ن لیگ میں مقامی سطح پراختلافات
حیدرآنباد مین ن لیگی رہنماؤں کا ایک دھرا صوبائی صدر غوث علی شاہ کے خلاف مورچہ زن ہے۔
KARACHI:
گذشتہ ہفتے شہر میں سیاسی سرگرمیاں دہشت گردی کے واقعات کے باعث متأثر نظر آئیں اور شہر پر خوف کے بادل منڈلاتے رہے۔
حیدرآباد میں چار روز کے دوران ہدفی قتل کی وارداتوں میں سیاسی، مذہبی شخصیات، تاجر، پولیس اہل کار سمیت گیارہ معصوم افراد کی جان لے لی گئی۔ ان واقعات نے حیدرآباد میں پولیس کی طرف سے محرم الحرام میں امن و امان برقرار رکھنے کے دعووں کی قلعی بھی کھول دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس عام شہریوں اور اہم شخصیات کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے اور ان واقعات کے بعد بھی ان کی 'کارکردگی' دکھاوے کی گرفتاریوں اور افسران کے تبادلوں تک محدود ہے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے شہر کی سیاسی سرگرمیوں پر گہرا اثر ڈالا ہے جب کہ مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کی طرف سے مذمتی بیانات اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے بقر عید اور اقبال ڈے پر بھی تقاریب اور جلسوں کا قابل ذکر اہتمام نہیں کیا گیا اور وہ صرف بیانات جاری کر کے اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہیں۔
علامہ اقبال ڈے پر اخبارات کے لیے زیادہ بیانات مسلم لیگ ن کے موصول ہوئے، جب کہ پورے ہفتے حیدرآباد میں ن لیگ کے اختلافات ہی کی خبریں گردش کرتی رہیں۔ مسلم لیگ کے مرکزی راہ نما سردار ممتاز علی خان بھٹو دو روز تک حیدرآباد میں صحافیوں سے ملاقات کر کے سیاسی ماحول کو گرماتے رہے، جس کے دوران پیپلزپارٹی پر کڑی تنقید کی گئی۔ پہلے روز سرکٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکم رانوں سے جان چھڑانے کی کوشش اس ملک کو تباہی سے بچانے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
عوام تبدیلی کے لیے بے چین ہیں، عام انتخابات عدلیہ اور فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کی دونوں حکومتیں کرپشن کی وجہ سے ختم کی گئیں، جب کہ میاں نواز شریف کے دونوں عرصۂ اقتدار کا خاتمہ فوج نے کیا، ان کے خلاف آج تک کرپشن کا کوئی کیس نہیں۔ اگلے روز انھوں نے سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی سے ان کے مرکزی دفتر میں ملاقات کی۔ اس موقعے پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت کراچی سمیت سندھ میں امن قائم نہیں کر سکتی، تو پھر اپنی ناکامی کا اعتراف کرے اور حکومت چھوڑ کر سمندر کا رخ کر لے۔ ملاقات میں ن لیگ کے راہ نما انجینیئر ایوب شر، ایس ٹی پی کے سینیئر وائس چیئرمین حیدر شاہانی، مظفر کلہوڑو اور دیگر بھی شریک تھے۔ ملاقات کے دوران دونوں راہ نماؤں نے سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنے پر اتفاق کیا۔
اس موقع پر سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی کا کہنا تھا کہ نئے بلدیاتی نظام کی صورت میں سندھ میں سیاسی ایمرجینسی نافذ کی گئی ہے، یہ سیاسی مسئلہ ہے اور عدالتوں میں درخواستیں دینے یا عرض داشتیں پیش کرنے سے حل نہیں ہو سکتا۔ سیاسی مسئلے ہمیشہ سیاسی میدان میں طے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم پرستوں کی کوشش ہے کہ بلدیاتی نظام کے خلاف عوامی جدوجہد اور غم وغصے کو ووٹ کی طاقت میں تبدیل کیا جائے اور اس کے ذریعے 'زرداری لیگ' کو شکست دی جائے۔
ن لیگ کے مرکزی راہ نماؤں کے مقامی سیاست میں سرگرم ہونے سے محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی کے قائد نے انھیں سندھ کے قوم پرستوں سے مسلسل رابطہ رکھنے کی ذمے داری بھی دی ہے۔ تاہم گذشتہ ہفتے ن لیگ پارٹی کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے بھی خبروں میں نمایاں رہی۔ پارٹی کے راہ نماؤں کی پریس کانفرنسیں میں ایک دوسرے کے خلاف باتیں اور کارکنان و ذمے داران کی طرف سے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات بھی کیے گئے۔ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ پارٹی کے مرکزی راہ نما راجا ظفر الحق پچھلے ماہ حیدرآباد پریس کلب میں کانفرنس کرنے آئے، اس موقع پر پارٹی کے دو راہ نماؤں کے درمیان تلخ کلامی کے بعد ہاتھا پائی ہوئی، جو الیکڑانک میڈیا پر فوراً ہی نشر بھی ہو گئی۔ اس طرح راجا ظفر الحق کی پریس کانفرنس کی اہمیت ختم اور وہ جھگڑا اپنی جگہ بنا گیا۔
پارٹی کی قیادت کے علم میں یہ معاملہ آیا اور اس کے بعد لیگی راہ نما افضل گجر نے صوبائی صدر کی جانب سے اپنے ہٹائے جانے کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے اسے جانب دار اور غیر آئینی قرار دیا اور اپنی بحالی اور صوبائی صدر کو ہٹائے جانے کے لیے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حیدرآباد پریس کلب میں دیگر راہ نماؤں کے ساتھ کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھیں میاں نواز شریف نے حیدرآباد ضلع کا صدر نام زد کیا ہے اور ان کے علاوہ کوئی بھی انھیں اس عہدے سے نہیں ہٹا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنی بحالی اور مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر غوث علی شاہ کو ہٹائے جانے کے لیے بھرپور احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔ انھوں نے الزام عایدکرتے ہوئے کہا کہ غوث علی شاہ، نواز شریف کو بلیک میل کر کے سندھ کے صدر بنے ہیں۔
انھوں نے نواز شریف سے اپیل کی وہ سندھ کی سطح پر پارٹی معاملات میں مداخلت کر کے اسے مزید نقصان سے بچائیں۔ افضل گجر کی پریس کانفرنس کے بعد ن لیگ تعلقہ قاسم آباد کے صدر محبوب علی جونیجو نے زوہیب جونیجو،کامران جتوئی و دیگر راہ نماؤں کے ہم راہ پارٹی کے صوبائی صدر غوث علی شاہ کے رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے درجنوں ساتھیوں سمیت ن لیگ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد تعلقہ سٹی کے صدر راجہ غضنفر علی مغل نے بھی ن لیگ کے صوبائی صدر پر ناانصافی اور زیادتی کا الزام لگاتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت احتجاجاً استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ ان استعفوں اور پروپیگنڈوں کا جواب دینے کے لیے سید غوث علی شاہ کی جانب سے نام زد قائم مقام صدر محمد حنیف صدیقی کو میدان میں آنا پڑا، انھوں نے پریس کانفرنسوں اور اپنے اخباری بیانات میں استعفی دینے والوں کو بھتا خور قرار دے دیا۔
ن لیگ کے راہ نماؤں نے ضلع حیدرآباد میں جلد تنظیم سازی مکمل کر کے عام انتخابات میں ضلع سے بھرپور حصہ لینے کی بات کی۔ ایک اجلاس میں میاں نواز شریف، سید غوث علی شاہ اور سلیم ضیاء کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ ن لیگ کے اجلاس میں روشن بلوچ، محمد رفیق لودھی، محمد پریل بگھیو، حسین شاہ راشدی، اکبر بروہی، علی اکبر جونیجو، عبدالحئی بلیدی، نصیر احمد قریشی، کلیم شیخ، ایوب راجپوت، اکرم حق، ملک تنویر حسین، لیاقت راجپوت اور دیگر موجود تھے۔
گذشتہ دنوں وفاقی وزیر برائے سیاسی امور، سینیٹر مولابخش چانڈیو بھی حیدرآباد میں تھے۔ انھوں نے پریس کلب میں صحافیوں کے لیے منعقدہ تربیتی ورکشاپ کی تقریب اسناد سے خطاب کیا اور میڈیا سے بات چیت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نہیں بلکہ نواز شریف بے یقینی کی صورت حال کا شکار ہیں، اگر پرویز مشرف کے دور میں میاں برادران ملک سے نہ بھاگتے، تو پاکستان کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور میڈیا کو اس وقت جتنی آزادی حاصل ہے، وہ کبھی نہیں تھی۔ اچھے فیصلوں کے ساتھ غلط فیصلے بھی آتے ہیں، جس پر لوگ تنقید بھی کرتے ہیں، ایک گھنٹے کا پروگرام کر کے لاکھوں روپے کمانے والے چند اینکر پرسنوں کا پچھلے چار سال کے دوران ایک بھی تجزیہ درست ثابت نہیں ہوا، اگر تجزیے خواہشات کے تابع ہوں، تو وہ درست نہیں ہوتے۔
گذشتہ ہفتے شہر میں سیاسی سرگرمیاں دہشت گردی کے واقعات کے باعث متأثر نظر آئیں اور شہر پر خوف کے بادل منڈلاتے رہے۔
حیدرآباد میں چار روز کے دوران ہدفی قتل کی وارداتوں میں سیاسی، مذہبی شخصیات، تاجر، پولیس اہل کار سمیت گیارہ معصوم افراد کی جان لے لی گئی۔ ان واقعات نے حیدرآباد میں پولیس کی طرف سے محرم الحرام میں امن و امان برقرار رکھنے کے دعووں کی قلعی بھی کھول دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس عام شہریوں اور اہم شخصیات کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے اور ان واقعات کے بعد بھی ان کی 'کارکردگی' دکھاوے کی گرفتاریوں اور افسران کے تبادلوں تک محدود ہے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے شہر کی سیاسی سرگرمیوں پر گہرا اثر ڈالا ہے جب کہ مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کی طرف سے مذمتی بیانات اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے بقر عید اور اقبال ڈے پر بھی تقاریب اور جلسوں کا قابل ذکر اہتمام نہیں کیا گیا اور وہ صرف بیانات جاری کر کے اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہیں۔
علامہ اقبال ڈے پر اخبارات کے لیے زیادہ بیانات مسلم لیگ ن کے موصول ہوئے، جب کہ پورے ہفتے حیدرآباد میں ن لیگ کے اختلافات ہی کی خبریں گردش کرتی رہیں۔ مسلم لیگ کے مرکزی راہ نما سردار ممتاز علی خان بھٹو دو روز تک حیدرآباد میں صحافیوں سے ملاقات کر کے سیاسی ماحول کو گرماتے رہے، جس کے دوران پیپلزپارٹی پر کڑی تنقید کی گئی۔ پہلے روز سرکٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکم رانوں سے جان چھڑانے کی کوشش اس ملک کو تباہی سے بچانے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
عوام تبدیلی کے لیے بے چین ہیں، عام انتخابات عدلیہ اور فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کی دونوں حکومتیں کرپشن کی وجہ سے ختم کی گئیں، جب کہ میاں نواز شریف کے دونوں عرصۂ اقتدار کا خاتمہ فوج نے کیا، ان کے خلاف آج تک کرپشن کا کوئی کیس نہیں۔ اگلے روز انھوں نے سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی سے ان کے مرکزی دفتر میں ملاقات کی۔ اس موقعے پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت کراچی سمیت سندھ میں امن قائم نہیں کر سکتی، تو پھر اپنی ناکامی کا اعتراف کرے اور حکومت چھوڑ کر سمندر کا رخ کر لے۔ ملاقات میں ن لیگ کے راہ نما انجینیئر ایوب شر، ایس ٹی پی کے سینیئر وائس چیئرمین حیدر شاہانی، مظفر کلہوڑو اور دیگر بھی شریک تھے۔ ملاقات کے دوران دونوں راہ نماؤں نے سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنے پر اتفاق کیا۔
اس موقع پر سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی کا کہنا تھا کہ نئے بلدیاتی نظام کی صورت میں سندھ میں سیاسی ایمرجینسی نافذ کی گئی ہے، یہ سیاسی مسئلہ ہے اور عدالتوں میں درخواستیں دینے یا عرض داشتیں پیش کرنے سے حل نہیں ہو سکتا۔ سیاسی مسئلے ہمیشہ سیاسی میدان میں طے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم پرستوں کی کوشش ہے کہ بلدیاتی نظام کے خلاف عوامی جدوجہد اور غم وغصے کو ووٹ کی طاقت میں تبدیل کیا جائے اور اس کے ذریعے 'زرداری لیگ' کو شکست دی جائے۔
ن لیگ کے مرکزی راہ نماؤں کے مقامی سیاست میں سرگرم ہونے سے محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی کے قائد نے انھیں سندھ کے قوم پرستوں سے مسلسل رابطہ رکھنے کی ذمے داری بھی دی ہے۔ تاہم گذشتہ ہفتے ن لیگ پارٹی کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے بھی خبروں میں نمایاں رہی۔ پارٹی کے راہ نماؤں کی پریس کانفرنسیں میں ایک دوسرے کے خلاف باتیں اور کارکنان و ذمے داران کی طرف سے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات بھی کیے گئے۔ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ پارٹی کے مرکزی راہ نما راجا ظفر الحق پچھلے ماہ حیدرآباد پریس کلب میں کانفرنس کرنے آئے، اس موقع پر پارٹی کے دو راہ نماؤں کے درمیان تلخ کلامی کے بعد ہاتھا پائی ہوئی، جو الیکڑانک میڈیا پر فوراً ہی نشر بھی ہو گئی۔ اس طرح راجا ظفر الحق کی پریس کانفرنس کی اہمیت ختم اور وہ جھگڑا اپنی جگہ بنا گیا۔
