گو اس کی خدائی میں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ
اب تک پانامہ اسکینڈل کے بارے میں اتنی تفصیلات سامنے آچکی ہیں
انسان کی ہوس اور خودغرضی سے اگر آپ کو کوئی توقع رہی ہو تو یقینا پانامہ اسکینڈل آپ کے لیے بڑی خبر ہو سکتی ہے، ہم تو اس شخص کی فراست کو داد دیتے ہیں جس نے پہلے پہل پس انداز رقم جمع کرنے والے ڈبے کی شکل حرام جانور پہ بنائی جسے آج ساری دنیا میں گلک یا تجوری کا عالمی نشان سمجھا جاتا ہے۔
اب تک پانامہ اسکینڈل کے بارے میں اتنی تفصیلات سامنے آچکی ہیں کہ ان کے اعداد و شمار پہ بات کرنا محض ایک اضافہ ہی ہوگا۔ تقریبا ڈھائی لاکھ آف شور کمپنیوں کے متعلق ساڑھے گیارہ ملین خفیہ دستاویزات نے جہاں میڈیا میں تہلکہ مچایا وہیں ایک بار پھر سرمائے اور سیاست کے گٹھ جوڑ کی بحث چھیڑ دی ہے۔
معروف امریکی ماہر سیاسیات Sheldon Wolin ہمیشہ سیاسی نظام اور اس سے جڑی قباحتوں کے بارے میں کنفیوز رہے لیکن ایک بات پہ وہ متفق ہیںکہ امریکی نظام سیاست سرمائے کے کھیل کے سوا کچھ نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ آپ کو ایسا باور کرا دیا جاتا ہے جیسے آپ بہت سی سیاسی پارٹیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر رہے ہیں لیکن در حقیقت وہ ایک ہی کارپوریٹ پارٹی ہوتی ہے جو برسر اقتدار آتی ہے۔
صرف امریکا میں سیاسی پارٹیوں کی لابنگ کے لیے تیس کمپنیاں اس سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کرتی ہیں جتنا وہ ریاست کو ٹیکس ادا کرتی ہیں۔چار سو انتہائی امیر امریکی خاندانوں کے پاس باقی ڈیڑھ سو ملین عام امریکیوں کی مجموعی دولت سے زیادہ سرمایہ ہے جو انتخابات کی تجارت میں لگایا جاتا ہے ۔ظاہر ہے برسراقتدار آنے والی پارٹی مجبور ہوتی ہے کہ وہ سرمایہ کار کمپنی کے مفادات کا خیال رکھے۔موساک فونسیکا تو محض ایک کمپنی تھی جو دنیا بھر کے سرمایہ داروں کے صرف ایک فیصد کو ٹیکس چوری ، جھوٹ اور فریب سے کمائے گئے پیسے کو ٹھکانے لگانے کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہی تھی۔
ایسی بے شمار کمپنیاں اور ٹیکس ہیون ریاستیں جن کی مکمل لسٹ انٹرنیٹ پہ دیکھی جاسکتی ہے، سرمایہ کاروں کی جنت ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز سے انھیں سرمایہ دار افراد اور کمپنیاں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ زیادہ تر سرمایہ دار اپنی رہائش بھی ان ہی ریاستوں میں رکھنا پسند کرتے ہیں تاکہ پراپرٹی ٹیکس سے بچا جاسکے۔
ان ریاستوں میں کسی قسم کا کیپٹل گین ٹیکس یا وراثتی ٹیکس نہیں لگایا جاتا۔یہاں رہائش رکھنے والے سرمایہ دار عام طور پہ اس سے مستثنی قرار دے دیے جاتے ہیں جسے سیاسی پناہ کی طرز پہ سرمایہ داری کی پناہ کہا جاتا ہے۔اسی طرح کارپوریٹ افراد، یعنی ایسے افراد کا مجموعہ جن کے کاروباری مفادات ایک ہوں ، اپنی ذیلی کمپنیاں اور ان کا حساب کتاب ان ریاستوں میں منتقل کر کے ان کے ٹیکس اور کارپوریٹ لا سے محفوظ ہوسکتی ہیں اور دنیا کی نظروں میں آئے بغیر سرمایہ بچا سکتی ہیں۔
اسی طرح آپ اپنے سرمائے سے آف شور کمپنیاں کھول سکتے ہیں۔ ان کے منافع سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور کسی پاناما لیکس کے آنے تک خاموشی سے سرمائے کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی دے سکتے ہیں۔یہ کمپنی ایک ٹیکس ہیون میں بنائی اور دوسری سے آپریٹ کی جاتی ہیں۔
دنیا کی پانچ سو بڑی کارپوریشن جو Fortune 500 companies کہلاتی ہیں ، سے کم سے کم تیس کمپنیاں اس اسکینڈل میں ملوث ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ ان سرمایہ داروں کے نظریاتی یا سیاسی اختلاف کے باوجود جس چیز نے انھیں متحد کررکھا ہے وہ ان کے مالی مفادات ہیں۔اسی لیے ہمیں موزاک فونسیکا کے گاہکوں میں بڑی رنگا رنگی نظر آتی ہے۔یہاں یوکرائن کے صدر پوروشینکو جو صدرپیوٹن کے قریبی سمجھے جاتے ہیں بھی موجود ہیں اور برطانوی وزیر اعظم کیمرون کے والد گرامی کے نام سے بھی آف شور کمپنی موجود ہے۔
ان کے علاوہ ارجنٹائن کے صدر ماکری، سعودی فرمانروا شاہ سلمان متحدہ عرب امارات کے امیر، چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سینئر عہدے دار، کوفی عنان کے صاحبزادے سمیت مختلف افراد اپنا سرمایہ کیمین آئی لینڈ میں ٹھکانے لگا چکے ہیں۔صدر پیوٹن کے کھاتے میں آنے والی منی لانڈرنگ کا تخمینہ کوئی دو بلین ڈالر بنتا ہے ۔ OECD کے مطابق ساری دنیا میں انتخابات خریدنے والی کمپنیاں ایسی ہی منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔پچھلے سال مالیاتی اسکینڈل میں ملوث بینک HSBSکے سابق صدر مائیکل جیوگیگن کا آٹھ ملین پاونڈ مالیت کا گھر بھی ایک آف شور کمپنی کے ذریعے خریدا گیا.
جس کے وہ خود ہی کرایہ دارہیں۔ ایسا کرنے کی وجہ انھوں نے برطانیہ میں سخت ٹیکس قوانین بتائے۔ اب غریب گھر بنائے یا حکومت کو ٹیکس دے۔البتہ یہ غریب برطانیہ میں امسال جون میں ہونے والے ریفرنڈم میں جس میں برطانوی عوام سے یہ دریافت کیا جائے گا کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں میں Brexit (یورپی یونین سے علیحدگی کی مہم) کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔گارڈین کے مطابق چھوٹے ممالک سے غیر قانونی سرمایہ ان آف شور کمپنیوں میں منتقل ہوتا ہے وہ سالانہ ہزاروں بلین ڈالرز ہے جو بڑھتا ہی جارہا ہے۔ پانامہ پیپرز کے مطابق اس سسٹم کو ٹھیک کیا ہی نہیں جاسکتا۔
دوسری طرف موساک فوسیکا کا موقف ہے کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔ کسی کی دولت کا حساب کتاب رکھنا اور وہ بھی کسی ٹیکس ہیون میں کوئی جرم نہیں۔یہ سرمایہ دارانہ ذہنیت کی درست ترین عکاسی ہے۔ آخر ہمارے وزیر اطلاعات ایسے ہی تو نہیں کہتے کہ ہر ایک کا حق ہے کہ وہ اپنے اثاثوں کے ساتھ جو چاہے کرے، چاہے تو سمندر میں پھینکے چاہے تو خیرات کردے یہ نہ پاکستانی قانون میں جرم ہے نہ بین الاقوامی قانون میں۔یہ کہنا وہ البتہ بھول گئے کہ کیا پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ سرمایہ آیا کہاں سے؟ اگر آپ پوچھ سکتے ہیں تو پوچھیں جواب میں آپ کو ایسی قانونی موشگافیوں میں الجھایا جائے گا کہ آپ سوال بھول جائیں گے۔
وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ ذہنیت میں پیسہ بنانا اسے اکٹھا کرنا اور ہر ہتھکنڈے سے اسے دوگنا کرنا نہ صرف نارمل ہے بلکہ مطلوب بھی ہے۔اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو جلد ہی سرمائے کے اس گٹھ جوڑ سے نکل جائیں گے جو ایک دوسرے کو تحفظ دیتا ہے۔ پھر یہ سوال ہی بے معنی ہے کہ جس ملک کے وزیر اعظم کے پنامہ میں لاکھوں ڈالرز موجود ہیں اس کی ساٹھ فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے یعنی دو ڈالر روزانہ کی آمدنی سے بھی کم۔ساری دنیا میں جب اس طرح کے اسکینڈل منظر عام پہ آتے ہیں تو سیاست دان معیشت کو کنٹرول کرنے کی تقریریں ضرور کرتے ہیں لیکن ریاست عملی طور پہ سرمایہ داروں کو تحفظ دیتی ہے۔
برطانوی چانسلرGeorge Osborne ٹیکس چوری کو غیر اخلاقی قرار دیتے ہیں لیکن نصف سے زائد ٹیکس ہیون جو موساک فونسیکا کے زیر انتظام ہیں، برطانوی چھٹ بھئیے ہیں۔ڈیوڈ کیمرون لندن میں ٹیکس چوری کو قابو کرنے کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرواتے ہیں لیکن ان کا اپنا خاندان اس میں ملوث ہے۔
یہ تمام اسکینڈل جس صحافتی تنظیم ICIJ کی محنت شاقہ کے نتیجے میں منظر عام پہ آیا وہ خود USAID سے فنڈز لیتی ہے جس کا کام ہی دنیا بھر میں امریکی معیشتی اور خارجہ پالیسی کی کنوینسنگ ہے ۔خود امریکیوں کا اس اسکینڈل میں ملوث نہ ہونے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکس ہیون خود امریکی ریاست نواڈا ہے۔
Andrew Penney جو دنیا کی قدیم ترین کارپوریٹ کمپنی Rothschild کے ڈائریکٹر ہیں صاف طور پہ کہتے ہیں کہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی ٹیکس ہیون ہے جسے ٹیکس بچانا ہو رینو میں سرمایہ کاری کرے کوئی نہیں پوچھے گا۔ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امریکی سرمایہ داروں نے اس مقصد کے لیے یہ کمپنی استعمال ہی نہ کی ہو اور ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہGeorge Soros جو ICIJ کے سب سے بڑے فنڈ دینے والے ہیں ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں، ان کا نام اس اسکینڈل میں آنے سے صدارتی امیدوار Bernie Sanders کو فائدہ ہوسکتا ہے۔
یاد رہے Bernie Sanders نے گذشتہ سال اوبامہ کی طرف سے پانامہ کو ٹیکس ہیون قرار دینے کے معاہدے پہ سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ٹیکس دینے والوں کو چھوٹ دے کر اپنے عوام کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ان کے ان ہی سرمایہ مخالف خیالات کی وجہ سے میڈیا بھی ان کے ساتھ کچھ تجاہل عارفانہ برتتا ہے۔
اگر پانامہ لیکس جیسے انکشافات سرمائے، سیاست اور ریاست کے اتحاد کو نقصان پہنچا سکتے تو کبھی منظر عام پہ نہ آتے۔جہاں سیاست قانون اور سرمایہ ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہوں وہاں وقت کے حکمران سے کرتے کے کپڑے کے متعلق استفسار کرنا اساطیری داستان لگتی ہے اور جہاں وزیر اعظم اپنی دولت جہاں چاہے رکھیں والا بیان سرکاری سطح پہ دیا جانے لگے وہاں خلیفہ وقت کے سوکھی روٹی پانی میں بھگو کے کھانے والی باتیں جمعہ کے خطبے اور نصاب میں اچھی لگتی ہیں ۔ ایسے میں کون احمق ہے جو خلافت کا نام لے اور لا پتہ ہوجائے۔