اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا
نیک جذبے انسان کے وجود میں ایک خوبصورت لہر کو جنم دیتے ہیں اور نیک جذبے کسی کا انتظار نہیں کرتے
KARACHI:
نیک جذبے انسان کے وجود میں ایک خوبصورت لہر کو جنم دیتے ہیں اور نیک جذبے کسی کا انتظار نہیں کرتے، یہ خودبخود جاگ جاتے ہیں، اگر آپ اسے اپنی زندگی کا مشن بنالیں۔ اگر ہم صراط مستقیم کا راستہ اختیار نہ کریں تو ہمارے غلط فیصلے ہمیں کسی بھی غلط راستے پر بہا کر لے جاسکتے ہیں، مگر ہمیں دل میں اچھی امیدوں کے چراغوں کو بجھانا نہیں ہے، ہمیں گفتگو کا نقطہ آغاز سنگین الزامات، منفی پروپیگنڈے کے بجائے ثالثی کردار ادا کرتے ہوئے رب ذوالجلال کے احکامات کی روشنی میں بحث و مباحثہ کرنا چاہیے۔ ہمیں اس بگڑے ہوئے نظام میں اتحاد و یکجہتی کے ساتھ دلائل دینے چاہئیں۔
پچھلے دنوں ضعیف العمری کی دہلیز پر ایک صاحب جن کی عمر 85 سال تھی، جو روزنامہ ایکسپریس کے 14 سال سے پرانے قاری ہیں، انھوں نے ایک مسئلے پر مجھے عمل پیرا ہونے کی ہدایت کی، اس کے علاوہ کتنے ہی لوگوں نے جو اپنی زندگی کی 60 بہاریں دیکھ چکے ہیں، نے مجھے ای میل کیں کہ برائے مہربانی میں قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کے اجرا کے لیے قلم اٹھاؤں، جس میں سیکڑوں پنشنرز بھی شامل ہیں اور مانا کہ یہ سب عزت و تکریم کے لائق ہیں، وزیراعظم نواز شریف اس مسئلے پر ساجھے داری کا حصہ بن کر ان ضعیف العمر حضرات کی دعائیں لیں۔ ماناکہ پاکستان میں سود مصنوعیت کا راج اختیار کرچکا ہے۔
علم اور دلائل کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف اس مسئلے پر ذاتی دلچسپی لیں، ادھر گزشتہ دنوں صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی کہا کہ سود اور بدعنوانی نے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔
میں ذاتی طور پر علما کرام کا قدردان ہوں کہ وہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہوئے قومی بچت میں سینئر سٹیزن کے لیے اسلامی سرٹیفکیٹ کے لیے مطلوبہ ترمیم کروائیں اور اس نیک کام کے لیے میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف سے بھی التجا کرتا ہوں کہ وہ کھل کر اپنا کردار ادا کریں کیونکہ ہمارے نظریات قرآن و سنت سے وابستہ ہیں، قرآن مجید ہماری دعوت کا محور ہے ''سن لو اے مسلمانوں اگر تم سود نہیں چھوڑتے ہو تو اللہ اور رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔'' (سورۃ البقرہ:278) صرف بینرز لگانے سے سود کا خاتمہ نہیں ہوگا۔
مذہبی جماعتیں عمر رسیدہ لوگوں کے لیے اسلامی سرٹیفکیٹ (قومی بچت) کے اجرا کے لیے بھوکا مرنے پر اکٹھی ہوکر ڈیڈ لائن کیوں نہیں دیتیں؟ اچھی قومیں عظیم مقصد کے لیے مل کر جدوجہد کرتی ہیں، میں ذاتی طور پر ایسے ضعیف العمر حضرات کو جانتا ہوں جنھوں نے ساری عمر نیکی، ہمت و استقامت سے گزاردی، ان میں ریٹائرڈ پنشنرز انکم ٹیکس کمشنر، پروفیسرز، ادیب، شاعر غرض مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کی آنکھوں میں نمی دیکھی کہ ساری عمر نیکی کے ساتھ اکتاہٹ کا سفر ہیجانی کیفیت، ذہنی افراتفری، معاشرے کی پیچیدگیاں دیکھیں مگر کبھی رشوت اور معاشی مسائل کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا، بلکہ عزم و استقلال سے اس پاکستان اور اسلام کے لیے تہذیب و شائستگی سے زندگی گزاری۔
جب پرائیویٹ نجی بینکوں میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کردیا گیا اور یہ نجی بینک اسلامی سرٹیفکیٹ کے نام پر پرافٹ نہ ہونے کے برابر دے رہے ہیں اور اس مد میں سالانہ اربوں کماتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ پنشنرز کے لیے ایک معقول معاوضے کے طور پر قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کیوں نہیں کیا جاتا؟ ساری عمر نیکی کے ساتھ یہ ضعیف العمر حضرات دیدہ دلیری سے لڑتے رہے مگر جب ہم قبر کے نزدیک آئے تو ہاتھ پکڑ کر ناقابل تلافی نقصان کو نظر انداز کرکے ہمیں گناہ کی پستی کی طرف دھکیل کر سود کی ٹرین میں سوار کردیا گیا ہے۔
پی پی پی کے دور میں ایک لاکھ پر سینئر سٹیزن کو چودہ سو روپے ماہانہ دیا جاتا تھا، 2013 میں (ن) لیگ کی حکومت نے اسے کم کرکے ایک لاکھ پر 1170 روپے کردیا، گزشتہ دو سال میں اسے مزید کم کرکے 880 روپے کردیا اور اب اچانک پنشنروں، بیواؤں، ریٹائرڈ ملازمین اور سینئر سٹیزن کی ماہانہ انکم کو مزید کم کرتے ہوئے 860 روپے کردیا جب کہ نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد مرحوم کے زمانے میں ایک لاکھ پر سینئر سٹیزن کو 1500 روپے دیے جاتے تھے۔
بھلا بتائیے 60 سال کی عمر کے بعد تو انسان بیماریوں کے دریا نہیں بلکہ سمندر میں اتر جاتا ہے، یہ حکومت کی دانشمندی نہیں بلکہ عجلت کے فیصلے ہیں۔ بزرگوں میں جو تشویش کی لہر پائی جا رہی ہے ایسا نہ ہو کہ بھاری مینڈیٹ لینے والوں کی کشتی ان مایوسیوں کی لہروں میں ڈوب جائے۔ لہٰذا حکومت کو حفاظتی انتظامات کے تحت اللہ اور رسول کو راضی کرتے ہوئے قومی بچت میں فوری اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کردینا چاہیے اور اس کام میں تاخیر کا مطلب ہے بے خودی کی مانگ اجڑ بھی سکتی ہے۔ پرائیویٹ بینکوں کو کیسے اجازت دے دی گئی اسلامی سرٹیفکیٹ کی اور وہ قوم کو اس مد میں کیا دے رہے ہیں۔
اس کی بھی ناپ تول کرلیں۔ ضعیف العمر حضرات اپنے مقدس دامن کو سود سے صرف اس لیے رنگ رہے ہیں کہ ان کے پاس اس بانجھ سفر کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ویسے پاکستان میں اور بین الاقوامی طور پر اپنی خدمات کے لیے زمین اور آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔ اس ملک میں اشیائے خورونوش کے دام بے لگام ہوگئے ہیں اور اس بڑھاپے میں صرف 860 روپے وہ بھی سود کے عوض دیے جا رہے ہیں، جس میں کینسر، ہارٹ سرجری اور دیگر بیماریوں کے علاج بھی کرانے ہیں۔
ضعیفوں کو خودغرضی کی چادر میں لپیٹ کر مزید ضعیف نہ کریں، بھونڈے دلائل دے کر حکومت وقت خوشی کا سفر جاری نہ رکھے۔ خدارا! سینئر سٹیزنز کے مثبت جذبوں کو نکھارنے کی کوشش کریں، یہی آپ کی بیداری کی دلیل ہے اور ہمارے کرتا دھرتا یہ یاد رکھیں کہ دین اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
