ضمنی الیکشن سیاسی سرگرمیوں میں تیزی

ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کے حریفوں کی طرف سے دھاندلی کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔


Muhammad Sarfaraz Nawaz November 13, 2012
سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 21 میں ضمنی انتخاب کی تیاریاں جاری ۔ فوٹو: فائل

صوبائی حلقہ (PS-21) نوشہروفیروز ون، تحصیل محراب پور اور کنڈیارو کی 10یونین کونسلوں محراب پور ون، ٹو، ہالانی، بہلانی، کوٹری کبیر، کنڈیارو، خانواہن، محبت دیرو جتوئی، کوٹ غلام شاہ اور جام نور اللہ پر مشتمل ہے۔

اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 150524ہے، 2008 کے الیکشن میں اس حلقے میں 60930 ووٹ کاسٹ ہوئے تھے، جس میں سے 59564 ووٹ تسلیم کیے گئے جب کہ 1366رد ہوئے، ووٹوں کا تناسب 40 فی صد رہا تھا۔ اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار سید احمد علی شاہ نے کام یابی حاصل کی تھی، جن کی اسمبلی کی رکنیت کے خاتمے کا سبب ان کی دہری شہریت بنی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے اس نشست پر انتخابی معرکے کی تاریخ 17، نومبر 2012 مقرر کی ہے۔ اس بار پی پی پی کی جانب سے سید سرفراز شاہ اس نشست پر انتخابی امیدوار ہیں، نیشنل پیپلز پارٹی کی جانب سے ٹکٹ سابق تحصیل ناظم محراب پور سید ابرار علی شاہ کو دیا گیا ہے، جب کہ جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار عبدالعلیم گھانگھرو ہیں۔

اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے سید ظفر علی شاہ اپنے بھتیجے سید زوہیب علی شاہ کو پارٹی کی طرف سے ٹکٹ نہ دیے جانے پر آزاد امیدوار کے طور پر سامنے لائے ہیں اور اس سلسلے میں اپنے حمایتوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ تاہم سیاسی مبصرین زوہیب علی شاہ کی جیت کو مشکل قرار دے رہے ہیں۔ اصل مقابلہ پی پی پی کے امیدور سید سرفراز علی شاہ اور این پی پی امیدوار سید ابرار علی شاہ کے درمیان ہوگا۔ انتخابی میدان کے یہ امیدوار ووٹروں کی ہم دردیاں حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ضمنی الیکشن کی وجہ سے محراب پور شہر، ہالانی اور کنڈیارو انتخابی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے، خاص طور پر محراب پور میں تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے کیمپ قائم کر لیے ہیں، کیوں کہ محراب پور شہر کے ووٹ اس ضمن میں فیصلہ کُن حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک، کمبوہ، آرائیں، مغل، نوناری، ٹالپر، شیدی، راجپوت، خاصخیلی، قریشی، میمن، جٹ، بھٹی اور ملاح برادری کا یہاں بڑا ووٹ بینک ہے۔ ان میں بھی کمبوہ، ملک، مغل، راجپوت اور نوناری برادری قابل ذکر ہیں۔ پی پی پی کے امیدوار سید سرفراز حسین شاہ کی کام یابی کے لیے فریال تالپور کے کوآرڈی نیٹر ضیاء الحسن لنجار کے طوفانی دوروں کے بعد میمن، آرائیں، ملک، سید، غوری اور دیگر برادریوں کے افراد نے ان کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

این پی پی کے امیدوار سید ابرار علی شاہ نے بھی لودھی ہائوس محراب پور میں انتخابی کیمپ قائم کیا ہے اور انھوں نے اپنی جماعت کے چیئرمین غلام مرتضیٰ خان جتوئی کے ہم راہ لودھی ہائوس میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا ہے، جسے پیپلز پارٹی کے امیدوار کے لیے خطرے کی گھنٹی تصور کیا جارہا ہے۔ اس وقت سیاسی گہماگہمی عروج پر ہے اور مقامی سطح پر الزامات کی روایت بھی زور پکڑ گئی ہے۔ این پی پی کے امیدوار نے الزام لگایا ہے کہ پی پی پی کے امیدوار کی کام یابی کے لیے ریاستی مشینری کا بے جا استعمال ہو رہا ہے، جھوٹے مقدمات کی دھمکیاں دے کر ہمارے ووٹروںکو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی وفاداریاں جبراً تبدیل کروائی جارہی ہیں۔

ہمارے کورنگ امیدوار ملک شاہد اکرام کی انڈسٹری کو سربہ مہر کر کے ان کے ملازمین کو گرفتار کیا گیا، ضیاء الحق لنجار اس حلقے میں مداخلت کر رہے ہیں، ہم نے الیکشن کمیشن سے اس کا نوٹس لینے اور فوج کی نگرانی میں ضمنی انتخاب کروانے کا مطالبہ کیا ہے، کیوں کہ 17نومبر کو ووٹنگ کے عمل میں حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا امکان ہے۔ اس طرح کے خدشات کا اظہار ایم این اے پیپلز پارٹی سید ظفر علی شاہ نے بھی کیا ہے، جو اپنے بھتیجے کے لیے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

شہر کی مختلف سیاسی، سماجی اور تاجر تنظیموں سے وابستہ افراد پر مشتمل تھنکرز فورم مقامی سطح پر ترقی اور تبدیلی کے مطالبے کے ساتھ متحرک نظر آرہا ہے۔ فورم کے راہ نمائوں حمزہ خان، محمد سلیم مغل، محمد شہزاد ہاشمی، محمد علی ملک کا کہنا ہے کہ محراب پور ضلع نوشہروفیروز کا اہم تجارتی مرکز ہے، لیکن اس کی ترقی اور عوام کی خوش حالی کے لیے موجودہ نمایندوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کے منتخب نمایندوں نے یہاں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو نظرانداز کر دیا ہے اور اقتدار میں ہونے کے باوجود انھیں روزگار فراہم نہیں کیا۔ ان راہ نماؤں نے مقامی عوام سے ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں