مریم جمیلہ عظیم عورت

ہم خود کو اپنی نظروں میں خدا کے بہت قریب سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت کیا ہے، کون خدا کے نزدیک ہے؟ ہم نہیں جانتے۔


Shehla Aijaz November 13, 2012
[email protected]

بہت سے لوگوں کو حج کرنے کا ارمان ہوتا ہے وہ اپنے اس شوق کا اظہار دوسروں کے سامنے کرتے بھی رہتے ہیں اور پروردگار بہت سے لوگوں کے اس ارمان کو حقیقت کا روپ بھی دیتا ہے، بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنھیں خدا تعالیٰ اپنے گھر آنے کی دعوت دیتا ہے۔

میں نے کسی بزرگ سے سنا کہ لوگ حج کرنے کے بہت شوقین ہوتے ہیں، تڑپتے ہیں خانہ کعبہ کا دیدار کرنے کے لیے، لیکن سب سے پہلے اپنے دل میں کعبہ ڈھونڈو، اس بات کا مفہوم جاننا اتنا بھی مشکل نہیں، لیکن اسے ڈھونڈنا اتنا آسان بھی نہیں کیونکہ خدا تو ہمارے دل میں ہی رہتا ہے، اس بات کی سمجھ آتی ہے، لیکن اسے پانا، اسے منانا یہ مراحل ایسے ہی ہیں جیسے حج کی سعادت حاصل کرنا۔ ہم جھوٹ بولتے ہیں، غیبت کرتے ہیں، فحش کلامی کرتے ہیں، ریا کاری کرتے ہیں، ساری زندگی دوسروں کے عیب تلاش کرتے رہتے ہیں، بلا وجہ تنقید کرتے ہیں، حسد کرتے ہیں، دوسروں کی رسیاں کاٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور جب آخری عمر کو پہنچتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ اب اپنے تمام گناہوں کو دھو لیا جائے اور تمام غلاظتیں صاف کرنے کی غرض سے حج کرنے کا سوچتے ہیں، کچھ اسے عمر کا تقاضہ بھی سمجھتے ہیں۔

حج کی سعادت حاصل کرنا ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کے تقاضے صرف یہ نہیں کہ اپنے اوپر عبادت کی سختی اختیار کر لی جائے بلکہ وہ سادگی، رحمدلی، ایمانداری اور رواداری ہے جو اسلام کے اسباق میں شامل ہیں، لیکن ہم میں سے اکثر ایسا نہیں کرتے، ہمیں اپنی عبادت کرنے پر غرور ہوتا ہے، ہمیں فخر ہوتا ہے کہ ہم پانچ وقت کی نماز پڑھتے اور جو لوگ نماز نہیں پڑھتے ہمیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ہم ضرور جنت میں جائیں گے اور نماز نہ پڑھنے والے دوزخ میں۔ ہمیں باریش ہونے پر سر پر ٹوپی پہننے یا باپردہ ہونے پر بھی فخر ہوتا ہے، ہم خود کو اپنی نظروں میں خدا کے بہت قریب سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت کیا ہے، کون خدا کے نزدیک ہے؟ ہم نہیں جانتے۔

ماضی میں گزرے بہت سے بزرگ، صوفیائے کرام کے بارے میں ہم اکثر پڑھتے رہتے ہیں جو لوگوں کی مدد کرتے تھے، ان کے دکھ درد میں شامل ہوتے تھے، میں اکثر سوچتی ہوں کہ آج کا انسان یا خود میں کیا ان جیسے لوگوں کی طرح دوسرے لوگوں کی مدد کر سکتی ہوں؟ تو یقین جانیے یہ بہت مشکل کام ہے، دوسروں کی مدد کرنا۔ خاص طور پر غریبوں کی مدد کرنا۔ ان کے مسائل حل کرنا۔ واقعی سچے دل سے کیا جانا ہرگز آسان نہیں۔ اگر آپ کو بھی ایسے لوگ زندگی میں نظر آتے ہیں کیا آپ انھیں بیوقوف نہیں کہتے؟ خوش قسمت تو وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دلوں میں خدا خود اُترتا ہے۔

مارگریٹ مارسہ بھی ایک ایسی ہی خوش قسمت خاتون تھیں جو 1934میں ایک جرمن یہودی گھرانے میں نیویارک امریکا میں پیدا ہوئیں، بچپن سے ہی کچھ نروس، شرمیلی، لیکن باشعور مارگریٹ کا دماغ دھندلکوں کے پار سوچتا تھا، وہ ایک عام بچی نہ تھی، گھر کا ماحول اور اس کا مذہب اسے جو کچھ سکھاتا تھا اس سے دور پرے کچھ اور نظر آتا، ایک کھوج تھی جو اس کے دل میں اضطرابی کیفیت پیدا کرتی، اسکول میں پڑھتی تھی تو ایشیائی اور عرب کلچر سے متاثر ہوئی۔ اس کے ارد گرد کا ماحول کہتا کہ فلسطین یہودیوں کی سر زمین ہے اور ایک دن وہ یہودیوں کی ہی ملکیت بن کر رہے گی اور مارگریٹ مظلوم فلسطینیوں کی حالت پر دکھی ہوتی۔ اس کے دل میں ہوک سی اُٹھتی ایک احتجاج، ظلم کے خلاف دبی دبی آواز اس کی شخصیت میں طلاطم سا اُبھرتا، اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا، لیکن کلاسز شروع ہونے سے پہلے ہی اس نے یونیورسٹی چھوڑ دی۔

