثت کے ابتدائی عہد میں اک دن سر شام جب سورج غروب ہو رہا تھا تو نبی اکرمؐ نے اپنے ساتھ کھڑے چند دوستوں کو ارشاد فرمایا کہ: ''قیصر و کسریٰ کا سورج بھی ایک دن ایسے ہی غروب ہوگا جیسے آج کے روز یہ سورج ڈوب رہا ہے''
یہی وجہ ہے کہ نصب العین کا تعین کرلینے کے بعد 13 سالہ مکی دور میں جب جماعتی اور قومی و اجتماعی شیرازہ بندی کا مرحلۂ اول درپیش تھا تو صحابہ کرامؓ نے مکہ کی ظالم قوتوں کے تمام تر ظلم و تشدد کو انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے ڈسپلن اور اطاعت کی لازوال تاریخ رقم کی۔ اس وقت قرآن نے بھی یہی حکم دیا تھا کہ ''اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو۔'' (القرآن)
تشدد کا جواب تشدد سے دینے کے بجائے عقل و شعور کی اساس پر طاغوتی قوتوں کو ناکامی سے دو چار کرنے کی یہ قرآنی و نبویؐ حکمت اپنی مثال آپ ہے اور اس حکمت کو ماضی قریب کی تاریخ میں بھی دہرا کر مختلف اقوام نے مطلوبہ نتائج پانے میں کام یابی حاصل کی ہے۔ پھر تاریخ نے وہ لمحات اور گھڑیاں بھی اپنے دامن میں محفوظ کر رکھی ہیں کہ جب عدم تشدد پر سختی سے کار بند جماعت صحابہؓ کے ذریعے مدینہ منورہ کی مثالی ریاست وجود میں آئی تو پھر ایک اعلیٰ ترین سیاسی و اجتماعی مرکزیت کے تحت پہلے پہل حجاز پر اور بعد ازاں دور فاروقیؓ میں عالمی سطح پر سیاسی، سفارتی و اخلاقی اور عسکری و فوجی ذرائع سے ظلم و استحصال کا انسداد اور اسلام کے عادلانہ اصولوں کا غلبہ و قیام عمل میں آیا۔
آج پھر ہمیں تمام انبیا و رسل ؑ اور خاص طور پر حضرت محمد ؐ کے مبارک نقوش کی پیروی میں بدی کے اصل محور و مرکز کا سراغ لگانا اور آج کے طاغوت کے مقابلے میں عقل و شعور اور حکمت و بصیرت کی بنیاد پر عصری تقاضوں کے عین مطابق لائحہ عمل ترتیب دینا ہے، ورنہ ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
طاغوت سے اجتناب کیے بغیر رب کی بندگی اور اس کے ثمرات سے فیض یابی ممکن نہیں، اس لیے کہ رب کی بندگی، غلامی سے نجات دلاکر حریت و آزادی کا شرف عطا کرتی ہے۔ صرف عبادت کے ذریعے اجتماعی غلامی سے نجات کا لائحہ عمل قرآنی و نبویؐ حکمت کے برعکس ہے۔ لازم ہے کہ اﷲ کی کبریائی کے اقرار کے ساتھ طاغوت کی بڑائی کے انکار پر مبنی مکمل نظریہ کو اختیار کیا جائے۔ عقل و شعور کی بنیاد پر لائحہ عمل ترتیب دے کر اجتماعی جدوجہد کے ذریعے پہلے اپنی قوم اور پھر تمام مظلوم انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کی سبیل پیدا کی جاسکے۔