اسلام خواتین پر تشدد کا مخالف

’’اے لوگو! عورتوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو‘‘


راحیل گوہر April 08, 2016
’’اے لوگو! عورتوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو‘‘ فوٹو : فائل

تاریخ عالم کا مطالعہ اس حقیقت کو آشکار کر تا ہے کہ دین اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب ِعالم میں عورت کی حیثیت جانور سے بھی بدتر تھی۔ دنیائے افق پر جب اسلام کا سورج طلوع ہوا تو جبر و استبداد کی دبیز چادر تار تار ہوگئی۔ ظلم، سفاکیت، تشدد اور ایذا رسانی کے گہرے بادل چھٹ گئے۔

جہاں ایک طرف انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئیں وہاں دوسری طرف انسانی قہر و غضب اور ناانصافی کی چکی میں پستی مظلوم عورت کو بھی عزت و تکریم اور تقدس و احترام ملا۔ اسلام نے اس بات پر زور دیا کہ عورت کو بھی مَردوں کی طرح جذبات و احساس کی حامل ہستی سمجھا جائے، اس لیے کہ چند استثنائی امور کے علاوہ انسان ہونے کے اعتبار سے عورت اور مر د میں کوئی امتیاز نہیں۔ اس طرح اسلام نے مَرد و زن کے حقوق و فرائض میں مساوات قائم کردی۔

یہ اسلام کی برکات ہیں جس نے عورت کو ذلت و رسوائی کے گڑھے سے نکا ل کر اسے معاشرے کی ایک قابل احترام ہستی کا مقام عطا کیا۔ اسے ماں ، بیٹی، بہن اور بیوی جیسے مقدس اور محترم رشتوں کے بندھن میں باندھ دیا۔ قرآنی تعلیمات اور احادیث نبویؐ اور خود رسول کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں اس کی قابل تقلید مثالیں موجود ہیں۔

بلاشبہہ اسلام عورت پر ظلم و زیادتی سے روکتا ہے۔ اسلام نے اپنی بیٹی کے قتل کی سختی سے ممانعت کی اور بیٹی کی شفقت آمیز پرورش، تعلیم و تربیت، انصاف پروری اور بلوغت کے بعد خوش اسلوبی سے اس کا نکاح کر دینے کی تاکید فرمائی۔ اس کے علاوہ جائیداد میں اس کی حصہ، شوہر پر اس کے مہر کی ادائی کو واجب قرار دیا۔ شوہر پر نان و نفقہ اور رہائش مہیا کرنے کی ذمہ داری ڈالی۔ بیوی کے ساتھ محبت آمیز رویہ اور اس کے میکے والوں کی عزت و احترام۔ یہ تمام احکامات اسی لیے دیے گئے کہ انسانیت کی سطح پر عورت، مرد کے مساوی ہے۔

رسول کریم ﷺ نے اپنے الوداعی خطبے میں عورتوں کے بارے میں فرمایا: ''اے لوگو! عورتوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو کیوں کہ وہ تمہاری دست نگر ہے اور اپنے لیے خود کوئی اختیار نہیں رکھتیں۔ ان کا تم پر حق ہے اور تمہارا ان پر، کہ وہ تمہارے سوا کسی اور کو تمہارے بستر پر نہ آنے دیں۔ اور کسی ایسے شخص کو گھر میں نہ آنے دیں جس کو تم ناپسند کر تے ہو، ان کی نافرمانی پر ان کو نصیحت کرو تم نے ان عورتوں کو اﷲ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور ان کی ناموس کو اﷲ کے نام پر حلال کیا ہے۔''

اس بے مثال خطبے میں عورت کے اصل مقام و مرتبے کو واضح کردیا گیا ہے۔ مگر افسوس کہ فکری انحطاط، اخلاقی کجی اور دین سے دوری کے سبب جہاں دیگر احکام الٰہی اور قرآن کی تعلیمات سے رو گردانی مسلمانوں کا وتیرہ بن گیا ہے وہاں عورتوں کے حقوق کا صحیح شعور بھی ذہن سے اوجھل ہو چکا ہے۔ اور مختلف حیلے بہانوں سے عورتوں کے جائز حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔

لیکن ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ آج کی عورت کی طرز زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ موجودہ دور کی عورت نے اسلام کے دیے ہوئے عزت و تکریم کے مقام کو خود اپنے ہاتھوں سے کھو دیا ہے۔ اسلام نے عورت کو گھر کے معمولات ، بچوں کی اخلاقی تربیت، امور ِخانہ داری اور شوہر کی خدمت کی ذمہ داریاں سونپی تھیں مگر عورت نے اس کو اپنی آزادی پر قدغن سمجھا۔ اسلام نے عورت کو جس مقا م و حیثیت، خاندان، معاشرے اور تمدن میں اس کا کردار ، اعلیٰ و ارفع اصولوں، اسلامی تعلیمات اور قوانین سے نوازا تھا، عورت نے اس کو قابل ِاعتنا ہی نہ سمجھا، بل کہ ان اعلیٰ قدروں کو غیر معتبر جانتے ہوئے حقیر و کم تر سمجھ لیا۔

خاندان ایک ایسے خطِ مستقیم کا نام ہے جس کے ایک سرے پر مرد اور دوسرے سرے پر عورت کھڑی ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ میں جو خلا ہے، وہ تمام رشتے ناتوں، مرد و عورت کی ذمے داریوں ، حقوق و فرائض کا تعین اور مرد و عورت کے کردار و عمل کی حدود سے پُر کر دیا گیا ہے۔ یہ تمام حیثیتیں تسبیح کے ان دانوں کی طرح ہیں کہ اگر اس کی ڈور ٹوٹ جائے تو تمام دانے بکھر جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر مر د یا عورت اپنی صحیح حیثیت اور اپنے اصل مقام سے ہٹ کر کسی گم راہ کن فلسفے سے متاثر ہوکر یا اپنے خود ساختہ نظریات کی تکمیل میں اپنی راہ کھو بیٹھے تو اس کی بربادی کو کوئی نہیں روک سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں