وہ عظیم الشان سلطنتیں کہاں گئیں

دنیا کی کچھ بڑی سلطنتوں کے بننے اور مٹنے کی کہانی

دنیا کی کچھ بڑی سلطنتوں کے بننے اور مٹنے کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

کسی زمانے میں اس کرۂ ارض پر بڑی زبردست عظیم الشان سلطنتیں قائم تھیں، جن کا ساری دنیا پر بہت رعب اور دبدبہ تھا۔ ان میں سلطنت روم، سلطنت عثمانیہ اور دیگر سلطنتیں شامل تھیں۔ ان کے ساتھ ساتھ بہت سی ایسی سلطنتیں بھی اس دنیا میں قائم ہوئیں جو بہت عام انداز سے منظر عام پر آئیں، اپنے دور میں انہوں نے بھی چھوٹے بڑے کارنامے انجام دیے اور پھر تاریخ سے ایسے مٹ گئیں جیسے کبھی تھیں ہی نہیں۔ نہ تاریخ نے انہیں یاد رکھا اور نہ ہی وہ لوگوں کے سینوں میں زندہ رہ سکیں، اسی لیے دور جدید کے بے شمار لوگ ماضی کی ایسی بے شمار سلطنتوں سے ناواقف ہیں جنہیں کبھی ''سپرپاورز'' سمجھا جاتا تھا۔ آئیے ہم ایسی ہی کچھ گم شدہ سلطنتوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

1 ۔ سلطنت وزگوتھ:یہ سلطنت 418سے720عیسوی کے درمیان اس کرۂ ارض پر موجود تھی۔ وزگوتھ اصل میں ان گوتھوں کے مغربی گروپ کی ایک رکن ہے جنہوں نے رومیوں کو نیست و نابود کرکے موجودہ دور کے اسپین اور جنوبی فرانس میں ایک نئی سلطنت کی داغ بیل ڈالی تھی، یہی سلطنت وزگوتھ کہلائی۔ وزگوتھ اصل میں جرمن خانہ بدوشوں کے قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ قبیلے رومیوں کے عہد میں یورپ میں پروان چڑھے تھے۔

اس کے لوگ بہت بہادر جنگجو تھے اور جنگوں میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے تو ہر جگہ فخر کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، بلکہ یہ سیاسی اثر و رسوخ کے بھی حامل تھے۔ ان کے عزائم توسیع پسندانہ تھے، اسی لیے یہ جنگ و جدال کے شوقین تھے اور زیادہ سے زیادہ فتوحات کرنا چاہتے تھے۔ چناں چہ ان جرمن خانہ بدوش قبیلوں نے مل کر اپنی ایک سلطنت کی بنیاد رکھی تھے جسے سلطنت وزگوتھ کہہ کر پکارا گیا۔ بعض لوگ اس سلطنت کو سلطنت تولوز بھی کہہ کر پکارتے تھے۔

تولوز اصل میں ایک شہر کا نام تھا جو جنوبی فرانس سے بورڈیکس کے جنوب مشرق تک دریائے گیرون کے کنارے پر آباد تھا اور یہ بورڈیکس قدیم یورپ کا ثقافتی مرکز تھا جو جنوبی اسپین تک چلا گیا تھا، یہ دور جدید کا فرانس ہے۔ ظاہر ہے یہ جرمن خانہ بدوش قبیلے بہت طاقت ور تھے اور رومی ان کے ساتھ مزید تنازعات نہیں چاہتے تھے، وہ پہلے ہی 410عیسوی میں ان قبائل کے ہاتھوں شکست کھاچکے تھے، اس لیے انہوں نے وزگوتھ قبائل کو یہ اجازت دے دی کہ وہ یورپ میں اپنی سلطنت قائم کرلیں جس کے بعد یہ اپنے راستے میں آنے والے لٹیروں اور مزاحمت کاروں سے لڑتے ہوئے بہت تیزی سے جنوبی یورپ تک پھیل گئے۔

اس سلطنت کے قیام سے پہلے ہونے والے معاہدے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اگر رومیوں کو ضرورت پڑی تو وزگوتھ انہیں فوجی امداد فراہم کریں گے۔

