دنیا کا دوسرا قدیم ترین جنگل معدومی کے خطرہ کا شکار
بلوچستان میں پانچ سے سات ہزار سال پرانے جونیپر کے درخت موجود ہیں
قدیم انسانی تاریخ میں انسان کا تعلق جنگل سے اتنا ہی گہرا تھا کہ جتنا کہ آج اُس کا شہروں سے ہے۔ یہ جنگل ہی تھے جو اُسے پیٹ بھرنے کے لیے خوراک، سر چھپانے کے لئے سائبان ، جسم ڈھانپنے کے لیے اوڑھیناں،بیمار پڑنے پر ادویاتی پودے ،محظوظ ہونے کے لیے قدرتی نظارے، صحت مند رہنے کے لیے تازہ آب وہوا اور سماجی میل ملاپ کے لئے ماحول اور جگہ فراہم کرتے تھے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی بودوباش کے ارتقائی سفر نے اسے جنگلوں سے نکال کردریاؤں کے کنارے میدانوں میں آباد کرنا شروع کردیا یوں اُس کا جنگل سے صدیوں سے قائم ناطہ کمزور پڑنا شروع ہوا اور وہ قدرت کی اس عظیم فیاضی کی اہمیت سے لا تعلق سا ہوتا چلا گیا ۔ یوں کرہ ارض پر حیاتیاتی زندگی کا ضامن '' شجر '' آج ماضی کے مقابلے میں زیادہ شدت سے انسانی ضروریات کی نذر ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو شہروں اور کھیتوں کی توسیع کی راہ میں آنے والے ہر پیڑ کو کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تو دوسری جانب لکڑی کی دن بدن بڑھتی ہوئی مانگ اس تحفہ قدرت کے وجود کے در پے ہے۔
توسیع اور ضرورت کے ان رجحانات کے باعث آج زمین تیزی سے بے شجر ہورہی ہے۔ اس تیز تر شجر کٹائی کے باعث آج دنیا بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی لپیٹ میں ہے جس سے کرہ ارض پر موسمیاتی تغیرات کاایک ایسا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس نے ویرانوں کو نخلستانوں اور نخلستانوں کو ویرانوں میں تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔
کہیں بارشیں سیلابوں کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہیں تو کہیں انسانیت قطرہ قطرہ ابر رحمت کے لئے دعا گو ہے ،کہیں سردیوں کے شب روز میں اضافہ اورتبدیلی واقع ہو رہی ہے تو کہیں انسان کو جھلسا دینے والی حرارت کا دورانیہ تبدیل اور طویل ہوتا جارہا ہے اور سطح سمندر میں اضافے کی نوید بھی سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہے۔
درخت بنی نوع انسان کیلئے خداوند کریم کا سب سے بڑا تحفہ ہے یہ ناصرف ایک نعمت ہے بلکہ ایک ایسی نادر چیز ہے جو ایک طرف تو اپنے وجود سے انسانی اور دیگر حیاتیاتی زندگی کی ضروریات پوری کرتا ہے تو دوسری طرف ماحول کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن کرہ ارض پر بسنے والی زندگی اور ماحول کا دوست درخت اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود کلہاڑیوں کی ضربوں اور آریوں کی تھر تھر اہٹ کی نذر ہو رہے ہیں۔
درختوں کی اہمیت سے آگاہ وہ ممالک جنہوں نے درختو ں کی حفاظت کے خیال کو مد نظر رکھا آج حقیقی طور پر خوشحال ممالک کہلاتے ہیں کیوںکہ انہوں نے اپنے آپ کو درختوں کی کمی کے باعث آنے والی قدرتی آفات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات سے کسی حد تک محفوظ رکھا ہوا ہے جبکہ اس کے برعکس وہ ممالک جو اپنے اس سرمائے کو ضائع کرنے کے درپے ہیں اس خسارے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں یا بھگتنے والے ہیں۔
پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو اس قیمتی اثاثہ کی عدم حفاظت کے باعث تیزی سے مسائل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اورصوبہ بلوچستان تو جنگلات کے حوالے سے شدید کمیابی کا شکار ہے۔ صوبے کا صرف 1.7 فیصد رقبہ جنگلات کے زیر سایہ ہے جن میں نمایاںجنگلات جونیپر کے ہیں۔ یہ جنگلات پانچویں مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق صوبے کے چھ اضلاع زیارت ، لورالائی ، قلعہ سیف اﷲ ، پشین ، کوئٹہ اور قلات کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
لیکن یہ امر قابل حیرت ہے کہ آج تک ان جنگلات کے کسی ایک متوفق رقبے پر اتفاق نہیں ہوسکا اور مختلف ماہرین نے جونیپر کے جنگلات کی مختلف پیمائش بتائی ہے۔ 1955ء کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبے میں جونیپر کے جنگلات کا رقبہ 200 مربع میل ( ایک لاکھ 28ہزار ایکڑ ) بتایا گیا ہے جبکہ 1968 کی ایک رپورٹ میں اسے 3 لاکھ 29 ہزار ایکڑ اور 1981ء میں 2لاکھ پچاس ہزارا یکڑ بتایا گیا ہے۔ 1997ء کی ایک رپورٹ میں بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کا رقبہ ایک لاکھ 41 ہزار ایکڑ بتایا گیا ہے۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ بلوچستان کے ان قدیم شہرہ آفاق جنگلات کے حوالے سے تحقیق کی صورتحال بہت محدود اور پرانی ہے اور اعداد وشمار میں یکسانیت کا فقدان ہے جو سرکاری اور غیر سرکاری اداروں جو ماحول کی بہتری اور قدرتی وسائل کی حفاظت کے سلسلے میں سرگرم عمل ہیں کے لئے توجہ طلب پہلو ہے۔ بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات دو پہاڑ ی سلسلوں پر پائے جاتے ہیں جن میںتوبہ کاکڑ اوروسطی براہوئی رینج شامل ہیں۔ توبہ کاکڑ رینج کا سلسلہ کوہ سفید سے نکلتا ہے جو افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف ژوب اور پشین کے علاقوں میں ہے یہ سلسلہ ہمالیہ کاحصہ ہے۔
توبہ کاکڑ رینج کے بالائی حصے پر جونیپر کے جنگلات ہیں جو ضلع قلعہ سیف اﷲ اور پشین کے درمیان ہے۔ اسی طرح وسطی براہوئی رینج کا سلسلہ متوازی پہاڑوں پر مشتمل ہے جوکوئٹہ کے شمال سے ہوتا ہوا قلات کی جنوب کی طرف جاتا ہے اسی سلسلے میں تنگ وادیاں ہیں اور صوبے کی تمام اونچی چوٹیاں بھی اسی سلسلے کا حصہ ہیں جن میں خلیفت ، زرغون ، تکاتو ، کوہ ماران اور ہر بوئی شامل ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے پر زیادہ جونیپر کے جنگلات ہیں۔
آئی یو سی این کی رپورٹ جو نیپر فارسٹ ان بلوچستان پاکستان کے مطابق جونیپر کی دنیا میں 25 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے 4 پاکستان اورانڈیا میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر پائی جاتی ہیں اور ان میں سے ایک جنوب کی طرف بلوچستان میں ہے۔ ایکسیلسا (EXCELSA) جونیپر کے جنگلات بنیادی طور پر بلوچستان میں پائے جاتے ہیں لیکن نیپال میں بھی جونیپر کی یہ قسم موجود ہے۔ پاکستان کے علاوہ افغانستان ، ایران ، مسقط ، شام ، ترکی ، روس (بلقان ریاستیں ، آرمینیا وغیرہ ) یونان ، یوگو سلاویہ ، امریکا ' میکسیکو ' سوئٹزر لینڈ میں بھی جونیپر کے جنگلات پائے جاتے ہیں جبکہ ایک اور رپورٹ میں جونیپر کی 54 اقسام کا ذکرکیاگیا ہے اورپاکستان میں جونیپر کی چھ اقسام بیان کی گئی ہیں۔
بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کا سب سے بڑا ٹکڑا زیارت کے ارد گر د موجود ہے جو مردم شماری رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ 25ہزار2 سو ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے۔ یہ رقبہ کے حوالے سے پاکستان کا سب سے بڑا جونیپر کا جنگل ہے اور دنیا میں کیلیفورنیا کے بعد دوسرا قدیم ترین جنگل ہے۔ اسی طرح ملکی سطح پر زرغون کے علاقے میں دوسرا اور ہربوئی قلات کے مقام پر تیسرابڑا جونیپرکا جنگل ہے۔ بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کی قسم کے حوالے سے یہ دنیا کاسب سے بڑا ٹکڑا ہے اگرچہ یہ قسم کرم ایجنسی اور پاکستان کے شمالی حصوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اس کے قطعے بہت چھوٹے ہیں۔
جونیپر کے درخت سطح سمندر سے 7 سے 8 ہزار فٹ کی بلندی میں کم نمی کے حامل علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں اوسطاً سالانہ بارش کا تناسب 200 سے 400 ملی میٹر ہو۔ بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات بنیادی طور پر TYPE OPEN ہیں درخت بکھرے ہوئے اور نر اورمادہ ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں اوسطً دونوں صنفی اقسام کے درختوں کی فی ہیکٹر تعداد 28 ہے۔ جونیپر کے جنگلات کا شمار اپنی آہستہ افزائش کے باعث دنیا کے قدیم ترین جنگلات میں ہوتا ہے۔ جونیپر کا درخت سال میں اوسطً25ملی میٹر لمبائی اورایک ملی میٹر چوڑائی میںبڑھتا ہے ۔ علاقے میں آج بھی ایسے درخت موجود ہیں جن کی عمر پانچ سے سات ہزار سال پر محیط ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
جونیپر کے یہ عمر رسیدہ درخت ماضی میں زمین کی آب وہوا اور ماحول کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہیں۔ اوریہ ایک "Living fossils" کی حیثیت رکھتے ہیں۔بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کی اہمیت عالمی حوالے سے یہ ہے کہ جونیپر کی قسم EXCELSA POLYCARDOSکی سب سے بڑی تعداد دنیا میں یہاں پائی جاتی ہے۔ اسی لئے اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کی انٹرنیشنل کورآرڈینیٹنگ کونسل کے Man and the Biosphere Programme کے تحت زیارت کے جونیپر فارسٹ کو Biosphere reserve کے طور پر World Network of Biosphere Reserves کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔
کیونکہ نیشنل کنزرویشن سٹرٹیجی کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ خطرات کا شکار ایکو سسٹم جونیپر کے جنگلات کا ہے اور اس کا تعلق پودوں' جانوروں اور پرندوں کی ایک وسیع تعداد سے ہے۔ آب وہوا میںتبدیلی کے محرک کاربن کو فضاء سے علیحدہ کرنے کے عمل کے حوالے سے اس کاایک موثر کردار ہے۔ صحرائیت اور بنجرزدگی کی روک تھام کے حوالے سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے ۔ معاشی اہمیت کا حامل' طبی ودیگر پودوں کی افزائش کے حوالے سے' ملکی اور غیر ملکی سیاحت اور عالمی ورثہ قرار پانے کے حوالے سے ہر ممکن اہلیت رکھتا ہے۔
اسی طرح قومی' صوبائی اور مقامی سطح پر جونیپر کے جنگلات کوجو اہمیت حاصل ہے اس کا بیان یوں کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے محدود پیمانے کے جنگلات میں سے ایک ایکو سسٹم ہے۔ نیم خشک پہاڑی سلسلوں میں پایا جاتا ہے جہاں آب وہواقدرے خشک ہوتی ہے۔ اگرچہ جونیپر افزائش کے اعتبار سے کم رفتار کاحامل درخت ہے اس کے باوجود متعلقہ جگہ کے حوالے سے موزوں ترین قسم ہے یہ ایک اہم واٹر شیڈ ہے جہاں سے باغوں ' کھیتوں کو مقامی سطح پر پانی حاصل ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دیگر خشک علاقوں میں بھی یہ پانی کی ایک وجہ ہیں۔
ہوا میں نمی کی مقدار کو بڑھانا اور خشکی کے تناسب کو کم کرنا، زمین کو کٹاؤ سے محفوظ رکھنا ، ان کا استعمال ایندھن کیلئے گھروں اور کھیتوں و باغات کے گرد باڑوں اور عمارتی تعمیر کے لئے لکڑی کی فراہمی کے حوالے سے نمایاں ہے۔ جنگلی جانوروں کے شکار اور مقامی سیاحت کے فروغ میں بھی ان کا کردار نمایاں ہے۔
جونیپر کے جنگلات کا ا گر ہم دانشمندانہ استعمال کرتے ہیں اور اس کی حفاظت کیلئے کوششیں کرتے ہیں تو اس طرح کرنے سے ہم بہت سے بین الا قوامی کنونشنز پر عملدرآمد بھی کر رہے ہوتے ہیں جن میں بائیو ڈائیورسٹی کنونشن، ورلڈ ہیرٹیج کنونشن ، صحرائیت اور بنجرپن کی روک تھام کا کنونشن ،آب وہوا میں تبدیلی کا کنونشن، قدرتی آبی ذخیرہ گاہوں کے واٹر شیڈ کا کنونشن (رمسر کنونشن ) فارسٹ پرنسپلز یہ وہ تمام بین الا قوامی کنونشن ہیں جن پرہم جونیپر کے تحفظ کی کوششوں کی صورت میں براہ راست عملدرآمد کر رہے ہوتے ہیں۔ جونیپر کے جنگلات کا تحفظ مقامی معیشت ، انسانی ماحول کی بقاء کیلئے ضروری ہے۔
لیکن بلوچستان میں جنگلات کی دیگر اقسام کی کمی کے باعث جونیپر کے جنگلات پر انسانی اورحیوانی ضروریات کا دباؤ زیادہ ہے اور جونیپر کے جنگلات کاکثرت سے استعمال (لکڑی اور چراگاہوں کے حوالے سے ) زمین کی غیر دانشمندانہ ترقی، قدرتی بیماریوں،قدرتی طور پر جونیپر کے درخت کے بیچ میں افزائش نسل کی صلاحیت کاکم ہونا اور خشک سالی نے جونیپر کے جنگلات کی بقاء کو خطرے سے دو چار کردیا ہے۔ محکمہ مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق جونیپر کے جنگلات کے حامل چھ اضلاع کی آبادی میں 1988 سے 2014ء تک 59.68 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور یہ بڑھ کر 30لاکھ 18ہزارسے تجاوزکرچکی ہے۔
صوبے کی 29 فیصد آبادی ان چھ اضلاع میں موجود ہے اور ان اضلاع میں اوسط فی مربع کلومیٹر آبادی 86 افراد پرمشتمل ہے جبکہ صوبے کی سطح پر فی مربع کلومیٹر آبادی کی تعداد30 ہے یعنی جونیپر کے جنگلات کے حامل اضلاع میں آبادی کے دباؤ کا اندازہ ان اعداد وشمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں کوئٹہ ، زیارت ، لورالائی ، قلعہ سیف اﷲ ، پشین اور قلات کے اضلاع کے تقریباً64 فیصد گھروں میں لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔
1966 اور بلوچستان فارسٹ ترمیم ایکٹ 1974ء کے مطابق جونیپر کے درخت کی کٹائی ممنوع ہے جبکہ ٹوٹی ہوئی مردہ شاخوں کو اکٹھاکرنے کی اجازت ہے لیکن ان قوانین کے باوجود سالانہ سینکڑوں درخت چوری چھپے کاٹ لئے جاتے ہیں جس کے باعث بلوچستان اپنے اس قیمتی ورثے سے رفتہ رفتہ محروم ہوتا جارہا ہے۔ بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کی ایک رپورٹ کے مطابق جونیپر کے جنگلات کے علاقوں میں رہنے والے فی گھر کو اوسطً سالانہ 36 سے 120 من لکڑی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور کھانا پکانے، ہیٹنگ اور دیگر استعمال کیلئے لکڑی کی زیادہ تر ضرورت جونیپر کے جنگلات سے ہی پوری کی جاتی ہے۔
