صبر اور شکر کے ساتھ صحافت
صحافت کی طرح اب سیاست میں بھی وہ نظریاتی استحکام اور وقار نہیں رہا جو اس کی اصل طاقت تھی۔
میں ڈر گیا ہوں' اخباری زندگی میں پہلی بار مجھے ڈر لگ رہا ہے۔
ان دنوں ریاست کا بازار اپنے تین ستونوں سمیت اپنی اپنی جگہ پر گرم ہے' مگر ان تین ستونوں کی طاقت میں مجھے توازن دکھائی نہیں دے رہا اور یہی وجہ ہے کہ میں خوفزدہ ہوں کہ کہیں دو بڑے ستونوں کے خلاف یا کسی ایک خلاف کوئی گستاخی نہ کر بیٹھوں اور بے موت مارا جائوں۔ میرا یہ خوف برادرم پرویز رشید کی کہانی کے بعد جاگا ہے۔ یہ کہانی ساتھی کالم کارجاوید چوہدری نے اپنے تازہ کالم میں بیان کی ہے اس کی کچھ بھنک تو مجھے مدت ہوئی پڑ چکی تھی لیکن اس کی ہولناک تفصیلات اب معلوم ہوئی ہیں کہ اقتدار اور اختیار بعض لوگوں کو کس قدر سنگدل بلکہ حیوان بنا دیتا ہے۔ پرویز سے پہلے میں ایسے ہی دو المیوں سے واقف تھا جو جمہوری بھٹو صاحب کے دور میں ایک میاں طفیل محمد اور ایک ملک محمد قاسم کے ساتھ پیش آئے۔ میاں صاحب اور ملک صاحب دنیائے سیاست کے فرشتے تھے، ہم تو ان کے واقعتاً خاک پا بھی نہیں ہیں۔
اب پرویز رشید کا تیسرا واقعہ ہے اور صبر و تحمل کی انتہاء ہے کہ اس شخص نے اسے برداشت کر لیا ہے اور باقی ہے ۔ملک محمد قاسم کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے تھے اور میاں صاحب صبر و شکر کے کسی ایسے مقام پر تھے کہ ہم لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ چنانچہ میں ان تین کرم فرماؤں کے ساتھ کی گئی گستاخی پر ڈر گیا ہوں۔ میرے قلم میں اب وہ طاقت نہیں رہی جو کبھی اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ کسی جرنیل سے لاہور کے ریگل چوک پر قومی بدلہ لینے کا اعلان کرتا تھا اور کسی تازہ دم حکمران کو بینڈ ماسٹر تک کہہ دیتا تھا۔ وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔ اور یہ دن سیاستدانوں کے دن تھے جو ہمارے جیسے عام صحافیوں کے ساتھ کھڑے رہتے تھے۔ اسمبلی کے ایک رکن نے میرے کسی کالم پر اپنے استحقاق کے مطابق کارروائی شروع کی تو اسمبلی کے اسپیکراسے سمجھانے لگے اور اس کے کئی ساتھیوں نے تو اس سے بول چال تک بند کر دی ا ور دھمکیاں تک دیں۔ یہ سیاست اور صحافت کے تعاون کا زمانہ تھا۔ اب ہمارے سیاستدان کمزور ہو گئے ہیں۔ ہم صحافیوں کے پہرہ دار اور گارڈز یہی سیاستدان ہوتے ہیں جب وہ خود سیاست میں ڈگمگا رہے ہوں تو وہ کسی کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔
صحافت کی طرح اب سیاست میں بھی وہ نظریاتی استحکام اور وقار نہیں رہا جو اس کی اصل طاقت تھی۔ جنرل مشرف نے اقتدار پرشب خون مارا تو ان دنوں کئی سیاستدانوں سے ملاقات ہوئی، ان میں سے کسی نے کہا کہ تمہارا کیا خیال ہے یہ ہمیں بھی پوچھے گا اور کسی نے یہ بات ایسے الفاظ میں کہی کہ دیکھیں اس کی سیاسی پالیسیاں کیا ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہ فوجی افسر بعد میں ان سیاستدانوں کی خوشدلانہ مدد سے مزے کرتا رہا۔ فوج تو ریاست کا ایک ستون ہے اگر اس کے بارے میں کچھ لکھنا پڑے تو قلمکار کہاں جائے اور کس دوسرے ستون کا سہارا لے۔ ہم بلڈی سویلین تو سچ بات ہے کسی تھانیدار کا سامنا بھی نہیں کر سکتے۔
