مقامی سیاسی جماعتوں میں اختلافات اور دھڑے بندیاں

نواب شاہ میں صرف ن لیگ ہی نہیں، بلکہ مسلم لیگ فنکشنل بھی اختلافات کا شکار ہے۔

نواب شاہ میں مسلم لیگ فنکشنل کےضلعی صدر سید زاہد حسین شاہ کی سرگرمیاں صرف ریاض آرائیں تک محدود ہیں۔ ۔فوٹو : فائل

NEW YORK:
مقامی سطح پر مسلم لیگ ن کئی سال سے دھڑے بندی کا شکار ہے اور ن لیگ کے عہدے داروں کے درمیان سخت اختلافات بھی پائے جاتے ہیں اور اب یہ اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے، بلکہ کارکنان سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے لگے ہیں۔

گذشتہ دنوں دنوں مسلم لیگ ن کے سینیر کارکن ماموں شوکت اور ملک مقصود نے دیگر کارکنان کے ہم راہ پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگا کر علامتی بھوک ہڑتال کی، جہاں انھوں نے ضلعی صدر غلام مصطفیٰ شاہ کے خلاف بینرز بھی آویزاں کر رکھے تھے۔ بھوک ہڑتالی کیمپ پر مسلم لیگ ن (یوتھ ونگ) کے کارکن نعیم آرائیں اور دیگر نے ماموں شوکت سے صرف ضلعی صدر کے خلاف بینر لگانے پر احتجاج کیا اور کہا کہ اگر بینرز لگانے ہیں، تو ضلعی صدر اور ضلعی جنرل سیکریٹری ملک نذر عباس اعوان کے خلاف بھی لگائیں، اگر یک طرفہ تصویر پیش کی گئی، تو ہم بھوک ہڑتال نہیں کریں گے۔

نعیم آرائیں اور ماموں شوکت کے درمیان اس معاملے پر گرما گرمی ہوئی، جس کے بعد نعیم آرائیں، یوتھ ونگ کے کارکنان کے ہم راہ کیمپ سے اٹھ کر چلے گئے۔ مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر غلام مصطفیٰ شاہ اور ضلعی جنرل سیکریٹری ملک نذر عباس اعوان کے درمیان سخت ترین اختلافات ہیں اور دونوں عہدے دار ایک دوسرے پر پارٹی کو نقصان پہنچانے کا الزام عاید کرتے ہیں۔ ملک نذر عباس اعوان کو غلام مصطفیٰ شاہ نے دیگر کارکنان کے شدید احتجاج کرنے کے باوجود ضلعی جنرل سیکریٹری مقرر کرایا تھا، مگر آج وہی ان کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ مسلم لیگ ن میں ملک نذر عباس اور غلام مصطفیٰ شاہ کے علاوہ سردار شیر محمد رند، سجاد شاہ، جی ایم شاہ کے بھی اپنے اپنے دھڑے موجود ہیں، جب کہ سکرنڈ میں اصغر رند اور دولت پور میں ڈاکٹر بہادر ڈاہری کے گروپ بھی موجود ہیں۔

مسلم لیگ ن میں اختلافات کی وجہ سے نواب شاہ میں کارکن سخت پریشانی کا شکار ہیں، ضلع میں پارٹی کے کارکنان انجینئر اسلم، سید مظہر شاہ، محمود بروہی، غلام مصطفیٰ جٹ، عباد الرحمٰن آرائیں شدید مایوس نظر آتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی ضلعی تنظیم کے علاوہ خواتین ونگ میں سب سے زیادہ متحرک اور پارٹی کارکنوں میں مقبول نازو دھاریجو سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔


نواب شاہ میں صرف ن لیگ ہی نہیں، بلکہ مسلم لیگ فنکشنل بھی اختلافات کا شکار ہے اور اس جماعت کے مقامی عہدے داروں کا زور خودنمائی پر ہے۔ ضلعی صدر سید زاہد حسین شاہ کی سرگرمیاں صرف ریاض آرائیں تک محدود ہیں، انھوں نے پارٹی کے سرگرم کارکن امتیا وگن کو ضلعی پریس سیکریٹری کے عہدے سے معطل کر کے غلام مصطفیٰ کیریو کو ان کی جگہ مقرر کر دیا ہے، معطل کیے جانے والے امتیاز وگن کا کہنا ہے کہ وہ زاہد حسین شاہ کا بے حد احترام کرتے ہیں، مگر وہ انھیں معطل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔

نیشنل پیپلزپارٹی ضلع میں غیر فعال تنظیم کے طور پر نظر آرہی ہے، اس جماعت کے صرف دو افراد ہی سامنے نظر آتے ہیں۔ ان میں ایک راجا عبدالغفار قریشی اور دوسرے عرفان رند ہیں۔ راجا عبدالغفار قریشی این پی پی سٹی کے سابق صدر اور شہر کی معروف شخصیت مرحوم راجا نواب قریشی کے فرزند ہیں اور اپنے والد کی وجہ سے شہر میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، جب کہ عرفان رند مختلف سیاسی پارٹیوں کا سفر کرتے ہوئے این پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ عرفان رند کے والد عبدالحلیم رند کے جتوئی خاندان سے پرانے تعلقات ہیں اور وہ این پی پی کے سیاسی سفر کے آغاز سے اب تک اس جماعت سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن اپنی علالت کے باعث سیاسی سرگرمیاں ترک کر چکے ہیں۔

گذشتہ دنوں آل پاکستان راجپوت سپریم کونسل سندھ نے نواب شاہ میں ایک کنونشن منعقد کیا، جس میں پیپلزپارٹی کے ایم پی اے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سندھ کے چیئرمین سردار جام تماچی انڑ، زین العابدین انڑ، سردار عبدالستار کیریو، رانا انیس الرحمٰن راجپوت، فنکشنل لیگ کے ایم پی اے رانا عبدالستار سمیت ملک بھر سے مختلف برادریوں کے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی، کنونشن کے انعقاد سے زین العابدین انڑ ملک بھر خصوصاً سندھ کے راجپوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے میں کام یاب رہے ہیں۔ اس موقع پر انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک کی سیاست میں راجپوت فعال کردار ادا کریں گے۔

سابق وفاقی وزیر اور بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سردار یار محمد رند کو اسلام آباد پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے پر رند قبیلے کے افراد نے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ رند قبیلے کے افراد نے سردار یار محمد رند کے میڈیا ٹرائل اور انھیں مقدمات میں ملوث کرنے کے خلاف پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سردار یار محمد رند کا میڈیا ٹرائل بند کر کے ان پر قائم جھوٹے مقدمات ختم کیے جائیں، احتجاج میں رند قبیلے کے افراد کے علاوہ مختلف برادریوں کے افراد بھی شامل تھے۔

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے نوجوان راہ نما منظور علی سیال نے پارٹی کے پرچم لگانے کی مہم کا آغاز کیا ہے۔ انھوں نے اپنے گاؤں نیازی خان سیال سے اس مہم کو شروع کیا اور گاؤں کو پیپلز پارٹی کے سہہ رنگی پرچموں سے بھر دیا جب کہ صدر آصف علی زرداری، شہید بے نظیر بھٹو، بلاول بھٹو زرداری اور فریال تالپور کی تصاویر کے قدآور ہورڈنگز بھی لگائے ہیں، جس کے بعد ان کی پیروی کرتے ہوئے مزید پارٹی راہ نما اور کارکن پرچم لگانے میں مصروف ہیں۔ ان کی اس مہم کو اگلے انتخابات کے لیے مقامی سطح پر سیاسی سرگرمیوں کی ابتداء بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
Load Next Story