زبان یار من تُرکی
پاکستانی کرکٹ کے بعد وقار یونس اب لفظوں سے کھیلیں گے
میں ایک برس میں زیادہ سے زیادہ تین یا چار کالم اسپورٹس بالخصوص کرکٹ کے حوالے سے لکھتا ہوں کہ اس سے میرا تعلق شعر و ادب کے تعلق سے بھی پرانا ہے اور چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے کے مصداق آج بھی میں اس شوق کو قائم رکھے ہوئے ہوں اور اپنے آپ کو اس سے اِن ٹچ رکھتا ہوں لیکن چند دنوں کے وقفے سے اس دوسرے کالم کی اصل وجہِ تحریر آج کے ایکسپریس کے اسپورٹس پیج پر نمایاں کچھ سرخیاں ہیں جو کئی اہم سوالات کو ہوا دے رہی ہیں۔ آئیے پہلے ان سرخیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
-1 چیف سلیکٹر سلیکٹ کرنا بورڈ کے لیے درد سر بن گیا۔
-2 پاکستانی کرکٹ کے بعد وقار یونس اب لفظوں سے کھیلیں گے۔
-3 بورڈ نے مشاق کو بھاری تنخواہ دینے کا جواز ڈھونڈ لیا۔
-4 ون ڈے کپتان اظہر علی کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔
-5 اظہر محمود نے پاکستان کرکٹ کی خرابیوں کا راز فاش کر دیا۔
-6 اگر غیر ملکی سب کام کر سکتے ہیں تو بورڈ بھی حوالے کر دیں: جاوید میانداد۔
کرکٹرز کے ساتھ ایک خاص نوع کا گلیمر تو ابتدا ہی سے وابستہ رہا ہے لیکن اس کی موجودہ شکل اور دولت کی ریل پیل کا سلسلہ کوئی بہت زیادہ پرانا نہیں۔ اس کا آغاز ستر کی دہائی کے آخری برسوں میں اس وقت ہوا جب ایک آسٹریلوی میڈیا ٹائیکون کیری پیکر کو آسٹریلوی حکومت اور کرکٹ بورڈ نے کوئی نشریاتی حقوق دینے سے انکار کر دیا تھا۔
جوابی کارروائی کے طور پر اس شیر کے بچے نے بین الاقوامی سطح پر مشہور اور مقبول کھلاڑیوں کو بھاری معاوضے دے کر جمع کیا اور ایک نئے انداز کی کرکٹ کو رواج دیا جس میں کھلاڑی سفید کے بجائے رنگین کپڑے پہنتے تھے اور جس کا فارمیٹ تماشائیوں کو بہت پسند آیا۔ پیکر تو دو تین برس بعد میدان سے ہٹ گیا مگر اس کی متعارف کردہ تبدیلیاں انٹرنیشنل کرکٹ کا حصہ اور مزاج بن گئیں۔ یہ مختلف طرح کے ڈھیروں کوچز بھی اسی کہانی کے کردار ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ کرکٹ ٹیموں کا معاون اسٹاف بعض اوقات کھلاڑیوں کی تعداد سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ جو کام پرانے وقتوں میں ایک منیجر اور دو تین سلیکشن کمیٹی کے ممبر تقریباً گمنام رہ کر کرتے تھے اب وہ اصل کھیل سے بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے اور پوری دنیا میں طرح طرح کے کوچز اور کھلاڑیوں کی جسمانی فٹ نس سے متعلق ماہرین اب کھلاڑیوں کی طرح ہی جانے پہچانے جانے لگے ہیں اور ان کے معاوضے بھی آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ اور کرکٹ بورڈ کے حوالے سے ''زبان'' اور ''ابلاغ'' کے مسئلے نے کچھ ایسے اضافی مسائل کو جنم دیا ہے جن کا حل کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اسّی کی دہائی تک اگرچہ کوچ کلچر عام نہیں ہوا تھا مگر اس وقت تک کے بیشتر کھلاڑی کسی نہ کسی حد تک تعلیم یافتہ تھے اور انگریزی زبان اچھی طرح سے بول اور سمجھ لیتے تھے اور ان کی ایک خاصی بڑی تعداد انگلینڈ کی لیگ کرکٹ میں بھی باقاعدگی سے حصہ لیتی تھی۔
اب ہوا یہ کہ کیری پیکر سرکس کے بعد جہاں ہمارے نیم خواندہ کھلاڑیوں کو غیر ملکی کوچز سے واسطہ پڑا وہاں ان کے بیرون ملک بطور پیشہ ور کھلاڑی کھیلنے کے مواقع بھی کم سے کم تر ہوتے چلے گئے۔ اس کے ساتھ ہی بڑے شہروں سے زیادہ دور دراز اور مضافاتی علاقوں سے ایسے لڑکے اوپر آنے لگے جن کی تعلیم میٹرک سے بھی کم تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کرکٹ بورڈ اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی زرخطیر خرچ کر کے غیر ملکی کوچز اور انسٹرکٹرز کا بندوبست تو کرتی تھی مگر ''زبان کی خلیج'' کی وجہ سے ''زبان یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم'' والا معاملہ بن جاتا تھا۔
ایسی ہی ایک صورت حال کا میں عینی شاہد ہوں۔ کوئی دس برس قبل نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور کے اس وقت کے انچارج کرنل پرویز کے کہنے پر میں نے انڈر 19 اور انڈر 21 کے زیر تربیت کھلاڑیوں کو ذہنی اور نفسیاتی پختگی اور کردار کی تعمیر و تشکیل کے حوالے سے دو لیکچر دیے اور پورا پورا دن ان کے ساتھ گزارہ تھا کہ وہ محنت، صلاحیت اور خود اعتمادی کے ذریعے آگے بڑھنے کا ہنر سکھیں۔
میری دوسری کلاس سے قبل عظیم آسٹریلوی کھلاڑی گریگ چیپل کا کھیل کی ٹکنیک کے حوالے سے لیکچر تھا۔ جس کے لیے اس کو غالباً تین لاکھ پاکستانی روپے فی لیکچر دیے جاتے تھے۔ لیکچر ہال کے دروازے پر اس سے رسمی دعا سلام کے بعد جونہی میرا رخ لڑکوں کی طرف ہوا ان سب نے بیک زبان فریاد کی ''سر جی تین گھنٹے ہو گئے ہیں انگریزی سنتے ہوئے قسم لے لیں جو ایک لفظ بھی پلّے پڑا ہو'' اب نہ تو گریگ چیپل کی عظمت میں کوئی شک ہے اور نہ ہی اس میں بورڈ کے متعلقہ افسران کی نیت کی کوئی خرابی ہے۔ دونوں اپنی جگہ پر ٹھیک تھے۔ غلطی اگر تھی تو صرف یہ کہ ڈیمانڈ اور سپلائی میں افادیت اور توازن کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ کم و بیش یہی صورت حال قومی ٹیم کے کھلاڑیوں اور ان کے غیر ملکی کوچز کے درمیان چلتی چلی آ رہی ہے۔
کرکٹ بورڈ نے اب تک جیتنے بھی غیر ملکی کوچ انگیج کیے ہیں ان کی صلاحیت زیر بحث ہے ہی نہیں۔ اصل مسئلہ کھلاڑیوں سے ان کے بھر پور اور براہ راست ابلاغ کا ہے۔ تسلیم کہ ان جیسی مصدقہ قابلیت اور باقاعدہ تربیت کے حامل کوچز کا وطن عزیز میں شدید فقدان ہے مگر اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ کم از کم وہ کھلاڑیوں کی بات سمجھ اور اپنی بات انھیں سمجھا سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مل بیٹھ کر کوئی درمیان کا راستہ نکالا جائے اور زیادہ زور جونیئر اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں پر دیا جائے کہ انھیں اس کی ضرورت بھی ہے اور وہ ذہنی طور پر بھی اس کے لیے اپنے سینئرز کی نسبت زیادہ تیار، آمادہ اور موزوں ہوتے ہیں۔
انگریزی بالخصوص بول چال کی انگریزی ان بچوں کو ضرور سکھائیے لیکن اسے ان کا Camplex نہ بننے دیجیے کتنے ہی عظیم عالمی کھلاڑی ہیں جو ٹھیک سے انگریزی نہیں بول پاتے تو کیا اس سے ان کی عظمت کم ہو گئی ہے؟ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پائی بس، وولمر، واٹ مور یا فلاور کو کوچ مقرر کرنے سے قبل یا اس کے دوران ان کے لیے عام اردو بول چال کے کسی کورس کا اہتمام بھی کر دیا جاتا۔ ساری دنیا میں لوگ دوسرے ملکوں میں ملازمت کے لیے ان کی زبان سیکھتے ہیں یعنی اگر تالی بجانی ہے تو اس کے لیے دونوں ہاتھوں کو استعمال کرنا پڑے گا کہ ایک ہاتھ سے تو صرف تھپڑ ہی مارا جا سکتا ہے۔
-1 چیف سلیکٹر سلیکٹ کرنا بورڈ کے لیے درد سر بن گیا۔
-2 پاکستانی کرکٹ کے بعد وقار یونس اب لفظوں سے کھیلیں گے۔
-3 بورڈ نے مشاق کو بھاری تنخواہ دینے کا جواز ڈھونڈ لیا۔
-4 ون ڈے کپتان اظہر علی کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔
-5 اظہر محمود نے پاکستان کرکٹ کی خرابیوں کا راز فاش کر دیا۔
-6 اگر غیر ملکی سب کام کر سکتے ہیں تو بورڈ بھی حوالے کر دیں: جاوید میانداد۔
کرکٹرز کے ساتھ ایک خاص نوع کا گلیمر تو ابتدا ہی سے وابستہ رہا ہے لیکن اس کی موجودہ شکل اور دولت کی ریل پیل کا سلسلہ کوئی بہت زیادہ پرانا نہیں۔ اس کا آغاز ستر کی دہائی کے آخری برسوں میں اس وقت ہوا جب ایک آسٹریلوی میڈیا ٹائیکون کیری پیکر کو آسٹریلوی حکومت اور کرکٹ بورڈ نے کوئی نشریاتی حقوق دینے سے انکار کر دیا تھا۔
جوابی کارروائی کے طور پر اس شیر کے بچے نے بین الاقوامی سطح پر مشہور اور مقبول کھلاڑیوں کو بھاری معاوضے دے کر جمع کیا اور ایک نئے انداز کی کرکٹ کو رواج دیا جس میں کھلاڑی سفید کے بجائے رنگین کپڑے پہنتے تھے اور جس کا فارمیٹ تماشائیوں کو بہت پسند آیا۔ پیکر تو دو تین برس بعد میدان سے ہٹ گیا مگر اس کی متعارف کردہ تبدیلیاں انٹرنیشنل کرکٹ کا حصہ اور مزاج بن گئیں۔ یہ مختلف طرح کے ڈھیروں کوچز بھی اسی کہانی کے کردار ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ کرکٹ ٹیموں کا معاون اسٹاف بعض اوقات کھلاڑیوں کی تعداد سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ جو کام پرانے وقتوں میں ایک منیجر اور دو تین سلیکشن کمیٹی کے ممبر تقریباً گمنام رہ کر کرتے تھے اب وہ اصل کھیل سے بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے اور پوری دنیا میں طرح طرح کے کوچز اور کھلاڑیوں کی جسمانی فٹ نس سے متعلق ماہرین اب کھلاڑیوں کی طرح ہی جانے پہچانے جانے لگے ہیں اور ان کے معاوضے بھی آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ اور کرکٹ بورڈ کے حوالے سے ''زبان'' اور ''ابلاغ'' کے مسئلے نے کچھ ایسے اضافی مسائل کو جنم دیا ہے جن کا حل کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اسّی کی دہائی تک اگرچہ کوچ کلچر عام نہیں ہوا تھا مگر اس وقت تک کے بیشتر کھلاڑی کسی نہ کسی حد تک تعلیم یافتہ تھے اور انگریزی زبان اچھی طرح سے بول اور سمجھ لیتے تھے اور ان کی ایک خاصی بڑی تعداد انگلینڈ کی لیگ کرکٹ میں بھی باقاعدگی سے حصہ لیتی تھی۔
اب ہوا یہ کہ کیری پیکر سرکس کے بعد جہاں ہمارے نیم خواندہ کھلاڑیوں کو غیر ملکی کوچز سے واسطہ پڑا وہاں ان کے بیرون ملک بطور پیشہ ور کھلاڑی کھیلنے کے مواقع بھی کم سے کم تر ہوتے چلے گئے۔ اس کے ساتھ ہی بڑے شہروں سے زیادہ دور دراز اور مضافاتی علاقوں سے ایسے لڑکے اوپر آنے لگے جن کی تعلیم میٹرک سے بھی کم تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کرکٹ بورڈ اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی زرخطیر خرچ کر کے غیر ملکی کوچز اور انسٹرکٹرز کا بندوبست تو کرتی تھی مگر ''زبان کی خلیج'' کی وجہ سے ''زبان یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم'' والا معاملہ بن جاتا تھا۔
