ڈی چوک
یہ چوک اب ہر جگہ ہے، مذہب کی آڑ میں، سیاست کی باڑ میں، تجارت کی تاڑ میں، پورا ملک آج اس چوک کی زد میں ہے۔
HYDERABAD:
بظاہر اسلام آباد کے ریڈ زون کا ایک علاقہ ۔ لیکن آج کی صورتحال میں یہ محض علاقہ یا زمین کا کوئی حساس ٹکڑا نہیں بلکہ ایک دھمکی ہے۔ ایسی بلیک میلنگ جس میں آنا ہی پڑتا ہے۔
یہ چوک اب ہر جگہ ہے، مذہب کی آڑ میں، سیاست کی باڑ میں، تجارت کی تاڑ میں، پورا ملک آج اس چوک کی زد میں ہے۔ یعنی جس کا دل چاہا وہ کچھ ہم خیال لے کر چلا اور ایک ایسے دوراہے پر جا ٹھہرا جہاں سے حکومت وقت کو، ملکی سالمیت کو دھمکایا جانا آسان ہو۔ D چوک اب ایک تاریخ ہے ۔
جس کے اوراق مطالبوں، آہوں، سسکیوں، آنسوؤں،کفن، چلے چلو، ملو جلو، نہیں مانیں گے، لے کر رہیں گے...بھرے ہیں۔ D چوک جہاں سب کچھ بند، راستے مسدود،کوئی آ نہیں سکتا، جانے کا سوال ہی کیا۔ جہاں انقلاب کا سورج دن میں ہی نہیں رات کو بھی طلوع ہوتا ہے۔ جہاں صوم و صلوٰۃ کی پابندی ہی نہیں۔ رقص و سرور کی محفلیں بھی ہیں۔ یہ کنٹینرز سے سجتا ہے۔ جلتا بھی انھی سے ہے۔ وہی اس کا راستہ روکتے بھی ہیں دیتے بھی۔
مجھے یاد ہے 14 اگست 1947 کو ملک آزاد ہوا، لیکن اس چوک پرکئی اور بار پھر آزاد ہوا۔ یہی موڑ خواتین کی آزادی کا ہے۔ بچوں کے مستقبل، بوڑھوں کے تحفظ کا۔ جوانوں کا حال، ظلم کے ماضی اور ناموس رسالت کی حفاظت کا۔آج تو صاف صاف لگتا ہے ، اس قوم نے کبھی ترقی کی۔ اس ملک میں کبھی خوشحالی آئی تو وہ D چوک کی بدولت ہوگی۔
پارلیمنٹ نہیں چلتی اگر چوک آباد ہو تو۔ عدلیہ بند اگر مظاہرین راستہ نہ دیں تو۔ آپ مسجد نہیں جاسکتے حضرت کا خطاب ہو رہا ہو تو۔ بھائی یہ D چوک ہے کوئی مذاق نہیں، وجہ انقلاب ہے۔ ابھی تازہ تازہ آباد ہوا تو میڈیا گہری نیند سے بیدار۔ صبح و شام چوک کے نام۔ کمال بھائی کی فلم بھی پٹنے لگی۔ عزیر فراموش ہونے لگے ''را'' ایجنٹ کا قصہ گول۔ بڑی بڑی لینڈکروزر میں تشریف فرما نورانی نور بزرگان دین، علمائے عظامD چوک کی جانب رواں دواں۔ کسی نے بتایا وہ مذاکرات کے لیے ہاؤس جا رہے ہیں۔
میں نے قطعیت سے کہا D چوک عارضی طور پر اجڑنے والا ہے۔ کیونکہ مولانا ہاؤس میں بھینس پانی میں۔ مذاکرات کامیاب، حلوے کا دور چلے اور ظلم کا سورج نہ ڈھلے۔ ممکن ہی نہیں۔ادھر کرکٹ کا D چوک لگا، مطلب آباد ہوا، یونس کے وقار کو ٹھیس پہنچی وہ تلملا گئے۔ فوراً میڈیا پر سب کہہ دیا،کچھ نہ چھپایا۔ راز باہر، شہرکے یار اندر۔ شاہد نے شہادت سے معذرت کرلی۔ ملک زوجہ کی ملک رہے، سلسلہ ہنوز جاری، سوال وہی پرانا ''کھیلنا کس کے لیے ہے؟'' پاکستان کے لیے! یا اس کے علاوہ؟ دیکھیں کیا طے ہو۔ اللہ کرے قرعہ فال پاکستان کا نکل آئے، تو ہم بھی کبھی جیت کا مزہ لے لیں۔
