توجہ کا طالب صوبہ گلگت بلتستان
چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر ہم گلگت بلتستان کے جغرافیائی محل و قوع کی بات نہیں کریںگے.
SUKKUR:
چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر ہم گلگت بلتستان کے جغرافیائی محل و قوع کی بات نہیں کریںگے، البتہ سماجی کیفیت کو زیر بحث لائیں گے ،گلگت بلتستان کا علاقہ یا علاقہ جات 1949 میں پاکستان میں شامل ہوا اور اس خطے کو شمالی علاقہ جات کا نام دیا گیا اور ایک وفاقی وزارت امورکشمیر وشمالی علاقہ جات کے تحت اس کا نظم و نسق چلایا گیا جب کہ کچھ عرصہ قبل گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا، یہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ ملنا آئینی طور پر نہیں تھا بلکہ انتظامی طور پر تھا۔
اسی لیے آج بھی یہی کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے چار صوبے ہیں بہرکیف صوبے کا درجہ ملنے کے بعد گلگت بلتستان میں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی جس کی وفاق میں اس وقت حکومت تھی صوبے میں کامیابی کے بعد وہاں حکومت سازی کرنے میں کامیاب ہوگئی یہ ذکر ہے 2010 کا۔ جب کہ 2013 میں عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے وفاق میں حکومت سازی کی تو لازم تھا کہ صوبہ گلگت بلتستان میں ہونے والے عام انتخابات جوکہ 2015 میں ہوئے مسلم لیگ (ن) حکومت سازی کرتی اور ایسا ہی ہوا کیوں کہ جہاں کا نظام حکومت ایسا ہوکہ اب کے میری باری اور میرے بعد تیری باری وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔
یہ تو ہے گزشتہ برس ہونے والے عام انتخابات کے وقت اور ان عام انتخابات کے بعدگلگت بلتستان کی حکومت سازی کا تذکرہ، موجودہ سیاسی کیفیت یہ ہے کہ وادیٔ ہنزہ کی ایک نشست جوکہ میر اعظم خان غضنفرکے صوبہ گلگت بلتستان کے گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے باعث خالی ہوئی ہے اس نشست پر پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی ودیگر سیاسی جماعتوں و سیاسی قوتوں کے ساتھ ایک اور امیدوار بھی سیاسی میدان میں ہے یہ امیدوار ہے عوامی ورکرز پارٹی سے تعلق رکھنے والا بابا جان ان کے نام سے بزرگ ہونے کا جو تاثر ابھرتا ہے وہ غلط ہے کیونکہ بابا جان ان کا حقیقی نام ہے۔
خدشہ ظاہرکیا جارہاہے کہ ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوسکتے ہیں کیونکہ بابا جان گزشتہ چار برس سے اپنے دیگر دو ساتھیوں طاہرعلی طاہر وافتخار کے ساتھ سنگین الزامات کے تحت طویل ترین سزا بھگت رہے ہیں یعنی 80 برس جوکہ اب کم کرکے 40 برس کردی گئی ہے جب کہ بابا جان کا دعویٰ ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور انھیں سیاسی نظریات کے باعث انتقام کا نشانہ بنایا جارہاہے، جب کہ 18 دیگر مقدمات بھی بابا جان پر قائم ہوچکے ہیں یوں بھی ہمارے سماج میں اپنی بے گناہی اورکسی قصور وارکو مجرم ثابت کرنے کے لیے ایک زندگی سو فی صد ناکافی ہے۔
اب دیگرامورکا ذکر ہوجائے توگلگت بلتستان کی کل آبادی 30 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یہ لوگ صوبے کے 10 اضلاع میں آباد ہیں یہ لوگ اگرچہ شیعہ، سنی، اسماعیلی و نوربختہ مسالک سے تعلق رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ لوگ باہم محبت واخوت سے رہنے کا سلیقہ جانتے ہیں جب کہ یہ لوگ شینا بروشکنی وخی کھوار بلتی زبانیں بولتے ہیں مگر اب کچھ انتہا پسند ان لوگوں میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
صوبہ گلگت بلتستان میں سیب، خوبانی، شہتوت و اخروٹ کثرت سے پیدا ہونے والے پھل ہیں جب کہ گندم وجوکی فصل بھی یہاں کے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی حد تک پیدا ہو ہی جاتی ہیں۔ حصول تعلیم کے سلسلے میں صوبہ گلگت بلتستان کے نوجوان کو بے حد مشکلات کا سامناکرنا پڑتا ہے یہ لوگ جیسے تیسے ابتدائی تعلیم توحاصل کرلیتے ہیں مگر مزید حصول تعلیم کی خواہش رکھنے کے باوجود یہ نوجوان اکثریت میں اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرپاتے۔
کیونکہ پورے صوبے میں فقط ایک یونیورسٹی ہے جوکہ گلگت سٹی میں ہے مگر اس یونیورسٹی میں تعلیم کا حصول یوں مشکل ہے کہ اس یونیورسٹی کے اخراجات بہت زیادہ ہیں جوکہ عام طالب علم کی دسترس سے باہر ہیں یہی وجہ ہے کہ صوبے کے اکثر نوجوان حصول تعلیم کے لیے راولپنڈی وکراچی کا رخ کرتے ہیں۔
جہاں یہ نوجوان اپنے قریبی عزیز و اقارب کی معاونت سے حصول تعلیم کے مقصد میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرپاتے ہیں یہی کیفیت حصول روزگارکی ہے صوبہ بھر میں صنعت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے جب کہ معدنیات کی دولت قیمتی پتھروں کی شکل میں صوبہ گلگت بلتستان میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہے اگر ان قیمتی پتھروں کے حصول کے لیے اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف ان قیمتی پتھروں سے زرمبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ مقامی لوگوں کو ان کے اپنے گھروں و شہروں کے قریب روزگار بھی مل سکتا ہے۔
اس وقت کیفیت یہ ہے کہ یہ لوگ حصول روزگارکے لیے ملک کے دوسرے شہروں بالخصوص کراچی جیسے دوردرازکے مقام پر جانے کے لیے مجبورہیں جہاں حصول روزگار کے ساتھ ساتھ دیگر مشکلات پہلے سے ان کی منتظر ہوتی ہیں جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبہ گلگت بلتستان سیاحت کے لیے ایک پر فضا مقام ہونے کے باعث سیاحوں کے لیے بے حد کشش رکھتا ہے اور دنیا بھر سے ہزاروں سیاح ہر برس اس خطے میں آتے ہیں کیونکہ دیگر بلند ترین پہاڑی چوٹیوں کے ساتھ ساتھ دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ K-2 بھی صوبہ گلگت بلتستان میں ہے دو سیاحتی پہاڑ بھی اسی صوبے میں موجود ہیں جب کہ پاکستان بھر میں جھیلوں کی تعداد بھی اسی صوبے میں سب سے زیادہ ہے۔
اگرذکر علاج کی سہولیات کا ہو تو صوبہ گلگت بلتستان ماہرمعاشیات سیموئیل یلسن کے اس قول کی حقیقی عکاسی کرتا ہے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ علاج مرض سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے ۔صوبہ گلگت بلتستان کے اکثر اسپتالوں میں یا تو ادویات ناپید یا پھر ڈاکٹرز کی قلت ہے اب اگرکسی مریض کا مرض سنجیدہ نوعیت کو ہو تو پھر جان لوکہ مریض گیا جان سے ۔ سنجیدہ نوعیت کے مریض کا علاج اگر ممکن ہے تو وہ ہے راولپنڈی میں اور راولپنڈی کی مسافت ہے اسکردو سٹی سے بذریعہ بس 16 گھنٹے کی جب کہ سینٹرل گلگت سٹی سے یہ مسافت ہے 24 گھنٹے کی وہ بھی اگر راستہ صاف ہو یعنی راستے میں کوئی تودہ نہ گرا ہو، اگر اس قسم کی کوئی رکاوٹ ہو تو پھر جان لو کہ سفر کا وقت ہے لا محدود ہم ذکر کررہے ہیں۔
سینٹرل گلگت سٹی و اسکردو سٹی سے آنے والے مریض مسافر کا جب کہ چلاس، استور و ہنزہ کے مریض کا بھی اندازہ کرلیں کہ وہ کن مشکلات سے دو چار ہوتا ہوگا۔ اور اگر کوئی مریض بذریعہ جہاز راولپنڈی آنا چاہے تو ایک طرف ایک مسافرکے سفری اخراجات بھی 9500 روپے ہے اور اب شروع ہوتے ہیں علاج کے اخراجات جوکہ ظاہر ہے لا محدود ہوتے ہیں،لمحہ فکریہ ہے کہ کتنے مریض اس قسم کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں گے؟
حرف آخر کہ صوبے کے جغرافیائی مسائل تو جب حل ہوں گے تب ہو ہی جائیں گے البتہ سماجی مسائل تو حل ہوسکتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ یہاں چھوٹی بڑی صنعتوں کو فروغ دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے گھرکے قریب روزگار مل سکے۔
دوئم مقامی لوگوں کی تعلیمی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر فروغ تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے، سوئم فروغ سیاحت کے لیے مناسب تشہیری مہم چلائی جائے تاکہ زیادہ سیاحوں کی آمد کے باعث مقامی تاجروں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکے، چہارم علاج کی سہولیات فراہم کرنے پرخصوصی توجہ دی جائے تاکہ انسانی جانوں کے ضیاع کی روک تھام ہوسکے۔امید ہے کہ متعلقہ حکام ہماری گزارشات پر غور فرماتے ہوئے ضرورعمل کریں گے۔