احتساب بیورو کی بدعنوانی کے خاتمہ کیلیے کاوشیں…
VR سے حاصل کی گئی تمام رقوم قومی خزانے میں جمع کروائی جاتی ہیں۔
مجھے صدر مملکت جناب ممنون حسین کی اگلے روز کی تقریر جو کہ ملک کے تمام اخبارات میں شایع ہوئی ہے اس کے الفاظ یاد ہیں جس میں انھوں نے بدعنوانی کو جہاں تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا ہے وہاں انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کرپشن دیمک کی طرح ملک کو چاٹ رہی ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بدعنوانی ایک ایسی لعنت ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے، بدعنوان عناصر نہ صرف ملک کو مالی طور پر نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ معاشرے میں بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے۔ بدعنوانی ایک ایسا ناسور ہے جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
معاشرے کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے لیے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد ایک ایسی جامع حکمت عملی اپنائی جس کو نیشنل اینٹی کرپشن اسٹرٹیجی کے طور پر بدعنوانی کے خلاف موثر ترین حکمت عملی کے طور پر تسلیم کیا ۔ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے قومی احتساب بیورو میںجہاں بہت سی نئی اصلاحات اور تبدیلیاںکیں وہاں انھوں نے قومی احتساب بیورو کا دائرہ کار ملک کے کونے کونے تک پھیلانے کا عزم کیا ۔ قومی احتساب بیورو کا صدر مقام اسلام آباد جب کہ اس کے 5 علاقائی دفاتر پہلے سے کراچی ، لاہور ، کوئٹہ ، اور پشاور میں کام کررہے تھے۔ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نے تین نئے علاقائی دفاتر سکھر، ملتان اور گلگت بلتستان میں کھولے۔
چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری کی ہدایت پرقومی احتساب بیورو نے جائزہ اورنگرانی کا موثر نظام وضع کیا ہے اس نظام کے تحت تمام شکایات پر پہلے دن سے ہی unique identification number لگایا جارہا ہے بلکہ انکوائریوں، انوسٹی گیشن، احتساب عدالتوں میں ریفرنس، ایگزیکٹو بورڈ، ریجنل بورڈز کی تفصیل ، وقت اور تاریخ کے حساب سے ریکارڈ رکھنے کے علاوہ موثر مانیٹرنگ اینڈ اولیویشن سسٹم کے ذریعہ اعدادوشمار کا معیاراور مقدار کا تجزیہ بھی کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جس پر تیزی سے عمل جاری ہے جس کے مطابق اپنے فرائض منصبی کی خلاف ورزی کرنے والے نیب افسران اور اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کے لیے بھی نظام وضع کیا گیا ہے۔نیب شکایات کو نمٹانے کے لیے انفراسٹرکچراورکام کرنے کے طریقہ کار میں جہاں بہتری لائی وہاں شکایات کی تصدیق سے انکوائری اور انکوائری سے لے کر انویسٹی گیشن اوراحتساب عدا لت میں قانون کے مطابق ریفرنس دائر کرنے کے لیے دس ماہ کا عرصہ مقرر کیا اس کے علاوہ چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری کی ہدایت پر قومی احتساب بیورو نے اپنے ہر علاقائی دفتر میں ایک شکایت سیل بھی قائم کیا نیب نے انویسٹی گیشن آفیسرز کے کام کرنے کے معیاری طریقہ کار کا ازسرنو جائزہ لیا ۔
سینئر سپروائزری افسران کے تجربے اور اجتماعی دانش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈائریکٹر، ایڈیشنل ڈائریکٹر، انویسٹی گیشن آفیسرز اور سینئر لیگل قونصل پر مشتمل سی آئی ٹی(CIT) کا نظام قائم کیا جس سے نہ صرف کام کا معیار بہتر ہوگا بلکہ کوئی بھی شخص انفرادی طور پر تحقیقات پر اثرا انداز نہیں ہوسکے گا۔ چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری نے ادارے کے اندر بھی احتساب کا عمل شروع کیا اس عمل کے تحت نالائق، بد دیانت اور غفلت برتنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔
نیب کے ہیڈکوارٹر میں ایک اینٹیگریٹی مینجمنٹ سیل قائم کیا گیا مزید براں نیب نے افسران، پراسیکیوٹر اور فیلڈ افسران کی کارکردگی کا موثر جائزہ لینے کے لیے آٹو میٹڈ مانیٹرنگ سسٹم قائم ہے جو کہ موجودہ کاغذ پر اعتماد کے نظام اور زیادہ وقت لینے والے رپورٹنگ سسٹم کا متبادل ثابت ہوگا اور سرکاری کام میں کارکردگی اورمعیار میں اضافہ ہوگا۔بد عنوان عناصر سے قومی احتساب بیورو نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 274 ارب روپے وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کروائے جو کہ ایک ریکارڈ کامیابی ہے۔ پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق عوام کا قومی احتساب بیورو پر اعتماد 42 فیصد ہے جب کہ دوسرے تحقیقاتی اداروں پر 29 فیصدہے ۔ مزید برآں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کا کرپشن پرسپشن انڈیکس 126ممالک میں سے 117 تک پہنچ گیاہے جو پاکستان نے قومی احتساب بیورو کی کاوشوں کی بدولت حاصل کیا ہے۔
قومی احتساب بیورو کے چیئرمین قمرزمان چوہدری نے عوام کو کرپشن ، رشوت ستانی اور بدعنوانی کے ملکی ترقی اور معیشت پر اثرات سے متعلق آگاہی کے علاوہ یونیورسٹیوں اور کالجوںکے طلباء وطالبات کو کرپشن کے اثرات سے آگاہی فراہم کرنے کے علاوہ مختلف یونیورسٹیوں، کالجز اور اسکولوں میںتقریباً 10 ہزار کریکٹرز بلڈنگ سوسایٹیز کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔
جس کے مثبت نتایج سامنے آرہے ہیں۔ نیب نے موجودہ چیئرمین قمرزمان چوہدری کی قیادت میں نیب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خطیر رقم بد عنوان عناصر سے ریکور کی ہے ۔ اس کے علاوہ مضاربہ/ مشارکہ اسکینڈل میں بھی تقریباََ اڑھا ئی ا رب روپے ریکور کیے ہیں اور مختلف مکانات، جائیدادیںاور گاڑیاں نیب نے اپنے قبضے میں لینے کے علاوہ تقریباََ 6 ہزار کنال سے زائد زمین بھی ضبط کی ہے تا کہ عدالت کے ذریعے قانون کے مطابق متاثرین ہاوسنگ سائیٹوں اور مضاربہ/ مشارکہ اسکینڈل کو ان کی لوٹی ہوئی رقم واپس دلوائی جا سکے ۔
قومی احتساب آرڈینینس بیورو کے قانون25-A کے تحت ویلینٹری ریٹرن VR) ) کے قانون کے مطابق پہلے انکوائری کی سطح پر قومی احتساب بیورو میں ملزمان کو ویلینٹری ریٹرن VR) ) کی آپشن دی جاتی تھی ۔ جس کوقومی احتساب بیورو کے موجودہ چیئرمین قمرزمان چوہدری نے بند کرنے کی ہدایت کی اور اب انکوائری کی سطح پر قومی احتساب بیورو ملزمان کو ویلینٹری ریٹرن VR) ) کی آفر نہیں کرتا بلکہ اگر کوئی ملزم اپنے طور پر اپنی مکمل Liability کی بنیاد پرVR کی آفر قومی احتساب بیورو کو کرتا ہے تو قومی احتساب بیورو ملزم کی مکمل Liability کا جائزہ لیتا ہے اور ملزم کی درخواست کی مکمل جانچ پڑتال اور قانونی رائے کے بعد VR منظور کرتا ہے۔
VR سے حاصل کی گئی تمام رقوم قومی خزانے میں جمع کروائی جاتی ہیں۔ جہاں تک پلی بارگینPB) ) کا تعلق ہے تو PB) ) قومی احتساب بیورو کے آرڈینینس25-B کے تحت تفتیش کے مرحلہ پر ملزم قومی احتساب بیورو کو پلی بارگین PB) ) کی درخواست دے سکتا ہے ۔جس پرقومی احتساب بیورو ملزم کی پلی بارگین PB) ) کی درخواست کا قانون کے مطابق مکمل جائزہ لیتا ہے اور قانونی رائے کے بعد ملزم کی کلLiability کی بنیاد پر قومی احتساب بیورو ، احتساب عدالت سے ملزم کی پلی بارگین PB) )کی درخواست کی منظوری لیتا ہے۔قومی احتساب بیورو ملزم کی کل Liability کی بنیاد پر پلی بارگین PB) )کی تمام رقم ملزم سے برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کرواتا ہے۔
پلی بارگین PB) )کے تحت ملزم نہ صرف اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہے بلکہ دس سال تک سیاست میں حصہ لینے اور کسی بھی قومی شیڈول بینک سے قرضہ لینے کے لیے بھی نا اہل قرارپاتا ہے اور اگر ملزم سرکاری ملازم ہو تو اس کی پلی بارگین PB) ) کی درخواست منظور ہونے کے فوری بعد اس کو نوکری سے برخواست کردیا جاتا ہے۔ پلی بارگین PB) ) کے قانون کا مقصد نہ صرف بدعنوان عناصر سے لوٹی ہوئی رقم بروقت بر آمد کرکے قومی خزانے میں جمع کرانا ہے بلکہ اس سے ملک کے قیمتی وسائل کے ضیاع کو بھی کم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔
چیئرمین قمر زمان چوہدری کی قیادت میںقومی احتساب بیورو نے بدعنوانی سے متعلق نیب کو موصول ہونے والے مقدمات کی ترجیحات کا تعین کیا ہے جس کے تحت نارمل کیسز 100 سے 200 ملین روپے تک ، کمپلیکس کیسز 500 سے 1000 ملین روپے تک اور میگامقدمات 1000 ملین روپے سے اوپر تصور کیے جائیںگے۔
قومی احتساب بیورو کے موجودہ چیئرمین قمرزمان چوہدری ٹیم ورک پر یقین رکھتے ہیں وہ اپنے فرائض کو ہمیشہ میرٹ اور ایمانداری کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔اور اس کا درس وہ اپنے تمام افسران اور اہلکاروں کو بھی دیتے ہیں۔ پلڈاٹ اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل جیسے آزادانہ اداروں کی رپورٹس قومی احتساب بیورو کے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمہ کے کام کو مزیدتقویت فراہم کرتی ہیں کیونکہ قومی احتساب بیورو اپنے موجودہ چیئرمین قمر زمان چوہدری کی قیادت میں ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اپنی بھر پور کوششیںجاری رکھے ہوئے ہے۔ موجودہ چیئرمین ادارے کی کارکردگی کا جائزہ مہینوں کی بجائے تقریباَ ہر ہفتہ تمام علاقائی دفاتر کی ویڈیو لنک کے ذریعے میٹنگ سے لیتے ہیں اور کسی قسم کی کوتاہی پر فوری ایکشن لیتے ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔
قومی احتساب بیورو (NAB) کے چیئرمین قمرزمان چوہدری شواہد اور میرٹ کی بنیاد پر بدعنوان عناصر کے خلاف بلاتفریق زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں ان کی قیادت میں قومی احتساب بیورو (NAB)کے وقار میں جہاں اضافہ ہوا ہے وہاں قومی احتساب بیورو پر بدعنوانی کے خاتمے کے لیے بھی عوام کی توقعات بڑی ہیںمگر قومی احتساب بیورو اپنے منشور اور انتہائی ایماندار چیئرمین نیب کی قیادت میں بدعنوان عناصر کے خلاف قانون کے مطابق بلا امتیاز کارروائی کرنے کے لیے پرعزم ہے۔