افغان امن مذاکرات اسی ماہ شروع ہونیکا امکان

امریکا، چین اور پاکستان تو کوشش کر رہے ہیں لیکن کسی مفاہمت تک پہنچنا افغان گروپوں کا کام ہے


Editorial April 09, 2016
افغانستان میں قیام امن کے لیے چار فریقی جو کوششیں کر رہا ہے، وہ قابل ستائش ہیں تاہم اصل مسئلہ باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔ فوٹو: فائل

GUJRANWALA: پاکستان، افغانستان، امریکا اور چین کے نمایندے اس ماہ کے آخر میں افغانستان میں قیام امن کی تجاویز پر غور کرنے کے لیے ملاقات کریں گے۔ اس موقع پر وہی تجاویز زیر بحث لائی جائیں گی جو گزشتہ چار فریقی اجلاس میں پیش کی گئی تھیں تاہم طالبان کی طرف سے مفاہمتی اجلاس میں شرکت سے انکار پر یہ کوشش کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔

پاکستان کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے اسلام آباد کے جناح انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ہونے والی پینل ڈسکشن میں ''موسم سرما سے موسم بہار تک افغان سوال پر دوبارہ غور'' کے عنوان سے ہونے والی بات چیت میں بتایا کہ چار فریقی گروپ ''کیوسی جی'' کا اجلاس اسی ماہ (اپریل) کے اواخر میں منعقد ہونا متوقع ہے۔

سرتاج عزیز نے آیندہ اجلاس کے امکان کی توقع ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرات کرانے کی کوششیں جاری رکھے گا تاہم اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان افغان طالبان کو مجبور نہیں کر سکتا البتہ انھوں نے امید ظاہر کی اگر قیام امن کی کوششوں کو جاری رکھا جائے تو بالآخر اس کا مثبت نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ سرتاج عزیز نے یہ بھی کہا کہ اگر افغان امن مذاکرات میں کچھ گروپ شرکت سے انکار کریں تو چار فریقی گروپ انکار کرنے والے گروپوں کو بعد میں مذاکرات میں شامل کرنے کی گنجائش رکھے گا۔

افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیلوال نے کہا کہ امن مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ اصل مسائل سے زیادہ غلط نمایندگی ہے۔ جناح انسٹی ٹیوٹ کی صدر شیری رحمن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام امن نہ صرف افغانستان کے مفاد میں ہے بلکہ تمام علاقائی ممالک کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے چار فریقی جو کوششیں کر رہا ہے' وہ قابل ستائش ہیں تاہم اصل مسئلہ باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔

اعتماد کا فقدان اس لیے ہے کہ افغان متحارب قوتیں اور ان کے حامی ممالک کے مفادات کے درمیان ہم آہنگی پیدا نہیں ہو رہی۔ امریکا' چین اور پاکستان تو کوشش کر رہے ہیں لیکن کسی مفاہمت تک پہنچنا افغان گروپوں کا کام ہے۔ طالبان اگر حکومت میں اپنی استعداد سے زیادہ حصہ طلب کرینگے یا افغانستان میں برسراقتدار دھڑے کچھ بھی سرنڈر کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے تو امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے افغانستان میں قیام کی گیند درحقیقت افغان طالبان اور افغان حکومت کے کورٹ میں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں