Reuse
’’ کیا کر رہی ہیں باجی… صبا نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، ’’ آپ سارا کچرا ایک ہی جگہ پھینکتی جا رہی ہیں
DERA ISMAIL KHAN:
'' کیا کر رہی ہیں باجی... صبا نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، '' آپ سارا کچرا ایک ہی جگہ پھینکتی جا رہی ہیں، بیچ میں ہی سبزیوں کے چھلکے، ساتھ ہی ٹوٹے ہوئے برتن، کاغذ بھی اور ہڈیاں بھی!!''
'' تو کیا ہوا؟ '' میں نے حیرت سے پوچھا، ''کچرا ہے تو کوڑے دان میں ہی پھینکیں گے نا، کیا اس میں سے انتخاب کر کر کے پھینکیں کہ کس کو کہاں پھینکنا ہے؟ '' میں نے اپنے سوال کو طوالت دی۔
'' بالکل، ایسا ہی ہونا چاہیے، کوڑے میں سے ہر چیز کو منتخب کر کے علیحدہ علیحدہ پھینکنا چاہیے!! ''... '' واہ مولا تیرے رنگ... '' میں ہنسی، '' ہم وہ قوم نہیں ہیں بی بی جنھیں انتخاب کرنے یا اپنی مرضی سے کچھ چننے کا حق ہو، ہم کوڑے کے ڈھیر میں سے ہی انتخاب کر سکتے ہیں، نہیں شاید وہ بھی نہیں کر سکتے!!''
'' تو کیا آپ لوگوں کا سارا کچرا اکٹھا ہی کہیں ری سائیکل recycle ہوتا ہے؟ '' اس کے دل میں مچلنے والا سوال زبان پر آیا۔... '' کچرا... ری سائیکل؟ '' میں ہنسی، '' ہمارے ہاں کچرا ابھی جمع ہی ہوتا ہے، ری سائیکل نہیں، کچرے کے ڈھیر تمہیں ملک میں ہر جگہ نظر آئیں گے، ائیر پورٹ سے لے کر ریلوے اسٹیشنوں تک، سڑکوں پر، موٹر ویز پر، رنگ روڈ پر، جہاں بھی سفر کرو گی تمہیں معلوم ہوتا جائے گا کہ ہمارے ہاں کچرے کو ملک کی '' خوبصورتی'' میں اضافے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے!! ''... '' آپ مذاق کر رہی ہیں نا؟ '' اس نے منہ بسورا۔...'' ہرگز نہیں پیاری... المیہ یہی ہے کہ یہ مذاق نہیں ہے! ''...'' تو جب کچرے کو صحیح طرح تلف نہیں کرتے ہو، اس کی کیٹگری کے حساب سے تو یہ ری سائیکل recycle اور ری یوزreuse کیسے ہوتا ہے؟ '' وہ اپنے ملک کے حساب سے سوال کر رہی تھی جہاں وہ رہتی ہے، مگر ان کا دعوی یہ بھی ہے کہ پاکستان بھی ان کا ملک ہے۔ '' تو کیا تمہارے ہاں کچرا بھی دوبارہ استعمال ہوتا ہے؟ '' میں نے حیرت سے پوچھا۔
'' ایسا نہیں کہ کچرا... '' وہ ہنسی، '' کچرے میں ہم ہر چیز اپنے ملک میں علیحدہ علیحدہ ڈبوں میں پھینکتے ہیں، وہاں سے کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کے ذریعے اسے وہاں پہنچایا جاتا ہے جہاں پر بڑی تعداد میں پلانٹ ہیں جہاں اس کچرے کو مناسب طریقے سے تلف کیا جاتا ہے، پتے ، چھلکے اور سبزیوں کا کچرا کھاد بنانے کے کام آتا ہے، ہڈیاں وغیرہ جانوروں اور پرندوں کی خوراک بنانے کے، شیشے کو پگھلا کر دوبارہ شیشے میں ڈھالا جاتا ہے، لوہے کو پگھلا کر لوہا اور پلاسٹک کو پگھلا کر پلاسٹک اور ان سے کم معیار کی وہ اشیاء بنتی ہیں جن کا استعمال اسی نوعیت کا ہوتا ہے، ان نئی بننے والی اشیاء پر صاف لکھا ہوتا ہے کہ یہ ری سائیکل کیے گئے مواد سے تیار کی گئی ہیں !!'' اس نے تفصیل سے بتایا۔
'' ہوں !! '' میں نے متاثر ہو کر ہنکارا بھرا۔
'' تو کیا یہاں واقعی کچرے کو دوبارہ استعمال کرنے کا کو ئی طریقہ نہیں ہے، سارا کچرا ضایع چلا جاتا ہے؟ '' اس نے تاسف سے سوال کیا۔
