سنہرے لوگ نسیم بیگم پاکستان کی کلاسیکل فلمی گلوکارہ

وہ پھولوں کی رت میں دھرتی پر کِھلی اور خزاں میں اچانک دنیا چھوڑ گئی


وہ پھولوں کی رت میں دھرتی پر کِھلی اور خزاں میں اچانک دنیا چھوڑ گئی ۔ فوٹو : فائل

دین و وطن کی محبت اور دفاع اپنی عزیز جانیں نثار کرنے والے پاک فوج کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 1971 میں ایک پر سوز ملی نغمہ پی ٹی وی سے نشر ہوا تھا جس کے بول تھے:

اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو!
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

نغمہ فضاؤں میں بکھیرنے والی سریلی آواز پاکستانی فلموں کی پسِ پردہ گلوکار نسیم بیگم کی تھی جو اگرچہ 29 ستمبر 1971 کو ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی، لیکن یہ گیت جاوداں ہوگیا اور ہر سال یوم دفاع پر شہدائے وطن کی یاد میں نشر کیا جاتا ہے۔ پاک فضائیہ کی جانب سے اسے قومی نغمہ قرار دیا جا چکا ہے۔ یہ نغمہ فلم ساز و ہدایت کار ریاض شاہد کی فلسطین کے موضوع پر بننے والی فلم ''مادرِ وطن'' کے لیے سیف الدین سیفؔ نے لکھا اور موسیقار سلیم اقبال نے کمپوز کیا تھا۔

نسیم بیگم 24 فروری 1936 کو امر تسر میں پیدا ہوئیں اور برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان لاہور منتقل ہوگیا۔ نسیم بیگم کو بچپن ہی سے گانے کا شوق تھا۔ والدین سے حوصلہ پاکر وہ نو عمری ہی میں گلوکارہ فریدہ خانم کی بڑی بہن مختار بیگم سے کلاسیکل موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے لگیں۔ اقبال بانو بھی اسی دور میں مختار بیگم کی شاگرد تھیں، لیکن نسیم بیگم فطری صلاحیت اور محنت اور لگن سے ان پر سبقت لے گئیں اور کلاسیکی موسیقی اور راگ داری پر عبور حاصل کرلیا۔

1950 میں ان سے فلم گڈی گڈا کے گیت گوائے گئے، لیکن کن رس لوگوں سے نسیم کا تعارف جس گیت سے ہوا وہ فلم ''بے گناہ'' کا تھا، جسے نوجوان موسیقار شہریار نے خود لکھا اور کمپوز کیا۔ اس گانے کی خاص خوبی یہ ہے کہ لفظ ''پیار'' کو مر کیوں سے سجاکر ادا کیا گیا ہے اور شہر یار نے انھیں نسیم بیگم کی سر بھری آواز میں دریافت کرلیا۔ اس گیت کے بول تھے: ''نینوں میں جل بھر آئے، مورک من تڑپائے، روٹھ گیا مورا پیار۔''

نسیم بیگم کی آواز ملکہ ترنم نورجہاں سے کافی ملتی تھی۔ اس مشابہت کو محسوس کرتے ہوئے موسیقار رشید عطرے نے فلم ''نیند'' کے دو نغمات میں نور جہاں اور نسیم بیگم کی آوازوں کو یک جا کیا۔ (1) ''اکیلی کہیں مت جانا زمانہ نازک ہے'' (2) ''جیا دھڑکے سکھی ری جور سے جی آئی مل کے بلم چت چور سے۔'' لیکن اس کے بعد دونوں کے مابین نہ جانے کیوں خلیج حائل ہوگئی اور یہ سریلی آوازیں کسی دوگانے میں سنائی نہ دے سکیں۔ بہرکیف دونوں سنگیت پر ساتھ ساتھ راج کرتی رہیں اور بھارتی پلے بیک سنگر بہنوں لتا اور آشا کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہیں۔ نسیم بیگم کے عروج کا زمانہ 1955 سے 1964 تک کا ہے۔ اس دوران ان کی شادی لاہور کے معروف پبلشر دین محمد سے ہوگئی اور ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

موسیقاروں کی ترجیح رہی کہ نسیم بیگم کی منجھی ہوئی آواز سے ہلکے پھلکے اور کلاسیکل نغمات کے سلسلے استفادہ کریں۔ موسیقار صفدر حسین نے فلم گل بکاؤلی میں نسیم بیگم سے ایک کلاسیکل گیت گوایا، جو پری بکاؤلی کا رول کرنے والی حسین و جمیل اداکارہ جمیلہ رزاق پر فلمایا گیا۔ یہ گانا تھا ''چلے مور کی چال، کرے سب دنیا کو پامال، جوانی دیوانی۔'' اسی فلم کا ایک دو گانا نسیم بیگم اور زبیدہ خانم نے پشتو دھن پر گایا جو اسٹریٹ سانگ بن گیا ''جوانی مسکرائے گنگنائے گائے تیرے میرے پیار کے دن آئے۔''

نسیم بیگم کو پہلا بریک تھرو موسیقار اے حمید نے ایس ایم یوسف کی 1969 میں بننے والی فلم ''سہیلی'' سے دلایا جس کے سارے گیت نسیم بیگم نے گائے جو بہت مقبول ہوئے۔

''ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے''،''کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا'' (سلیم رضا کے ساتھ دو گانا) ''ہم نے جو پھول چنے دل میں چبھے جاتے ہیں''،''مکھڑے پہ سہرا ڈالے آجا او آنے والے'' (کورس)۔ 1962 میں اسی ٹیم کی فلم ''اولاد'' کے بھی سبھی گیت جن کی موسیقی اے حمید نے دی، نسیم بیگم کو فلمی کیریئر کے اوج پر لے گئے۔ ''تم ملے پیار ملا اب کوئی ارمان نہیں'' منیر حسین کے ساتھ) ''نام لے لے کے تیرا ہم تو جیے جائیںگے''،''تم قوم کی ماں ہو سوچو ذرا عورت سے ہمیں یہ کہنا ہے۔''

اسی سال ریاض شاہد نے فلم ''شہید'' تخلیق کی، جس کے نغمات نسیم بیگم نے گائے اور بے حد پاپولر ہوئے۔ یہ گانے تھے ''اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو!''، ''نقاب جب اٹھایا، شباب رنگ لایا، حبیبی ہیا ہیا''،''میری نظریں ہیں تلوار، کس کا دل ہے روکے وار، توبہ توبہ استغفار''،''جب سانولی شام ڈھلے اور رات کی شمع جلے۔'' فلم شہید کا موضوع فلسطین تھا۔ اسی لیے موسیقار رشید عطرے نے نغمات کی طرزیں عربی موسیقی کے انداز میں بنائی تھیں۔

فلسطین پر ریاض کی آخری فلم ''زرقا'' میں نسیم بیگم کی آواز میں صرف ایک گیت تھا: ''میں پھول بیچنے آئی۔'' فلم ''باجی'' 1963 میں بنی۔ سلیم اقبال کی موسیقی میں نسیم بیگم نے دو گیت گائے، ''چندا توری چاندنی میں جیا جلا جائے رے'' اور ''چھن چھن چھن بچھوا باجے۔'' خواجہ خورشید انور کی کمپوزیشن میں فلم ''گھونگٹ'' کا گیت ''چھن چھن چھن موری پائل کی دھن گائے تیرا ہی ترانہ کبھی آکے سن'' اور فلم ''حویلی'' کا گانا ''میرا بچھڑا بلم گھر آگیا، میری پائل باجے چھنن چھنن چھن۔'' یہ گانے نسیم بیگم کی کلاسیکی گیتوں پر مہارت اور دسترس کا احساس دلاتے ہیں۔

