کراچی کرمنل گٹھ جوڑ کا خاتمہ ناگزیر
ٹارگٹ کلنگ سمیت اسٹریٹ کرائمز کے ہولناک حقائق سے چشم پوشی بگاڑ پیدا کیے ہوئے ہے۔
کراچی ملک کا سب سے بڑا اور گنجان آباد تجارتی شہر ہونے کے علاوہ ملکی معیشت کا طاقتور انجن بھی ہے جہاں مجرمانہ مافیاؤں کی حریصانہ کشمکش کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان ایک مضبوط کرمنل گٹھ جوڑ کا نیٹ ورک سرگرم ہے۔
اسے رینجرز نے اگرچہ لگام ڈال دی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ کراچی میں مس گورننس اصل وجہ ہے، جرائم پیشہ عناصر اسی انتظامی خلاء سے فائدہ اٹھاتے ہیں جب کہ دہشتگردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ سمیت اسٹریٹ کرائمز کے ہولناک حقائق سے چشم پوشی بگاڑ پیدا کیے ہوئے ہے، سندھ حکومت آج جس انتظامی بے سمتی کا شکار ہے اس میں بنیادی رکاوٹ ان مجرمانہ عناصر کے خلاف کارروائی میں تذبذب ہے جس کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سارا بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ وہی کراچی کو جرائم سے پاک کر دیں۔
اسی نکتہ پر سپریم کورٹ صوبائی حکومت، سابق آئی جی سندھ اور اس کی فورس پر برہمی کا اظہار کر چکی ہے اور یہی وجہ ہے روز ایک حقیقت کو افسانہ اور دوسرے دن ایک علانیہ سچ کی تردید کا انتظامی گھن چکر چلا ہوا ہے جس سے نکلے بغیر مافیاؤں یا چھپے مجرمانہ گینگز کا خاتمہ ممکن نہیں۔ گزشتہ روز کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ ll کے ایس ایس نے انکشاف کیا کہ شہر میں کالعدم تنظیم داعش کے25 دہشت گرد موجود ہیں جو اہم تنصیبات، قونصل خانوں، شاپنگ سینٹرز اور فورسز پر حملہ کر سکتے ہیں۔
یہ اطلاع دل دہلا دینے والی ہے، پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ گلشن معمار میں حالیہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے دونوں افراد ایک کالعدم تنظیم ( داعش )کے دہشت گرد تھے، حکومت سندھ نے ایک دہشت گرد کے سر کی قیمت 10 لاکھ مقرر کر رکھی تھی، ان دہشت گردوں کی افغانستان سے جڑیں ملتی ہیں۔ ادھر وفاقی حکومت نے محکمہ داخلہ سندھ سے پیرول پر رہا کیے جانے والوں کی تفصیلات مانگ لیں، دہشت گردی سمیت سنگین جرائم کے 35 ملزمان کے سندھ کی جیلوں سے غائب ہو نے کا انکشاف ہوا ہے۔
2 ماہ گزرنے کے باوجود محکمہ داخلہ سندھ نے وزارت داخلہ کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ کیا ان قیدیوں کو آسمان کھا گیا یا زیر زمین رہتے ہوئے یہ عناصر مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں، پتہ تو چلے، تاہم یہ خوش آیند اقدام ہے کہ حکومت سندھ نے سیکشن 144 کے تحت صوبے میں اسلحے کی نمائش پر 90روز کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق یہ پابندی سیکیورٹی گارڈز کے سول کپڑوں میں اسلحہ لے کر چلنے، گارڈز کے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مشابہت رکھنے والے یونیفارم پہننے یا ان جیسی گاڑیاں استعمال کرنے، پرائیویٹ گاڑیوں پر پولیس کی لائٹس، سائرن اور کالے شیشے لگانے پربھی عائد رہے گی۔ پھر بھی ضرورت اس امر کی ہے قانون پر عملدرآمد کو بھی انتظامی سسٹم کی اصلاح سے مربوط کرتے ہوئے مستقل کریک ڈاؤن کی شکل دی جانی چاہیے۔