مقامی آبادی کے علاوہ ایک اور اضافی بوجھ جو جونیپر کے جنگلات برداشت کر رہے ہیں وہ افغان مہاجرین اوران کے مال مویشیوں کے کثیر تعداد ہے جو اپنی اور اپنے جانوروں کی ضروریات بھی جونیپر کے جنگلات سے ہی پوری کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے اورایشین ڈویلپمنٹ بینک کے اشتراک سے بنائے گئے بلوچستان کے فارسٹری سیکٹر ماسٹر پلان کے مطابق'' بلوچستان کی دیہی آبادی کیلئے توانائی کی ضرورت کی تکمیل کیلئے جنگلات کی لکڑیاں مفت ہیں وہ دوسری لکڑیاں یا دیگر ذرائع کے استعمال میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں'' جس کی ایک وجہ شاید علاقے میںموجود غربت بھی ہے جو کہ جونیپر کے جنگلات میں رہنے والے اور اس پر منحصر دیگر آبادی میں نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
اس غربت کی شدت کا اندازہ ورلڈ بینک کی رپورٹ پاکستان سے معاونت کی حکمت عملی مالی سال 2005-2003 کے ان اعداد وشمار سے کچھ حد تک لگایا جاسکتا ہے۔ کہ بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کے حامل اضلاع ما سوائے لورالائی کے باقی پانچوں اضلاع کی تقریباً24 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے جس کے باعث ان کا قدرتی وسائل کے استعمال پر انحصار قدرے زیادہ ہے اس غربت کے باعث کیا وہ دیگر ذرائع کا استعمال کرسکیں گے؟ یہ ایک قابل غور پہلو ہے۔
اگرچہ کوئٹہ، زیارت، قلات اور پشین کے اضلاع میں قدرتی گیس فراہم کی جا چکی ہے۔ لیکن یہ صرف زیادہ تر ضلعی ہیڈکواٹرز تک ہی محدود ہے جس سے ان جنگلات پر ایندھن کیلئے انسانی دباؤ میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے لیکن جونیپر کے جنگلات میں بکھری ہوئی آبادی اس سے مستفید نہیں ہوسکے گی اور جونیپر کے جنگلات کی کٹائی کاسلسلہ چوری چپکے جاری رہے گا اور زمین یوں ہی بے شجر ہوتی رہے گی۔
اور اس پر یہ کہ جونیپر کے جنگلات کی افزائش کی رفتار بھی نہایت سست ہے کیونکہ جونیپر کے جنگلات کے بیجوں کا 90 فیصد افزائش نسل کے حوالے سے موزوں نہیں ہے اور جو موزوں ہیں تو ان میں افزائش نسل کی صلاحیت بہت کم ہے اور ایک فیصد سے بھی کم جونیپر کے بیج اچھی حالت میں ہیں۔ بیجوں کی خالی تعداد کی کثرت کی وجہ جونیپر کے درخت کی پولن ( افزائش نسل کے اجسام پوڈر کی صورت میں ) کی کم مقدار ہے۔
جونیپر کے درخت کی پولن کی مقدار بہت کم فاصلے تک جاتی ہے اور بہت سی اپنے ماخذ درخت سے 30 میٹر کے ایریا میں ہی گر جاتی ہے ۔ جونیپر کے درخت کی پولن کے جو اوسط فاصلے کاتعین کیا گیا ہے وہ اپنے ماخذ درخت سے 16.1 میٹر ہے، علاوہ ازیں جونیپر کے ننھے پودوں کی بقاء کی شرح بھی بہت کم ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں جانوروں کا ان جنگلات میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے چرنا قابل ذکر ہے۔ لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ بلوچستان کی جنوری 2015 ء کی ایک ویب ڈاکومنٹ کے مطابق بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کے حامل اضلاع میں بھیڑ بکریوںکی تعداد 81 لاکھ 19 ہزار6 سو سے زائد ہے جو انسانی آبادی سے بھی زائد ہے اور ان جانوروں کی خوراک کا تقریباً تمام تر دارومدار جونیپر کے جنگلات اور اس سے ملحقہ چراہ گاہوں پر ہے۔
یہ جانور جونیپرکے ننھے پودوں کو بھی کھا جاتے ہیں اس کے علاوہ یہ جانور جونیپر کے جنگلات میں موجود نباتاتی غلاف کو بھی تیزی سے کم کرتے جا رہے ہیں جس کے باعث جنگلات میں زمینی کٹاؤ کا عمل شروع ہو چکا ہے اور اس نباتاتی غلاف کی دن بدن کم ہوتی ہوئی تہہ کے باعث خشک سالی کے اثرات نمایاں ہونے شروع ہوگئے ہیں کیونکہ یہ نباتاتی غلاف ایک طرف بارش کا موجب بنتے ہیں تو دوسری طرف بارشوں کے پانی کو بہنے نہیں دیتے بلکہ اس پانی کی زمین میں سرائیت کا معقول اہتمام بھی کرتے ہیں اور زمین کی زرخیز مٹی کو باندھے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح برقرار رہتی ہے اور جنگلات کو پانی میسر آتا رہتا ہے اور علاقے میںموجود باغات کو بھی جو وہاں کے عوام کے معاش کا ایک اہم ذریعہ اور معیار زندگی میں بہتری کا ایک نمایاں وسیلہ ہیں ۔
اس قدرتی نظام میں انسانی عمل دخل کے باعث آنے والی تبدیلی کاایک بنیادی اشارہ خشک سالی ہے جو آج بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے کیونکہ قبل ازیں سال میں تقریباً تین سے چار مہینے جونیپر کے اکثر علاقوں میں برف موجود رہتی تھی اور اس برف کی تہہ میں ننھے پودے جانوروں کی پہنچ سے دور رہتے تھے اس طرح قدرتی طورپر متبادل کا اہتمام ہوتا رہتاتھا لیکن خشک سالی کے باعث جانوروں کا دباؤ جنگل پر زیادہ ہوگیا اور سال کے بارہ مہینے جنگلات تک ان کی رسائی رہتی ہے جس کے باعث جونیپر کے جنگلات کی افزائش کا عمل شدید متاثر ہو رہا ہے اور جونیپر کے چھوٹے پودے جانوروںکی خوراک کی نذر ہو رہے ہیں جس کے باعث جنگلات میں درختوں کی اکثریت بوڑھے درختوںپر مشتمل ہے جو موسم کی سختیوں سے ماورا انسانوں کی خدمت کیلئے موجود ہیں۔
لیکن انسان موسموں کی ان سختیوں کو درختوں کے مقابلے میں زیادہ عرصہ تک نہیں جھیل سکتا وہ سردیوں میںان ہی درختوں سے حاصل ہونے والی لکڑی سے اپنے آپ کو حرارت پہنچاتا ہے اور جھلسا دینے والی دھوپ میں ان ہی درختوں کے نیچے ٹھنڈی چھاؤں میں خواب خرگوش کے مزے لیتا ہے۔ سردیوں میں اس کا سلوک درختوں سے وحشت ناک ہوتا ہے اور گرمیوں میں محبت بھرا۔ انسان کے اس وحشت ناک سلوک کی ایک وجہ وہ ٹھٹھرتا ہوا موسم ہے جس میں حیوان اورانسان حرارت کی تلاش میں رہتا ہے۔ جونیپر کے اضلاع میں موسم سرما کا دورانیہ تقریباً6 مہینے پر مشتمل ہوتا ہے اوران چھ میں سے چار مہینوں میں اوسط درجہ حرارت عموماً نقطہ انجماد سے بھی نیچے رہتا ہے (ماسوائے لورالائی ) جس کے باعث درخت اورلکڑی انسانی وجود کو حرارت کی ضرورت کے پیش نظر نذر آتش کی جاتی ہے۔
لیکن جب موسم ہو خشک سالی کا تو پھر انسان ہر لحاظ سے بے بس ہو جاتا ہے اور ایسے علاقے جو پہلے ہی خشک آب وہوا کے خطہ میں آتے ہوں وہاں مزید خشکی زندگی پر عرصہ حیات تن کردیتی ہے۔ بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کے حامل اضلاع میں اگر ہم بارش کی سالانہ اوسط تناسب جو خشک سالی سے قبل تھی کاجائزہ لیں تو 1960 سے 1990ء تک کے اعداد وشمار کے مطابق مذکورہ عرصے میںسالانہ اوسط بارش کا تناسب ہر ضلع میں (ماسوائے لورالائی)260 ملی میٹر سے کچھ زائد تھا جبکہ لورالائی میں یہ تناسب 398 ملی میٹر سے کچھ زائدتھا اس کم تر بارش کے حامل اضلاع میں خشک سالی کے بڑھتے ہوئے عفریت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کردیا اور لوگوں کا اپنی ضروریات ( جن میں کھیتوں 'باغات اور جانوروں کے لئے پانی کی ضرورت بھی شامل ہے ) کیلئے پانی کا تمام تر دارومدار زیر زمین پانی کے ذرائع کی طرف ہونا شروع ہوگیا۔
جس کے باعث زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گرنا شروع ہوگئی ۔ کیونکہ بارشوں کی کم اور سطح زمین پرنباتاتی غلاف کی تہہ میں کمی کی وجہ سے جو تھوڑی بہت بارشیں ہوتی بھی ہیں تو ان کا پانی بغیر کسی رکاوٹ کے بے مصرف بہہ جاتا ہے جس کے باعث دیگر حیات کے علاوہ جنگلات بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ نہ تو انہیںسطح زمین پر اتنا پانی مل رہا ہے کہ وہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں اور نہ ہی زیر زمین سے جس کی وجہ سے جنگلات تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں اوران کا ایکو سسٹم بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ جونیپرکے جنگلات کے کیس میں یہ تمام باتیںمعروضی حقائق پرمشتمل ہیں ۔
کیونکہ یہ جنگلات آہستہ آہستہ خشک ہونا شروع ہو چکے ہیں جو درخت سالہا سال ہرے بھرے رہتے تھے وہ اب زرد ہونا شروع ہوچکے ہیں اور ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا جا رہا ہے اور اب ان میں شاید ہی اتنی سکت ہو کہ وہ کسی اور نا گہانی آفت کو برداشت کرسکیں کیونکہ دیگر آفات کو برداشت نہ کرنے کی سکت کی ایک وجہ جونیپرکے جنگلات کو لاحق ایک ایسی بیماری بھی ہے جوگھن کی طرح ان کے وجود کو چاٹ رہی ہے۔
مسل ٹو نامی اس بیماری کے بارے میںماہر نباتات ڈاکٹر عطا محمد سارنگزئی کا کہنا ہے'' یہ بیماری عام طور پر ایک طفیلی پودے کے پیدا ہونے سے ہوتی ہے جوکہ درختوں پر اگتے ہیں ان ہی سے خوراک حاصل کرتے ہیں، یہ بیماری 25 سے 30 سال کے عرصے میں ایک صحت منددرخت کو خشک کردیتی ہے، اس پودے کا بیج اپنے خول سے تقریباً60کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے نکلتا ہے اور 45 سے 50 فٹ کے دائرے میں دوسرے درختوں پرچمٹ جاتا ہے ''۔ آئی یو سی این کی ایک رپورٹ کے مطابق مسل ٹو بیماری بوڑھے درختوں میں زیادہ ہے جبکہ یہ بیماری 30 سینٹی میٹر چوڑائی اور10 میٹر لمبائی سے کم درختوں میں قدرے کم ہے۔
اس بیماری کا کوئی کیمیائی علاج اب تک سامنے نہیں آیا، اس کا واحد حل شدید متاثرہ درخت یا پھر متاثر شاخ کی کٹائی ہے، اس بیماری کی تشخیص 1970ء میں ہوئی جب پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے جونیپر کے درختوں کے مرنے کی وجوہات جاننے کیلئے تحقیق کی ۔ جبکہ 1993ء میں زیارت میںتعینات فارسٹ آفیسر کے مطابق مقامی افراد کو اس بیماری کاعلم 1920ء سے ہے ۔ کنزرویشن آف جونیپر فارسٹ ان زیارت نامی رپورٹ کے مطابق یہ بیماری 1993ء کی تحقیق کے مطابق ساسانامانا اورچسناک کی وادیوں میں 15 مربع میل (9600 ایکڑ ) رقبہ پرپھیلی ہوئی تھی، اس علاقے میں اوسطً فی ایکڑ 20 درخت ہیں جن میں سے 3 درخت اس بیماری سے متاثرہ تھے کل متاثرہ درختوں کی تعداد قریباً30 ہزار تھی اور درختوں کے مرنے کی شرح 4سے14 فیصد سالانہ ہے اور یہ بیماری مشرق کی طرف لورالائی کی وادی چوتیر کی طرف بڑھ رہی ہے، اس لئے ان 30 ہزار درختوں کوکاٹنا ضروری ہے۔
اس سے قبل بھی 1979 سے 1983کے دوران پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کی تجویز پر ساسانامانا کی وادیوں میں 11ہزار متاثرہ درخت اور14 ہزار درختوں کی متاثرہ شاخوں کوکاٹا گیا اور انہیں ایندھن کیلئے فروخت کیا گیا۔ پی ایف آئی کے 1993ء کی تحقیق سے یہ چیز سامنے آئی کہ متاثرہ درختوں اور اس کی متاثرہ شاخوں کی کٹائی کے 10 برس کے بعد یہ بیماری پھر سے 36 سے 50 فیصد درختوں کو متاثر کرچکی تھی ۔
جس کی وجہ کاٹے گئے متاثرہ میٹریل کو باحفاظت طور پر ٹھکانے نہ لگانے کاعمل تھا کیونکہ کنٹریکٹر نے ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے پیش نظر50 فیصدمتاثرہ مواد و ہیں سائیٹ پر ہی چھوڑ دیا تھا اوراس وقت کے فارسٹ آفیسر کے مطابق ان متاثرہ30 ہزار درختوں کی کٹائی ا وردیگر اخراجات کے لئے اُس وقت45 لاکھ روپے کی ضرورت تھی۔ اگر ہم جونیپر کے جنگلات کولاحق بنیادی مسائل اور خطرات کا احاطہ کریں تو جو پہلو سامنے آتے ہیں ان کے مطابق انسان کی بڑھتی ہوئی آبادکاری اور جنگلات کے وسائل تک اس کی پہنچ کے نتیجے میں جنگلات پر دباؤ بڑھ گیا ہے، اس کے علاوہ طرز رہائش میں تبدیلی کی وجہ سے بھی جونیپر کے جنگلات کے وسائل پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
مال مویشیوں کی شدت سے چرائی ' سرسبز شاخوں کی کٹائی' ایندھن ' باغات ' کھیتوں کی باڑ' مویشیوں کے باڑے اور عمارتی استعمال کیلئے لکڑی کی کٹائی علاوہ ازیں زمین کے کٹاؤ کے باعث پانی کی کمی ' زمین پر موجود نباتاتی غلاف میں کمی جس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کے رساؤ میںکمی واقع ہوگئی ہے قدرتی بیماریاں' احساس ملکیت کا فقدان ' آتشزدگی کے واقعات ' صحرائیت اور بنجرپن میں اضافہ ' واٹر شیڈ کی صلاحیت میں کمی ' شکار کے مواقعوں کی کمی ' گھاس اور جڑ ی بوٹیوں کی پیداوار میں کمی ' سیاحت کا خاتمہ وغیرہ جیسے انگنت پہلو ایسے ہیں جو جونیپر کے جنگلات کی تنزلی کے باعث ظہور پذیر ہو رہے ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ یہ دباؤ اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک کہ جونیپر کے جنگلات میں رہنے والے افراد کو زندگی گزارنے کیلئے متبادل ذرائع مہیا نہیں کئے جا تے اور ان متبادل سہولیات اورذرائع کی فراہمی کا انحصار علاقے کی عوام کی ضروریات کومدنظر رکھ کرکیا جانا چاہئے۔
بلوچستان نیچرل ریسورس مینجمنٹ پراجیکٹ پلان فاردی مینجمنٹ آف زیارت جونیپر فارسٹ کیلئے جونیپر کے جنگلات میں رہنے والے مقامی افراد کی ضروریات کے حوالے سے جو سروے کیا گیا اسکے مطابق شروع کی دو بنیادی ترجیحات علاقے کے عوام کی لکڑی کی ضروریات سے متعلق ہیں ۔
جبکہ تیسری چراہ گاہ کے حوالے سے ہے۔ کیونکہ یہ وہ دو پہلو ہیں جو جونیپر کے جنگلات کی بقاء کو خطرات کی صورت میں زیادہ شدت سے لاحق ہیں ۔ اورماہر جنگلات جی ایم خٹک کی مارچ2000 میںتیار کردہ کو یسٹ فاردی سسٹینبل مینجمنٹ آف جونیپر فارسٹ ان بلوچستان نامی رپورٹ میںانہوں نے جونیپر کے جنگلات پر منحصر آبادی میںاضافہ ' لکڑی کی ضروریات میں اضافہ ' جونیپر کے جنگلات کی افزائش میں کمی ' مویشیوں کی چراہ گاہوں کے طور پر ان جنگلات کااستعمال جیسے پہلوؤں کومدنظر رکھ کر جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کے مطابق جونیپر کے جنگلات آئندہ 23سالوں تک بلوچستان کی سرزمین سے فنا ہوسکتے ہیں اور اگر ہم خشک سالی اور ان جنگلات کو لاحق قدرتی بیماریوں کو بھی صورتحال کا حصہ سمجھیں توجونیپر کے جنگلات کی بقاء شدید خطرات کا شکار نظر آتی ہے۔
جونیپر کے جنگلات کرہ ارض پرموجود ان زندہ اشیاء میں سے ایک ہیں جو طویل ماضی کے حامل ہیں لیکن یہ جنگلات کم ہوتے جا رہے ہیں لیکن ہم ابھی تک خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے اور لاپرواہی میں درخت کاٹے جارہے ہیں، بقول پروین شاکر
اس بار جو ایندھن کیلئے کٹ کر گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیارتھا اُس بوڑھے شجر سے
اور جونیپر کے بوڑھے شجر بھی اس شعر کی مانند انسانی ضروریات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں جس پر جلد توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نہ ہو کہ ہم دیکھتے اور سوچتے رہ جائیں اور ہمارا یہ قیمتی اثاثہ ہماری ضروریات اوربے حسی کی نذر ہو جائے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی بودوباش کے ارتقائی سفر نے اسے جنگلوں سے نکال کردریاؤں کے کنارے میدانوں میں آباد کرنا شروع کردیا یوں اُس کا جنگل سے صدیوں سے قائم ناطہ کمزور پڑنا شروع ہوا اور وہ قدرت کی اس عظیم فیاضی کی اہمیت سے لا تعلق سا ہوتا چلا گیا ۔ یوں کرہ ارض پر حیاتیاتی زندگی کا ضامن '' شجر '' آج ماضی کے مقابلے میں زیادہ شدت سے انسانی ضروریات کی نذر ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو شہروں اور کھیتوں کی توسیع کی راہ میں آنے والے ہر پیڑ کو کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تو دوسری جانب لکڑی کی دن بدن بڑھتی ہوئی مانگ اس تحفہ قدرت کے وجود کے در پے ہے۔
توسیع اور ضرورت کے ان رجحانات کے باعث آج زمین تیزی سے بے شجر ہورہی ہے۔ اس تیز تر شجر کٹائی کے باعث آج دنیا بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی لپیٹ میں ہے جس سے کرہ ارض پر موسمیاتی تغیرات کاایک ایسا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس نے ویرانوں کو نخلستانوں اور نخلستانوں کو ویرانوں میں تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔
کہیں بارشیں سیلابوں کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہیں تو کہیں انسانیت قطرہ قطرہ ابر رحمت کے لئے دعا گو ہے ،کہیں سردیوں کے شب روز میں اضافہ اورتبدیلی واقع ہو رہی ہے تو کہیں انسان کو جھلسا دینے والی حرارت کا دورانیہ تبدیل اور طویل ہوتا جارہا ہے اور سطح سمندر میں اضافے کی نوید بھی سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہے۔
درخت بنی نوع انسان کیلئے خداوند کریم کا سب سے بڑا تحفہ ہے یہ ناصرف ایک نعمت ہے بلکہ ایک ایسی نادر چیز ہے جو ایک طرف تو اپنے وجود سے انسانی اور دیگر حیاتیاتی زندگی کی ضروریات پوری کرتا ہے تو دوسری طرف ماحول کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن کرہ ارض پر بسنے والی زندگی اور ماحول کا دوست درخت اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود کلہاڑیوں کی ضربوں اور آریوں کی تھر تھر اہٹ کی نذر ہو رہے ہیں۔
درختوں کی اہمیت سے آگاہ وہ ممالک جنہوں نے درختو ں کی حفاظت کے خیال کو مد نظر رکھا آج حقیقی طور پر خوشحال ممالک کہلاتے ہیں کیوںکہ انہوں نے اپنے آپ کو درختوں کی کمی کے باعث آنے والی قدرتی آفات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات سے کسی حد تک محفوظ رکھا ہوا ہے جبکہ اس کے برعکس وہ ممالک جو اپنے اس سرمائے کو ضائع کرنے کے درپے ہیں اس خسارے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں یا بھگتنے والے ہیں۔
پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو اس قیمتی اثاثہ کی عدم حفاظت کے باعث تیزی سے مسائل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اورصوبہ بلوچستان تو جنگلات کے حوالے سے شدید کمیابی کا شکار ہے۔ صوبے کا صرف 1.7 فیصد رقبہ جنگلات کے زیر سایہ ہے جن میں نمایاںجنگلات جونیپر کے ہیں۔ یہ جنگلات پانچویں مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق صوبے کے چھ اضلاع زیارت ، لورالائی ، قلعہ سیف اﷲ ، پشین ، کوئٹہ اور قلات کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
لیکن یہ امر قابل حیرت ہے کہ آج تک ان جنگلات کے کسی ایک متوفق رقبے پر اتفاق نہیں ہوسکا اور مختلف ماہرین نے جونیپر کے جنگلات کی مختلف پیمائش بتائی ہے۔ 1955ء کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبے میں جونیپر کے جنگلات کا رقبہ 200 مربع میل ( ایک لاکھ 28ہزار ایکڑ ) بتایا گیا ہے جبکہ 1968 کی ایک رپورٹ میں اسے 3 لاکھ 29 ہزار ایکڑ اور 1981ء میں 2لاکھ پچاس ہزارا یکڑ بتایا گیا ہے۔ 1997ء کی ایک رپورٹ میں بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کا رقبہ ایک لاکھ 41 ہزار ایکڑ بتایا گیا ہے۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ بلوچستان کے ان قدیم شہرہ آفاق جنگلات کے حوالے سے تحقیق کی صورتحال بہت محدود اور پرانی ہے اور اعداد وشمار میں یکسانیت کا فقدان ہے جو سرکاری اور غیر سرکاری اداروں جو ماحول کی بہتری اور قدرتی وسائل کی حفاظت کے سلسلے میں سرگرم عمل ہیں کے لئے توجہ طلب پہلو ہے۔ بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات دو پہاڑ ی سلسلوں پر پائے جاتے ہیں جن میںتوبہ کاکڑ اوروسطی براہوئی رینج شامل ہیں۔ توبہ کاکڑ رینج کا سلسلہ کوہ سفید سے نکلتا ہے جو افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف ژوب اور پشین کے علاقوں میں ہے یہ سلسلہ ہمالیہ کاحصہ ہے۔
توبہ کاکڑ رینج کے بالائی حصے پر جونیپر کے جنگلات ہیں جو ضلع قلعہ سیف اﷲ اور پشین کے درمیان ہے۔ اسی طرح وسطی براہوئی رینج کا سلسلہ متوازی پہاڑوں پر مشتمل ہے جوکوئٹہ کے شمال سے ہوتا ہوا قلات کی جنوب کی طرف جاتا ہے اسی سلسلے میں تنگ وادیاں ہیں اور صوبے کی تمام اونچی چوٹیاں بھی اسی سلسلے کا حصہ ہیں جن میں خلیفت ، زرغون ، تکاتو ، کوہ ماران اور ہر بوئی شامل ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے پر زیادہ جونیپر کے جنگلات ہیں۔
آئی یو سی این کی رپورٹ جو نیپر فارسٹ ان بلوچستان پاکستان کے مطابق جونیپر کی دنیا میں 25 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے 4 پاکستان اورانڈیا میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر پائی جاتی ہیں اور ان میں سے ایک جنوب کی طرف بلوچستان میں ہے۔ ایکسیلسا (EXCELSA) جونیپر کے جنگلات بنیادی طور پر بلوچستان میں پائے جاتے ہیں لیکن نیپال میں بھی جونیپر کی یہ قسم موجود ہے۔ پاکستان کے علاوہ افغانستان ، ایران ، مسقط ، شام ، ترکی ، روس (بلقان ریاستیں ، آرمینیا وغیرہ ) یونان ، یوگو سلاویہ ، امریکا ' میکسیکو ' سوئٹزر لینڈ میں بھی جونیپر کے جنگلات پائے جاتے ہیں جبکہ ایک اور رپورٹ میں جونیپر کی 54 اقسام کا ذکرکیاگیا ہے اورپاکستان میں جونیپر کی چھ اقسام بیان کی گئی ہیں۔
بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کا سب سے بڑا ٹکڑا زیارت کے ارد گر د موجود ہے جو مردم شماری رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ 25ہزار2 سو ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے۔ یہ رقبہ کے حوالے سے پاکستان کا سب سے بڑا جونیپر کا جنگل ہے اور دنیا میں کیلیفورنیا کے بعد دوسرا قدیم ترین جنگل ہے۔ اسی طرح ملکی سطح پر زرغون کے علاقے میں دوسرا اور ہربوئی قلات کے مقام پر تیسرابڑا جونیپرکا جنگل ہے۔ بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کی قسم کے حوالے سے یہ دنیا کاسب سے بڑا ٹکڑا ہے اگرچہ یہ قسم کرم ایجنسی اور پاکستان کے شمالی حصوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اس کے قطعے بہت چھوٹے ہیں۔