'' ایسا بھی نہیں ہے '' میں نے اس کے تاسف کو مدہم کرنا چاہا، '' ہم تو وہ ہیں کہ کچرے اور بے کار چیزوں کو ضایع نہیں ہونے دیتے۔ یہی دیکھ لو کہ جس نااہل حکمران کو ہم رد کرکے کچرے کی طرح ملک سے نکالتے ہیں، وہ تمہارے ملک جیسے ملکوں میں چند برس تک اس ملک کی لوٹی ہوئی دولت کے ساتھ عیاشی کرتا ہے، وہاں سے ری سائیکل ہو کر پھر لوٹ کر آتا ہے تو ہم اسے دھلا دھلایا سمجھ لیتے ہیں ، اور ملک میں باقی کچرے میں سے اسی کو چن کر دوبارہ تاج اس کے سر پر جما دیتے ہیں!! اوریہ ہر گز نہ سمجھو کہ ہم کسی بھی چیز کو ضایع کرتے ہیں، چلو میں تمہیں بتاتی ہوں کہ ہمارے ہاں چند بے کار چیزیں کس طرح کار آمد بنا کر دوبارہ استعمال ہوتی ہیں ''
'' سب سے پہلے تو کچرے کے ڈھیروں کی اسکریننگ ہوتی ہے'' میں نے آغاز کیا۔
'' اچھا'' وہ متاثر ہوئی، '' کون کرتا ہے اسکریننگ اور کس لیے؟ ''
'' غریب لوگ '' میںنے تاسف سے کہا، '' وہ اس کچرے میں سے اپنے کام کی چیزیں چن لیتے ہیں اور تو اور کھانے پینے کی چیزیں بھی چن کر کھاتے ہیں، جو ہم اپنے ہاتھوں سے تو کسی کو نہیں دیتے مگر انھیں کوڑے میں پھینک دیتے ہیں اور یہ ذلتوں کے مارے لوگ، ان ڈھیروں سے اٹھا کر کھاتے ہوئے شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کے لیے نہیں ، بلکہ ہمارے لیے شرمندگی کا مقام ہے، ہمارے منہ پر طمانچہ ہے۔ مجھے آج تک جو منظر بھولتا نہیں اور ہمیشہ بے تاب کر دیتا ہے وہ یہی ہے، کوڑے کے ڈھیروں پر سے چن چن کر کھاتے ہوئے بچے، ہم اپنے بچوں کو کس طرح صاف ستھری چیزیں کھلاتے اور ان کی تازگی اور صفائی کا خیال رکھتے ہیں تو یہ کس کے بچے ہیں پیاری! ''
'' تو یہ بے کار چیزیں کہاں پر ری سائیکل کر کے کارآمد بنائی جاتی ہیں؟ '' اس نے موضوع پر واپس آنے کو حیرت سے پوچھا۔
'' گھروں پر '' میں نے سنجیدگی سے کہا۔
'' کیا تم کہنا چاہتی ہو کہ یہاں ہر گھر میں ری سائکلنگ پلانٹ ہیں؟ ''
'' نہیں بھئی'' میں نے اس کی بے وقوفی پر چڑ کر کہا، '' ہمارا ری سائیکل کرنے کا طریقہ کچھ اور ہے، اسے تم ری سائیکل سے زیادہ reuse ( دوبارہ استعمال ) کہہ سکتی ہو!! ''
'' اچھا کیسے؟ '' اس نے اشتیاق سے پوچھا۔
'' سب سے پہلی مثال لیتے ہیں مٹھائی اور بسکٹ کے ڈبوں کی کیونکہ ہمارے ہاں یہ دونوں چیزیں کثرت سے استعمال ہوتی ہیں ، آج کل کافی دکانوں پر ان کے ٹین والے ڈبے مل جاتے ہیں، ان ڈبوں کو ہمارے گھروں میں سب سے زیادہ دھاگوں کی نلکیاں رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس کے بعد اس میں بچوں کے یونیفارم کے بیج ، ان کے شارپنر اور ربڑ وغیرہ رکھنے کے لیے، کیرم اور لڈو کی گوٹیوں کے لیے، روٹیاں پکانے کے لیے خشک آٹا، گوندھا ہوا آٹا فرج میں، بچا ہوا سالن فرج میں رکھنا ہو یا دوسروں کے گھر کوئی سالن بھجوانا ہو... اس کے علاوہ بھی کئی طریقے استعمال کے ہوں گے مگر مجھے اتنا ہی علم ہے '' اس کی ہنسی شروع ہو گئی۔
'' کولڈ ڈرنک کی چھوٹی اور بڑی بوتلیں استعمال کے بعد بھی استعمال ہو جاتی ہیں، بچوں کو اسکول مشروبات یا پانی دے کر بھجوانا ہو، گھر میں فرج میں بھر کر رکھنا ہوں ، دکان سے دودھ منگوانا ہو یا دودھ گرم کرنے کے بعد فرج میں رکھنا ہو، مٹی کا تیل اور پٹرول منگوانا ہو، پیشاب ٹسٹ کروانا ہو، منی پلانٹ لگانا ہو یا کوئی اور ان ڈور پودے، بڑی بوتلوں کا نچلا حصہ کاٹ کر اس کے جار بنا کر اس میں دالیں اور مصالے رکھے جا سکتے ہیں، لٹاویں رخ پر رکھ کر انھیں اوپر سے کاٹ کر کھوکھلا کر کے ان میں سبزیوں کی کاشت کی جا سکتی ہے''
'' ارے واہ!! '' ا س کی ہنسی نہ تھم رہی تھی۔
'' بسکٹ ، مسالوں کے ڈبوں اور ٹوتھ پیسٹ وغیرہ کے گتے کو پتلی سٹرپ میں کاٹ کر رکھا جاتا ہے اور اس سے ایک سے دوسرا چولہا جلایا جا سکتا ہے اسی طرح گیزر وغیرہ بھی۔ کپڑوں کی کترنوں کو بھی ہم ضایع نہیں کرتے ، انھیں جمع کر کے مزید باریک میں کتر لیتے ہیں اور اس سے تکیے اور دلائیاں بھری جا سکتی ہیں، اب تو ان کترنوں کو دھنک کر ان سے ڈوری بنائی جاتی ہے جو کہ چارپائیاں اور پیڑھیاں بننے کے کام آتی ہیں، فوم یا اسپرنگ کے گدے کثرت استعمال سے بیٹھ جاتے ہیں تو اسی نوعیت کی کترنوں سے ان میں مزید بھرائی کر کے ان کی کمزور صحت کو بہتر کیا جا سکتا ہے... اور تم مسلسل ہنس کیوں رہی ہو؟ '' میں نے اسے گھورا۔
'' نہیں تو... وہ تو یونہی!! '' اس نے اپنی قمیص کے بازو سے اپنی آنکھوںمیں آنے والے آنسو صاف کیے، وہ کہہ رہی تھی کہ وہ ہنس نہیں رہی تھی تویقینا یہ آنسو اس دکھ کے تھے کہ اس سے قبل تک اس کے ملک کے لوگ ان قیمتی اور وہ بھی مفت کے مشوروں سے محروم کیوں تھے۔
'' تم نے کبھی سوچا کہ خالی ہونے والے چھوٹے ٹن کتنے کام کی چیز ہو سکتے ہیں؟ '' میں نے اس سے سوال کیا کیونکہ ابھی تک میں ہی بولے جا رہی تھی۔ '' چھوٹے ٹن؟ '' وہ چونکی، '' کون سے چھوٹے ٹن؟ ''... '' جن میں مشروم، مکئی کے دانے، چنے، لوبیہ، ٹماٹر پیسٹ، فروٹ، پالک اور دیگر اشیاء ہوتی ہیں!! '' میں نے وضاحت کیا اور اس کی طرف سے تاثرات جان کر کہ اسے کچھ علم نہیں، میں نے اسے بتایا کہ ہم ایسے ٹن دھو کر، ان کے لیبل اتار کر رکھ لیتے ہیں۔'' وہ کس لیے؟ '' اس نے حیرت سے پوچھا۔''انھیں ہم بطور گلاس استعمال کرتے ہیں، ان میں ہم چھوٹے آرائشی پودے اگاتے ہیں، کڑاہی سے مچھلی یا کریلے تلنے کے بعد جو تیل نکالتے ہیں اسے دوبارہ استعمال کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے، مالی اور جمعدار کو اس میں پانی دیا جاتا ہے، ان پر پینٹ کر کے بیل بوٹے اور کارٹون بنا کر انھیں بچوں کے ڈیسک کے لیے پنسل کیس بنایا جاتا ہے، ٹیلی فون ٹیبل پر بھی استعمال کے لیے پین رکھے جا سکتے ہیں، موم بتی اسٹینڈ، چمچے رکھنے کا خوبصورت جار، کاغذی پھولوں کی آرائش کے لیے گلدان ، استعمال شدہ پتی کو اس میں جمع کر کے بعد ازاں سکھا لیں اور خشک ہونے پر دوبارہ اسی جار میں محفوظ کر لیں اور جب کوئی ہمسایہ پتی ادھار مانگنے آئے تو... غسل خانوں میں استعمال کے لیے سرف، وم اور صابن وغیرہ رکھنے کے لیے، پیسٹریاں بنانے کے لیے سانچے کے طور پر اور انھیں پینٹ کر کے خوبصورت گلدان بنا کر آپ دوستوں اور ان عزیزوں کو تحفے میں بھی دے سکتے ہیں جنھیں تحائف دیتے ہوئے پیسے خرچ کرنے سے آپ کی جان جاتی ہے ''
'' بس کریں پلیز!! '' اس سے ہمارے عقلمندانہ مشورے برداشت نہ ہو رہے تھے اور وہ حسد کی آگ میں جل رہی تھی۔
'' ابھی تو میں نے تمہیں بتانا ہے کہ ٹوٹے ہوئے برتنوں ، پرانے برتنوں اور استعمال شدہ کپڑوں کا ہم کیا کرتے ہیں!!'' اس نے ہنستے ہوئے میرے منہ کے آگے ہاتھ رکھ کر مجھے مزید بولنے نہ دیا!!