بلوچستان حکومت کے خلاف فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل

وزیراعظم کے دورہ گوادر اور کابینہ کا اجلاس منعقد ہونے سے گوادرکے عوام کے کچھ مسائل حل ہوئے۔

ملک میں تنکا تنکا اکٹھا کرکے جمہوریت قائم کی گئی ہے،وزیراعظم ۔ فوٹو: فائل

وفاقی حکومت نے بلوچستان حکومت کے خلاف سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر عدالت عظمیٰ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کردی ہے جس میں فیصلے کو حکومتی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا ہے ۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سیاسی سوالات کا جواب دینا عدالتوں کا کام نہیں ہونا چاہئے، چاہے ان سوالات کا تعلق قانونی نکات سے ہو، عدالت نے ان سوالات کا جواب دیکر ضابطہ اخلاق کی شق کی خلاف ورزی کی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ (2)58بی ختم ہوچکی ہے عدالت نے اس اختیار کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے، عدالت نے آرٹیکل 112کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان میں ایمر جنسی لگانے یا انضممام حکومت ، وفاق کو اپنے ہاتھ میں لینے کی بات کی جبکہ عدالت کے پاس ایمر جنسی لگانے کا اختیار نہیں، ایسا کرنا آرٹیکل 232کی خلاف ورزی ہے ۔ وفاقی حکومت کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کے بعد بلوچستان میں جو آئینی بحران پیدا ہوگیا تھا وہ نظر ثانی کی درخواست پر فیصلے تک ختم تونہیں ہوا البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ صوبائی حکومت کو کچھ کام کرنے کا وقت مل گیا ہے اور سیاسی حلقوں میں اس حوالے سے جو چہ میگوئیاں ہورہی تھیں کہ صوبائی حکومت کی آئینی حیثیت کیا ہے ان میں بھی عارضی طور پر کمی آگئی ہے ۔

بلوچستان میں بد امنی کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں سماعت 20نومبر کو ہوگی اس میں بھی بلوچستان حکومت پیش ہو کر اپنا موقف پیش کرے گی جیسا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی کابینہ کے ارکان کے ہمراہ خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے ۔ اس حوالے سے 20نومبر کی سماعت بھی اہم ہے، اب دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا بد امنی کیس کے حوالے سے کیا فیصلہ آتا ہے، بلوچستان میں آئینی بحران کے دوران اسپیکر کی جانب سے گوادر میں اسمبلی کا اجلاس آئینی جائزہ لینے تک نہ بلانے پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے 9نومبر کو صوبائی کابینہ کا اجلاس گوادر میں طلب کیا تھا جس میں وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے خصوصی طور پر شرکت کی۔

صوبائی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ عدلیہ آزاد ہے، اداروں کے درمیان بھی کوئی ٹکراؤ نہیں ، تنکا تنکا اکٹھا کرکے جمہوریت قائم کی گئی ہے، محبت کے راستے پر چلتے ہوئے ہمیں مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے ، ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کررہا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بلوچستان کے حالات اور سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے کا بھی جائزہ لیا گیا ۔ گوادر جسے وسط ایشیائی ریاستوں کا گیٹ وے کہا جاتا ہے گوادر پورٹ بننے کے بعد بھی گوناگوں مسائل سے دو چار ہے سب سے اہم اور بڑا مسئلہ گوادر میں پینے کے پانی کی قلت ہے ۔


وزیراعظم نے اس موقع پر اعلان کیا کہ گوادر کو میرانی ڈیم سے پانی فراہم کیا جائے گا اور اس پر ساڑھے چار ارب روپے کے جو اخراجات اُٹھیں گے اس میں نصف وفاق ادا کرے گا جبکہ نصف اخراجات صوبائی حکومت پورا کرے گی وزیراعظم کے اس فیصلے سے گوادر کے عوام کا یہ دیرینہ مسئلہ بہت جلد حل ہوتا نظر آرہا ہے ۔ دورہ گوادر کے دوران وزیراعظم نے آپٹک فائبر اور سوک سینٹر کا افتتاح بھی کیا ۔ وزیراعظم نے گوادر پورٹ کے ملازمین مستقل کرنے اور فش ہاربر کو گوادر پورٹ اتھارٹی میں ضم کرنے کا اعلان کیا ۔گوادر میں صوبائی کابینہ کے اجلاس میں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فرشی نشست کا اہتمام کیا گیا جو بلوچستان کی روایتی نشست ہے ۔ وزیراعظم نے گوادر کے دورے میں جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا وہ بلوچستان کے وسائل بلوچستان کے عوام پر ہی خرچ کرنے کے حوالے سے ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان کیلئے کسی کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں بلوچستان اور اس کے عوام ہی ہماری پہلی ترجیح ہیں، اگر کسی کو گلے شکوے ہیں تو دور کئے جاسکتے ہیں، مسائل مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوتے ہیں ۔ وزیراعظم کے دورہ گوادر اور کابینہ کا اجلاس منعقد ہونے سے گوادرکے عوام کے کچھ مسائل تو حل ہوئے اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور گوادر پر توجہ دی جاتی رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ گوادر میں ترقی نہ ہوسکے۔ وزیراعظم نے کچھی کینال رتو ڈیرو روڈ کیلئے جو فنڈز ریلیز کئے اس پر جلد کام شروع کردیا جائے تو گوادر پورٹ کے فعال ہونے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔

جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان بلوچستان کے تین روزہ دورے پر کوئٹہ پہنچے، کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے بینچ نے کوئٹہ آکر کی اور سپریم کورٹ کا جو عبوری فیصلہ آیا ہے اس پر مجھے حیرت ہوئی ہے کیونکہ لاپتہ افراد، اغواء نما گرفتاریوں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا وفاقی اداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا ۔ صوبائی حکومت کمزور تھی اس لیے نزلہ صوبائی حکومت پر ہی گرا۔

مولانا فضل الرحمان نے اگلے روز بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ میں شیخ الہند کانفرنس اور لورالائی میں اسلام زندہ باد کانفرنس سے بھی خطاب کیا دونوں کانفرنسوں میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جمعیت علماء اسلام مخلوط صوبائی حکومت کی بڑی اتحادی جماعت ہے اور صوبے میں بڑی مذہبی سیاسی جماعت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ بلوچستان کے موجودہ حالات میں جہاں امن و امان کی صورتحال ابتر ہے ،بم دھماکے ، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں ۔ جمعیت علماء اسلام کے حلقے کامیاب کانفرنسوں کے انعقاد کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر حیرت کے اظہار کو صوبائی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کی کڑی قرار دیا جارہا ہے۔
Load Next Story