اس طرح جرمنی سے تعلق رکھنے والے خانہ بدوش وزگوتھ قبائل نے اس سلطنت کی داغ بیل ڈالی، مگر بعد میں دیگر قبائل بھی ان کے ساتھ آن ملے اور ایک بہت ہی طاقت ور اتحادی سلطنت ابھر کر سامنے آئی۔ سلطنت وزگوتھ کے قیام کے بعد وزگوتھیوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن میں پڑوسی فرانسیسی قبائل کے ساتھ ان کا جھگڑا بھی شامل تھا جس کی وجہ سے 507عیسوی میں انہیں فرانس سے نکال باہر کیا گیا اور ان کے بادشاہ کو بھی قتل کردیا گیا۔

ان کی سلطنت کو اندرونی سازشوں نے اور بھی کمزور کردیا تھا اور یہ کمزور سلطنت آخرکار 711عیسوی میں مسلم فاتحین کے قبضے میں آگئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم حکم رانوں کو اسپین فتح کرنے کا موقع مل گیا جس نے تاریخ کو بدل ڈالا۔ آج سلطنت وزگوتھ کا نام و نشان تک باقی نہیں ہے، دور جدید کے لوگ تو اس سلطنت کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ کسی دور میں سلطنت وزگوتھ کا بڑا طوطی بولتا تھا اور اس نے جرأت و بہادری کی اعلیٰ مثالیں قائم کی تھیں۔

2 ۔ سلطنت اسٹریتھ کلائیڈ: یہ نام دو الفاظ سے مل کر بنا ہے: دریائے کلائیڈ اور تنگ خاکنائے۔یہ برطانیہ میں ابتدائی سلطنتوں کے نام تھے جو آج کے جنوبی اسکاٹ لینڈ اور شمالی انگلینڈ پر مشتمل تھیں۔ اسی خطے میں سلطنت اسٹریتھ کلائیڈ وجود میں آئی تھی۔ اس سلطنت کا دور حکومت 450تا1093عیسوی پر مشتمل تھا۔ جب رومیوں نے برطانوی جزائر پر اپنا کنٹرول کھودیا تو ان کی سلطنت بھی کم زور پڑنے لگی جس کے نتیجے میں وہ خلا پیدا ہوا جسے پر کرنے کے لیے ایک نئی سلطنت کو ابھرنے اور وجود میں آنے کا موقع مل گیا اور اس طرح جنوبی اسکاٹ لینڈ میں سلطنت اسٹریتھ کلائیڈ کی داغ بیل ڈالی گئی۔

بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ رومی دور سے پہلے کے عہد میں سلطنت اسٹریتھ کلائیڈ ایسی زبردست سلطنت تھی جس نے برطانوی جزیروں کے درخشاں مستقبل کی راہ ہموار کی اور انہیں مستحکم بھی کیا۔ تاریخ داں کہتے ہیں کہ سلطنت اسٹریتھ کلائیڈ نے جنوبی اسکاٹ لینڈ پر کنٹرول حاصل کیا تھا۔ سلطنت اسٹریتھ کلائیڈ کے بادشاہ نے اپنی حکومت کی تہذیب و ثقافت پر خاص توجہ رکھی تھی، اسی لیے اس تاریک دور میں بھی یہ سلطنت یورپ کی باقی دیگر سلطنتوں سے کافی بہتر تھی۔

پھر سلطنت اسٹریتھ کلائیڈ کی بدقسمتی سے وائی کنگز نے اس سلطنت پر توجہ کی اور 800 کے عشرے کے اواخر میں اس کے دارالحکومت کا محاصرہ کرلیا۔ چار ماہ کے محاصرے کے بعد وائی کنگز نے دارالحکومت پر قبضہ کرکے بادشاہ کو حراست میں لے لیا۔ اگلی صدی کے دوران سلطنت اسٹریتھ کلائیڈ مختلف لوگوں کے ہاتھوں میں جاتی رہی، کبھی اس پر کوئی قبضہ کرلیتا، کبھی کوئی۔ عام طور سے اسکاٹ لینڈ کی پڑوسی ریاستوں نے اس پر خوب رسہ کشی کی، مگر سلطنت اسٹریتھ کلائیڈ کے قبائل پھر بھی متحد نہ ہوئے، بل کہ یہ برطانیہ پر کنٹرول کے لیے آپس میں دست و گریباں ہی رہے۔

