مرے لوگ مر رہے ہیں
آنے والا کل پاکستان کے لیے کیا لے کر آئے گا، قیاس آرائیاں، سرگوشیاں، چہ میگوئیاں جاری ہیں۔
بھڑکی ہوئی ہر طرف آتشِ خون کُشتگاں
شہرِ ستمگراں میں اب فصل ہے اشتعال کی
وقت کیلنڈر کی طرح پہلو بدل رہا ہے، فضا میں سسکیوں کی بازگشت اور ہوا میں بارود کی بُو ہے، اب نہ صبح چڑیوں کی چہچہاہٹ سنائی دیتی ہے نہ کوئل کی کوک ہے، خوف کے سائے کسی شکاری کی طرح شہر کی دہلیز پر منڈلا رہے ہیں، روشنیاں کسی جواں مرگ بیٹے کی موت پر آنسو بہاتے بہاتے سوکھ جانے والی ماں کی آنکھوں کی طرح بجھ چکی ہیں۔
ہر سمت اِک آگ ہے اضطراب ہے، ہر لمحہ ایک سوال ہے اور سوال بھی وہ جس کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے کئی صحرا عبور ہو چکے ہیں، کبھی ان جیتی جاگتی اور جگمگاتی سڑکوں پر زندگی والہانہ اور رقص کرتی تھی، رات گئے لوگوں کا ہجوم گاڑیوں کی ریل پیل تھی، جہاں کے مختلف کیفے ٹیریا میں اہلِ ادب کی نشستیں ہوتی تھیں، مشاعرے، محفلیں، ادبی نشستیں، مباحثے، قہقہے مگر اب سب کچھ ایک عمیق خموشی میں بدل گیا ہے۔
یہ شہر کونسا تھا جسے عروس البلاد کہا جاتا تھا؟ کراچی؟ مگر نہیں کہ اب تو یہ ایک ایسی دلہن کی مانند جو سج دھج کر اسٹیج پر بیٹھی بھی نہ تھی کہ اس کا سہاگ اُجڑ گیا، کیا امن کی فاختہ چولا بدل کر مردار خور گِدھ میں تبدیل ہو گئی ہے، یہ اور اسی طرح کے ان گنت سوالات ذہن کے نہاں خانے سے ٹکراتے ہیں اور دل کے سوئے ہوئے زخموں کو پھر سے جگا جاتے ہیں۔اہلِ قلم اس المیے پر مستقل لکھ رہے ہیں، تاآنکہ شہر کی روشنیوں کی طرح ان کے قلم کی روشنائی بھی خشک ہو چلی ہے، میڈیا چیخ رہا ہے، اس کی آواز کروڑوں ناظرین تک تو پہنچ رہی ہے، مگر ایوانِ بالا میں بیٹھے ہوئے، عوام سے ووٹ کی بھیک مانگنے والے، صاحب اختیار افراد تک نہیں جا رہی کہ ان کے کان بند ہیں اور آنکھیں سرکاری خزانوں میں اپنے اپنے نام کا مال تلاش کر رہی ہیں۔
کروڑوں کا فنڈ حاصل کرنے والے یہ اہلِ ثروت صرف انگلی کٹوا کر شہیدوں میں شامل ہونے کے لیے اپنی حاصل کردہ رقم کا ایک مختصر سا حصہ عوام کی فلاح پر خرچ کرتے ہیں اور باقی سب کچھ بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ سنا ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، مگر خون کی ایک بوند بھی اگر جم جائے تو اسے مٹانا سہل نہیں ہوتا، مگر یہاں تو سارا شہر ہی لہولہان ہے، ہر آنکھ اشکبار ہے، ان خاندانوں کا تو شمار ہی نہیں جن کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد ٹارگٹ کلنگ میں نہ مارا گیا ہو یا سرِ راہ بے قصور لقمہ اجل نہ بن گیا ہو، اغوا نہ ہوا ہو یا تاوان دے کر رہا نہ ہوا ہو، اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ
فصیلِ شہر پہ بیدار جس کو رہنا تھا
حرم سرا میں وہ اب پاسبان رہتا ہے
دن بھر چینلوں پر بریکنگ نیوز چلتی ہیں تو دل دھڑک اُٹھتا ہے حالانکہ سب سے بڑی بریکنگ نیوز یہ ہونی چاہیے۔