1953 بہار کے موسم میں اس نے نیویارک یونیورسٹی میں دوبارہ داخلہ لیا وہاں اس نے یہودی مذہب کی تمام کتابوں کو پڑھا، یہودی کلچر کا بغور مطالعہ کیا، لیکن اسے سچائی نظر نہ آئی۔ بے سکونی کی کیفیت قائم رہی اور اسی کیفیت نے اسے پھر نفسیاتی طور پر نڈھال کر دیا۔ نروس بریک ڈاؤن نے اسے پھر یونیورسٹی کی سطح سے دور کر دیا شاید یہ وہ دور تھا جب اس پر وہ کیفیت عود کر آئی اور اس نے اپنے اندر کی سچائی کو ٹٹولنا شروع کیا اس نے قرآن پاک پڑھا وہ محمد اسد کی کتاب ''دی روڈ ٹو مکہ'' سے بہت متاثر تھی۔ محمد اسد بیسویں صدی کے با اثر یورپین مسلمانوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ یہ وہی محمد اسد ہیں جو علامہ اقبال کے نظریہ پاکستان سے متفق تھے۔ 1947میں انھیں پاکستانی شہریت دی گئی تھی۔ انھوں نے پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل میں خاص معاونت کی تھی۔ حکومت پاکستان نے انھیں ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن میں ڈائریکٹر کا عہدہ دیا، خود محمد اسد بتیس برس کی عمر میں اسلام کے دائرہ کار میں داخل ہوئے تھے اس سے پہلے وہ یہودی مذہب کے پیروکار تھے، مارگریٹ کی محمد اسد کی کتاب سے دلچسپی کی وجہ بھی غالباً یہی تھی۔

نیویارک میں اس نے ایک عربی اسکالر ابراہم کیش سے اسلام اور یہودیت کے متعلق پڑھا، یہ ایک ایسا کورس تھا جس نے مارگریٹ کے دل میں بہت سے نکات کو واضح کردیا اور یہاں سے ہی اسلام کی جانب ان کا رجحان بڑھتا گیا۔ مارگریٹ کی صحت خراب ہوتی گئی یہاں تک کہ اسے یونیورسٹی چھوڑنی پڑی اور وہ اسپتال میں داخل ہو گئی۔ شیزوفرینیا کی مریضہ مارگریٹ کے اندر ایک ہیجان تھا جو اسے دو مذاہب کے درمیان سے گھیر رہا تھا وہ صحت یاب ہوکر گھر لوٹی تو اسی رجحان نے اسے مجبور کیا اور وہ مختلف اسلامی آرگنائزیشنز اور اسلامی لیڈران سے خط و کتابت میں مصروف رہی۔ 24 مئی 1961 کو وہ مسلمان ہوگئی، اس کا نام مریم جمیلہ رکھا گیا جماعت اسلامی کے لیڈر مولانا مودودی جن سے اس کا خط و کتابت کا رابطہ پہلے ہی تھا ان کی دعوت پر پاکستان آئی اور 1963میں جماعت اسلامی کے محمد یوسف خان سے ان کی شادی ہوئی۔

جمیلہ مریم ایک عام عورت نہ تھی مسلمان ہونے تک کے عمل کے لیے انھیں خدا تعالیٰ نے ایک موقع دیا، اپنی ذات باری کو سمجھنے، جاننے اسلام کے بارے میں تمام حقائق سے آگاہ ہونے کے لیے، کتنی خوش قسمت تھیں مریم جمیلہ جن کے دل پر خدا نے دستک دی، گو اسے کھولنے میں انھیں برسوں لگے، لیکن جب یہ دروازہ کھلا تو ان کی دانش مندی اور عقل و فہم کے دروازے کھلتے چلے گئے، اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان جمیلہ نے جس طرح ٹھوس دلائل سے اپنی مطبوعات اور مضامین میں تفریق دکھائی۔ مادیت پرستی اور سیکولرزم کی جس طرح قلعی کھولی، یہ جمیلہ کا ہی کمال تھا تقریباً تیس کے قریب انھوں نے کتب لکھیں جو اُردو، بنگالی، ترکی بھاشا اور انڈونیشیائی زبان کے ترجمے کے ساتھ چھپ چکی ہیں۔ جمیلہ ان باکمال مسلمان خواتین میں شمار کی جاتی ہیں جنہوں نے مغرب کی اسلام دشمن کی یورش کے خلاف اپنے قلم سے جہاد کیا۔ 31 اکتوبر کو اس باکمال خاتون کا لاہور میں انتقال ہو گیا۔ خدا انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں