میک ملن تیرا نہ ہوا‘ تو کینیڈی کب تیرا ہے
امریکا میں کالوں کی جدوجہد کو ساری دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ہم بھی انھیں سلام پیش کرتے ہیں۔
امریکا میں صدارتی انتخاب 2012 ہو گیا اور باراک اوباما اگلے چار سال کے لیے پھر صدر بن گیا۔
انتخابی مہم کے دوران اوباما کے مدِ مقابل رومنی نے بھی خارجہ پالیسی کم و بیش وہی جاری رکھنے کا اعلان کیا اور خصوصاً پاکستان کے بارے میں یہ واضح اعلان کیا کہ ڈرون حملے جاری رہیں گے۔ ان حالات میں ہماری بلا سے، کوئی بھی جیتے اوباما یا رومنی۔ ہمیں تو مرنا ہی ہے۔
جب صدر باراک اوباما نے چار سال پہلے صدارتی الیکشن جیتا تھا تو خصوصاً پوری مسلم دنیا میں اس جیت کو ایک بہت بڑا انقلاب قرار دیا گیا تھا، بڑے بڑے مضامین لکھے گئے، تاریخ کو کھنگھالا گیا، صدیوں سے ظلم سہتے ''کالوں'' کی جیت کے گیت گائے گئے۔ مسلمان دانشوروں نے باراک اوباما کے نام کا تیا پانچا کر ڈالا، کہا گیا کہ بارک دراصل مبارک ہے اور حسین بھی نام کا حصہ ہے۔ یعنی مبارک حسین اوباما صدر امریکا بن کر وائٹ ہاؤس میں داخل ہو گیا ہے، مگر دنیا نے پچھلے چار سالوں میں دیکھ لیا کہ مسلمان تو کجا، مبارک حسین اوباما پوری انسانیت کے لیے نہ تو مبارک ثابت ہوا اور نہ ہی ''حسین'' بن سکا۔
یہ ''بارک'' تھا (فوجیوں کے رہنے کی جگہ) اور ''باراک'' ہی رہا۔ اور پچھلے چار سال امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی فوجوں کے ذریعے دنیا بھر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھا۔ افغانستان اور پاکستان میں ہزاروں انسان مار دیے گئے، جن میں عورتیں، مرد، بوڑھے، بچے سبھی شامل تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
کالے باراک اوباما کا امریکا میں صدر بننا ایک بہت بڑا تاریخی واقعہ ضرور ہے۔ امریکا کے اصل وارثوں نے آخر کار اپنی زمین کا قبضہ حاصل کر ہی لیا۔ یہ ایک طویل جدوجہد ہے۔ جس میں لوممبا، مارٹن لوتھز جیسے عظیم سیاہ فام رہنماؤں کے نام شامل ہیں۔ کالوں کی جدوجہد کو ساری دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ہم بھی انھیں سلام پیش کرتے ہیں۔ بارک اوباما کے دادا اور دادی مسلمان تھے، صدر اوباما کی دادی آج بھی زندہ ہیں، گزشتہ سال انھوں نے حج کا فریضہ بھی ادا کیا تھا، دوسری بار اپنے پوتے کے صدر امریکا بننے کے لیے دادی اماں نے دعائیں بھی کیں اور پوتے کی تاریخی جیت پر خوشی کا اظہار کرتے ان کی تصویر بھی اخبارات میں شایع ہوئی ہے۔ مگر بارک اوباما، اوّل و آخر امریکی ہے، امریکا اس کا وطن ہے اور اپنے وطن کے چپے چپے کی آزادی اسے عزیز ہے۔
باراک اوباما نے کچھ وقت پاکستان میں بھی گزارا ہے اور کراچی اور اندرون سندھ سے بھی اس کی کچھ یادیں وابستہ ہیں۔ پتہ نہیں اوباما! تم کب پاکستان آئے تھے، بیس سال پہلے یا تیس سال پہلے۔ آج کے پاکستان کا جو حال ہو چکا ہے، اور کراچی شہر جہاں اب نئے نئے قبرستان آباد ہو رہے ہیں، پاکستانی بے ضمیروں کے ساتھ مل کر امریکی یلغار چاروں طرف سے لش پش انداز میں جاری ہے۔ ہمارا شمالی علاقہ ڈرون حملوں اور ''طالبانی'' خودکش حملوں کی زد میں ہے۔
ہمارے صوبہ بلوچستان میں مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ ہمارے سب سے بڑے صنعتی تجارتی شہر اور بندرگاہ کراچی میں بھتہ گیروں نے تباہی مچا رکھی ہے، تاجر دکانیں بند کر کے گھروں میں بیٹھے ہیں، یا جان پر کھیل کر یا بھتہ دے کر کاروبار کر رہے ہیں، کراچی کی فیکٹریوں اور کارخانوں کو نذرآتش کیا جا رہا ہے، شہر کے بینک لوٹے جا رہے ہیں اور ''محافظ'' بے بس ہیں، پولیس اور رینجرز اپنی بندوقوں سمیت ''تماشائی'' بنے ہوئے ہیں اور اب تو ان بندوق برداروں پر بھی خودکش حملے ہو رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی تقریباً صبح 7 بجے کراچی شہر زوردار بم دھماکے کی آواز سے لرز گیا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ قیامت شہر میں کہاں گزری ہے، ٹیلی ویژن کھولا تو سچل رینجرز بلاکB نارتھ ناظم آباد کے مناظر سامنے تھے۔ دھواں، آگ، تباہ حال عمارت رینجرز کے زخمی اہلکار اور سہمے ہوئے لوگ۔
دیکھیں اپنے گھر میں آگ لگے تو ہمسائے بھی محفوظ نہیں ہوتے۔ آگ پر جلد قابو نہ پایا جائے تو ہمسائے کے گھر بھی لپیٹ میں آ جاتے ہیں، اگر ہمسایوں سے تعلقات صلح صفائی والے ہوں تو دور پرے کے غنڈے، بدمعاش فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دیکھو! ایران، ہندوستان، افغانستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور چین تک ہمسائیگی قائم کر لو، امریکی صدر تو ''امریکی'' ہے۔ اسی طرح ہمسایہ بھی بہت بڑا رشتہ ہے۔ لاکھ اختلاف ہو، لڑائی جھگڑا ہو، مگر ہمسایہ کا رتبہ کم نہیں ہوتا۔ اپنا سگا بھائی برے وقت میں دیر سے آئے گا، ہمسایہ دوسرے ہی لمحے موجود ہو گا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہمسائیگی قائم کر لو۔ جنرل ایوب کے دور میں لکھی گئی حبیب جالب کی نظم پیشِ خدمت ہے۔
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
لیکن ان دونوں ملکوں میں امریکا کا ڈیرا ہے
ایڈ کی گندم کھا کر ہم نے کتنے دھوکے کھائے ہیں
پوچھ نہ ہم نے امریکا کے کتنے ناز اُٹھائے ہیں
پھر اب تک ''وادیٔ گل'' کو سنگینوں نے گھیرا ہے
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
خان بہادر چھوڑنا ہو گا' اب تو ساتھ انگریزوں کا
تا بہ گریباں آ پہنچا ہے اب تو ہاتھ انگریزوں کا
میکملن تیرا نہ ہوا تو کینیڈی کب تیرا ہے
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
یہ دھرتی ہے اصل میں پیارے مزدوروں، دہقانوں کی
اس دھرتی پر چل نہ سکے گی مرضی چند گھرانوں کی
ظلم کی رات رہے گی کب تک، اب نزدیک سویرا ہے
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
(کینیڈی سے پہلے میکملن امریکا کا صدر تھا۔)
انتخابی مہم کے دوران اوباما کے مدِ مقابل رومنی نے بھی خارجہ پالیسی کم و بیش وہی جاری رکھنے کا اعلان کیا اور خصوصاً پاکستان کے بارے میں یہ واضح اعلان کیا کہ ڈرون حملے جاری رہیں گے۔ ان حالات میں ہماری بلا سے، کوئی بھی جیتے اوباما یا رومنی۔ ہمیں تو مرنا ہی ہے۔
جب صدر باراک اوباما نے چار سال پہلے صدارتی الیکشن جیتا تھا تو خصوصاً پوری مسلم دنیا میں اس جیت کو ایک بہت بڑا انقلاب قرار دیا گیا تھا، بڑے بڑے مضامین لکھے گئے، تاریخ کو کھنگھالا گیا، صدیوں سے ظلم سہتے ''کالوں'' کی جیت کے گیت گائے گئے۔ مسلمان دانشوروں نے باراک اوباما کے نام کا تیا پانچا کر ڈالا، کہا گیا کہ بارک دراصل مبارک ہے اور حسین بھی نام کا حصہ ہے۔ یعنی مبارک حسین اوباما صدر امریکا بن کر وائٹ ہاؤس میں داخل ہو گیا ہے، مگر دنیا نے پچھلے چار سالوں میں دیکھ لیا کہ مسلمان تو کجا، مبارک حسین اوباما پوری انسانیت کے لیے نہ تو مبارک ثابت ہوا اور نہ ہی ''حسین'' بن سکا۔
یہ ''بارک'' تھا (فوجیوں کے رہنے کی جگہ) اور ''باراک'' ہی رہا۔ اور پچھلے چار سال امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی فوجوں کے ذریعے دنیا بھر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھا۔ افغانستان اور پاکستان میں ہزاروں انسان مار دیے گئے، جن میں عورتیں، مرد، بوڑھے، بچے سبھی شامل تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
کالے باراک اوباما کا امریکا میں صدر بننا ایک بہت بڑا تاریخی واقعہ ضرور ہے۔ امریکا کے اصل وارثوں نے آخر کار اپنی زمین کا قبضہ حاصل کر ہی لیا۔ یہ ایک طویل جدوجہد ہے۔ جس میں لوممبا، مارٹن لوتھز جیسے عظیم سیاہ فام رہنماؤں کے نام شامل ہیں۔ کالوں کی جدوجہد کو ساری دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ہم بھی انھیں سلام پیش کرتے ہیں۔ بارک اوباما کے دادا اور دادی مسلمان تھے، صدر اوباما کی دادی آج بھی زندہ ہیں، گزشتہ سال انھوں نے حج کا فریضہ بھی ادا کیا تھا، دوسری بار اپنے پوتے کے صدر امریکا بننے کے لیے دادی اماں نے دعائیں بھی کیں اور پوتے کی تاریخی جیت پر خوشی کا اظہار کرتے ان کی تصویر بھی اخبارات میں شایع ہوئی ہے۔ مگر بارک اوباما، اوّل و آخر امریکی ہے، امریکا اس کا وطن ہے اور اپنے وطن کے چپے چپے کی آزادی اسے عزیز ہے۔
باراک اوباما نے کچھ وقت پاکستان میں بھی گزارا ہے اور کراچی اور اندرون سندھ سے بھی اس کی کچھ یادیں وابستہ ہیں۔ پتہ نہیں اوباما! تم کب پاکستان آئے تھے، بیس سال پہلے یا تیس سال پہلے۔ آج کے پاکستان کا جو حال ہو چکا ہے، اور کراچی شہر جہاں اب نئے نئے قبرستان آباد ہو رہے ہیں، پاکستانی بے ضمیروں کے ساتھ مل کر امریکی یلغار چاروں طرف سے لش پش انداز میں جاری ہے۔ ہمارا شمالی علاقہ ڈرون حملوں اور ''طالبانی'' خودکش حملوں کی زد میں ہے۔
ہمارے صوبہ بلوچستان میں مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ ہمارے سب سے بڑے صنعتی تجارتی شہر اور بندرگاہ کراچی میں بھتہ گیروں نے تباہی مچا رکھی ہے، تاجر دکانیں بند کر کے گھروں میں بیٹھے ہیں، یا جان پر کھیل کر یا بھتہ دے کر کاروبار کر رہے ہیں، کراچی کی فیکٹریوں اور کارخانوں کو نذرآتش کیا جا رہا ہے، شہر کے بینک لوٹے جا رہے ہیں اور ''محافظ'' بے بس ہیں، پولیس اور رینجرز اپنی بندوقوں سمیت ''تماشائی'' بنے ہوئے ہیں اور اب تو ان بندوق برداروں پر بھی خودکش حملے ہو رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی تقریباً صبح 7 بجے کراچی شہر زوردار بم دھماکے کی آواز سے لرز گیا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ قیامت شہر میں کہاں گزری ہے، ٹیلی ویژن کھولا تو سچل رینجرز بلاکB نارتھ ناظم آباد کے مناظر سامنے تھے۔ دھواں، آگ، تباہ حال عمارت رینجرز کے زخمی اہلکار اور سہمے ہوئے لوگ۔
دیکھیں اپنے گھر میں آگ لگے تو ہمسائے بھی محفوظ نہیں ہوتے۔ آگ پر جلد قابو نہ پایا جائے تو ہمسائے کے گھر بھی لپیٹ میں آ جاتے ہیں، اگر ہمسایوں سے تعلقات صلح صفائی والے ہوں تو دور پرے کے غنڈے، بدمعاش فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دیکھو! ایران، ہندوستان، افغانستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور چین تک ہمسائیگی قائم کر لو، امریکی صدر تو ''امریکی'' ہے۔ اسی طرح ہمسایہ بھی بہت بڑا رشتہ ہے۔ لاکھ اختلاف ہو، لڑائی جھگڑا ہو، مگر ہمسایہ کا رتبہ کم نہیں ہوتا۔ اپنا سگا بھائی برے وقت میں دیر سے آئے گا، ہمسایہ دوسرے ہی لمحے موجود ہو گا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہمسائیگی قائم کر لو۔ جنرل ایوب کے دور میں لکھی گئی حبیب جالب کی نظم پیشِ خدمت ہے۔
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
لیکن ان دونوں ملکوں میں امریکا کا ڈیرا ہے
ایڈ کی گندم کھا کر ہم نے کتنے دھوکے کھائے ہیں
پوچھ نہ ہم نے امریکا کے کتنے ناز اُٹھائے ہیں
پھر اب تک ''وادیٔ گل'' کو سنگینوں نے گھیرا ہے
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
خان بہادر چھوڑنا ہو گا' اب تو ساتھ انگریزوں کا
تا بہ گریباں آ پہنچا ہے اب تو ہاتھ انگریزوں کا
میکملن تیرا نہ ہوا تو کینیڈی کب تیرا ہے
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
یہ دھرتی ہے اصل میں پیارے مزدوروں، دہقانوں کی
اس دھرتی پر چل نہ سکے گی مرضی چند گھرانوں کی
ظلم کی رات رہے گی کب تک، اب نزدیک سویرا ہے
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
(کینیڈی سے پہلے میکملن امریکا کا صدر تھا۔)