جعلی اور غیر معیاری دوائوں کا سدباب
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بل کی منظوری سے لوگوں کو سستے داموں علاج معالجہ کی معیاری سہولتوں کی دستیابی یقینی ہو گی۔
صدر آصف علی زرداری نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بل پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد اب یہ قانون بن گیا ہے۔
صدر نے پیر کوایوان صدر میں اس بل پر دستخط کیے، اس موقع پر صدر زرداری نے کہاکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بل کی منظوری سے لوگوں کو سستے داموں علاج معالجہ کی معیاری سہولتوں کی دستیابی یقینی ہو گئی۔صدر مملکت کی طرف سے جعلی اور غیر معیاری دوائوں کی فراہمی کا نیا قانون عوام کے لیے بلاشبہ ایک بڑی خوشخبری ہے اور اگر علاج سے محروم لاکھوں افراد کو وفاقی و صوبائی حکومت کے زیر انتظام اسپتالوں سے معیاری اور سستی ادویات کی فراہمی کا شفاف اور آسان میکنزم دستیاب ہوجائے تو غریب و نادار مریضوں کی نہ صرف محرومیاں ختم ہونگی بلکہ انھیں علاج کی مناسب سہولتوں کی فراہمی اور دوائوں کی دستیابی سے معاشی دبائو اور ذہنی الجھنوں سے بھی نجات مل سکے گی ،لاکھوں بچے اس قانون کے اجرا اور اس پر موثر عمل درآمد سے مستفید ہوسکتے ہیں،مگر شرط یہ ہے کہ وزرات صحت اپنے صوبائی اور وفاقی محکموں کو مانیٹر کرے ۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ علاج معالجہ کی بنیادی سہولتوں سے عوام کی بڑی تعداد محروم ہے جب کہ سستی دوائیں تک خریدنے کی غریب گھرانوں میں بساط ہی نہیں۔سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی حالت زار کا سب کو پتا ہے۔ادھر ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیاں دوائیں مہنگی کرکے اربوں روپے بٹورنے میں مصروف ہیں،ایسے میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا قانون نادار مریضوں کے لیے ایک پھایا ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صحت ،تعلیم اور معیار زندگی کے لحاظ سے 8 کروڑ 88 لاکھ افراد غربت کا شکار ہیں،30 فی صد بچوں کا علاج نہیں کراسکتے، پونے 2 کروڑ کم خوراکی کا شکار اور مختلف بیماریوں کی زد میں ہیں۔
جب کہ 33.3 فی صد سینی ٹیشن سے محروم ہیں ۔ تیسری دنیا کے کروڑوں نادار مرد وزن ، بوڑھے افراد ملیریا، ڈائیریا، خون کی کمی، ذیابیطس، کینسر، ایڈز ، امراض قلب، دماغی امراض ، گردوں کی ناکارگی، ہیپا ٹائٹس ، تپ دق وغیرہ میں مبتلا ہیں ۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ علاج کے لیے سستی دوائیں ہر پاکستانی کی دسترس میں ہونی چاہئیں،جو دوا بھارت اور بنگلہ دیش میں سستی بک رہی ہو وہ پاکستان میں بھی مہنگی فروخت نہیں ہونی چاہیے۔ دوائیوں کے معیار کے ساتھ ساتھ قیمتوں پر کنٹرول اشد ضروری ہے ۔مزید برآں ملک کے شہری و دیہی علاقوں میں سرکاری اسپتالوں میں ناقص دوائیں بھی بمشکل ملتی ہیں، اس لیے معیاری ادویات کا حصول غریب مریضوں کے لیے سہل بنایا جائے۔یہ وہ گھرانے ہیں جو مہنگے انجکشن،سیرپ،ٹیبلٹس ،ڈرپس اور آپریشن کے بعد استعمال میں آنے والی گراں قیمت دوائوں کی خریداری کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔ یوں انھیں صحت اور حفظان کے صدہا مسائل اور مصائب کا سامنا رہتا ہے ۔
جمہوری و فلاحی مملکتوں میں صحت کی جملہ سہولتوں کی ہر فرد تک رسائی سماجی اور اقتصادی نظام کے استحکام اور اس کی انسان دوست پالیسیوں اور معاشرتی اطمینان کا باعث بنتی ہے۔ صدر نے کہا کہ اس بات کا سہرا پاکستان پیپلز پارٹی کے سر جاتا ہے جس نے پہلی مرتبہ ڈرگ ایکٹ مجریہ 1976کا نفاذ کیا اور اب اس نے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی طرز پر پہلی مرتبہ اس ادارے کو قائم کیا، یہ اتھارٹی عوام کے ساتھ ساتھ دوا سازی کی صنعت کے مفادات کو تحفظ کریگی۔صدر مملکتنے اس بات پر بجا طور پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ گزشتہ کئی عشروں میں دوا سازی کی صنعت پروان چڑھی ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے اقدامات کریں تاکہ تحقیق و ترقی کے شعبے میں وسعت پیدا کی جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ صنعت کو چاہیے کہ وہ معیاری ادویات کی تیاری کے ذریعے ان کی برآمدات میں اضافہ کرے، صدر نے کہا کہ متفقہ طور پر اس قانون کی منظوری پارلیمنٹ تمام سیاسی قوتوں اور صوبائی حکومتوں کی سنجیدگی اور فہم و فراست کی آئینہ دار ہے، نئے بل سے مریضوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا ، چنانچہ امید رکھنی چاہیے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قانون پر ٹھوس عمل درآمد کو نہ صرف یقینی بنایا جائے گابلکہ جعلی اور غیر معیاری ادویات کی تیاری کا ناسور بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔
صدر نے پیر کوایوان صدر میں اس بل پر دستخط کیے، اس موقع پر صدر زرداری نے کہاکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بل کی منظوری سے لوگوں کو سستے داموں علاج معالجہ کی معیاری سہولتوں کی دستیابی یقینی ہو گئی۔صدر مملکت کی طرف سے جعلی اور غیر معیاری دوائوں کی فراہمی کا نیا قانون عوام کے لیے بلاشبہ ایک بڑی خوشخبری ہے اور اگر علاج سے محروم لاکھوں افراد کو وفاقی و صوبائی حکومت کے زیر انتظام اسپتالوں سے معیاری اور سستی ادویات کی فراہمی کا شفاف اور آسان میکنزم دستیاب ہوجائے تو غریب و نادار مریضوں کی نہ صرف محرومیاں ختم ہونگی بلکہ انھیں علاج کی مناسب سہولتوں کی فراہمی اور دوائوں کی دستیابی سے معاشی دبائو اور ذہنی الجھنوں سے بھی نجات مل سکے گی ،لاکھوں بچے اس قانون کے اجرا اور اس پر موثر عمل درآمد سے مستفید ہوسکتے ہیں،مگر شرط یہ ہے کہ وزرات صحت اپنے صوبائی اور وفاقی محکموں کو مانیٹر کرے ۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ علاج معالجہ کی بنیادی سہولتوں سے عوام کی بڑی تعداد محروم ہے جب کہ سستی دوائیں تک خریدنے کی غریب گھرانوں میں بساط ہی نہیں۔سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی حالت زار کا سب کو پتا ہے۔ادھر ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیاں دوائیں مہنگی کرکے اربوں روپے بٹورنے میں مصروف ہیں،ایسے میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا قانون نادار مریضوں کے لیے ایک پھایا ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صحت ،تعلیم اور معیار زندگی کے لحاظ سے 8 کروڑ 88 لاکھ افراد غربت کا شکار ہیں،30 فی صد بچوں کا علاج نہیں کراسکتے، پونے 2 کروڑ کم خوراکی کا شکار اور مختلف بیماریوں کی زد میں ہیں۔
جب کہ 33.3 فی صد سینی ٹیشن سے محروم ہیں ۔ تیسری دنیا کے کروڑوں نادار مرد وزن ، بوڑھے افراد ملیریا، ڈائیریا، خون کی کمی، ذیابیطس، کینسر، ایڈز ، امراض قلب، دماغی امراض ، گردوں کی ناکارگی، ہیپا ٹائٹس ، تپ دق وغیرہ میں مبتلا ہیں ۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ علاج کے لیے سستی دوائیں ہر پاکستانی کی دسترس میں ہونی چاہئیں،جو دوا بھارت اور بنگلہ دیش میں سستی بک رہی ہو وہ پاکستان میں بھی مہنگی فروخت نہیں ہونی چاہیے۔ دوائیوں کے معیار کے ساتھ ساتھ قیمتوں پر کنٹرول اشد ضروری ہے ۔مزید برآں ملک کے شہری و دیہی علاقوں میں سرکاری اسپتالوں میں ناقص دوائیں بھی بمشکل ملتی ہیں، اس لیے معیاری ادویات کا حصول غریب مریضوں کے لیے سہل بنایا جائے۔یہ وہ گھرانے ہیں جو مہنگے انجکشن،سیرپ،ٹیبلٹس ،ڈرپس اور آپریشن کے بعد استعمال میں آنے والی گراں قیمت دوائوں کی خریداری کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔ یوں انھیں صحت اور حفظان کے صدہا مسائل اور مصائب کا سامنا رہتا ہے ۔
جمہوری و فلاحی مملکتوں میں صحت کی جملہ سہولتوں کی ہر فرد تک رسائی سماجی اور اقتصادی نظام کے استحکام اور اس کی انسان دوست پالیسیوں اور معاشرتی اطمینان کا باعث بنتی ہے۔ صدر نے کہا کہ اس بات کا سہرا پاکستان پیپلز پارٹی کے سر جاتا ہے جس نے پہلی مرتبہ ڈرگ ایکٹ مجریہ 1976کا نفاذ کیا اور اب اس نے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی طرز پر پہلی مرتبہ اس ادارے کو قائم کیا، یہ اتھارٹی عوام کے ساتھ ساتھ دوا سازی کی صنعت کے مفادات کو تحفظ کریگی۔صدر مملکتنے اس بات پر بجا طور پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ گزشتہ کئی عشروں میں دوا سازی کی صنعت پروان چڑھی ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے اقدامات کریں تاکہ تحقیق و ترقی کے شعبے میں وسعت پیدا کی جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ صنعت کو چاہیے کہ وہ معیاری ادویات کی تیاری کے ذریعے ان کی برآمدات میں اضافہ کرے، صدر نے کہا کہ متفقہ طور پر اس قانون کی منظوری پارلیمنٹ تمام سیاسی قوتوں اور صوبائی حکومتوں کی سنجیدگی اور فہم و فراست کی آئینہ دار ہے، نئے بل سے مریضوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا ، چنانچہ امید رکھنی چاہیے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قانون پر ٹھوس عمل درآمد کو نہ صرف یقینی بنایا جائے گابلکہ جعلی اور غیر معیاری ادویات کی تیاری کا ناسور بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