جرنیل کا تو تصور بھی بے ہوش کر دیتا ہے۔ ہاتھی مرے تو سوا لاکھ کا جرنیل ریٹائر بھی ہو تو جرنیلی کا ڈنڈا لے کر۔ اور پھر ہم صحافی شٹ اپ اور ایڈیئٹ ہیں۔ میں نے اپنی بہت ہی کمزور انگریزی کی وجہ سے ایک مستند لغت کا سہارا لیا اور مقتدرہ قومی زبان کی شایع کردہ انگریزی اردو لغت سے رجوع کیا اس میں IDIOT کے جو معنی لکھے ہیں وہ یوں ہیں۔ ابلہ' احمق' فاتر العقل' جو شخص اپنی ذہنی پسماندگی میں مبتلا ہو' جس کی ذہنی عمر تین سال یا اس سے بھی کم ہو' نہایت نااہل اور احمق شخص' ضعیف العقل' گھامڑ' الو' فاترالحواس' جنم کا پاگل' سڑی' مادرزاد دیوانہ' مخبوط الحواس' مورکھ' بے وقوف' یہ اس انگریزی لفظ کے معنی ہیں جو جرنیل صاحب نے ایک صحافی سے کہے ہیں۔ آپ اپنے لیے تمام معنوں یا کسی ایک کو پسند کر لیں۔
میں تو جرنیل صاحب کو خوش کرنے کے لیے یہ تمام معنی اپنے اوپر بیک وقت صادق اور لاگو سمجھتا ہوں۔ اس لیے مجھ میں اب سچ لکھنے کی جرأت کہاں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ میں بہت ڈر گیا ہوں۔ ایک ستون جو اب حکومت میں براہ راست نہیں ہے اور ایک اینٹ جو بے کار ہو کر اس ستون کی دیوار سے الگ کی گئی ہے اگر وہ میرے بارے میں مذکورہ القاب والے خیالات رکھتی ہے تو مجھے ڈر کر اور خوفزدہ ہو کر ہی صحافت کرنی چاہیے۔ میں نہ تو میاں طفیل' ملک قاسم یا پرویز رشید بن سکتا ہوں اور اگر بنا دیا جاؤں تو نہ اسے زندہ سلامت برداشت کر سکتا ہوں۔ میرے محافظ خود کمزور اور اپنے لیے محافظوں کے طلب گار ہیں تو میں کس بل بوتے پر نخرے کروں۔ بھٹو کو آمر کہا جاتا ہے لیکن وہ صبر بھی کر لیتا تھا۔
ایوب خان کے نواب صاحب ہمارے پانچوں صوبوں کے لوگوں کے بارے میں جو رائے رکھتے تھے پنجاب کے بارے میں ان کا قول تھا کہ یہ ڈنڈے سے قابو میں آتے ہیں۔ میں جہاں سیاست اور سیاست دانوں کی کمزوری پر روتا ہوں اور بہت رنج کرتا ہوں وہاں آجکل کے سیاستدانوں کی کمزوری پر یوں خوش بھی ہوتا ہوں کہ یہ چھوٹے لوگ آپس میں لڑتے بھڑتے ہی رہیں تو اچھا ہے۔ ان دنوں سیاستدانوں میں جنگ جاری ہے اور سبحان اللہ اس جنگ و جدل کے کیا انداز ہیں اگر کوئی صحافی ان میں سے کسی مقتدر کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ واقعی تمام معنوں میں ''ایڈیئٹ'' بن کر ہی زندہ رہے گا۔ جناب چیف جسٹس صاحب نے کہا ہے کہ تینوں ستون اپنے اپنے دائرہ کار میں رہیں۔ جج صاحب کے پاس تو پولیس کا سپاہی تک نہیں' ایک امریکی سیاستدان نے اپنے سپریم کورٹ کے جج سے ناراض ہو کر کہا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ کرے تو اس پر عملدرآمد تو ہم نے کرنا ہے۔ اس کے پاس کیا ہے۔ مولوی کا فتویٰ کوئی مانے تو اس کی مرضی نہ مانے تو اس کی مرضی اس لیے اب صبر شکر کے ساتھ صحافت بسر کریں۔ اس میں عافیت ہے۔