جرائم کی روک تھام کے سارے قوانین موجود ہیں بس ان پر عملدرآمد کے لیے پولیس، رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں کے مشترکہ میکنزم کے ذریعے مزید بریک تھرو کو یقینی بنایا جائے، کراچی میں بلاشبہ امن قائم ہوا ہے تاہم اسے مستحکم کرنے کی مزید کوشش ناگزیر ہے۔
اسے رینجرز نے اگرچہ لگام ڈال دی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ کراچی میں مس گورننس اصل وجہ ہے، جرائم پیشہ عناصر اسی انتظامی خلاء سے فائدہ اٹھاتے ہیں جب کہ دہشتگردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ سمیت اسٹریٹ کرائمز کے ہولناک حقائق سے چشم پوشی بگاڑ پیدا کیے ہوئے ہے، سندھ حکومت آج جس انتظامی بے سمتی کا شکار ہے اس میں بنیادی رکاوٹ ان مجرمانہ عناصر کے خلاف کارروائی میں تذبذب ہے جس کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سارا بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ وہی کراچی کو جرائم سے پاک کر دیں۔
اسی نکتہ پر سپریم کورٹ صوبائی حکومت، سابق آئی جی سندھ اور اس کی فورس پر برہمی کا اظہار کر چکی ہے اور یہی وجہ ہے روز ایک حقیقت کو افسانہ اور دوسرے دن ایک علانیہ سچ کی تردید کا انتظامی گھن چکر چلا ہوا ہے جس سے نکلے بغیر مافیاؤں یا چھپے مجرمانہ گینگز کا خاتمہ ممکن نہیں۔ گزشتہ روز کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ ll کے ایس ایس نے انکشاف کیا کہ شہر میں کالعدم تنظیم داعش کے25 دہشت گرد موجود ہیں جو اہم تنصیبات، قونصل خانوں، شاپنگ سینٹرز اور فورسز پر حملہ کر سکتے ہیں۔
یہ اطلاع دل دہلا دینے والی ہے، پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ گلشن معمار میں حالیہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے دونوں افراد ایک کالعدم تنظیم ( داعش )کے دہشت گرد تھے، حکومت سندھ نے ایک دہشت گرد کے سر کی قیمت 10 لاکھ مقرر کر رکھی تھی، ان دہشت گردوں کی افغانستان سے جڑیں ملتی ہیں۔ ادھر وفاقی حکومت نے محکمہ داخلہ سندھ سے پیرول پر رہا کیے جانے والوں کی تفصیلات مانگ لیں، دہشت گردی سمیت سنگین جرائم کے 35 ملزمان کے سندھ کی جیلوں سے غائب ہو نے کا انکشاف ہوا ہے۔
2 ماہ گزرنے کے باوجود محکمہ داخلہ سندھ نے وزارت داخلہ کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ کیا ان قیدیوں کو آسمان کھا گیا یا زیر زمین رہتے ہوئے یہ عناصر مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں، پتہ تو چلے، تاہم یہ خوش آیند اقدام ہے کہ حکومت سندھ نے سیکشن 144 کے تحت صوبے میں اسلحے کی نمائش پر 90روز کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق یہ پابندی سیکیورٹی گارڈز کے سول کپڑوں میں اسلحہ لے کر چلنے، گارڈز کے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مشابہت رکھنے والے یونیفارم پہننے یا ان جیسی گاڑیاں استعمال کرنے، پرائیویٹ گاڑیوں پر پولیس کی لائٹس، سائرن اور کالے شیشے لگانے پربھی عائد رہے گی۔ پھر بھی ضرورت اس امر کی ہے قانون پر عملدرآمد کو بھی انتظامی سسٹم کی اصلاح سے مربوط کرتے ہوئے مستقل کریک ڈاؤن کی شکل دی جانی چاہیے۔
جرائم کی روک تھام کے سارے قوانین موجود ہیں بس ان پر عملدرآمد کے لیے پولیس، رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں کے مشترکہ میکنزم کے ذریعے مزید بریک تھرو کو یقینی بنایا جائے، کراچی میں بلاشبہ امن قائم ہوا ہے تاہم اسے مستحکم کرنے کی مزید کوشش ناگزیر ہے۔