ایسی ہی ایک صورت حال کا میں عینی شاہد ہوں۔ کوئی دس برس قبل نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور کے اس وقت کے انچارج کرنل پرویز کے کہنے پر میں نے انڈر 19 اور انڈر 21 کے زیر تربیت کھلاڑیوں کو ذہنی اور نفسیاتی پختگی اور کردار کی تعمیر و تشکیل کے حوالے سے دو لیکچر دیے اور پورا پورا دن ان کے ساتھ گزارہ تھا کہ وہ محنت، صلاحیت اور خود اعتمادی کے ذریعے آگے بڑھنے کا ہنر سکھیں۔
میری دوسری کلاس سے قبل عظیم آسٹریلوی کھلاڑی گریگ چیپل کا کھیل کی ٹکنیک کے حوالے سے لیکچر تھا۔ جس کے لیے اس کو غالباً تین لاکھ پاکستانی روپے فی لیکچر دیے جاتے تھے۔ لیکچر ہال کے دروازے پر اس سے رسمی دعا سلام کے بعد جونہی میرا رخ لڑکوں کی طرف ہوا ان سب نے بیک زبان فریاد کی ''سر جی تین گھنٹے ہو گئے ہیں انگریزی سنتے ہوئے قسم لے لیں جو ایک لفظ بھی پلّے پڑا ہو'' اب نہ تو گریگ چیپل کی عظمت میں کوئی شک ہے اور نہ ہی اس میں بورڈ کے متعلقہ افسران کی نیت کی کوئی خرابی ہے۔ دونوں اپنی جگہ پر ٹھیک تھے۔ غلطی اگر تھی تو صرف یہ کہ ڈیمانڈ اور سپلائی میں افادیت اور توازن کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ کم و بیش یہی صورت حال قومی ٹیم کے کھلاڑیوں اور ان کے غیر ملکی کوچز کے درمیان چلتی چلی آ رہی ہے۔
کرکٹ بورڈ نے اب تک جیتنے بھی غیر ملکی کوچ انگیج کیے ہیں ان کی صلاحیت زیر بحث ہے ہی نہیں۔ اصل مسئلہ کھلاڑیوں سے ان کے بھر پور اور براہ راست ابلاغ کا ہے۔ تسلیم کہ ان جیسی مصدقہ قابلیت اور باقاعدہ تربیت کے حامل کوچز کا وطن عزیز میں شدید فقدان ہے مگر اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ کم از کم وہ کھلاڑیوں کی بات سمجھ اور اپنی بات انھیں سمجھا سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مل بیٹھ کر کوئی درمیان کا راستہ نکالا جائے اور زیادہ زور جونیئر اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں پر دیا جائے کہ انھیں اس کی ضرورت بھی ہے اور وہ ذہنی طور پر بھی اس کے لیے اپنے سینئرز کی نسبت زیادہ تیار، آمادہ اور موزوں ہوتے ہیں۔
انگریزی بالخصوص بول چال کی انگریزی ان بچوں کو ضرور سکھائیے لیکن اسے ان کا Camplex نہ بننے دیجیے کتنے ہی عظیم عالمی کھلاڑی ہیں جو ٹھیک سے انگریزی نہیں بول پاتے تو کیا اس سے ان کی عظمت کم ہو گئی ہے؟ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پائی بس، وولمر، واٹ مور یا فلاور کو کوچ مقرر کرنے سے قبل یا اس کے دوران ان کے لیے عام اردو بول چال کے کسی کورس کا اہتمام بھی کر دیا جاتا۔ ساری دنیا میں لوگ دوسرے ملکوں میں ملازمت کے لیے ان کی زبان سیکھتے ہیں یعنی اگر تالی بجانی ہے تو اس کے لیے دونوں ہاتھوں کو استعمال کرنا پڑے گا کہ ایک ہاتھ سے تو صرف تھپڑ ہی مارا جا سکتا ہے۔