1092میں ولیم فاتح نے یہاں کی باگ ڈور سنبھالی اور سلطنت اسٹریتھ کلائیڈ کو انگریزوں کے ماتحت کردیا۔ حالاں کہ گیارہویں صدی عیسوی میں اسٹریتھ کلائیڈ کا کہیں وجود باقی نہیں تھا، اس کے باوجود رومی سلطنت کے خاتمے کے بعد بھی یہ خطہ اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے یہاں کے ڈھانچے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔

3 ۔ ساسانی سلطنت: یہ سلطنت 224 سے 651تک قائم رہی۔ اس سلطنت کا بانی اردشیر اول تھا۔ طلوع اسلام تک مشرق وسطیٰ میں مستقل طور پر متعدد شہنشاہوں کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی رہی، ان میں سے ہر ایک ہی یہ چاہتا تھا کہ اس خطے پر اس کی سلطنت قائم ہوجائے، چناں چہ متعدد حکم رانوں کے درمیان مستقل جنگیں ہوتی رہیں، جن میں کبھی کوئی کام یاب ہوتا تھا اور کبھی کوئی۔ ان میں سے متعدد فرماں روا تو دنیا سے جاتے ہی فراموش کردیے گئے، آج کے لوگ ان کے نام تک نہیں جانتے، مگر ان میں ساسانی سلطنت ماضی کی وہ زبردست سلطنت تھی جس کا سحر آج تک قائم ہے۔

طلوع اسلام سے پہلے اس خطے پر زرتشتیوں کی حکومت تھی اور یہ آج کے ایران میں قائم اس دور کی سب سے بڑی اور طاقت ور سلطنت تھی۔ ساسانیوں سے پہلے اس خطے میں پارتھیائی سلطنت قائم تھی جس کے زوال کے بعد ساسانیوں نے اپنی قوت مجتمع کی اور ایک ایرانی سلطنت کی داغ بیل ڈال دی۔ اس نئی سلطنت کا ریاستی مذہب زرتشت ازم قرار پایا۔ ساسانیوں نے اپنی سلطنت کے قیام کے دوران لگ بھگ پورے مشرق وسطیٰ اور مصر کے کئی حصوں پر قبضہ کرلیا اور انہیں دوسرے مذاہب قبول کرنے پر مجبور کیا، مگر ساسانی زرتشت مذہب کے سچے پیروکار تھے۔ وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

اپنے قیام کے پہلے روز سے ہی ساسانی شہنشاہوں نے جارحانہ پالیسی اختیار کی اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار کیا۔ وہ بڑھتے بڑھتے شمال بعید میں جدید آرمینیا تک پہنچ گئے۔ مگر بعد میں وہ بھی زوال کا شکار ہوگئے جس کے پس پردہ دو وجوہ تھیں: ایک ان کی توسیع پسندانہ اور جارحانہ پالیسی اور دوسرے بازنطینی شہنشاہ کے حملے۔ بازنطینیوں کے حملوں کے بعد ساسانی اپنی سلطنت کی تعمیر نو تیزی سے نہ کرسکے جس کے باعث وہ نئے خطرات میں پھنس گئے۔

یہ نئے خطرات مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کی صورت میں سامنے آئے تھے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ساسانی سلطنت جلد ہی زوال پذیر ہوگئی اور مسلمان فاتحین نے اس نئے علاقے میں ایک نئی اسلامی سلطنت کی داغ بیل ڈال دی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ساسانیوں نے اسلام قبول کرلیا اور اس طرح زرتشتی سلطنت کا اختتام ہوگیا۔ ساتھ ہی ایک جدید ایران کا قیام بھی عمل میں آگیا۔

