اقبال حیدر کی یاد میں
اقبال حیدر اپنی آخری سانس تک انسانی حقوق کے تحفظ کے تصورات کے ساتھ اپنی وفاداری بشرط استواری نبھاتے رہے۔
ستمبر کے آخری ہفتے کی بات ہے ۔اسلام آباد کے ایک دوست نے فوراََ ان کے گھر پہنچنے کا حکم دیا ۔
وہاں پہنچا تو سید اقبال حیدر کو موجود پایا ۔خوش گوار حیرت اور جپھیاں اور پھر مائیک مکمل طورپر ان ہی کے پاس رہا ۔بات بات پر تلملاتے اور حالات کا ماتم کرتے رہے ۔کھانے کی میز پر بیٹھنے سے قبل انھوں نے جیب سے تین گولیاں نکالیں ۔ڈاکٹروں نے سخت احتیاط کا کہہ رکھا تھا اور اقبال حیدر گھبرائے ہوئے ان کے کہے پر عمل کرتے ہوئے شرمسار سے تھے ۔دیکھنے میں مگر بھلے چنگے تھے ۔مجھے ایک لمحہ کو بھی شبہ نہ ہوا کہ میری یہ ان سے آخری ملاقات بھی ہوسکتی ہے ۔
آج کی نوجوان نسل کو شاید احساس تک نہ ہو۔مگر میری عمر کے لوگوں نے ضیا الحق کے جبر کو دیکھا اور سہا ہے ۔اس دور میں مزاحمت کی علامت ایم آر ڈی ہوا کرتی تھی ۔اس کے رہ نمائوں کو صحافیوں سے ملاقات کرنے کا موقعہ بھی نہیں دیا جاتا تھا ۔اس امر کے باوجود کہ سیاست دان صحافی سے مل کر کوئی بات کربھی لیتے تو اس کے چھپ جانے کا کوئی امکان نہ تھا ۔صبح شایع ہونے والے اخبارات پریس میں جانے سے پہلے وزارتِ اطلاعات کے دفاتر میں جایا کرتے تھے جہاں فوج سے آئے ''مدیر'' قابل اشاعت مواد کا تعین کیا کرتے تھے ۔
اقبال حیدر مگر چھلاوے کی طرح اسلام آباد پہنچ جاتے اور پتہ نہیں کیسے اپنے ہم خیال صحافیوں کو ڈھونڈ کر اپنے کسی نہ کسی دوست کے گھر جمع کرلیتے ۔ہمہ وقت مستعد مخبروں کو اس ملاقات کا صرف اس وقت پتہ چلتا جب اقبال حیدر اسلام آباد چھوڑ چکے ہوتے ۔انھوں نے اپنی سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا تھا ۔مگر مایوس ہوکر معراج محمد خان کے قومی محاذ آزادی میں چلے گئے ۔ بے چین روح تھے وہاں بھی قرار نہ آیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو 1986 میں وطن لوٹیں تو آہستہ آہستہ ان کے گرویدہ ہوگئے۔انھوں نے اس سیدھے سادے مڈل کلاسیے کو جو اپنی بات کہنے سے باز نہ رہ پاتا تھا ،پہلے سینیٹر اور پھر وزیر قانون بنادیا اور میں نے '' اصل'' اقبال حیدر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ہی دریافت کیا ۔
اقبال حیدر کے ''اصل'' کی دریافت سے پہلے مجھے یاد کرنا ہوگا کہ نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں مہینوں تک پھیلے مذاکرات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے پارلیمانی کاروبار چلانے والی کتاب میں واضح طورپر لکھوایا کہ قومی اسمبلی یا سینیٹ کے اجلاسوں کے دوران گرفتارشدہ رکن پارلیمان کو ہر صورت ان میں شرکت کے لیے لایا جائے گا ۔اسی قانون کی منظوری کے بعد غلام اسحاق خان اور جام صادق علی کی بھرپور مخالفت کے باوجود آصف علی زرداری جیل سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں آنے کے لیے اسلام آباد آنا شروع ہوئے تھے ۔
افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ جب پیپلز پارٹی دوبارہ برسراقتدار آئی تو اسی قانون کو یکسرفراموش کردیا گیا ۔شیخ رشید کی ''خوش گفتاری'' نے محترمہ کی آنکھوں میں آنسو لائے تو اس وقت کے گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین نے ڈاکٹر شعیب سڈل کے ذریعے لال حویلی سے ممنوعہ بور کی بندوق ''برآمد'' کرواڈالی۔انھیں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزا سناکر جیل بھیج دیا ۔آج کل انقلابی بنے شیخ رشید یاد نہیں رکھتے کہ ان دنوں اپنی معافی تلافی کے لیے وہ پاکستان کے کون سے ملک میں متعین سفیر کو خط لکھا کرتے تھے اور نہ ہی گیلانی کو''اڈیالین'' کہتے ہوئے اس بات کا احساس بھی کہ بطور اسپیکرنیشنل اسمبلی یوسف رضا گیلانی نے بڑی خاموشی مگر سختی کے ساتھ حکومت کو بتادیا تھا کہ اگر شیخ رشید کو قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں نہ لایا گیا تو وہ ان کی صدارت نہ کیا کریں گے ۔بہرحال ایک سفیر کی سفارشوں اور گیلانی صاحب کی ضد کی وجہ سے بالآخر شیخ رشید کو اجلاسوں میں آنے کی اجازت مل گئی اور بالآخر ضمانت پر رہائی بھی ۔
شیخ صاحب کی کسی نہ کسی طرح جان بخشی ہوگئی تو ایک دن چوہدری شجاعت حسین کو بھی گرفتار کرلیاگیا ۔وہ ان دنوں بھی آج کی طرح سینیٹ کے رکن ہوا کرتے تھے ۔وسیم سجاد اس ایوان کے چیئرمین تھے ۔انھوں نے چوہدری صاحب کو اجلاس میں بلانے کا حکم جاری کردیا۔ جس دن یہ حکم جاری ہوا اس روز محترمہ مراکش کے شہر کاسابلانکا میں او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کے لیے موجود تھیں ۔سید اقبال حیدر نے بطور وزیرقانون چوہدری شجاعت حسین کو سینیٹ کے اجلاس میں لانے کا فیصلہ کردیا ۔حکومت میں شامل انتہاء پسندوں نے محترمہ کو شکایات بھرے فون کرنا شروع کردیے ۔میں بھی ان دنوں کا سا بلانکا میں موجود تھا اور خبر کی تلاش میں کسی نہ کسی طرح اس بنگلے میں گھس گیا جہاں محترمہ قیام پذیر تھیں ۔اس بنگلے کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو محترمہ کی غصہ سے بھری آواز سنائی دے رہی تھی ۔
مجھے دیکھ کر ایک وزیر نے فوراَََ اندر جاکر وزیر اعظم کو خاموش کروادیا ۔مگر مجھے بھنک پڑچکی تھی۔ میں نے کسی نہ کسی طرح پتہ چلالیا کہ محترمہ سید اقبال حیدر کی ''بزدلی'' کی خبرسن کر چراغ پا ہیں اور مراکش سے اپنی خبر لکھتے ہوئے اس کی طرف اشارہ بھی کردیا ۔وطن واپس آنے کے بعد محترمہ نے اقبال حیدر کو طلب کیا تو وہ ڈٹ گئے ۔بڑی شدت سے وزیر اعظم کو یاد دلایا کہ قیدی اراکین پارلیمنٹ کو ہر صورت اجلاسوں میں لانے کا فیصلہ ان ہی کی جماعت نے کیا تھا ۔یہ ایک اصولی فیصلہ تھا اور انسانی حقوق کے بنیادی تصور کے عین مطابق بھی ۔محترمہ بضد رہیں تو موصوف استعفیٰ دے کر کابینہ سے فارغ ہوگئے۔ یہ الگ بات ہے کہ محترمہ نے انھیں کچھ عرصے کے بعد اپنا اٹارنی جنرل بھی بنایا اور انسانی حقوق کا وزیر بھی۔
سید اقبال حیدر اپنی آخری سانس تک انسانی حقوق کے تحفظ کے تصورات کے ساتھ اپنی وفاداری بشرط استواری نبھاتے رہے ۔ کراچی میں جب کبھی دہشت کی آندھی چلتی تو بڑے دھڑلے کے ساتھ کیمرے کے سامنے بیٹھ کر اپنی بات کردیتے ۔سچی بات ہے جب وہ ایسے موضوعات پر خطاب کرنے کو مچل رہے ہوتے تو کم از کم میں ''بکری'' ہوجاتا ۔ان کے بار بار فون کرنے کے باوجود انھیں اپنے پروگرام میں لینے کی جرأت نہ کرتا۔خوف آتا کہ بغیر کسی سیکیورٹی گارڈ کے اپنی گاڑی خود چلانے کے خبط میں مبتلا اقبال حیدر کو موت کے منہ میں نہ دھکیلوں۔مجھے کیا پتہ تھا کہ ایک صبح اچانک خبر آئے گی کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے ۔اس دنیا میں آکر ہم سب کو ایک نہ ایک روز اسے چھوڑ کر عدم آباد جانا ہے ۔مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو ہونے اور نہ ہونے کے درمیانی وقفے کو اپنے دل کی بات بلاخوف کہتے رہنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔مصلحتوں کا شکار ہوکر زبانیں بند نہیں کرلیتے۔