دیکھیں توکیسا ہوتا ہے، سانحہ لاہور کیا ہے۔ "Death Area" وہی D چوک۔ یہاں ایک صاحب جنت میں گئے لیکن قتل عام کے بعد۔گھروں کو ویران بچوں کی، معصوم بچوں کی جانیں لے کر وہ بدبخت ترنت جنت میں جا بسے، ہمیشہ کا دکھ دے کر۔ ماؤں کی گودیں اجاڑ کر وہ درندہ جنت جیسے عظیم مقام کا دعویدار ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت دے، حفاظت دے۔ ورنہ یہ D چوک تو جان کا آزار ہوگئے۔
خوشیوں میں حائل دیوار ہوگئے۔ ایک صاحب نے مجھے خان صاحب کے چوک سے متعلق تجویز دی تھی کہ آپ ان دنوں بے کار ہیں۔ صحافت میں معروف D چوک کا ٹھیکہ کیوں نہیں لے لیتے۔ میں نے استفسارکیا وہاں کیا ٹھیکہ ہے؟ کہنے لگے فضلے کا۔ میں نے ناک سکیڑی۔ تفصیل میں جانے کے لیے کہا۔ انھوں نے کہا ہزاروں لوگ ہیں۔ Daily کا مال بے کار جا رہا ہے۔ دبئی کی ایک کمپنی کی Demand ہے۔ پلاسٹک بیگ میں بھر کر بھیج دیں۔ فی کنٹینر یہ Rateہوں گے۔
بتائیے! میں نے سر پیٹ لیا، معذرت کرتے ہوئے۔ دنیا دیکھ رہی ہے۔لیکن اس چوک کے پروانوں کو پرواہ نہیں۔ انقلاب کے دیوانے نثار ہیں شمع چوک پر۔ حکومت ساری وہاں مصروف۔ میڈیا سارا وہاں موجود۔ محافظ جوان ہوں یا پولیس کے مہربان۔ نت نئی دکانیں کھل جاتی ہیں۔ ریڑھی، چھکڑے، ٹرانسپورٹ۔ ایک دنیا آباد۔ ادھر خیموں میں قول و قرار۔ قسم انقلاب، ساتھ جینے مرنے کی باتیں۔ لڑکی کے گھر والے لڑکے کے اہل خانہ۔ آنا جانا ہو رہا ہے۔
ہر تقریرکے بعد ملنا جلنا، مطالبات کی منظوری پر تاریخ رکھنے کا وعدہ۔ D چوک روایت ہے اور روایت کو بدلنا مناسب نہیں۔ اب تو حکومت نے بھی وہاں تک میٹرو بس سروس کا انتظام کردیا ہے جیسے جیسے ملک ترقی کرے گا چوک تک جانے والے راستے کشادہ اور آسان ہوتے جائیں گے۔ منزلیں اپنا پتہ خود دیں گی۔ بقول شاعر:
''اطلاعاً بتا رہا ہوں میں راستے میں غریب خانہ ہے''
اور شاعر نے کیا غلط کہا۔ آپ کسی سے پارلیمنٹ کا پتہ پوچھیے، جواب ملے گا D چوک سے رائٹ۔ سپریم کورٹ، چوک سے Left پرائم منسٹر ہاؤس، D چوک کے عقب میں، شاہراہ دستور۔ برابر، زندگی، چوک پر ہے، بندگی۔ وہاں علما ہیں پوچھ لو۔ شرمندگی، حکومت کی پلکوں پر۔ کیوں کہ یہ ہم ہیں۔ ہم پاکستانی۔ ہمیں تو جنت کا Short Cutپتہ ہے۔ آپ دنیا کی بات کرتے ہیں۔ لیجیے دو ایک شعر پھر یاد آگئے:
عمر بیت جاتی ہے ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
اور جام ٹوٹیں گے اس شراب خانے کے
موسموں کے آنے میں' موسموں کے جانے میں