پاناما لیکس عدالتی کمیشن کا قیام جرأت مندانہ فیصلہ
آئیے! اس بات سے آگاہی حاصل کریں کہ یہ پانامہ لیکس ہے کیا؟
برطانوی میڈیا کے ذریعے پاناما لیکس کے انکشافات سامنے آنے کے بعد پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں اورخاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کو تو ایک سنہرا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ وہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کو بغیرکسی تحقیق و ثبوت کے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انھوں نے وزیر اعظم محمد نوازشریف سے مستعفی ہونے اور اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا رویہ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے وہ الزام تراشی کا کھیل کھیلتے ہیں اور معاملے کی مکمل چھان بین کا انتظار نہیں کرتے۔
آئیے! اس بات سے آگاہی حاصل کریں کہ یہ پانامہ لیکس ہے کیا؟ ان دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھرکے چوٹی کے امیر اورطاقتور افراد کیسے ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ ان میں کئی ملکوں کے سربراہان حکومت اور سیاسی رہنما بھی شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دستاویزات پاناما کی ایک لافرم مسوساک فونیکا نے ظاہرکی ہیں۔
ان لافرم کی دستاویزات میں وزیراعظم محمد نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی ملکیت میں کوئی کمپنی نہیں۔ آف شورکمپنیاں بنانے والوں میں پاکستان کی کئی اہم کاروباری شخصیات کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ افشا ہونے والی ان دستاویزات کی تعداد ایک کروڑ 15 لاکھ ہے۔ ان دستاویزات میں تقریباً 140 عالمی سیاسی شخصیات کے نام درج ہیں۔ ان دستاویزات میں درج ہے کہ کس طرح مختلف ممالک سے اہم شخصیات نے ٹیکس بچانے یا دیگر عوامل کے کھربوں ڈالرکی دولت بیرون ملک منتقل کی۔
مذکورہ دستاویزات کے حوالے سے یہ بات تو بالکل واضح ہوگئی ہے کہ ان دستاویزات میں وزیراعظم نوازشریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف پرکوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم وزیراعلیٰ پنجاب کے نام سے کوئی پراپرٹی یا کسی قسم کی کمپنی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ حکومتی عہدہ رکھتے ہوئے اگر ان پر الزام عائدکیا جاتا تو قابل غور بات تھی۔ انھوں نے اپنے عوامی عہدے کو نہ تو اس مقصد کے لیے استعمال کیا اور نہ ہی ان کی کوئی پراپرٹی یا کمپنی سامنے آئی ہے۔
اب جہاں تک وزیراعظم کے صاحبزادوں کا تعلق ہے تو انھوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا بلکہ وہ طویل عرصے سے پاکستان سے باہر رہے ہیں۔ ان کے بڑے صاحبزادے 1992 اور چھوٹے صاحبزادے 1997سے بیرون ملک میں کاروبارکررہے ہیں۔ انھوں نے اپنے کیریئرکا آغاز بیرون ملک ہی کیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وزیر اعظم کی اولاد ہی نہیں بلکہ لاکھوں پاکستانیوں بھی بیرون ملک کام کررہے ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز نے بتایا کہ پیسہ کاروبار کے لیے نہیں بلکہ جلاوطنی میں گزر اوقات کے لیے لے کرگئے تھے۔
اگر کسی انجینئر یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو جلاوطن کیا جائے تو وہ بیرون ملک بھی کام چلا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب اتفاق فاؤنڈری کو قومیایا گیا تو دبئی میں فیکٹری لگانے کے لیے بھی کوئی پیسہ لے کر نہیں گئے۔ اتفاق گروپ پاکستان کا سب سے بڑاکاروباری ادارہ تھا۔ حسین نواز نے سوال کیا کہ ہمارے اثاثے کہاں گئے؟ یہ سوال ان حکومتوں سے کیا جائے جنہوں نے ہمیں مسلسل سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا کبھی ہمارے قرضے روکے گئے تو بھی ملازمین کو ہراساں کیا گیا۔
حکومتی زیادتیوں کے نتیجے میں ہماری 32 میں سے بیشتر انڈسٹریز بند پڑی ہیں۔ پاکستان میں آج ہمارا کچھ بھی نہیں بچا۔ حسین نواز نے بتایا کہ وزیراعظم نے پچھلے سال 45 لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا تھا۔ اس سال شاید ان کا ٹیکس اس سے بھی زیادہ ہوگا۔ شریف خاندان صرف نوازشریف کا نام نہیں ہے ،ان کے بھائی ، بہن اور بچے سب شریف خاندان ہیں۔
انھوں نے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اور میرے خاندان نے پہلے ہی بڑی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ میرے بیٹے کو 2 سال کی عمر میں تھانوں اور جیلوں میں جانا پڑا۔ آج تک اس کے ذہن سے وہ نقوش نہیں مٹ سکے۔ میری والدہ اور خاندان کی خواتین کے ساتھ جوکچھ ہوا اس پر کسی نے آج تک ہم سے ہمدردی نہیں جتائی۔ پرویز مشرف اس معاملے میں خود آن ریکارڈ ہیں کہ میرے پاس شریف فیملی کے خلاف کوئی ثبوت یا کوئی ایسا کیس نہیں جو ان کا تعلق کرپشن سے جوڑتا ہو۔
حسین نواز نے انتہائی مدلل انداز سے اپنی پوزیشن واضح کی کہ وہ پاکستان میں برسوں موجود ہی نہیں ہیں تو ٹیکس چوری یا کرپشن کے الزامات کی کوئی حقیقت دکھائی نہیں دیتی اور اگر واقعی کسی کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ برطانیہ جا کر ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کرائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے لیکن اپوزیشن محض تنقید برائے تنقید کے اصول پر کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ اسی حوالے سے وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا ہے۔
مریم نوازشریف نے پاناما لیکس کے انکشافات کے حوالے سے واضح موقف اختیار کیا ہے کہ ان کی بیرون ملک کوئی کمپنی یا جائیداد نہیں بلکہ ان کے بھائی نے انھیں ایک کمپنی میں ٹرسٹی بنایا ہے جس کے تحت ضرورت کے وقت مجھے اپنے بھائی حسین کے بچوں میں اثاثے تقسیم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ انھوں نے شکوہ کیا کہ بعض ٹی وی چینلز حقائق کو جان بوجھ کر توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں۔
اس نان ایشو پر اپوزیشن نے اس قدر شور مچایا کہ وزیر اعظم محمد نوازشریف کو قوم سے خطاب کرنا پڑا اور اپنی اور اپنے خاندان کی پوزیشن واضح کرنی پڑی۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ لوگ سیاسی مقاصد کے لیے انھیں اور ان کے خاندان کو نشانہ بنا رہے ہیں جب کہ ہم نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو ہم پر واجب نہیں تھے۔
1999 میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد 14 ماہ تک ہمیں جیلوں میں ڈالے رکھا گیا۔ ہمارے کاروبارکو ایک بار پھر مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔ یہاں تک کہ ماڈل ٹاؤن میں ہمارا آبائی گھر بھی چھین لیا گیا۔ حکومتی مشینری نے ہمارے کاروبار،بینک کھاتوں، صنعتی یونٹس اور دیگر معاملات کا بے رحمانہ احتساب کیا،کسی بھی عدالت میں ہمارے خلاف کوئی الزام ثابت نہ کیا جاسکا۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں نے وطن عزیزکو اندھیروں سے پاک کرنے اور تعمیروترقی کی نئی بلندیوں کی طرف لے جانے کا عہد کر رکھا ہے۔ پاک چائنا کوریڈور کے بعد یہ ملک ترقی کی طرف گامزن ہے اور ضرب عضب اور کراچی ٹارگٹڈ آپریشن سے امن بحال ہوا ہے۔ توانائی بحران ختم ہونے جارہا ہے۔ معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ عمران خان کو 2018 تک انتظارکرنا چاہیے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی عمران خان نے کافی سخت موقف اختیارکیا اور شوکت خانم اسپتال کے حوالے سے وضاحتیں بھی پیش کیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کو اپنی سوچ میں انتہاپسندی کے بجائے میانہ روی اور جمہوری رویے کواختیار کرنا چاہیے، جب وزیراعظم پاکستان نے پانامہ لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کردیا ہے تو پھر شور شرابے کی اور الزام برائے الزام کی روایت کو کوئی بھی شخص اچھا نہیں کہہ سکتا ۔ انھیں چاہیے کہ وہ جمہوری سسٹم کو بچانے کے لیے اپناکردار ادا کریں اور جوڈیشل کمیشن میں پیش ہوکر اپنا موقف اور دستاویزی ثبوت پیش کریں تاکہ حقیقی صورتحال واضح ہوسکے۔