جونیپر کے درخت سطح سمندر سے 7 سے 8 ہزار فٹ کی بلندی میں کم نمی کے حامل علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں اوسطاً سالانہ بارش کا تناسب 200 سے 400 ملی میٹر ہو۔ بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات بنیادی طور پر TYPE OPEN ہیں درخت بکھرے ہوئے اور نر اورمادہ ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں اوسطً دونوں صنفی اقسام کے درختوں کی فی ہیکٹر تعداد 28 ہے۔ جونیپر کے جنگلات کا شمار اپنی آہستہ افزائش کے باعث دنیا کے قدیم ترین جنگلات میں ہوتا ہے۔ جونیپر کا درخت سال میں اوسطً25ملی میٹر لمبائی اورایک ملی میٹر چوڑائی میںبڑھتا ہے ۔ علاقے میں آج بھی ایسے درخت موجود ہیں جن کی عمر پانچ سے سات ہزار سال پر محیط ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
جونیپر کے یہ عمر رسیدہ درخت ماضی میں زمین کی آب وہوا اور ماحول کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہیں۔ اوریہ ایک "Living fossils" کی حیثیت رکھتے ہیں۔بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کی اہمیت عالمی حوالے سے یہ ہے کہ جونیپر کی قسم EXCELSA POLYCARDOSکی سب سے بڑی تعداد دنیا میں یہاں پائی جاتی ہے۔ اسی لئے اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کی انٹرنیشنل کورآرڈینیٹنگ کونسل کے Man and the Biosphere Programme کے تحت زیارت کے جونیپر فارسٹ کو Biosphere reserve کے طور پر World Network of Biosphere Reserves کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔
کیونکہ نیشنل کنزرویشن سٹرٹیجی کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ خطرات کا شکار ایکو سسٹم جونیپر کے جنگلات کا ہے اور اس کا تعلق پودوں' جانوروں اور پرندوں کی ایک وسیع تعداد سے ہے۔ آب وہوا میںتبدیلی کے محرک کاربن کو فضاء سے علیحدہ کرنے کے عمل کے حوالے سے اس کاایک موثر کردار ہے۔ صحرائیت اور بنجرزدگی کی روک تھام کے حوالے سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے ۔ معاشی اہمیت کا حامل' طبی ودیگر پودوں کی افزائش کے حوالے سے' ملکی اور غیر ملکی سیاحت اور عالمی ورثہ قرار پانے کے حوالے سے ہر ممکن اہلیت رکھتا ہے۔
اسی طرح قومی' صوبائی اور مقامی سطح پر جونیپر کے جنگلات کوجو اہمیت حاصل ہے اس کا بیان یوں کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے محدود پیمانے کے جنگلات میں سے ایک ایکو سسٹم ہے۔ نیم خشک پہاڑی سلسلوں میں پایا جاتا ہے جہاں آب وہواقدرے خشک ہوتی ہے۔ اگرچہ جونیپر افزائش کے اعتبار سے کم رفتار کاحامل درخت ہے اس کے باوجود متعلقہ جگہ کے حوالے سے موزوں ترین قسم ہے یہ ایک اہم واٹر شیڈ ہے جہاں سے باغوں ' کھیتوں کو مقامی سطح پر پانی حاصل ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دیگر خشک علاقوں میں بھی یہ پانی کی ایک وجہ ہیں۔
ہوا میں نمی کی مقدار کو بڑھانا اور خشکی کے تناسب کو کم کرنا، زمین کو کٹاؤ سے محفوظ رکھنا ، ان کا استعمال ایندھن کیلئے گھروں اور کھیتوں و باغات کے گرد باڑوں اور عمارتی تعمیر کے لئے لکڑی کی فراہمی کے حوالے سے نمایاں ہے۔ جنگلی جانوروں کے شکار اور مقامی سیاحت کے فروغ میں بھی ان کا کردار نمایاں ہے۔
جونیپر کے جنگلات کا ا گر ہم دانشمندانہ استعمال کرتے ہیں اور اس کی حفاظت کیلئے کوششیں کرتے ہیں تو اس طرح کرنے سے ہم بہت سے بین الا قوامی کنونشنز پر عملدرآمد بھی کر رہے ہوتے ہیں جن میں بائیو ڈائیورسٹی کنونشن، ورلڈ ہیرٹیج کنونشن ، صحرائیت اور بنجرپن کی روک تھام کا کنونشن ،آب وہوا میں تبدیلی کا کنونشن، قدرتی آبی ذخیرہ گاہوں کے واٹر شیڈ کا کنونشن (رمسر کنونشن ) فارسٹ پرنسپلز یہ وہ تمام بین الا قوامی کنونشن ہیں جن پرہم جونیپر کے تحفظ کی کوششوں کی صورت میں براہ راست عملدرآمد کر رہے ہوتے ہیں۔ جونیپر کے جنگلات کا تحفظ مقامی معیشت ، انسانی ماحول کی بقاء کیلئے ضروری ہے۔
لیکن بلوچستان میں جنگلات کی دیگر اقسام کی کمی کے باعث جونیپر کے جنگلات پر انسانی اورحیوانی ضروریات کا دباؤ زیادہ ہے اور جونیپر کے جنگلات کاکثرت سے استعمال (لکڑی اور چراگاہوں کے حوالے سے ) زمین کی غیر دانشمندانہ ترقی، قدرتی بیماریوں،قدرتی طور پر جونیپر کے درخت کے بیچ میں افزائش نسل کی صلاحیت کاکم ہونا اور خشک سالی نے جونیپر کے جنگلات کی بقاء کو خطرے سے دو چار کردیا ہے۔ محکمہ مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق جونیپر کے جنگلات کے حامل چھ اضلاع کی آبادی میں 1988 سے 2014ء تک 59.68 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور یہ بڑھ کر 30لاکھ 18ہزارسے تجاوزکرچکی ہے۔
صوبے کی 29 فیصد آبادی ان چھ اضلاع میں موجود ہے اور ان اضلاع میں اوسط فی مربع کلومیٹر آبادی 86 افراد پرمشتمل ہے جبکہ صوبے کی سطح پر فی مربع کلومیٹر آبادی کی تعداد30 ہے یعنی جونیپر کے جنگلات کے حامل اضلاع میں آبادی کے دباؤ کا اندازہ ان اعداد وشمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں کوئٹہ ، زیارت ، لورالائی ، قلعہ سیف اﷲ ، پشین اور قلات کے اضلاع کے تقریباً64 فیصد گھروں میں لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔
1966 اور بلوچستان فارسٹ ترمیم ایکٹ 1974ء کے مطابق جونیپر کے درخت کی کٹائی ممنوع ہے جبکہ ٹوٹی ہوئی مردہ شاخوں کو اکٹھاکرنے کی اجازت ہے لیکن ان قوانین کے باوجود سالانہ سینکڑوں درخت چوری چھپے کاٹ لئے جاتے ہیں جس کے باعث بلوچستان اپنے اس قیمتی ورثے سے رفتہ رفتہ محروم ہوتا جارہا ہے۔ بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کی ایک رپورٹ کے مطابق جونیپر کے جنگلات کے علاقوں میں رہنے والے فی گھر کو اوسطً سالانہ 36 سے 120 من لکڑی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور کھانا پکانے، ہیٹنگ اور دیگر استعمال کیلئے لکڑی کی زیادہ تر ضرورت جونیپر کے جنگلات سے ہی پوری کی جاتی ہے۔
مقامی آبادی کے علاوہ ایک اور اضافی بوجھ جو جونیپر کے جنگلات برداشت کر رہے ہیں وہ افغان مہاجرین اوران کے مال مویشیوں کے کثیر تعداد ہے جو اپنی اور اپنے جانوروں کی ضروریات بھی جونیپر کے جنگلات سے ہی پوری کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے اورایشین ڈویلپمنٹ بینک کے اشتراک سے بنائے گئے بلوچستان کے فارسٹری سیکٹر ماسٹر پلان کے مطابق'' بلوچستان کی دیہی آبادی کیلئے توانائی کی ضرورت کی تکمیل کیلئے جنگلات کی لکڑیاں مفت ہیں وہ دوسری لکڑیاں یا دیگر ذرائع کے استعمال میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں'' جس کی ایک وجہ شاید علاقے میںموجود غربت بھی ہے جو کہ جونیپر کے جنگلات میں رہنے والے اور اس پر منحصر دیگر آبادی میں نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