4 ۔ سلطنت اراغون: یہ اسپین کے شمال مشرق میں واقع ایک ایسی سلطنت ہے جو ماضی قدیم کی سلطنت اراغون کے نام پر قائم کی گئی تھی۔ اراغون کا نام دریائے اراغون کے نام سے لیا گیا تھا۔ سلطنت اراغون اس خطے میں 1162سے1716 تک قائم رہی۔ سلطنت اراغون ایک بہت طاقت ور سلطنت تھی جو بہت طویل عرصے تک قائم رہی۔

اس کا کنٹرول بحیرۂ روم کے زیادہ تر علاقوں پر تھا۔ دوسری سلطنتوں کے برعکس سلطنت اراغون ایک مخلوط یا مرکب بادشاہت تھی جس میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا، مگر اس سے زیادہ یہ ایک وفاق یا کنفیڈریشن تھی۔ 1137میں سلطنت اراغون ایک اتحاد کی صورت میں نمودار ہوئی جو شمال مشرقی اسپین کے شہر کیٹالونیا اور سلطنت اراغون کے درمیان قائم کیا گیا تھا۔ جلد ہی اراغون نے اسپینی میڈیٹرینین (بحیرۂ روم) کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد اراغون کے لیڈروں نے ایک توسیع پسندانہ پروگرام پر عمل کرنا شروع کردیا اور زیادہ تر راہ نما اس خطے کی دوسری سلطنتوں کے ساتھ اتحاد کرنے لگے۔

پھر سب سے بڑا کام یہ ہوا کہ اراغون نے اسپین میں اپنے اصل علاقے پر کنٹرول حاصل کرلیا جس میں جنوبی اٹلی کا بہت بڑا حصہ بھی شامل تھا اور بحیرۂ روم کے بڑے جزائر بھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلطنت اراغون دور جدید کے اسپین کا مرکز بن گیا۔ تیرھویں اور چودھویں صدیوں میں تاج بہت طاقت ور تھا، مگر بعد میں آہستہ آہستہ یہ محدود ہوتا چلا گیا۔

اٹھارویں صدی کے اوائل میں اسپین میں تخت پر قابض ہونے کی جنگ نے اس اسپینی علاقے میں ابتری پھیلادی اور یہ علاقے مرکزی قیادت کے تحت چلے گئے۔ اس کے بعد اراغون بھی اسپین میں قائم ہونے والی نئی اتحادی حکومت کے ماتحت ہوگیا۔ حالاں کہ یہ علاقہ اگلی صدی میں بھی نیم خود مختار تھا، مگر یہاں بادشاہت کا خاتمہ ہوچکا تھا اور انیسویں صدی کے اوائل میں یہ پورا خطہ نئے اسپین میں شامل ہوگیا اور اس طرح ماضی کی سلطنت اراغون کا خاتمہ ہوگیا۔


5 ۔چاؤلہ سلطنت: یہ سلطنت جنوبی ہندوستان کی وہ سلطنت تھی جو سب سے طویل مدت تک قائم رہی۔ یہ سلطنت 300قبل مسیح میں قائم کی گئی تھی اور 1279عیسوی تک اس نے اپنا وجود برقرار رکھا۔ گویا اس چاؤلہ سلطنت نے لگ بھگ ڈیڑھ ہزار سال تک جنوبی ہندوستان کے بڑے حصوں پر حکومت کی۔ لیکن چائولہ نویں صدی عیسوی تک زیادہ متاثر کن نہ بن سکے جس کے بعد وہ ایک بار پھر سیاسی افق پر نمودار ہوئے اور ہندوستان کی سب سے زیادہ بااثر اور طاقت ور سلطنت بن کر سامنے آئے۔ چائولہ لوگ اپنی فوجی قوت کی وجہ سے ہی زیادہ طاقت ور بن کر سامنے آئے تھے، بلاشبہہ وہ بہت مضبوط عسکری قوت کے مالک تھے۔