وہ خواب نہیں تھے سچائی تھی جب ہماری نظر میں سب مناظر تھے جہاں بانجھ صحرا میں بھی بستیاں اُگائی جاتی تھیں اور گنگ صحراؤں سے سیلِ گفتگو پھوٹتا تھا، مگر اب تو ایک ہی رنگ ہے وہی رنگ جو انسانی خون کا ہوتا ہے، پارلیمنٹ ہاؤس میں شان و شوکت سے بیٹھے ہوئے عوامی نمایندے کیا سچ مچ ہمارے ہیں؟ ہمارے لیے ہیں؟ یہ سوال تو ان کروڑوں عوام سے کیجیے جو اپنی سادہ لوحی اور عاقبت نااندیشی کی وجہ سے ہر بار ان کو اپنا نمایندہ چُن لیتے ہیں، ان کے کیے گئے وعدوں اور ان کی دلآویز مگر منافقانہ مسکراہٹ پر اعتماد کرتے ہیں، تو اس لحاظ سے کچھ قصور ہمارے عوام کا بھی ہے بلکہ بعض دفعہ تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تمام تر قصور ان ہی کا ہے، جو بار بار انھی ناموں اور انھی خاندانوں کا دفاع کرتے ہیں، اس وقت اس بات کا یقین کرنا دشوار ہے کہ اس ملک میں کونسا ادارہ صحیح کام کر رہا ہے اور کس شعبے میں کرپشن یا دھاندلی نہیں ہے، عوام کو ہراساں کرنے کے تمام تر ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں، مسئلہ بجلی کا ہو یا سی این جی کا، سیاسی تقرریوں کا ہو ، ہمارا ملک مالی بے ضابطگیوں سے مالا مال ہے۔
آنے والا کل پاکستان کے لیے کیا لے کر آئے گا، قیاس آرائیاں، سرگوشیاں، چہ میگوئیاں جاری ہیں، بلوچستان ہو یا سرحد، پنجاب ہو یا سندھ کون سا صوبہ چین سے ہے؟ علیحدگی پسند قوتیں پاکستان توڑنے کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ وہ بوڑھا مالی جس نے 1947 میں دنیا کے نقشے پر پاکستان کو ایک سر سبز اور ثمرآور گلستان بنانے کا خواب دیکھا تھا اگر آج حیات ہوتا تو بجزکفِ افسوس ملنے کے اور کچھ نہ کرتا، ظلم کے پہاڑ برف کے تودوں کی طرح سر زمینِ وطن کو داغدار کر رہے ہیں، زمیں سے آسمان تک مظلوموں کی فریادیں بازگشت بنی رہی ہیں۔اب تو اُفق پر شفق بھی نہیں پھولتی کہ یہ سرخ رنگ آسمانوں سے پگھل کر زمین پر آ گرا ہے، مگر ان تمام باتوں کے باوجود ملک چل رہا ہے، جس میں سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کسی کا کمال نہیں، سچ تو یہ ہے کہ بنجر اور بانجھ زمینوں پر سکھ کے پھول نہیں کھلتے۔
بہتر تو یہ ہے کہ اپنی آنکھوں اور کانوں کو بند کر لیجیے چینل دیکھنا اور اخبار پڑھنا بھول جائیے، ساؤنڈ پروف دیواروں کے مکان میں رہیے، جہاں کسی دھماکے کی آواز نہ آئے، مگر ان سب باتوں کے باوجود اگر آپ کے گھر کی دہلیز پر کوئی بوری بند لاش پھینک گیا تو آپ لاکھ آنکھیں بند کر لیں، قدم تو بوری سے ٹکرائیں گے نا؟ بات یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا، چیزوں کی طلب زیادہ اور رسد کم ہو رہی تھی، اس کی واضح مثال لوڈ شیڈنگ اور گیس کی کمی ہے تو اگر ڈرون حملوں سے ہزاروں مرتے ہیں یا ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے افراد کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے تو پھر ایسے میں خاندانی منصوبہ بندی کی کیا ضرورت ہے؟
اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ جو قوم لاشیں کھانے کی عادی ہو جاتی ہے وہاں آٹا نہیں ملتا، تو کیا یہ سمجھا جائے کہ آدم خوروں کا دور واپس آ گیا ہے؟