اختیارات کا استعمال
ایک ہندوستانی بچے نے ہمیں چار منٹ دیر کی سزا 24 گھنٹے قید اور دس پندرہ ہزار روپے جرمانے کی صورت میں دے ڈالی۔
امرتسر یاترا کا سب سے بڑا اور زیادہ جانکاہ واقعہ تو ابھی ہم نے سنایا ہے، یہ واقعہ جو ہمارے ساتھ واہگہ بارڈر پر ایک ہندوستانی''بچے'' کی ضد کی وجہ سے پیش آیا، انتہائی تکلیف دہ ہے۔
ہم صرف چار منٹ لیٹ ہو گئے تھے کیوں کہ تین خواتین نے حسب معمول منیر نیازی بن کر تیار ہونے میں دیر کر دی تھیں اور دوسرے راستے میں ٹیکسی ڈرائیور کا ایک اور ڈرائیور سے ٹاکرا ہو گیا، لیکن چار منٹ کی اس دیر کی سزا ہمیں لگ بھگ پندرہ ہزار روپے جرمانہ، ایک رات کے لیے ایک سرائے نما ہوٹل میں قید اور امرتسر آنے جانے کی صورت میں دی گئی، معلوم نہیں امیگریشن کاؤنٹر پر تعینات وہ ہندوستانی بچہ ''کیوں سردار نہیں تھا'' یا تو کچھ زیادہ ہی وقت کا پنکچوئل تھا یا حد سے زیادہ فرض شناس تھا یا بیوی سے لڑ کر آیا تھا اور یا پاکستانیوں سے کوئی پرخاش رکھتا تھا۔ ان آخری دو وجوہات کا امکان اس لیے زیادہ ہے کہ جب ہم تین افراد کاؤنٹر پر پہنچے تو اس نے پاسپورٹ لینے کے لیے ہاتھ بڑھا لیا لیکن ہمارے پیچھے تین خواتین کو دیکھ کر فوراً اس نے ہاتھ کھنیچ لیا اور ہمیں ٹائم ختم ہونے کا بھالا مار دیا، عین ممکن ہے کہ وہ اپنے گھر میں نسوانی تشدد کا نشانہ رہا ہو۔
ویسے اس کی مسمی شکل اور مخنی وجود سے بھی اندازہ ہوتا تھا کہ بے چارا گھر کے اتیاچار کا شکار رہا ہو گا اور دن میں کئی مرتبہ اپنی گھریلو ماسٹرنی اسے مرغا بناتی ہو گی۔ ہم نے اس کی پشت کو دیکھا، کپڑوں پر کسی چپل کا پرنٹ نہیں تھا۔ ممکن ہے لباس کے نیچے اس کے مستقل چھاپ موجود ہوں، ہمارے ساتھ جو تین خواتین تھیں وہ اچھی خاصی خوش نما اور نظر فریب رکھتی تھیں لیکن اس کا ان کو دیکھ کر بھڑکنا اور ہاتھ پیروں کا پھولنا بتاتا تھا کہ سانپ کا ڈسا رسی سے اور دودھ کا جلا چھاچھ سے ڈر گیا، ہم نے بہتیرا سمجھایا ، ہر طرح کا لہجہ اور طریقہ استعمال کیا کہ دیکھو، صرف چار منٹ دیر ہوئی ہے، وہ بھی ایکسی ڈنٹ کی وجہ سے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
بولا ، چار منٹ بہت ہوتے ہیں جس طرح اس نے ''چار منٹ بہت'' کہا تھا ، اس سے بھی ہمیں یہ اندازہ کرنے میں دشواری نہیں ہوئی کہ بے چارے کو گھر میں ''چار منٹ کی دیری'' کے مقدمات سے کئی کئی بار گزرنا پڑتا ہو گا، طرح طرح کے دلائل دیے گئے، منتیں زاریاں اور سارک کے حوالے لیکن کچھ بھی کام نہ آیا، واں ایک خاموشی ترے سب کے جواب میں، خاموشی ہوئی تو پھر بھی گوارا ہوتا لیکن وہ درمیان میں اپنے اختیارات کا اظہار بھی مختلف طریقوں پر کرتا جاتا تھا۔ ہمارے وفد کی ایک سدیسے نے اس سے وہاں کے کسی بڑے کا پوچھا تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔ میں خود ہی اپنا باس ہوں۔ اس وقت یہاں جو کچھ میں چاہوں گا وہی کروں گا ،کسی کے مائی کے لال میں یہ جرات نہیں کہ میرے کام میں دخل دے۔ میں نے کہہ دیا سو کہہ دیا کہ آج نہیں جانے دوں گا ۔
جاؤ امرتسر میں رات گزارو صبح ٹائم پر آجانا۔ ہمیں خود پر ہمیشہ ناز رہا ہے کہ ہم مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے ڈبل کارنیگی والی پالیسی سے کسی نہ کسی طرح کام کروا لیتے ہیں لیکن یہاں تو ڈبل کارینگی والی پالیسی یعنی ''میٹھے بول میں جادو ہے'' قطعی الٹی پڑ رہی تھی۔ معلوم نہیں ہندو ستانی بچہ شوگر کا مریض تھا یا ویسے ہی ڈاکٹر نے مٹھاس کی منا ہی کر رکھی تھی کہ میٹھی باتوں پر اور زیادہ بھڑک اٹھتا تھا ،اس لیے ہم تو پیچھے ہٹ گئے کہ مرد نادان پر کلام نرم و نازک بے اثر، لیکن ساتھی لگے رہے خصوصاً ہماری لیڈرہ مکرمہ سسٹر الملت عائشہ زی خان تو بے چاری دونوں اطراف سے کوئے ملامت میں تھی کہ دیر ہو جانے میں ان کی تین خواتین کا ہاتھ تھا اور پھر ذمے داری کا احساس بھی تھا۔ بڑے موبائل کھڑکائے، نیٹ ورک کی تلاش میں یہاں وہاں پر کونے کھدرے میں دوڑیں لیکن
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور بھر تو دوا کر چلے
زندگی میں پہلی مرتبہ ایک ایسے چنگیز و ہلاکو سے پالا پڑا تھا جو منگول بچے کے بجائے ہندوستانی بچہ تھا، اس وقت ہم ایک طرف بیٹھ کر سوچ رہے تھے کہ بڑے آئے تھے سارک صوفی کانفرنس کے مندوب بن کر، ارادے یہ تھے کہ دلوں کے درمیان سرحدوں اور دراڑوں کو کسی نہ کسی طرح پاٹ دیا جائے لیکن یہاں خود اپنے اندر اتنی دراڑ پڑ گئی تھی کہ شاید کبھی نہ پاٹی جا سکے، ہمارے اونچے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے بیان باز جب بولتے ہیں تو ان کے بیانوں سے شہد ٹپکتا ہے۔ ہندو پاک کے درمیان اونچی اونچی باتیں کی جاتی ہیں لیکن اس وقت ہم اس ''اونچی ڈیومیٹک'' دکان کا پھیکا بلکہ انتہائی کڑوا پکوان چکھ رہے تھے۔ اس وقت ہم حافظ شیرازی کو یاد کر رہے تھے کہ
شد آں کہ اہل نظر در کنارہ می رفتند
ہزار گو نہ سخن دردہاں و لب خاموش
لیکن جن کے لب خاموش نہیں ہمارے وہ ساتھی بھی بالاخر تھک ہار کر اسی نتیجے پر پہنچ گئے۔ جس پر ہم پہلی مرتبہ اس ہندوستانی بچے کو دیکھ کر اور دو چار باتیں کر کے پہنچ چکے تھے، وہ یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ آج ان پاکستانیوں کو مزا چکھا کر رہے گا تو چکھا ہی دیا، بالآخر ہمارے نہتے ساتھی ایک قانون اور اختیارات سے مسلح سرکاری اہلکار سے شکست کھا کر واپس لوٹ آئے
برکہ دانا کند، کند ناداں
لیکن بعد از خرابی بسیار
اب نئے سرے سے وہی پرانے کھٹارے تھے اور ہم تھے۔ خود کو اور سامان کو دو گاڑیوں میں لادا اور عازم امرتسر ہوئے کیوں کہ اب مسئلہ یہ تھا کہ کانفرنس والے تو ہمیں ''فارغ خطی'' دے چکے تھے اور یہ رات ہم نے اپنے بل بوتے بلکہ اپنی جیب پر گزارنا تھی۔ ادھر امرتسر کے ہوٹل والوں کو بھی شاید پتہ چل گیا یا شاید اس ہندوستانی بچے نے اطلاع دی کہ شکار بھیج رہا ہوں یا شاید ٹیکسی والے بھی اسی تھیلی کے چٹے بٹے ہوں کہ جس ہوٹل میں بھی جاتے تھے، ہزار ڈیڑھ ہزار سے کم کمرہ دستیاب نہیں تھا جو ہمارے تین ہزار روپے بنتے تھے اور یہ سارے کے سارے سرائے نما ہوٹل تھے ، چھ سات ہوٹل گھمانے پر ٹیکسی والے بھی تھک گئے لیکن اس موقعے پر بالآخر ہماری قائدہ سسٹر الملت ہی کام آئی۔
جز قیس اور کوئی نہ آیا برروئے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
اس نے اپنے کسی شناسا پولیس افسر دھر پال جی کو فون کر کے اپنی مدد کے لیے پکارا۔ وہ آئے اور ایک ہوٹل میں ہمیں چھ سو روپے کی جائے پناہ یا جائے فنا مل گئی، پھر ہم ساری رات یہ حساب لگاتے رہے کہ سرحد پار استقبال کو آنے والوں اور یہاں اضافی رات گزارنے کے اخراجات کتنے بیٹھے، دوسری صبح پتہ چلا کہ ریسو کرنے والے رات گئے تک ہمارے انتظار میں بیٹھے رہے۔ اس طرح ایک ہندوستانی بچے نے ہمیں چار منٹ دیری کی سزا چوبیس گھنٹے قید بامشقت اور دس پندرہ ہزار روپے جرمانے کی صورت میں دے ڈالی، رات کو شاید وہ اپنے گھر میں بڑے آرام سے سویا ہوگا کہ آج میں نے پاکستانی دشمنوں کو بری طرح شکست دی ہے۔ ممکن ہے بیوی نے شاباشی کے طور پر اس کی چپل کاری بھی معاف کر دی ہو۔