راج راجا اول کے دور حکومت میں چاؤلہ سلطنت نے بہت زیادہ وسعت اختیار کی تھی اور اس کی جغرافیائی حدود دور دور تک پھیل گئی تھیں۔ چاؤلہ سلطنت کو ہندوستان کی دوسری جنگجو حکومتوں اور بادشاہتوں میں بڑی عزت اور احترام ملا ہوا تھا۔ ظاہر ہے چوں کہ چاؤلہ سلطنت باقی دوسری سلطنتوں کے مقابلے میں زیادہ بااثر اور طاقت ور تھی، اس لیے اس کا رعب و دبدبہ ہندوستانی علاقوں سے لے کر جزائر مالدیپ تک پھیلا ہوا تھا، ان میں جنوبی ایشیا کے متعدد جزائر بھی شامل تھی جو چاؤلہ سلطنت کی فوجی قوت سے خائف تھے اور اسی لیے براہ راست اس کی نگرانی اور ماتحتی میں آگئے تھے۔

چاؤلہ سلطنت کے تاجر اور سوداگر دور دور تک کے ملکوں اور علاقوں میں تجارت کے لیے جاتے آتے تھے۔ انہوں نے چین اور مشرق وسطیٰ کے علاقوں تک سے تجارتی روابط قائم کررکھے تھے۔ مگر بعد میں جب چاؤلہ سلطنت پر زوال آیا تو ان کی فوجی قوت رفتہ رفتہ کم ہونے لگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کی دوسری بادشاہتوں اور حکومتوں نے ان پر بار بار حملے کرکے انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا اور ماضی کی یہ شان دار چاؤلہ سلطنت شکست و ریخت کا شکار ہوگئی۔

ساتھ ہی اس سلطنت کی حدود بھی سکڑنی شروع ہوگئیں جس کے نتیجے میں چاؤلہ سلطنت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ادھر ادھر کے جھگڑوں میں پڑنے کے بجائے اپنی حدود کو محفوظ بنائیں گے اور پھر انہوں نے اپنی پوری توجہ ہندوستان کے مشرقی ساحل پر مرکوز کردی اور اس طرح اپنی سلطنت کو متحد بنالیا۔ لیکن پڑوسی ریاستوں سے چاؤلہ سلطنت پر حملے مسلسل جاری رہے جس کے نتیجے میں یہ سلطنت مسلسل کم زور ہوتی چلی گئی۔ اس کے بعد تیرھویں صدی آئی تو ہوسل سلطنت نے چاؤلہ سلطنت کی حدود میں مضبوط سڑکیں تعمیر کرلیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چاؤلہ کے متعدد علاقے مرکزی حکومت سے کٹ گئے اور اس کے باعث پانڈوئوں کی فتح کی راہ ہم وار ہوئی۔ یہ وہ مقام تھا جب چائولہ سلطنت کا اختتام ہوگیا۔

6 ۔ سلطنت طرابزون:سلطنت طرابزون 1204میں قائم ہوئی تھی اور 1461ء تک قائم رہی۔جب بازنطینی سلطنت کا زوال شروع ہوا تو رومی سلطنت کی طرح بازنطینی سلطنت بھی متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی جس کا نتیجہ اس کے اختتام کی صورت میں نکلا۔ اس کے بعد جو نئی سلطنتیں ابھر کر سامنے آئیں، ان میں سلطنت طرابزون شامل تھی، یہ وہ سلطنت تھی جو طویل عرصے سے قائم تھی، مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر اسے فراموش کردیا گیا تھا۔

اپنے قیام کے دوران اس سلطنت نے بحیرۂ اسود (بلیک سی) کے تجارتی ماحول کو بھی بدلا اور اس کے عسکری ماحول کو بھی ازسرنو استوار کیا۔ چوں کہ اہل طرابزون کے پاس کوئی بہت بڑا خطہ نہیں تھا، اس لیے انہیں بحیرۂ اسود تک براہ راست رسائی حاصل تھی۔ یہ ملک چوتھی صلیبی جنگ کے بعد وجود میں آیا۔ صلیبی جنگوں میں حصہ لینے والوں نے دوسری ریاستیں تشکیل دیں، لیکن وہ طرابزون کے لیے کچھ نہ کرسکے، اس کی وجہ یہ تھی کہ اہل طرابزون کو ایک بڑا فائدہ یہ ملا تھا کہ ان پر بازنطینی سلطنت کے سابق ارکان حکومت کررہے تھے۔