پارٹی کی قیادت کے علم میں یہ معاملہ آیا اور اس کے بعد لیگی راہ نما افضل گجر نے صوبائی صدر کی جانب سے اپنے ہٹائے جانے کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے اسے جانب دار اور غیر آئینی قرار دیا اور اپنی بحالی اور صوبائی صدر کو ہٹائے جانے کے لیے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حیدرآباد پریس کلب میں دیگر راہ نماؤں کے ساتھ کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھیں میاں نواز شریف نے حیدرآباد ضلع کا صدر نام زد کیا ہے اور ان کے علاوہ کوئی بھی انھیں اس عہدے سے نہیں ہٹا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنی بحالی اور مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر غوث علی شاہ کو ہٹائے جانے کے لیے بھرپور احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔ انھوں نے الزام عایدکرتے ہوئے کہا کہ غوث علی شاہ، نواز شریف کو بلیک میل کر کے سندھ کے صدر بنے ہیں۔
انھوں نے نواز شریف سے اپیل کی وہ سندھ کی سطح پر پارٹی معاملات میں مداخلت کر کے اسے مزید نقصان سے بچائیں۔ افضل گجر کی پریس کانفرنس کے بعد ن لیگ تعلقہ قاسم آباد کے صدر محبوب علی جونیجو نے زوہیب جونیجو،کامران جتوئی و دیگر راہ نماؤں کے ہم راہ پارٹی کے صوبائی صدر غوث علی شاہ کے رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے درجنوں ساتھیوں سمیت ن لیگ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد تعلقہ سٹی کے صدر راجہ غضنفر علی مغل نے بھی ن لیگ کے صوبائی صدر پر ناانصافی اور زیادتی کا الزام لگاتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت احتجاجاً استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ ان استعفوں اور پروپیگنڈوں کا جواب دینے کے لیے سید غوث علی شاہ کی جانب سے نام زد قائم مقام صدر محمد حنیف صدیقی کو میدان میں آنا پڑا، انھوں نے پریس کانفرنسوں اور اپنے اخباری بیانات میں استعفی دینے والوں کو بھتا خور قرار دے دیا۔
ن لیگ کے راہ نماؤں نے ضلع حیدرآباد میں جلد تنظیم سازی مکمل کر کے عام انتخابات میں ضلع سے بھرپور حصہ لینے کی بات کی۔ ایک اجلاس میں میاں نواز شریف، سید غوث علی شاہ اور سلیم ضیاء کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ ن لیگ کے اجلاس میں روشن بلوچ، محمد رفیق لودھی، محمد پریل بگھیو، حسین شاہ راشدی، اکبر بروہی، علی اکبر جونیجو، عبدالحئی بلیدی، نصیر احمد قریشی، کلیم شیخ، ایوب راجپوت، اکرم حق، ملک تنویر حسین، لیاقت راجپوت اور دیگر موجود تھے۔
گذشتہ دنوں وفاقی وزیر برائے سیاسی امور، سینیٹر مولابخش چانڈیو بھی حیدرآباد میں تھے۔ انھوں نے پریس کلب میں صحافیوں کے لیے منعقدہ تربیتی ورکشاپ کی تقریب اسناد سے خطاب کیا اور میڈیا سے بات چیت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نہیں بلکہ نواز شریف بے یقینی کی صورت حال کا شکار ہیں، اگر پرویز مشرف کے دور میں میاں برادران ملک سے نہ بھاگتے، تو پاکستان کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور میڈیا کو اس وقت جتنی آزادی حاصل ہے، وہ کبھی نہیں تھی۔ اچھے فیصلوں کے ساتھ غلط فیصلے بھی آتے ہیں، جس پر لوگ تنقید بھی کرتے ہیں، ایک گھنٹے کا پروگرام کر کے لاکھوں روپے کمانے والے چند اینکر پرسنوں کا پچھلے چار سال کے دوران ایک بھی تجزیہ درست ثابت نہیں ہوا، اگر تجزیے خواہشات کے تابع ہوں، تو وہ درست نہیں ہوتے۔