سیاسی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں
کراچی میں دہشت گردی سے عوام کی جان و مال کو خطرہ ہےتو اگلے انتخابات کے لیے سرگرمیاں متأثر ہوتی نظر آرہی ہیں ۔
حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی،حسین محنتی فوٹو : فائل
کراچی پر گہرا خوف مسلط ہے اور متعدد قیمتی انسانی جانوں کے زیاں پر فضاء سوگ وار ہے۔
دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے ہر فرد متأثر نظر آتا ہے۔ شہر میں محرم الحرام سے قبل دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے کا بارہا آزمودہ طریقہ ایک مرتبہ پھر اپناتے ہوئے موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی عاید کر دی گئی، لیکن ہمیشہ کی طرح اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شہر میں اس پابندی کے باوجود چند روز کے دوران سیاسی، مذہبی جماعتوں سے وابستہ افراد اور عام شہریوں کو دہشت گردوں نے آسانی سے اپنا نشانہ بنایا اور فرار ہونے میں کام یاب رہے۔ کراچی کے مختلف سیاسی، سماجی اور عوامی حلقوں نے ان واقعات کی شدید مذمت کی ہے اور اسے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی ناکامی قرار دیا ہے۔
ملک کے دیگر حصّوں کی طرح کراچی میں بھی عام انتخابات کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ لیکن حالیہ واقعات کی وجہ سے خاصی گہما گہمی نظر نہیں آرہی ۔شہر کی بڑی سیاسی جماعتوں کے مرکزی اور مقامی راہ نماؤں نے عوام سے رابطہ بڑھانے اور تنظیمی معاملات پر توجہ دینا شروع کر دی ہے ۔ فی الوقت، متحدہ قومی موومینٹ کی طرف سے ملک بھر میں عوامی ریفرنڈم کی تیاری کو بڑی سیاسی سرگرمی قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن محرم الحرام کی وجہ سے یہ ریفرنڈم مؤخر کر دیا گیا ہے۔ ابھی ایم کیو ایم کی طرف سے نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
سیاسی مبصرین اس ریفرنڈم کو اگلے عام انتخابات کے لیے ایم کیو ایم کی تیاری اور ملکی سطح پر عوامی رابطہ مہم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ ریفرنڈم 'عوام قائدِ اعظم کا پاکستان چاہتے ہیں یا طالبان کا' کے عنوان سے منعقد کیا جائے گا، جس میں عوام اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ آنے والے دنوں میں کراچی میں ایم کیو ایم کا یہ ریفرنڈم سیاسی گہماگہمی کا باعث بنے گا۔
موجودہ حالات میں شہر کی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے تعزیتی پیغامات اور مذمتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات پر متحدہ قومی موومینٹ، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، اے این پی، تحریکِ انصاف، سنی تحریک، جے یو آئی و دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے راہ نماؤں کی طرف سے بیانات میں افسوس کا اظہار کیا گیا، سیاسی راہ نماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ٹارگیٹ کلرز اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری اور انھیں سزا دلوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی نے شہر میں بدامنی، ٹارگیٹ کلنگ، بھتا خوری، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت گری پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، چند دنوں میں درجنوں شہریوں کی ہلاکت حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان تحریکِ انصاف کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی نے ہزارہ کالونی میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔
انھوں نے اپنے خطاب میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ درجنوں افراد بے دردی سے قتل کیے جارہے ہیں، جب کہ حکومت اور اس کے اتحادی چین کی بانسری بجا رہے ہیں، حکومت نے کراچی میں موت کا کھیل کھیلنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اس موقع پر مرکزی راہ نما ثمر علی خان، جنرل سیکریٹری سندھ سید حفیظ الدین، سبحان علی ساحل، خورشید تنولی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ ان راہ نماؤں نے اپنے خطاب کے دوران حکومت پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اگلے عام انتخابات میں مخالف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو شکست دینے کا دعوی بھی کیا۔
کراچی میں جماعتِ اسلامی کی طرف سے انتخابی فہرستوں میں بے قاعدگیوں کا شور بھی سنائی دے رہا ہے۔ اس کے خلاف جماعت اسلامی کی طرف سے سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی داخل کی گئی ہے۔ پچھلے دنوں جماعت اسلامی کے ایک وفد نے مقامی راہ نما محمد حسین محنتی کی قیادت میں صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر میں چیف الیکشن کمشنر پاکستان فخرالدین جی ابراہیم سے ملاقات کی۔ اس دوران وفد کے اراکین نے کہا کہ ووٹر لسٹوں میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں کی گئی ہیں اور منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے اس کی درستی ضروری ہے۔ محمد حسین محنتی نے چیف الیکشن کمشنر کو بتایا کہ کراچی میں 30 فی صد رائے دہندگان کے ووٹ دوسرے مقامات پر ڈال دیے گئے ہیں، جس کا اعتراف صوبائی الیکشن کمشنر سونو خان بلوچ نے بھی کیا تھا اور اس کی درستی کی یقین دہانی بھی کرائی تھی، لیکن یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔
موجودہ حکم راں جماعت پیپلز پارٹی کے مقامی راہ نماؤں کی طرف سے شہر میں کوئی سیاسی ہلچل نظر نہیں آتی اور وہ اقتدار کے ایوانوں میں گم ہیں اور اپنے حلقۂ انتخاب کے عوام سے دور ہیں، جب کہ دیگر جماعتوں کی سرگرمیاں فی الحال تعزیتی پیغامات اور مذمتی بیانات تک محدود ہیں، لیکن ن لیگ (سندھ) کے میڈیا کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر تاج کی فنکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان ایک مختلف سیاسی سرگرمی ثابت ہوا ہے۔ انھوں نے پیر کے روز فنکشنل لیگ کے سیکریٹری جنرل امتیاز شیخ سے ملاقات کی اور ان کی جماعت میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر تاج نے فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ پیر پگارا سندھ کے حقوق کے لیے جو کردار ادا کر رہے ہیں، وہ نئی سیاسی تاریخ رقم کرے گا۔
پچھلے دنوں معروف سیاسی راہ نما، قانون داں اور انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین تاج حیدر انتقال کر گئے۔ کراچی میں ان کی تدفین میں مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کے راہ نما، وکلاء، تاجر برادری کے نمایندے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد شریک ہوئے۔
شہر میں دہشت گردی اور بدامنی سے ایک طرف عوام کی جان و مال کو خطرہ ہے، اور دوسری جانب ان حالات کی وجہ سے اگلے عام انتخابات کے لیے سرگرمیاں متأثر ہوتی نظر آرہی ہیں۔