بیش تر تجارتی ڈھانچے تک ان کی رسائی تھی اور یہ رسائی ان کی سلطنت کے دور میں حاصل ہوئی تھی جو بعد میں بھی قائم رہی۔ بعد میں جب بازنطینی سلطنت کی تشکیل نو ہوئی، تب بھی اہل طرابزون آزاد اور خود مختار ہی رہے، وہ بحیرۂ اسود کے راستے ہونے والی زیادہ تر تجارت پر قابض رہے۔ اس عمدہ پوزیشن کی وجہ سے اہل طرابزون نے مشرق اور یورپ کے درمیان اپنی پوزیشن سے خوب فائدہ اٹھایا۔ جیسے جیسے مسلم فاتحین پورے مشرق وسطیٰ تک پھیلتے چلے گئے تو اس موقع پر اہل طرابزون نے دوسری ایشیائی حکومتوں کے ساتھ اتحاد کیے، تاکہ وہ سلطنت عثمانیہ پر حملہ کریں۔ اس جنگ کا نتیجہ کچھ اچھا نہ نکلا، عثمانیوں نے جوابی حملے کیے تو اہل طرابزون کو شکست فاش ہوئی اور اس کا ایک اچھا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ 1461میں ایک طرف ہوگئے۔

7 ۔ کریمیائی خاناط:(1449-1783)منگولین گولڈن ہورڈ اپنے دور کی سب سے وسیع و عریض اور طاقت ور سلطنت تھی۔ لیکن بعد میں اس کے ارکان نے بغاوتیں شروع کیں تو یہ چھوٹی چھوٹی سلطنتوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس سلطنت کے لوگوں نے جب اپنا روایتی فوجی انداز چھوڑا اور اپنے پیشے سے لگن اور خلوص کا مظاہرہ نہیں کیا تو ان کا روایتی سحر کہیں کھوگیا۔

یہ لوگ خانہ بدوش طرز زندگی کے عادی تھے اور انہوں نے کریمیا میں یہی طرز زندگی برقرار رکھتے ہوئے خود کو دنیا کی قوموں میں منوایا تھا، مگر پھر وہ گولڈن ہورڈ سے الگ ہوگئے اور انہوں نے اپنی الگ سلطنت قائم کرلی جسے Crimean Khanate یعنی کریمیائی خاناط کا نام دیا گیا۔ اپنی منگول سلطنت کے قیام کے فوری بعد کریمیائی خاناط کے حکم رانوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ انہیں طاقت ور سلطنت عثمانیہ سے بھی نمٹنا پڑے گا۔

چناں چہ اپنی آزادی کے چند سال بعد ہی کریمیائی خاناط نے سلطنت عثمانیہ کو جنگ کا چیلنج دیا جسے قبول کرتے ہوئے عثمانیوں نے انہیں شکست فاش دی۔ لیکن عثمانیوں نے انہیں یہ رعایت ضرور دی کہ انہیں نیم خود مختاری دے دی، کیوں کہ وہ بھی جانتے تھے کہ یہ کریمیائی خاناط بڑی بحری قوت ہیں۔ اگر ہم کریمیائی خاناط کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو پتا چلے گا کہ انہوں نے اپنا زیادہ وقت ماسکو کے روسیوں کے ساتھ جنگ لڑتے ہوئے گزارا۔ خاناط کو ان جنگوں میں اتنی کام یابیاں ملیں کہ انہوں نے ماسکو کے علاقوں پر قبضہ کرلیا اور بہت بڑے پیمانے پر روسی غلاموں کی تجارت کی داغ بیل ڈال دی۔

ان کی یہ تجارت خاص طور سے سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ہوتی تھی۔ پھر کریمیائی خاناط کے دروازے پر ان کی بدقسمتی نے دستک دی تو ماسکو کے روسیوں نے تاتاریوں سے آزادی کا اعلان کردیا اور گزرتی صدیوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی طاقت میں بھی اضافہ کرنا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہی خاناط بعد میں کریمیائی علاقوں کے لیے براہ راست خطرہ بن کر سامنے آگئے۔ پھر روسیوں نے خاناط کو شکست دے کر ان کے علاقوں پر قبضہ کرلیا اور کریمیا کو اپنی سلطنت کی حدود میں شامل کرلیا۔ اس طرح ایک آزاد کریمیائی ریاست ''کریمیائی خاناط'' کا خاتمہ ہوگیا۔ ان دونوں ریاستوں کے درمیان جو نفرت، بغض اور عداوت تھی، وہ کبھی ختم نہ ہوسکی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی روس اور کریمیا کے درمیان اختلافات موجود ہیں اور یہ اختلافات پوری دنیا کے لیے بعض اوقات بہت بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔

8 ۔ میروونگیائی عہد:میروونگیائی عہد 476عیسوی میں شروع ہوا اور 750 عیسوی میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ میروونگیائی عہد یا دور حکومت ان فرینک بادشاہوں کے پورے سلسلے پر محیط تھا جنہوں نے اپنے دور میں یورپ کے بڑے بڑے علاقوں پر قبضے کیے تھے۔ عام طور سے انہیں فرینک کے ابتدائی بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ مغربی یورپ میں میرووچ کی قیادت میں فرینک قبائل نے متعدد جرمن قبائل کو شکست سے دوچار کیا تھا جس کے بعد انہوں نے تمام مفتوحہ علاقے نئی فرینک سلطنت کا حصہ بنالیے تھے۔ اتفاق سے بعد میں یہ سلطنت ''کنگ ڈم آف کنگ ڈمز'' میں بدل گئی۔

یعنی کئی چھوٹی سلطنتوں کی ایک بڑی سلطنت اور اس بڑی سلطنت کا ایک بڑا بادشاہ ہوتا تھا۔ ہر سلطنت کا الگ بادشاہ تھا، لیکن وہ سب بادشاہ نئی سلطنت کے سربراہ یا بڑے بادشاہ کو جواب دہ تھے۔ حالاں کہ متعدد سلطنتوں کی ایک بڑی اور اجتماعی سلطنت ایک اچھا خیال تھا، مگر اس کا کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلا، کیوں کہ میروونگیائی عہد میں سلطنت کے مختلف حصوں کے درمیان مستقل طور پر خانہ جنگی چھڑی رہتی تھی۔ 613عیسوی میں شاہ کلوتھر دوم نے سلطنت کے مختلف حصوں کو یکجا کیا اور اس طرح میروونگیائی عہد کے قیام کی راہ ہموار کی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ یورپ کی ایک بڑی طاقت بن جائے۔

لیکن مستقل لڑائیوں اور جنگوں نے شاہی طاقت کو ختم کردیا جس کے نتیجے میں شاہی خاندان بھی زوال کی طرف جانے لگا۔ پھر شاہ کلوتھر دوم کے بیٹے ڈاگوبرٹ اول نے میروونگیائی فوج کو مشرق میں سلواکیہ کے پاگانز کے خلاف استعمال کیا، تاکہ اسپین تک پہنچنے کا راستہ مل جائے۔ ڈاگوبرٹ اول کے دور حکومت میں اس سلطنت نے خاصی وسعت حاصل کرلی تھی اور اس کی حدود بھی دور دور تک پھیل چکی تھیں۔ لیکن اس کے بعد قریبی اور پڑوسی علاقوں میں بھی شورشیں شروع ہوگئیں۔ شاہی حکومت کے خاتمے کے بعد امور سلطنت کے فیصلے محل کے ناظم کرنے لگے تھے۔ اس سے میروونگیائی سلطنت کو مزید نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں میروونگیائی عہد اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

9 ۔ گرینڈ ڈچی آف لتھوانیا:گرینڈ ڈچی آف لتھوانیا تیرھویں صدی کی وہ یورپی سلطنت تھی جو 1236میں وجود میں آئی اور 1795میں اس کا اختتام ہوا۔ اس سلطنت کی داغ بیل اہل لتھوانیا کے ان مخصوص لوگوں نے ڈالی تھی، جو اصل میں بحیرۂ بالٹک کے قبائل میں سے ایک تھے۔ جب لوگوں کی اکثریت کو لتھوانیا نامی سلطنت کے قیام کا پتا چلا تو ان کے ذہنوں میں یہ نہیں تھا کہ یہ دنیا کی ایک عظیم اور طاقت ور سلطنت بننے جارہی ہے۔

لیکن یورپ کی تاریخ گواہ ہے کہ گرینڈ ڈچی آف لتھوانیا اس براعظم کی بہت بڑی قوت تھی جس کے پاس بہت بڑی فوج بھی تھی۔ شروع میں گرینڈ ڈچی آف لتھوانیا کوئی باقاعدہ یا منظم سلطنت نہیں تھی، بل کہ یہ الگ الگ اور بکھرے ہوئے قبائل تھے جنہیں شاہ منڈاگس نے ایک پرچم تلے متحد کیا اور لتھوانیا کے تمام قبائل کو ایک قوم بنایا۔ اس کے بعد لتھوانیا والوں نے اپنا دائرۂ اثر بڑھانا شروع کیا اور وہ مشرقی یورپ تک بڑھتے چلے گئے، انہوں نے اپنے راستے میں آنے والی تمام بالٹک ریاستیں بھی فتح کرلیں اور اپنا حلقۂ اثر بحیرۂ اسود تک دراز کرلیا۔ ان کی قلم رو میں دور جدید کا یوکرائن بھی شامل تھا اور متعدد روسی علاقے بھی۔

لتھوانیا نے پولینڈ کے ساتھ بھی بہت طاقت ور اتحاد بنایا، لیکن اس کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ گرینڈ ڈیوک آف لتھوانیا کیتھولک بن جائے۔ جب گرینڈ ڈیوک نے یہ شرط قبول کرلی تو وہ دونوں ملک ایک ہوگئے اور ان کا ایک ہی حکمراں بن گیا۔ چناں چہ لتھوانیا سے آنے والی اس حکومت کے ساتھ ہی گرینڈ ڈچی آف لتھوانیا نے اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کردیا۔ لیکن اس موقع پر ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ متعدد کم زور اور نااہل حکم رانوں نے اپنی سلطنت کو کمزور کیا اور طاقت و اختیار پولینڈ کے بادشاہوں کو منتقل ہوتا چلا گیا۔ اس کے نتیجے میں یہ اتحاد ٹوٹ گیا اور دونوں ملک ایک بار پھر الگ ہوگئے۔

اب لتھوانیا والے ایک بار پھر ماسکو والوں کے ساتھ جنگ میں مصروف ہوگئے، پھر یہی نہیں مشرق میں انہوں نے ماسکو والوں کے ساتھ محاذ جنگ کھولا تو جنوب میں وہ تاتاریوں سے الجھ گئے اور اس طرح دو محاذوں پر ایک ساتھ لڑنے جھگڑنے لگے۔ ان جنگوں نے ماضی کے وسیع و عریض لتھوانیا کو رقبے میں نہ صرف چھوٹا کردیا بلکہ اسے کم زور بھی کردیا اور وہ آہستہ آہستہ اپنے علاقوں سے ہاتھ دھوتے چلے گئے۔ اسی دوران پولینڈ نے ایک بار پھر لتھوانیا کے ساتھ اتحاد کے لیے ایک تجویز پیش کی جس میں لتھوانیا کو اس کی مکمل آزادی کی ضمانت بھی دی گئی تھی۔

یہ اتحاد بنا مگر بہت کم عرصے تک قائم رہا۔ پولینڈ آہستہ آہستہ اپنے علاقوں سے محروم ہوتا چلا گیا، روسیوں نے اس کے مختلف حصوں کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور اس طرح لتھوانیا کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست والی حیثیت ختم ہوگئی۔ بہرحال یہ طے ہے کہ گرینڈ ڈچی آف لتھوانیا عہد قدیم میں بحیرۂ بالٹک کی بہت بڑی قوت تھا جس کی طاقت کو ساری دنیا میں تسلیم کیا جاتا تھا۔
Load Next Story