فکری ضرب عضب اور قومی حقائق
امید تھی کہ خبر پر خاصا غور و فکر ہونا تھا کیونکہ اس خبر کی اہمیت اپنی جگہ موجود تھی
ابھی چند دن گزرے کہ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اپنے ایک بیان میں عسکری محاذ کے علاوہ فکری ضرب عضب کی جانب توجہ دلائی۔ بہت عرصہ کے بعد کسی وزیر کی جانب سے کوئی فکر انگیز بیان دیا گیا، حالانکہ الیکٹرانک میڈیا پر کوئی شور و غوغا نہ ہوا بس ایک دو بار یہ خبر دہرائی گئی پھر غائب ہو گئی۔
امید تھی کہ خبر پر خاصا غور و فکر ہونا تھا کیونکہ اس خبر کی اہمیت اپنی جگہ موجود تھی مگر سرسری طور پر خبر نظر سے گزر گئی۔ دراصل فکری نشستوں کی جانب توجہ دلائی گئی، گزشتہ 30-25 برسوں سے ہمارے ملک میں فتنہ پرور نشستوں کی بھرمار ہے، مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف نشستوں کی بھرمار ہے اور ہر پارٹی اپنی نظریاتی اساس کی بنیاد پر زہر پھیلا رہی ہے، جس کو علامہ اقبال نے یوں فرمایا:
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
لہٰذا قند کی ضرورت سوسائٹی کو مربوط اور تسلسل سے ہے۔ 50/ء60ء کی دہائی میں کامریڈ حضرات نے محلہ در محلہ ایسی نشستوں کا انتظام کیا تھا جو اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں، اس کو ان کارکنوں کی زبان میں اسٹڈی سرکل کہا جاتا تھا۔ یہ اسٹڈی سرکل دیرپا عمل ہے، آہستہ آہستہ اثر اور نظریاتی پائیداری کا بیج دل میں جگہ بنا لیتا ہے۔
نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا ایک طبقہ ایسی ہی تربیت کا تیار کردہ تھا، اسی طرز پر بعدازاں مذہبی تنظیمیں بھی کام کرنے لگیں اور بہت سے گروہ بھی اسی طرز پر تشدد شامل کرنے لگے اور طالبان نے مذہبی عنصر کے ساتھ بندوق کا سہارا لیا اور آج پاکستانی فوج ایسے ہی عناصر سے نبرد آزما ہے۔ پرویز رشید نے جس بات کی وضاحت کی ہے وہ طویل اور صبر آزما ہے۔
بندوق کی سیاست نے ملک میں علم و ہنر کو پس پشت ڈال دیا ہے، تقریباً 2 نسلیں جوان ہوئیں اور تشدد کی سیاست سے پیچھا نہیں چھوٹ رہا ہے۔ پرویز رشید کو یقیناً اس بات کا ادراک ہے کہ اسٹڈی سرکل کا حاصل کیا ہے مگر اسٹڈی سرکل تنہا کام نہیں کرتا، اس میں ثقافت، ادب کا ساتھ بھی ہے، جس کی ہمارے ٹی وی سسٹم میں گنجائش نہیں، اس کے لیے ایک طویل عمل درکار ہے، مگر اس میں اربوں کے اخراجات نہیں اور نہ یہ مرحلہ اینکر پرسن کی نمود و نمائش کا ہے۔
اس میں دانشوروں اور صاحب قلم کی ضرورت ہے جو سیاست کے داؤ پیچ سے واقف ہوں۔ پہلا مرحلہ بڑے جلسوں کا علاقے کے اعتبار سے اظہار رائے اتنے بڑے اجتماعات جو یونین کمیٹی کے اعتبار سے ہوں۔ان حضرات کی فرض شناسی کی بنیاد پر ملازمتوں، خصوصاً میونسپلٹی اور عوامی اقسام کے اداروں میں فوقیت، یہ نوجوان بچے دن میں ایک مرتبہ مارچ پاسٹ کریں، ان کی تنظیم نو کا سربراہ تعلیم یافتہ فکری محاذ سے وابستہ شخص ہونا چاہیے۔
رفتہ رفتہ اہمیت اور ترقی کے سماجی زینے کے ذریعے نمایاں ہونے کی بدولت ملازمتوں میں پہلا زینہ ہونے سے وابستہ عام لوگوں میں خود بخود پروگرام میں مقبولیت پیدا ہونے لگے گی اور نوجوان لوگوں کو ایک مشغلہ ہاتھ آ جائے گا اور بیکار پھرنے والے لوگوں کو ایک صحبتِ کارآمد ہاتھ آ جائے گی۔ بڑے جلسوں کے بعد چھوٹے چھوٹے جلسوں کی باری آئے گی، اس سے محلوں میں حرارت پیدا ہو گی اور لوگوں کے چھوٹے چھوٹے غول سرگرم ہونا شروع ہو جائیں گے۔ محلہ در محلہ ان چھوٹے غولوں کی سرگرمیاں لوگوں کو حرارت بخشیں گی مگر ان تمام سرگرمیوں کی حکومتی سطح پر سرگرمی کی ضرورت ہے۔
پاکستان بننے کے چند برسوں تک مسلم لیگ تقسیم شدہ نہ تھی تو اس قسم کی چھوٹی موٹی غیر منظم سرگرمیاں تھیں، نیشنل کارڈ وغیرہ ہوتے تھے، کیمپنگ ہوتی تھی، لوگ اپنے آپ نوجوانوں کو سرگرم رکھتے تھے۔ اب باری آتی ہے اسٹڈی سرکل کی جو بنیادی جزو ہے تمام بڑی اور اہم سرگرمیوں کا، اس میں پڑھے لکھے سنجیدہ فکر انگیز ہوشیار لوگوں کا محلہ در محلہ، قریہ در قریہ ان کو منظم کیا جائے، پھر احساس ہو گا کہ ردِ دہشت کس طرح سرگرم ہوتی ہے۔
قلم کی عظمت اور علم کا پھریرا کس طرح لہراتا ہے اور اس کے نتائج صرف سال بھر سے قبل کیا برآمد ہوتے ہیں۔ یہ عمل دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ ورنہ ایک حد تک تو ضرب عضب کام کرے گی، دشمن کو ہزیمت اٹھانی پڑے گی جب کہ کم یا زیادہ منظم دہشت گرد قوتیں پروان چڑھیں گی اور دوسری صف دہشت گردی کی بیدار ہو گی، لیکن فکری ضرب عضب زیادہ موثر ثابت ہو گی جیسا کہ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے واضح طور پر فرمایا، مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
یہ مرحلہ فکر و عمل اور علم و ادب کو یکجا کرنے کا ہے، دنیا کے نقشے پر تاریخی اور جغرافیائی طور پر پاکستان نام کا نہ کوئی ملک تھا اور نہ کوئی قوم تھی، اسی خطہ ارض سے علم و ادب کے ملاپ، نئی فکر کی روایت اور کوچہ کوچہ، قریہ بہ قریہ یہ فکری عندلیب پیغام لے کر اڑے اور ملک وجود میں آ گیا۔ تو پھر کیا عار ہے اس فلسفے کو دوبارہ عملی جامہ پہنانے میں۔ پرویز رشید بات کہہ کر آگے بڑھ گئے مگر وہ چاہیں تو اس خیال کو عمل کی شکل دے سکتے ہیں۔
کالجوں کی یونین بحال کی جائے اور ان تمام حصوں کو تعلیمی اداروں کے صدور اور جنرل سیکریٹری حضرات کو مربوط کیا جائے جو خود بھی کالجوں کے حدود میں ورائٹی اور ثقافتی پروگرام کے ذریعے پرتشدد رجحانات پر ضرب لگا سکتے ہیں اور یہ بھی ضرب عضب کا ہی کام کریں گی، کیونکہ ادبی اور ثقافتی ادارے تشدد کے خلاف اپنا ڈھنگ رکھتے ہیں، اسی لیے آرٹس کونسلیں تمام شہروں میں حالات کو سدھارنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
پرویز رشید نے اس پہلو پر گفتگو تو کی ہے مگر کون ہے اور کس طریقہ سے ادب اور فن کے علاوہ اسٹڈی سرکل کو آباد کرے، مگر یہاں غیر ضروری مباحثوں اور مکالموں سے لوگوں کو فرصت نہیں، بھلا اس دیرپا ضرب عضب کو کون آباد کرے گا؟ اگر اس فکری ضرب عضب کو عمل میں لایا جائے گا تو لاکھوں نیشنل گارڈ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مل جائیں گے۔