آئین کی دفعہ F(38) میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست جتنی جلدی ہوسکے سودی نظام کا خاتمہ کرے مگر آئین کے نفاذ کو تقریباً 42 سال ہوچکے ہیں تو اپنی جگہ برقرار ہے، مگر اس پر سیاسی دلیلوں کی بھرمار ہے، اس بات سے انکار نہیں کہ سود کا مکمل خاتمہ بڑی مشکل سے ہوگا مگر فی الحال سینئر سٹیزنز کے لیے فوری قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا معقول معاوضے کے طور پر کیا جائے اور اگر حکمران یہ کام نہیں کرسکتے تو پھر نجی بینکوں سے بھی اسلامی سرٹیفکیٹ کا خاتمہ کردیں کیونکہ ان کے دیے ہوئے پرافٹ کو غریب اور عمر رسیدہ لوگ لیتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ دنوں دھرنا قائدین سے اسلام آباد میں کامیاب مذاکرات کیے، مفتی منیب الرحمن نے وزیراعظم سے اپیل کی تھی کہ معاملے کے حل کے لیے اسحاق ڈار کو بھیجیں جب کہ دھرنے کے واقعے سے وزیر خزانہ کا کیا کام، مگر ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے ہر شخص کو بلاامتیاز اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
یہ وزیراعظم اور اسحاق ڈار کا بہت ہی مثبت اقدام تھا، اسحاق ڈار قومی اسمبلی کے کئی مرتبہ ممبر بنے، تین مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے، ان کی اعلیٰ خدمات پر انھیں برطانیہ سے گولڈ میڈل اور حکومت پاکستان نے نشان امتیاز عطا کیا، ان کی قابلیت اور بصیرت دیکھتے ہوئے ان سے درخواست ہے کہ اچھے پرافٹ کے تحت قومی بچت میں سینئر سٹیزن کے لیے بیواؤں کے لیے فوری طور پر اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کریں۔ عمر رسیدہ افراد کے لیے اور بیواؤں کے لیے قومی بچت اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا رمضان المبارک سے قبل کریں اور معقول معاوضے کے طور پر کریں۔ کیونکہ اسلام ہمیں سود سے برملا معاشرہ تشکیل دینے کی تلقین کرتا ہے۔ خدارا! ان ضعیف العمر حضرات پر رحم کریں۔
نیک جذبے انسان کے وجود میں ایک خوبصورت لہر کو جنم دیتے ہیں اور نیک جذبے کسی کا انتظار نہیں کرتے، یہ خودبخود جاگ جاتے ہیں، اگر آپ اسے اپنی زندگی کا مشن بنالیں۔ اگر ہم صراط مستقیم کا راستہ اختیار نہ کریں تو ہمارے غلط فیصلے ہمیں کسی بھی غلط راستے پر بہا کر لے جاسکتے ہیں، مگر ہمیں دل میں اچھی امیدوں کے چراغوں کو بجھانا نہیں ہے، ہمیں گفتگو کا نقطہ آغاز سنگین الزامات، منفی پروپیگنڈے کے بجائے ثالثی کردار ادا کرتے ہوئے رب ذوالجلال کے احکامات کی روشنی میں بحث و مباحثہ کرنا چاہیے۔ ہمیں اس بگڑے ہوئے نظام میں اتحاد و یکجہتی کے ساتھ دلائل دینے چاہئیں۔
پچھلے دنوں ضعیف العمری کی دہلیز پر ایک صاحب جن کی عمر 85 سال تھی، جو روزنامہ ایکسپریس کے 14 سال سے پرانے قاری ہیں، انھوں نے ایک مسئلے پر مجھے عمل پیرا ہونے کی ہدایت کی، اس کے علاوہ کتنے ہی لوگوں نے جو اپنی زندگی کی 60 بہاریں دیکھ چکے ہیں، نے مجھے ای میل کیں کہ برائے مہربانی میں قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کے اجرا کے لیے قلم اٹھاؤں، جس میں سیکڑوں پنشنرز بھی شامل ہیں اور مانا کہ یہ سب عزت و تکریم کے لائق ہیں، وزیراعظم نواز شریف اس مسئلے پر ساجھے داری کا حصہ بن کر ان ضعیف العمر حضرات کی دعائیں لیں۔ ماناکہ پاکستان میں سود مصنوعیت کا راج اختیار کرچکا ہے۔
علم اور دلائل کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف اس مسئلے پر ذاتی دلچسپی لیں، ادھر گزشتہ دنوں صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی کہا کہ سود اور بدعنوانی نے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔
میں ذاتی طور پر علما کرام کا قدردان ہوں کہ وہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہوئے قومی بچت میں سینئر سٹیزن کے لیے اسلامی سرٹیفکیٹ کے لیے مطلوبہ ترمیم کروائیں اور اس نیک کام کے لیے میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف سے بھی التجا کرتا ہوں کہ وہ کھل کر اپنا کردار ادا کریں کیونکہ ہمارے نظریات قرآن و سنت سے وابستہ ہیں، قرآن مجید ہماری دعوت کا محور ہے ''سن لو اے مسلمانوں اگر تم سود نہیں چھوڑتے ہو تو اللہ اور رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔'' (سورۃ البقرہ:278) صرف بینرز لگانے سے سود کا خاتمہ نہیں ہوگا۔
مذہبی جماعتیں عمر رسیدہ لوگوں کے لیے اسلامی سرٹیفکیٹ (قومی بچت) کے اجرا کے لیے بھوکا مرنے پر اکٹھی ہوکر ڈیڈ لائن کیوں نہیں دیتیں؟ اچھی قومیں عظیم مقصد کے لیے مل کر جدوجہد کرتی ہیں، میں ذاتی طور پر ایسے ضعیف العمر حضرات کو جانتا ہوں جنھوں نے ساری عمر نیکی، ہمت و استقامت سے گزاردی، ان میں ریٹائرڈ پنشنرز انکم ٹیکس کمشنر، پروفیسرز، ادیب، شاعر غرض مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کی آنکھوں میں نمی دیکھی کہ ساری عمر نیکی کے ساتھ اکتاہٹ کا سفر ہیجانی کیفیت، ذہنی افراتفری، معاشرے کی پیچیدگیاں دیکھیں مگر کبھی رشوت اور معاشی مسائل کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا، بلکہ عزم و استقلال سے اس پاکستان اور اسلام کے لیے تہذیب و شائستگی سے زندگی گزاری۔
جب پرائیویٹ نجی بینکوں میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کردیا گیا اور یہ نجی بینک اسلامی سرٹیفکیٹ کے نام پر پرافٹ نہ ہونے کے برابر دے رہے ہیں اور اس مد میں سالانہ اربوں کماتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ پنشنرز کے لیے ایک معقول معاوضے کے طور پر قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کیوں نہیں کیا جاتا؟ ساری عمر نیکی کے ساتھ یہ ضعیف العمر حضرات دیدہ دلیری سے لڑتے رہے مگر جب ہم قبر کے نزدیک آئے تو ہاتھ پکڑ کر ناقابل تلافی نقصان کو نظر انداز کرکے ہمیں گناہ کی پستی کی طرف دھکیل کر سود کی ٹرین میں سوار کردیا گیا ہے۔
پی پی پی کے دور میں ایک لاکھ پر سینئر سٹیزن کو چودہ سو روپے ماہانہ دیا جاتا تھا، 2013 میں (ن) لیگ کی حکومت نے اسے کم کرکے ایک لاکھ پر 1170 روپے کردیا، گزشتہ دو سال میں اسے مزید کم کرکے 880 روپے کردیا اور اب اچانک پنشنروں، بیواؤں، ریٹائرڈ ملازمین اور سینئر سٹیزن کی ماہانہ انکم کو مزید کم کرتے ہوئے 860 روپے کردیا جب کہ نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد مرحوم کے زمانے میں ایک لاکھ پر سینئر سٹیزن کو 1500 روپے دیے جاتے تھے۔
بھلا بتائیے 60 سال کی عمر کے بعد تو انسان بیماریوں کے دریا نہیں بلکہ سمندر میں اتر جاتا ہے، یہ حکومت کی دانشمندی نہیں بلکہ عجلت کے فیصلے ہیں۔ بزرگوں میں جو تشویش کی لہر پائی جا رہی ہے ایسا نہ ہو کہ بھاری مینڈیٹ لینے والوں کی کشتی ان مایوسیوں کی لہروں میں ڈوب جائے۔ لہٰذا حکومت کو حفاظتی انتظامات کے تحت اللہ اور رسول کو راضی کرتے ہوئے قومی بچت میں فوری اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کردینا چاہیے اور اس کام میں تاخیر کا مطلب ہے بے خودی کی مانگ اجڑ بھی سکتی ہے۔ پرائیویٹ بینکوں کو کیسے اجازت دے دی گئی اسلامی سرٹیفکیٹ کی اور وہ قوم کو اس مد میں کیا دے رہے ہیں۔
اس کی بھی ناپ تول کرلیں۔ ضعیف العمر حضرات اپنے مقدس دامن کو سود سے صرف اس لیے رنگ رہے ہیں کہ ان کے پاس اس بانجھ سفر کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ویسے پاکستان میں اور بین الاقوامی طور پر اپنی خدمات کے لیے زمین اور آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔ اس ملک میں اشیائے خورونوش کے دام بے لگام ہوگئے ہیں اور اس بڑھاپے میں صرف 860 روپے وہ بھی سود کے عوض دیے جا رہے ہیں، جس میں کینسر، ہارٹ سرجری اور دیگر بیماریوں کے علاج بھی کرانے ہیں۔
ضعیفوں کو خودغرضی کی چادر میں لپیٹ کر مزید ضعیف نہ کریں، بھونڈے دلائل دے کر حکومت وقت خوشی کا سفر جاری نہ رکھے۔ خدارا! سینئر سٹیزنز کے مثبت جذبوں کو نکھارنے کی کوشش کریں، یہی آپ کی بیداری کی دلیل ہے اور ہمارے کرتا دھرتا یہ یاد رکھیں کہ دین اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
آئین کی دفعہ F(38) میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست جتنی جلدی ہوسکے سودی نظام کا خاتمہ کرے مگر آئین کے نفاذ کو تقریباً 42 سال ہوچکے ہیں تو اپنی جگہ برقرار ہے، مگر اس پر سیاسی دلیلوں کی بھرمار ہے، اس بات سے انکار نہیں کہ سود کا مکمل خاتمہ بڑی مشکل سے ہوگا مگر فی الحال سینئر سٹیزنز کے لیے فوری قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا معقول معاوضے کے طور پر کیا جائے اور اگر حکمران یہ کام نہیں کرسکتے تو پھر نجی بینکوں سے بھی اسلامی سرٹیفکیٹ کا خاتمہ کردیں کیونکہ ان کے دیے ہوئے پرافٹ کو غریب اور عمر رسیدہ لوگ لیتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ دنوں دھرنا قائدین سے اسلام آباد میں کامیاب مذاکرات کیے، مفتی منیب الرحمن نے وزیراعظم سے اپیل کی تھی کہ معاملے کے حل کے لیے اسحاق ڈار کو بھیجیں جب کہ دھرنے کے واقعے سے وزیر خزانہ کا کیا کام، مگر ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے ہر شخص کو بلاامتیاز اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
یہ وزیراعظم اور اسحاق ڈار کا بہت ہی مثبت اقدام تھا، اسحاق ڈار قومی اسمبلی کے کئی مرتبہ ممبر بنے، تین مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے، ان کی اعلیٰ خدمات پر انھیں برطانیہ سے گولڈ میڈل اور حکومت پاکستان نے نشان امتیاز عطا کیا، ان کی قابلیت اور بصیرت دیکھتے ہوئے ان سے درخواست ہے کہ اچھے پرافٹ کے تحت قومی بچت میں سینئر سٹیزن کے لیے بیواؤں کے لیے فوری طور پر اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کریں۔ عمر رسیدہ افراد کے لیے اور بیواؤں کے لیے قومی بچت اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا رمضان المبارک سے قبل کریں اور معقول معاوضے کے طور پر کریں۔ کیونکہ اسلام ہمیں سود سے برملا معاشرہ تشکیل دینے کی تلقین کرتا ہے۔ خدارا! ان ضعیف العمر حضرات پر رحم کریں۔