بیگم نسیم نے پنجابی فلموں کے گیت بھی کچھ کم نہیں گائے، تاہم ان نمائندہ گانے اردو ہی میں ہیں۔ پنجابی میں پہلی فلم گڈی گڈا کے علاوہ کرتار سنگھ، تیس مار خان، میرا ویر چن ویر جی دار، مکھڑا چن ورگا اور جینٹریں وغیرہ کے گیت شامل ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے موضوع پر 1956 میں سیف نے فلم ''کرتار سنگھ'' بنائی۔ اس فلم میں علاؤالدین نے یادگار مرکزی کردار ادا کرکے عوامی اداکار کا خطاب حاصل کیا۔ نسیم بیگم نے ایک عروسی گیت ''دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا، ویر میرا گھوڑی چڑھیا'' گاکر اسے عوامی گیت بنادیا۔ زبیدہ خانم اور نسیم بیگم کا گایا ہوا دو گانا ''پیریں بیڑیا پنجھباں دیاں پاکے ماہی نے تینوں لے جانڑاں نی گوریے'' مسرت نذیر اور بہار پر فلمایا گیا۔

اداکار و فلم ساز سید موسیٰ رضا (سنتوش کمار) کی فلم ''شام ڈھلے'' میں استاد شاعر صوفی غلام مصطفی تبسمؔ کی خالص ادبی غزل شامل کی گئی۔ رشید عطرے کی دھن پر نسیم بیگم نے اپنی پختہ گائیکی سے اسے لازوال گیت بنادیا:

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی

آغا حشر کا کلام فلم ''کنیز'' شامل کیا گیا، بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے، تن کے بیٹھے ہیں''، نسیم بیگم نے اسے رقص گیت کے انداز میں گایا۔ ممتاز لوک فن کار طفیل نیازی کو بطور موسیقار ایک فلم ''دھوپ چھاؤں'' ملی، جس کی میں شامل غزل کو نسیم بیگم نے خوبی سے گاکر حق ادا کردیا۔ وہ غزل تھی ''پھر ہری بیلوں کے نیچے بیٹھنا شام و سحر۔''

غزل کو گیت کی طرز میں ادا کرنے کا فن نسیم بیگم کو خوب آتا تھا، جیسے ''رنگ محفل ہے اور نہ تنہائی، زندگی کس طرف چلی آئی۔'' نسیم بیگم کے چند اور خوب صورت گیتوں کے بول ذیل میں درج کیے جاتے ہیں، جنھیں نئی نسل انٹرنیٹ پر سن کر آج کے گانوں سے موازنہ کرلے تو معیار کا فرق واضح محسوس ہوگا اور نوجوان لوگ پاکیزہ مشرقی موسیقی کے گرویدہ ہوں گے اور پاپ میوزک کے شور و شغب سے توجہ ہٹ جائے گی۔ نسیم بیگم کے گائے ہوئے چند خوب صورت اور مشہور گانے یہ ہیں:

اب کہاں ان کی وفا یاد وفا باقی ہے۔
بہت پچھتائے دل کو لگا کے۔
نگاہیں ہوگئیں پرنم ذرا آواز دے لینا (لٹیرا) بانوریا نہ رو۔
نیناں روئیں چھم چھم کیسے میں چھپاؤں غم۔
چھپ گئے ستارے ندیا کنارے۔
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے۔
اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں۔
ڈولیں مرے پاؤں جھولیں میرے جھمکے۔

پھولوں کی رت میں دھرتی پر آنے والی نسیم بیگم خزاں آلود پت جھڑ میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ 35 سال کی مختصر سی زندگی میں وہ بہت خوب صورت نغمات دے گئیں۔ انھوں نے چار نگار ایوارڈ مسلسل چار سال جیتے اور پرائڈ آف پرفارمینس بھی حاصل کیا۔ نسیم بیگم کی آواز اور سریلے گیتوں کی مدھرتا رہتی دنیا تک کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں