عورتوں کی بھی شنوائی ہوئی
پاکستان بننے سے پہلے جب چارلس نیپیئر نے سندھ کے گورنر کا حلف اٹھایا
پاکستان بننے سے پہلے جب چارلس نیپیئر نے سندھ کے گورنر کا حلف اٹھایا، تواس وقت تک اس کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ کراچی اور سندھ کے مرد معمولی معمولی باتوں پر بھی اپنی عورتوں پر تشدد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا کرتے ہیں اور مظلوم عورت کی موت کوخودکشی ثابت کرکے سزاؤں سے بچ جایا کرتے ہیں ۔
یہ صورتحال دیکھ کرگورنر سندھ چارلس نیپیئر نے ہر جگہ اعلان کروادیا کہ اگر آیندہ کسی بھی علاقے میں کوئی عورت قتل ہوئی یا اس کے ساتھ کوئی ظلم ہوا تو اس عورت کے گاؤں کی پوری آبادی کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا اور حکومت مقتول عورت کے تمام رشتے داروں کوکراچی میں اکٹھا کرکے وہ دن ان کے لیے عذاب کا دن بنا دے گی۔ اس اعلان کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورتوں پر ظلم ہونے کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہوگئے تھے ۔
24 فروری 2016 کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک یادگار دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف جرأت مند فیصلوں کے باعث ایک ہر دلعزیز انسان ہیں انھوں نے ویمن پروٹیکشن بل کو پنجاب اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور کروا کر ایک ایکٹ کی صورت میں نافذ کردیا۔ پہلے زمانے میں لڑکیوں کو زندہ دفنا دیا جاتا تھا جب کہ آج کے دور میں اس کو دفنایا تو نہیں جاتا لیکن زندہ رہنے بھی نہیں دیا جاتا۔ عورت کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو وہ فطرتاً گھر بنانے والی اور آرام دہ گھریلو زندگی بسر کرنے کی متمنی ہوتی ہے۔ ویمن پروٹیکشن بل کے نافذ کرنے کی وجہ سے اب پاکستانی عورت پر ظلم کرنا آسان نہیں ہوگا اور ظلم کرنے والوں کو جرمانے اور قید کی سزائیں بھی ملیں گی۔
پاکستان کا معاشرہ مردوں کی احساس برتری کے نشے میں چُور رہنے والوں کا معاشرہ ہے جہاں عورتوں کا ہر طرح سے استحصال کیا جاتا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو عورتوں کا سب سے زیادہ استحصال جنرل ضیا الحق کے دور میں کیا گیا۔ سابق صدر جنرل ضیا الحق نے ایک حکم نامے کے ذریعے پارلیمنٹ سے حدود آرڈیننس کا قانون منظور کروالیا تھا جو عورتوں کے حق میں بدترین ثابت ہوا تھا۔ یہ قانون کہنے کو تو عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے خلاف سزائیں دینے پر مبنی تھا لیکن درحقیقت اس قانون کا سب سے زیادہ غلط استعمال مردوں نے ہی کیا تھا۔
اس قانون کے غلط استعمال سے صرف زیادتی کا نشانہ بننے والی ایک عورت ہی متاثر نہیں ہوتی تھی بلکہ متاثرہ عورت کا پورا خاندان عذاب میں آجاتا تھا۔ حدود کے اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ ان بدقماش آدمیوں نے خوب اٹھایا جن کی بات کوئی عورت نہ مانتی تو وہ جھوٹی گواہیاں دلوا کر ان عورتوں کو جیل میں ڈلوا دیتے تھے غلط الزامات پر عورتوں کو تو قید ہوجاتی تھی اور جب یہ عورتیں سزا کاٹ کر جیل سے باہر نکلتیں تو معاشرہ ان کا بائیکاٹ کردیتا تھا۔
حدود آرڈیننس کی زد میں آنے والی خواتین کی اکثریت کا تعلق انتہائی غریب طبقے سے تھا، ذاتی دشمنیاں اور دوسرے مقاصد کے لیے ان قوانین کی آڑ میں مردوں نے عورتوں کی زندگیاں اجیرن کی تھیں۔ ایوب خان کے دور میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات اور عورتوں پر تشدد اور تیزاب گردی کے واقعات نہ ہونے کے قریب تھے۔
یکم مئی 1999 میں نواز شریف حکومت میں سینیٹ میں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل و تشدد کے مسئلے پر ایک قرارداد پیش کی گئی تھی جو غیر متعلقہ بحث کی نذر ہوگئی تھی اس کے بعد پھر اگست 1999 میں جب دوبارہ یہ قرارداد پیش کی گئی تو خاندانی عزت کا مسئلہ قرار دے کر اس پر بحث کو ہی روک دیا گیا تھا۔
8 مارچ 2002 میں غیرت کے نام پر قتل کو قتل قرار دینے کا اعلان سابق صدر پرویز مشرف نے کیا اور اس کے علاوہ خواتین کے حقوق کی پالیسی کا بھی کھل کر اعلان کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ان کی خواتین کے حق میں بنائی گئی پالیسیوں کے تحت غیرت اورکاروکاری کے نام پر قتل کے واقعات کو قتل ہی سمجھا جائے گا۔ 2004 میں سابق صدر پرویز مشرف نے غیرت کے نام پر قتل کے خاتمے اور پابندی کے لیے قانون پاس کرنے پر زور دیا ۔ سابق صدر پرویز مشرف اس لحاظ سے مبارکباد کے مستحق تھے کہ انھوں نے عورتوں کے اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ کر اس میں ترامیم لانے کی بات کی تھی۔
2009 میں پی پی پی کی یاسمین رحمن نے گھریلو تشدد کے خاتمے کا بل پیش کیا تھا مگر دو تہائی اکثریت نہ ہونے اور بعض حضرات کی مخالفت کی وجہ سے اس بل کو عملی شکل نہ دی جاسکی ۔
2011 سے 2013 تک خواتین پر تشدد کے متعدد بل پیش ہوئے مگر سینیٹ نے منظوری نہ دی۔ اس معاشرے میں عورت کا شرعی حق محض خاندانوں میں جائیداد کے بٹوارے کے خوف سے ہضم کرنے جیسی قبیح فرسودہ اور غیر شرعی رسم صدیوں سے رائج ہے، ایسا معاشرہ کبھی بھی عورت کو تحفظ نہیں دے سکتا۔
عورتوں کے حقوق پر ڈنکے کی چوٹ پر بات کرنے والے سندھ کے ممتاز روحانی پیشوا جناب سید مردان شاہ پیر پگاڑہ کی آج بھی پاکستان میں بہت تعظیم کی جاتی ہے جنھوں نے اپنے ہزاروں عقیدت مندوں کو عورتوں سے حسن سلوک کرنے کے درس دیے اور ان کے نصیحت و وعظ کو سندھ کے ان پڑھ لوگوں نے عملی طور پر اس لیے قبول کیا کہ انھوں نے دیکھا کہ پیر صاحب پگاڑہ نے اپنے خاندان کی عورتوں کو تعلیم دلوائی اور اپنی بیٹیوں کی شادی بھی ان کی مرضی سے ہی طے کی تھیں۔
عورتوں کی حق تلفی کرنے میں وڈیرے جاگیردار ملا برادری کے ساتھ ساتھ مرد ایم پی ایز بھی شامل ہوتے ہیں جب بھی کوئی بل حقوق نسواں پر پیش ہوتا ہے تو یہی حضرات اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہیں۔ ویمن پروٹیکشن بل کی سب سے زیادہ مخالفت مذہبی جماعتوں نے کی ہے۔ اسی طرح اس ایکٹ کو چیلنج کردیا گیا ہے۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ عورتوں کی عزت اور تحفظ کے لیے عوام میں شعور بیدار کریں کیونکہ عورتوں پر مختلف طریقوں سے انسانیت سوز تشدد کے واقعات حکومت اور انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ حکومت ایسے قانون بنا ہی ڈالے جوکہ عورتوں کو تحفظ کا احساس دلائے اور قصاص کے تحت تیزاب گردی جیسے بدترین ظلم کرنے والے مرد کو بھی اسی طرح تیزاب سے جلائے جانے کی سزا رکھی جائے تو شاید تیزاب گردی جیسا بدترین واقعہ پھر نہ ہو۔ زیادتی کرنے والے مرد کو عدالتی حکم پر جنسی طور پر غیر فعال کردیا جائے جب اس قسم کی سزائیں ظالموں کو ملنے لگیں گی تو خود بخود عورتیں درندوں سے محفوظ ہوجائیں گی اورگھریلو تشدد میں بھی کمی آئے گی۔
ایسے کیسز میں مفت قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے اقدامات کریں تاکہ قانونی جنگ سے ہی ایسے ظالم افراد کا احتساب کیا جائے اور حکومت کو ویمن پروٹیکشن بل کے معاملے میں کسی کے آگے بلیک میل ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عورتوں کے حق میں اس بل کو عوام نے بہت سراہا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ ضیا الحق دور کے بنائے گئے حدودآرڈیننس، قانون شہادت، قصاص دیت اور شریعت ایکٹ کو ختم کردے ان قوانین کی موجودگی میں سماجی انصاف، امن کے مساوی مواقعے اور انسانی حقوق کا حصول عورت ذات کے لیے ناممکن ہے۔ حکومت کو عورتوں کے دشمنوں کے خلاف سخت قوانین بنانے چاہئیں اور کسی بااثر ظالم کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہ کی جائے اور اس بہترین ایکٹ کو پورے پاکستان پر عملی طور پر نافذ کردینا چاہیے۔