اس غربت کی شدت کا اندازہ ورلڈ بینک کی رپورٹ پاکستان سے معاونت کی حکمت عملی مالی سال 2005-2003 کے ان اعداد وشمار سے کچھ حد تک لگایا جاسکتا ہے۔ کہ بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کے حامل اضلاع ما سوائے لورالائی کے باقی پانچوں اضلاع کی تقریباً24 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے جس کے باعث ان کا قدرتی وسائل کے استعمال پر انحصار قدرے زیادہ ہے اس غربت کے باعث کیا وہ دیگر ذرائع کا استعمال کرسکیں گے؟ یہ ایک قابل غور پہلو ہے۔
اگرچہ کوئٹہ، زیارت، قلات اور پشین کے اضلاع میں قدرتی گیس فراہم کی جا چکی ہے۔ لیکن یہ صرف زیادہ تر ضلعی ہیڈکواٹرز تک ہی محدود ہے جس سے ان جنگلات پر ایندھن کیلئے انسانی دباؤ میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے لیکن جونیپر کے جنگلات میں بکھری ہوئی آبادی اس سے مستفید نہیں ہوسکے گی اور جونیپر کے جنگلات کی کٹائی کاسلسلہ چوری چپکے جاری رہے گا اور زمین یوں ہی بے شجر ہوتی رہے گی۔
اور اس پر یہ کہ جونیپر کے جنگلات کی افزائش کی رفتار بھی نہایت سست ہے کیونکہ جونیپر کے جنگلات کے بیجوں کا 90 فیصد افزائش نسل کے حوالے سے موزوں نہیں ہے اور جو موزوں ہیں تو ان میں افزائش نسل کی صلاحیت بہت کم ہے اور ایک فیصد سے بھی کم جونیپر کے بیج اچھی حالت میں ہیں۔ بیجوں کی خالی تعداد کی کثرت کی وجہ جونیپر کے درخت کی پولن ( افزائش نسل کے اجسام پوڈر کی صورت میں ) کی کم مقدار ہے۔
جونیپر کے درخت کی پولن کی مقدار بہت کم فاصلے تک جاتی ہے اور بہت سی اپنے ماخذ درخت سے 30 میٹر کے ایریا میں ہی گر جاتی ہے ۔ جونیپر کے درخت کی پولن کے جو اوسط فاصلے کاتعین کیا گیا ہے وہ اپنے ماخذ درخت سے 16.1 میٹر ہے، علاوہ ازیں جونیپر کے ننھے پودوں کی بقاء کی شرح بھی بہت کم ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں جانوروں کا ان جنگلات میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے چرنا قابل ذکر ہے۔ لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ بلوچستان کی جنوری 2015 ء کی ایک ویب ڈاکومنٹ کے مطابق بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کے حامل اضلاع میں بھیڑ بکریوںکی تعداد 81 لاکھ 19 ہزار6 سو سے زائد ہے جو انسانی آبادی سے بھی زائد ہے اور ان جانوروں کی خوراک کا تقریباً تمام تر دارومدار جونیپر کے جنگلات اور اس سے ملحقہ چراہ گاہوں پر ہے۔
یہ جانور جونیپرکے ننھے پودوں کو بھی کھا جاتے ہیں اس کے علاوہ یہ جانور جونیپر کے جنگلات میں موجود نباتاتی غلاف کو بھی تیزی سے کم کرتے جا رہے ہیں جس کے باعث جنگلات میں زمینی کٹاؤ کا عمل شروع ہو چکا ہے اور اس نباتاتی غلاف کی دن بدن کم ہوتی ہوئی تہہ کے باعث خشک سالی کے اثرات نمایاں ہونے شروع ہوگئے ہیں کیونکہ یہ نباتاتی غلاف ایک طرف بارش کا موجب بنتے ہیں تو دوسری طرف بارشوں کے پانی کو بہنے نہیں دیتے بلکہ اس پانی کی زمین میں سرائیت کا معقول اہتمام بھی کرتے ہیں اور زمین کی زرخیز مٹی کو باندھے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح برقرار رہتی ہے اور جنگلات کو پانی میسر آتا رہتا ہے اور علاقے میںموجود باغات کو بھی جو وہاں کے عوام کے معاش کا ایک اہم ذریعہ اور معیار زندگی میں بہتری کا ایک نمایاں وسیلہ ہیں ۔
اس قدرتی نظام میں انسانی عمل دخل کے باعث آنے والی تبدیلی کاایک بنیادی اشارہ خشک سالی ہے جو آج بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے کیونکہ قبل ازیں سال میں تقریباً تین سے چار مہینے جونیپر کے اکثر علاقوں میں برف موجود رہتی تھی اور اس برف کی تہہ میں ننھے پودے جانوروں کی پہنچ سے دور رہتے تھے اس طرح قدرتی طورپر متبادل کا اہتمام ہوتا رہتاتھا لیکن خشک سالی کے باعث جانوروں کا دباؤ جنگل پر زیادہ ہوگیا اور سال کے بارہ مہینے جنگلات تک ان کی رسائی رہتی ہے جس کے باعث جونیپر کے جنگلات کی افزائش کا عمل شدید متاثر ہو رہا ہے اور جونیپر کے چھوٹے پودے جانوروںکی خوراک کی نذر ہو رہے ہیں جس کے باعث جنگلات میں درختوں کی اکثریت بوڑھے درختوںپر مشتمل ہے جو موسم کی سختیوں سے ماورا انسانوں کی خدمت کیلئے موجود ہیں۔
لیکن انسان موسموں کی ان سختیوں کو درختوں کے مقابلے میں زیادہ عرصہ تک نہیں جھیل سکتا وہ سردیوں میںان ہی درختوں سے حاصل ہونے والی لکڑی سے اپنے آپ کو حرارت پہنچاتا ہے اور جھلسا دینے والی دھوپ میں ان ہی درختوں کے نیچے ٹھنڈی چھاؤں میں خواب خرگوش کے مزے لیتا ہے۔ سردیوں میں اس کا سلوک درختوں سے وحشت ناک ہوتا ہے اور گرمیوں میں محبت بھرا۔ انسان کے اس وحشت ناک سلوک کی ایک وجہ وہ ٹھٹھرتا ہوا موسم ہے جس میں حیوان اورانسان حرارت کی تلاش میں رہتا ہے۔ جونیپر کے اضلاع میں موسم سرما کا دورانیہ تقریباً6 مہینے پر مشتمل ہوتا ہے اوران چھ میں سے چار مہینوں میں اوسط درجہ حرارت عموماً نقطہ انجماد سے بھی نیچے رہتا ہے (ماسوائے لورالائی ) جس کے باعث درخت اورلکڑی انسانی وجود کو حرارت کی ضرورت کے پیش نظر نذر آتش کی جاتی ہے۔
لیکن جب موسم ہو خشک سالی کا تو پھر انسان ہر لحاظ سے بے بس ہو جاتا ہے اور ایسے علاقے جو پہلے ہی خشک آب وہوا کے خطہ میں آتے ہوں وہاں مزید خشکی زندگی پر عرصہ حیات تن کردیتی ہے۔ بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کے حامل اضلاع میں اگر ہم بارش کی سالانہ اوسط تناسب جو خشک سالی سے قبل تھی کاجائزہ لیں تو 1960 سے 1990ء تک کے اعداد وشمار کے مطابق مذکورہ عرصے میںسالانہ اوسط بارش کا تناسب ہر ضلع میں (ماسوائے لورالائی)260 ملی میٹر سے کچھ زائد تھا جبکہ لورالائی میں یہ تناسب 398 ملی میٹر سے کچھ زائدتھا اس کم تر بارش کے حامل اضلاع میں خشک سالی کے بڑھتے ہوئے عفریت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کردیا اور لوگوں کا اپنی ضروریات ( جن میں کھیتوں 'باغات اور جانوروں کے لئے پانی کی ضرورت بھی شامل ہے ) کیلئے پانی کا تمام تر دارومدار زیر زمین پانی کے ذرائع کی طرف ہونا شروع ہوگیا۔
جس کے باعث زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گرنا شروع ہوگئی ۔ کیونکہ بارشوں کی کم اور سطح زمین پرنباتاتی غلاف کی تہہ میں کمی کی وجہ سے جو تھوڑی بہت بارشیں ہوتی بھی ہیں تو ان کا پانی بغیر کسی رکاوٹ کے بے مصرف بہہ جاتا ہے جس کے باعث دیگر حیات کے علاوہ جنگلات بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ نہ تو انہیںسطح زمین پر اتنا پانی مل رہا ہے کہ وہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں اور نہ ہی زیر زمین سے جس کی وجہ سے جنگلات تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں اوران کا ایکو سسٹم بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ جونیپرکے جنگلات کے کیس میں یہ تمام باتیںمعروضی حقائق پرمشتمل ہیں ۔
کیونکہ یہ جنگلات آہستہ آہستہ خشک ہونا شروع ہو چکے ہیں جو درخت سالہا سال ہرے بھرے رہتے تھے وہ اب زرد ہونا شروع ہوچکے ہیں اور ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا جا رہا ہے اور اب ان میں شاید ہی اتنی سکت ہو کہ وہ کسی اور نا گہانی آفت کو برداشت کرسکیں کیونکہ دیگر آفات کو برداشت نہ کرنے کی سکت کی ایک وجہ جونیپرکے جنگلات کو لاحق ایک ایسی بیماری بھی ہے جوگھن کی طرح ان کے وجود کو چاٹ رہی ہے۔
مسل ٹو نامی اس بیماری کے بارے میںماہر نباتات ڈاکٹر عطا محمد سارنگزئی کا کہنا ہے'' یہ بیماری عام طور پر ایک طفیلی پودے کے پیدا ہونے سے ہوتی ہے جوکہ درختوں پر اگتے ہیں ان ہی سے خوراک حاصل کرتے ہیں، یہ بیماری 25 سے 30 سال کے عرصے میں ایک صحت منددرخت کو خشک کردیتی ہے، اس پودے کا بیج اپنے خول سے تقریباً60کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے نکلتا ہے اور 45 سے 50 فٹ کے دائرے میں دوسرے درختوں پرچمٹ جاتا ہے ''۔ آئی یو سی این کی ایک رپورٹ کے مطابق مسل ٹو بیماری بوڑھے درختوں میں زیادہ ہے جبکہ یہ بیماری 30 سینٹی میٹر چوڑائی اور10 میٹر لمبائی سے کم درختوں میں قدرے کم ہے۔
اس بیماری کا کوئی کیمیائی علاج اب تک سامنے نہیں آیا، اس کا واحد حل شدید متاثرہ درخت یا پھر متاثر شاخ کی کٹائی ہے، اس بیماری کی تشخیص 1970ء میں ہوئی جب پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے جونیپر کے درختوں کے مرنے کی وجوہات جاننے کیلئے تحقیق کی ۔ جبکہ 1993ء میں زیارت میںتعینات فارسٹ آفیسر کے مطابق مقامی افراد کو اس بیماری کاعلم 1920ء سے ہے ۔ کنزرویشن آف جونیپر فارسٹ ان زیارت نامی رپورٹ کے مطابق یہ بیماری 1993ء کی تحقیق کے مطابق ساسانامانا اورچسناک کی وادیوں میں 15 مربع میل (9600 ایکڑ ) رقبہ پرپھیلی ہوئی تھی، اس علاقے میں اوسطً فی ایکڑ 20 درخت ہیں جن میں سے 3 درخت اس بیماری سے متاثرہ تھے کل متاثرہ درختوں کی تعداد قریباً30 ہزار تھی اور درختوں کے مرنے کی شرح 4سے14 فیصد سالانہ ہے اور یہ بیماری مشرق کی طرف لورالائی کی وادی چوتیر کی طرف بڑھ رہی ہے، اس لئے ان 30 ہزار درختوں کوکاٹنا ضروری ہے۔
اس سے قبل بھی 1979 سے 1983کے دوران پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کی تجویز پر ساسانامانا کی وادیوں میں 11ہزار متاثرہ درخت اور14 ہزار درختوں کی متاثرہ شاخوں کوکاٹا گیا اور انہیں ایندھن کیلئے فروخت کیا گیا۔ پی ایف آئی کے 1993ء کی تحقیق سے یہ چیز سامنے آئی کہ متاثرہ درختوں اور اس کی متاثرہ شاخوں کی کٹائی کے 10 برس کے بعد یہ بیماری پھر سے 36 سے 50 فیصد درختوں کو متاثر کرچکی تھی ۔
جس کی وجہ کاٹے گئے متاثرہ میٹریل کو باحفاظت طور پر ٹھکانے نہ لگانے کاعمل تھا کیونکہ کنٹریکٹر نے ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے پیش نظر50 فیصدمتاثرہ مواد و ہیں سائیٹ پر ہی چھوڑ دیا تھا اوراس وقت کے فارسٹ آفیسر کے مطابق ان متاثرہ30 ہزار درختوں کی کٹائی ا وردیگر اخراجات کے لئے اُس وقت45 لاکھ روپے کی ضرورت تھی۔ اگر ہم جونیپر کے جنگلات کولاحق بنیادی مسائل اور خطرات کا احاطہ کریں تو جو پہلو سامنے آتے ہیں ان کے مطابق انسان کی بڑھتی ہوئی آبادکاری اور جنگلات کے وسائل تک اس کی پہنچ کے نتیجے میں جنگلات پر دباؤ بڑھ گیا ہے، اس کے علاوہ طرز رہائش میں تبدیلی کی وجہ سے بھی جونیپر کے جنگلات کے وسائل پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
مال مویشیوں کی شدت سے چرائی ' سرسبز شاخوں کی کٹائی' ایندھن ' باغات ' کھیتوں کی باڑ' مویشیوں کے باڑے اور عمارتی استعمال کیلئے لکڑی کی کٹائی علاوہ ازیں زمین کے کٹاؤ کے باعث پانی کی کمی ' زمین پر موجود نباتاتی غلاف میں کمی جس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کے رساؤ میںکمی واقع ہوگئی ہے قدرتی بیماریاں' احساس ملکیت کا فقدان ' آتشزدگی کے واقعات ' صحرائیت اور بنجرپن میں اضافہ ' واٹر شیڈ کی صلاحیت میں کمی ' شکار کے مواقعوں کی کمی ' گھاس اور جڑ ی بوٹیوں کی پیداوار میں کمی ' سیاحت کا خاتمہ وغیرہ جیسے انگنت پہلو ایسے ہیں جو جونیپر کے جنگلات کی تنزلی کے باعث ظہور پذیر ہو رہے ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ یہ دباؤ اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک کہ جونیپر کے جنگلات میں رہنے والے افراد کو زندگی گزارنے کیلئے متبادل ذرائع مہیا نہیں کئے جا تے اور ان متبادل سہولیات اورذرائع کی فراہمی کا انحصار علاقے کی عوام کی ضروریات کومدنظر رکھ کرکیا جانا چاہئے۔
بلوچستان نیچرل ریسورس مینجمنٹ پراجیکٹ پلان فاردی مینجمنٹ آف زیارت جونیپر فارسٹ کیلئے جونیپر کے جنگلات میں رہنے والے مقامی افراد کی ضروریات کے حوالے سے جو سروے کیا گیا اسکے مطابق شروع کی دو بنیادی ترجیحات علاقے کے عوام کی لکڑی کی ضروریات سے متعلق ہیں ۔
جبکہ تیسری چراہ گاہ کے حوالے سے ہے۔ کیونکہ یہ وہ دو پہلو ہیں جو جونیپر کے جنگلات کی بقاء کو خطرات کی صورت میں زیادہ شدت سے لاحق ہیں ۔ اورماہر جنگلات جی ایم خٹک کی مارچ2000 میںتیار کردہ کو یسٹ فاردی سسٹینبل مینجمنٹ آف جونیپر فارسٹ ان بلوچستان نامی رپورٹ میںانہوں نے جونیپر کے جنگلات پر منحصر آبادی میںاضافہ ' لکڑی کی ضروریات میں اضافہ ' جونیپر کے جنگلات کی افزائش میں کمی ' مویشیوں کی چراہ گاہوں کے طور پر ان جنگلات کااستعمال جیسے پہلوؤں کومدنظر رکھ کر جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کے مطابق جونیپر کے جنگلات آئندہ 23سالوں تک بلوچستان کی سرزمین سے فنا ہوسکتے ہیں اور اگر ہم خشک سالی اور ان جنگلات کو لاحق قدرتی بیماریوں کو بھی صورتحال کا حصہ سمجھیں توجونیپر کے جنگلات کی بقاء شدید خطرات کا شکار نظر آتی ہے۔
جونیپر کے جنگلات کرہ ارض پرموجود ان زندہ اشیاء میں سے ایک ہیں جو طویل ماضی کے حامل ہیں لیکن یہ جنگلات کم ہوتے جا رہے ہیں لیکن ہم ابھی تک خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے اور لاپرواہی میں درخت کاٹے جارہے ہیں، بقول پروین شاکر
اس بار جو ایندھن کیلئے کٹ کر گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیارتھا اُس بوڑھے شجر سے
اور جونیپر کے بوڑھے شجر بھی اس شعر کی مانند انسانی ضروریات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں جس پر جلد توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نہ ہو کہ ہم دیکھتے اور سوچتے رہ جائیں اور ہمارا یہ قیمتی اثاثہ ہماری ضروریات اوربے حسی کی نذر ہو جائے۔